Friday 17 March 2023

فضائل و مسائلِ رمضان المبارک حصّہ اوّل

0 comments
فضائل و مسائلِ رمضان المبارک حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : استقبال کے معنی ہیں کسی آنے والے کو خوش آمدید کہنا ‘ اگر وہ محبوب ہے تو اس کےلیے دیدہ ودل فرشِ راہ کرنا ‘ عربی زبان میں اس کےلیے ”اَھْلاًوَّ سَھْلاً‘‘ اور ”مَرْحَبًا بِکُمْ‘‘ کے کلمات استعمال ہوتے ہیں ۔ ”رَحْب‘‘ کے معنی کشادگی کے ہیں اور کسی کو ”مَرْحَبًابِکُمْ‘‘ کہنے کا مطلب ہے : آپ کےلیے ہمارے دل میں بڑی کشادگی ہے ، کوئی انقباض نہیں ہے  ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا ۔ یہ بات طے ہے کہ جو موقع ۔ جو دن ۔ جو تہوار ۔ جتنی زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اُسی قدر زیادہ اس کے استقبال کی تیاری کی جاتی ہے ۔ مثلاً شادی بیاہ ۔ عید یا دوسرے خوشی کےمواقع ۔ چناچہ رمضان کے استقبال کے حوالے سے بھی یہ حقیقت بھی ذہین نشین کر لینی جاہیے کہ جب تک ہم رمضان کی اہمیت و فضیلت اور اس کی فوائد و ثمرات کا شعوری طور پر ادراک اور احساس نہ کریں گے ۔ اس وقت تک ہم نہ اس کا استقبال اور نہ اس کے استقبال کی تیاری اس کے شایانِ شان کر پائیں گے ۔ اور نہ ہی رمضان المبارک سے اس طرح مستفید ہو سکیں گے جیسا کہ مستفید ہونے کا حق ہے ۔ سبھی لوگوں کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے آنے والے مہمان کی عزت و تکریم حسب حیثیت کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے ۔ مہمانوں کا استقبال اور مہمان نوازی رب تعالیٰ کو بھی پسند ہے قرآن پاک میں مہمان نوازی کے احکام مختلف اندازسے 15 جگہوں میں بیان کیے گئے ہیں ۔

اسلام میں مہمان نوازی کی بہت تاکید کی گئی ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مہمانوں کی بہت عزت وتکریم فر ماتے اور مہمانوں کی آمد سے خوش ہوتے ۔ مہمان نوازی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیاے کرام کا بھی پسندیدہ عمل اور طریقہ رہا ہے ۔ چنانچہ ابوا لضَّیفان حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے آپ بغیر مہمان کے کھانا تنا ول نہ فر ماتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فر ماتے ہیں جس گھر میں مہمان ہو اس میں خیر وبرکت اُونٹ کی کوہان (اونٹ کی پیٹھ کی بلندی) سے گر نے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 4 صفحہ51 حدیث نمبر 3351)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ معمول رہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اکٹھا فر ماتے اور خطبہ دیتے جس میں انہیں رمضان کے فضائل بیان فر ماتے، رمضان کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کی جانب متوجہ فر ماتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے آمدِ رمضان کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس کی تیاری کریں لوگوں تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فر مان و عمل کو پہنچائیں ۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کی مبارک باد دینے سے کیا رمضان المبارک کا حق ادا ہو جائے گا ؟ ۔ ہرگز نہیں قطعی نہیں ۔ انسانوں کی بخشش و مغفرت کےلیے رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رمضان المبارک نعمت کے طور پر عطا فر مایا ۔ ماہ رمضان آیا نہیں کہ ابھی سے آمدِ رمضان کی مبارک با دکی جھڑی سوشل میڈیا پر شروع ہے کیا یہ عبادت کے تقاضوں کو پوری کرتی ہے۔فجر کی نمازِ جماعت میں اول صف نمازیوںسے پوری نہیں ہوتی ، مسجد بھر نے کی بات تو بہت دور ہے ۔ لیکن صبح ہوتے ہی سوشل میڈیا پر دینی پیغامات کی جھڑی لگ جاتی ہے کیا یہی اسلام ہے نماز نہ ادا کرو اور دینی پیغامات بھیجو۔ پلیز آپ سوچیں ضرور سوچیں ہم رمضان المبارک کے تقا ضوں کو کیسے پورے کریں ۔ کیا رمضان میں ہم افطار پارٹیاں کرا کر تصویریں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے اخبارت میں تشہیر کرا کر رمضان کا حق ادا کر رہے ہیں ؟ ۔ کیا ہم صرف 5 دن یا 8 دن یا 15 دن کی تراویح میں قرآن سن کر پڑھ کر بعد میں آزاد ہو جائیں تو کیا رمضان اور قرآنِ مقدس کا حق ادا کردیں گے ؟ ۔ کیا صرف طرح طرح کی افطاری بنا کر سجا کر اس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کر کے رمضان کا حق ادا کر دیں گے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ نہیں ہرگز نہیں قطعی نہیں ۔ یہ سب نام و نمود دکھاوا ہے ایسی عبادتیں منہ پر ماردی جائیں گی خدارا خدارا س سے خود بچیں اپنوں کو بچائیں ۔

ابھی سے ہم رمضان کے استقبال کی تیاریاں شروع نہیں بلکہ چالو کر دیں پورے رمضان کا شڈول بنائیں جیسے ہم کوئی بھی بڑا کام کرنے سے مہینوں پہلے پروگرام بناتے ہیں، شادی بیاہ ، مکان کی تعمیر بچے کی پیدائش کے بعد اُس کی پر ورش اور تعلیم کا پروگرام بناتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ استقبالِ رمضان آپ اس طرح کریں اپنی بھوک اور پیاس کو جانتے ہوئے بھو کوں کو کھا نا کھلائیں ، پیاسوں کو پانی پلائیں ، ضرورت مندوں کی حا جتیں (حسبِ حیثیت) پوری کریں اپنی مسجدوں ۔ مدرسوں سے بلا تفریق مذ ہب و ملت لوگوں کو پانی پلائیں ، حسبِ حیثیت غریبوں ، محتاجوں ، مسکینوں کےلیے سحری کا انتظام کریں نہ کہ افطار کی بڑی بڑی پارٹیاں کریں اور لیڈروں کو بلائیں اس کا اعلان کرائیں ، اگر امام اعلان کرنا بھول جائے تو اس کی بے عزتی کر دی ۔

دکھاوا شہرت سے عبادتیں بربا د کردی جاتی ہیں،دکھاوا صرف اور صرف نفس کا دھو کا ہے رب تعالیٰ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔جن پڑوسیوں کو آپ جانتے ہیں کہ غریب ہیں روزہ رکھتے ہیں اُن کو چھپ چھپاکر افطار بھجیں مدد کریں ۔ اس وقت جلسوں کا خوب زور ہے علماے کرام آمدِ رمضانُ المبارک ، استقبال رمضانُ المبارک کے سلسلے میں عوام تک پیغام پہنچائیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔ ائمہ کرام جمعہ کے خطبہ میں اس جانب توجہ دلائیں،محلوں میں جو خواتین کے اجتماعات ہوتے ہیں مبلغات بھی اس طرف خواتین کی توجہ مبذول کرائیں۔پورے ماہ میں نماز کی پابندی ، قرآن پاک کی تلاوت، توبہ اسغفار اور ذکر و اذکار پر پوری توجہ مرکوز رکھیں ۔

یاد رہے کہ خوشخبری سننے والوں کے اندر خوشی اور سرور پیدا کرنے کا نام ہے اور رمضان جو نیکیوں کا موسم بہار ہے ۔ اس کے قریب آنے کی خوش خبری سے بڑھ کر اور کون سی خوشخبری ہو سکتی ہے ؟ چناچہ آپ اور آپ کے صحابہ ایسی ہی سچی خوشی سے سرشار رمضانُ المبارک کے منتظر ہوتے ۔ گویا پورے انہماک ۔ جوش و جذبے اور ولولے و بے تابی کے ساتھ رمضانُ المبارک کا انتظار اور استقبال سنتِ نبوی ہے ۔ لہٰذا شعبانُ المعظم میں ۔ اسی سنتِ نبوی کی تجدید ہمارا مقصدِ اولین ہے اور فلاح و کامیابی انہی کا مقدر بنتی ہے ۔ جو اس مہینے کی ویسے ہی قدر کرتے ہیں جیسا کہ اس کا حق ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جو اسوۂ رسول کے مبارک نقشِ قدم پر چل کر اس ماہِ عظیم کی رحمتوں و برکتوں سے اپنی اور اپنے پیاروں کی جھولیاں بھر لینے کےلیے پہلے ہی سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں ۔ تاکہ اس عظمت و بزرگی والے مہینے کی قیمتی گھڑیوں کی ایک ساعت بھی ضائع نہ جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بڑے شوق و محبت سے ماہ رمضان کا استقبال فرماتے ۔ قمری سال کے مہینوں میں ”رمضان‘‘ ہی ایسا عظیم المرتبت مہینہ ہے جس کی شان قرآنِ کریم میں بیان کی گئی ہے ۔ اور اس کی بابت ایک مفصَّل استقبالی خطبہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے‘ جو درج ذیل ہے : ⬇

حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں : (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک خطبہ ارشاد فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو ! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے‘ (یہ) مبارک مہینہ ہے ، اس میں ایک رات (ایسی ہے جو) ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، ﷲ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (نوافل کےلیے) قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے ، سو جو (خوش نصیب) اس مہینے میں کوئی نفلی عبادت انجام دے گا ، تو اُسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) فرض کے برابر اجر ملے گا اور جو اس مہینے میں کوئی فرض عبادت ادا کرے گا ، تو اسے (اسی نوع کے) غیرِ رمضان کے سترفرائض کے برابر اجر ملے گا ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے ، یہ دوسروں سے ہمدردی اور ان کے دکھوں کے مداوے کامہینہ ہے ، یہ ایسا (مبارک) مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے ، جو شخص اس مہینے میں کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے گا ، تویہ اس کےلیے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا ، اس کے سبب اس کی گردن نارِ جہنّم سے آزاد ہوگی اور روزے دار کے اجر میں کسی کمی کے بغیر اسے اس کے برابر اجر ملے گا ۔ (حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں : ) ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہر ایک کو اتنی توفیق نہیں ہے کہ وہ روزے دارکو روزہ افطار کرائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : یہ اجر اسے بھی ملے گا ، جو دودھ کے ایک گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی پلا کر ہی کسی روزے دارکو روزہ افطار کرائے اور جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھلائے‘ تواللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) میرے حوضِ (کوثر) سے ایسا جام پلائے گا کہ (پھر) وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا ۔ یہ ایسا (مبارک) مہینہ ہے کہ اس کا پہلا عشرہ (باعثِ نزولِ) رحمت ہے اور اس کا دوسرا عشرہ وسیلۂ مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ نار (جہنم) سے آزادی کاسبب ہے ۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ماتحت (خدام اور ملازمین) کے کام میں تخفیف کرے ‘ تواللہ تعالیٰ اسے بخش دے گااور اسے نار (جہنم) سے رہائی عطا فرمائے گا ۔ (شُعَبُ الایمان لِلبَیہقی حدیث 3336)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے : مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ ؟ ۔ کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو ؟ ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کوئی وحی اترنے والی ہے ؟ فرمایا : نہیں ۔ عرض کیا : کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : نہیں ۔ عرض کیا : پھر کیا بات ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ ﷲَ يَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ ۔ (الترغيب والترهيب، 2 : 64، رقم : 1502) ۔ ترجمہ : بے شک ﷲ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جیسے ہی ماہ رجب کا چاند طلوع ہوتا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا فرماتے : اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ ۔ (حلية الأولياء جلد 6 صفحہ 269،چشتی)
ترجمہ : اے اللہ! ہمارے لیے رجب ، شعبان اور (بالخصوص) ماہ رمضان کو بابرکت بنا دے ۔

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ ، لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ ؟ قَالَ : ذَالِکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ۔ (نسائي السنن کتاب الصيام، باب صوم النبي ﷺ بأبي هو وأمّي وذکر اختلاف الناقلين للخبر في ذلک، 4 : 201، رقم : 2357،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 201، رقم : 21801)
ترجمہ : حضرت اُسامہ بن زید رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اُٹھائے جائیں ۔

اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مسلسل دو ماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شعبان المعظم کے مبارک ماہ میں مسلسل روزے رکھتے کہ وہ رمضان المبارک کے روزہ سے مل جاتا ۔ (نسائي، السنن، کتاب الصيام، ذکر حديث أبی سلمه فی ذلک، 4 : 150، رقم : 2175،چشتی)

ماہِ شعبان ماہِ رمضان کےلیے مقدمہ کی مانند ہے لہٰذا اس میں وہی اعمال بجا لانے چاہییں جن کی کثرت رمضان المبارک میں کی جاتی ہے یعنی روزے اور تلاوتِ قرآن حکیم ۔ علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ’ لطائف المعارف صفحہ 258 ‘ میں لکھتے ہیں : ماہ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن حکیم کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کےلیے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس ، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول سے اِس حکمت کی تائید بھی ہو جاتی ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أکبُّوا علی المصاحِفِ فقرؤوها، وأَخْرَجُوْا زَکَاةَ أموالهم تقوِيَةً للضَّعيفِ والمسکينِ علی صيامِ و رمضانَ ۔ (لطائف المعارف : 258)
’’شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں ۔

حضرت عبدُاللہ بِن عُکَیْم جُہَنِی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک کی آمد ہوتی توامیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ یکم رمضان المبارک کی شب نمازِ مغرب کے بعد لوگوں کو نصیحت آموز خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے : اے لوگو بیٹھ جاؤ ! بے شک اس مہینے کے روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں ، البتہ اس میں نوافل کی ادائیگی فرض نہیں ہے ، لہٰذا جو بھی نوافل ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ نوافل ادا کرے کیونکہ یہ وہی بہترین نوافل ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے اور جو نوافل کی ادائیگی کی اِستطاعت نہیں رکھتا اُسے چاہیے کہ اپنے بستر پر سو جائے ۔ تم میں سے ہر بندہ یہ کہتے ہوئے ڈرے کہ اگر فُلاں شخص روزہ رکھے گا تو میں روزہ رکھوں گا ، اور اگر فُلاں شخص نوافل ادا کرے گا تو میں بھی نوافل پڑھوں گا ۔ جوبھی روزہ رکھے یا  نوفل ادا کرے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے کرے ۔ تم میں سے ہر شخص کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ جب تک وہ نماز کے انتظار میں ہوتا ہے درحقیقت نماز ہی میں ہوتا ہے ۔ آپ نے دو تین  مرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے گھر میں فضول باتیں کرنے سے بچتے رہو ۔ پھر تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا : خبردار ! تم میں سے کوئی بھی ہرگز اس مبارک مہینے کو  فضول نہ گزارے ۔ جب تک چاند نہ دیکھ لو اس وقت تک روزہ نہ رکھو اگر چاند (Moon) مشکوک ہو جائے تو تیس (30) دن پورے کرو اور جب تک اندھیرا (یعنی سورج کے ڈوب جانے کا یقین)نہ ہو اس وقت تک افطار نہ کرو ۔ (مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلوٰۃ،باب قیام رمضان جلد ۴ صفحہ ۲۰۴ حدیث نمبر ۷۷۷۸،چشتی)

حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ماہِ غُفران کی اہمیت و فضیلت سے کس قدر واقف  تھے اور اس مبارک مہینے سے کیسی والہانہ عقیدت و محبت کرتے تھے کہ جیسے ہی یہ مبارک مہینہ جلوہ گر ہوتا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی ، آپ آمدِ رمضان پر نہ صرف خود نیکیوں میں مشغول ہو جاتے بلکہ مسلمانوں میں عبادت کا ذوق و شوق بیدار کرنے کےلیےانہیں بھی اس مقدَّس مہینے میں اخلاص کےساتھ کثرت سے نفل عبادت کی ترغیب دلاتے اور آمدِ ماہِ رمضان کے پُرنور موقع پر چراغاں کے ذریعے مساجد کو روشن کرنا بھی آپ کے مبارک معمولات میں شامل تھا جیسا کہ حضرت ابواسحاق ہَمدانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ رَمضانُ المبارک کی پہلی رات (First Night) باہر نکلے تو دیکھا کہ مساجد پر قندیلیں چمک رہی ہیں اور لوگ کتابُ اللہ کی تلاوت کر رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا : نَوَّرَاللہُ لِعُمَرَ فِيْ قَبْرِہٖ كَمَا نَوَّرَ مَسَاجِدَ اللہِ بِالْقُرْآنِ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی قبر کو ویسا ہی منوَّر کر دے جیسا آپ نے (رمضانُ المبارک میں) مساجد کو قرآن سے منوَّر کیا ۔ (الریاض النضرہ)

ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اس مقدَّس مہینےکو عظیم الشّان طریقے سےخوش آمدیدکہنے کی تیَّاری شروع کر دیں ، اسےفضولیات اور غفلت میں گزارنے کے بجائے اخلاص کے ساتھ نیک اَعمال مثلاً فرائض و واجبات ، سنن و مستحبات ، نوافل ، ذکر و اذکار ، تلاوتِ قرآن ، زکوۃ و فطرات ، صدقہ و خیرات ، عشر و عطیات ، تہجد ، اشراق و چاشت ، غرباء و مساکین کی اِمداد ، شب بیداری ، توبہ و استغفار اور دعا و مناجات ، دُرُود و سلام کی کثرت ، حمد و نعت جیسی نیکیوں میں مشغول رہیں بلکہ ہر وہ نیک و جائز کام کرنے کی کوشش کریں کہ جس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے مَحبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رِضا ہو ۔ ہمارے کریم آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اس مبارک مہینے کی آمدہوتے  ہی عِبادتِ الٰہی میں بہت زیادہ مشغول ہو جایا کرتے تھے : اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرت عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں : جب ماہِ رَمَضان آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت کےلیے کَمر بَستہ ہو جاتے اور سارا مہینہ اپنے بِستر مبارک پر تشریف نہ لاتے ۔ (تفسیر درِ منثور،۱ / ۴۴۹) ۔ مزید فرماتی ہیں کہ جب ماہِ رَمَضان تشریف لاتا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کارنگ مبارَک تبدیل (ہو کر پیلا یا لال) ہو جاتا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نَماز کی کثرت فرماتے ، خوب گِڑ گڑا کر دُعا ئیں مانگتے اور اللہ تعالیٰ کا خوف آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر طاری رہتا ۔ (شُعَبُ الْایمان،۳  / ۳۱۰ ،حدیث: ۳۶۲۵)

ہر مسلمان کےلیے اللہ تعالے کی طرف سے رمضانُ المبارک کا مہینہ ایک گراں قدر تحفہ اور عظیم نعمت ہے ، زندگی کے نشیب و فراز سے گذارتے ہوئے اللہ عزوجل نے ہمیں رمضانُ المبارل کے دہانے تک پہنچایا ہے ، اس لیے ہمیں سب سے پہلے اس رب کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ اور محض زبانی شکر کافی نہیں ہے ، بلکہ اپنے اعمال و کردار سے بھی اس کا اظہار کریں ۔ شکر نعمت میں پائداری اور زیادتی کے اسباب میں سے ہے ۔ شعبان کا مہینہ چونکہ طہارت کا مہینہ ہے ، اس لیے اہل ایمان کو اس ماہ فضیلت میں خاص اہتمام سے گناہوں سے توبہ کرلینی چاہیے تاکہ ان کے باطن کا خوب تزکیہ ہو تاکہ وہ ماہِ رمضان کا استقبال بہتر کیفیات کے ساتھ کرسکیں ۔    ان مبارک ایام میں اپنے لیے ، پوری امت مسلمہ کےلیے جملہ خیرات کی دعا کریں اور دیگر راہِ ہدایت سے بھٹکی انسانیت کےلیے بھی اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کریں ۔در اصل یہی ان ایام کا وہ مبارک ثمرہ ہے جس کی لذت سے ہمیں محظوظ ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ٰسے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے عظیم الشان مہمان کی آمد سے پہلے پہلے عمدہ اخلاق اور عالی صفات سے مزین فرمادے کہ ہم خوب سیرت ہو کر اپنے اس محترم و قدس مہمان کا استقبال کریں جس کی آمد کے ہم منتظر ہیں اور زبان سے دعا گو ہیں کہ : اے اللہ تُو ہمارے ماہِ شعبان میں برکت عطافرما اور ہمیں صحت و عافیت سے ماہِ رمضان تک پہنچا آمین ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)

اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : محمد جواد اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ، 03215555970 ، جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔