فضائلِ توبہ و استغفار حصّہ دوم
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 222)
ترجمہ : بے شک اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
خطاٶں اور معصیت (گناہ) سے جس توبہ کا ہم سے بار بار مطالبہ کیا گیا ہے اس کی حقیقت سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے۔ اگر توبہ کی حقیقت سے واقفیت نہ ہو تو صرف زبان سے توبہ توبہ کہنا کافی نہیں ہے ۔ لغت میں توبہ کے معنی و مفہوم لوٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں ۔ علامہ رازی علیہ الرحمہ نے مختار الصحاح میں لکھا ہے : توبہ گناہ اور معصیت و نافرمانی سے تائب ہو کر نیکی کی طرف لوٹنے کو کہا جاتا ہے ۔ شریعت کی رو سے اللہ کی نافرمانی اور معصیت و گناہ کو ترک کر کے اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرنے کو توبہ کہتے ہیں اور طریقت کی رو سے ۔ فَفِرُّوٓا اِلَی اللّٰہ ۔ ترجمہ : ’’دوڑو اللہ کی طرف‘‘ یعنی اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور کو اختیار کر کے ماسویٰ اللہ سے تائب ہونے اور واحد اللہ کی طرف رجوع کرنے کو توبہ طریقت کہا جائے گا ۔
حقیقی توبہ کےلیے علما کرام نے چند شرائط کا ذکر کیا ہے ، چنانچہ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (یقینا سچی اور حقیقی توبہ) یہ ہے کہ (اس میں درج ذیل چیزیں پائی جائیں)
1 ۔ گناہ پر دل سے نادم ہونا ۔
2 ۔ فوری طور پر ترکِ گناہ ۔
3 ۔ پکا ارادہ کرے کہ دوبارہ اس معصیت کا ارتکاب نہیں کرے گا ۔
4 ۔ اور مندرجہ بالا تمام افعال سے توبہ اللہ ربّ العزت کی حیا کی بنا پر ہو ۔
توبہ کے تین مراتب ہیں : ⬇
1 ۔ توبہ کا سب سے اہم اور لازمی درجہ ترکِ کفر اور قبولِ ایمان ہے ۔
2 ۔ دوسرا درجہ کبیرہ گناہوں سے توبہ کا ہے ۔
3 ۔ تیسرا درجہ صغائر یعنی گناہِ صغیرہ سے توبہ کرنا ۔
توبہ کی دو اقسام ہیں : ⬇
1 ۔ واجب توبہ
2 ۔ مستحب توبہ
واجب توبہ : کسی بھی حکمِ الٰہی کو ترک کرنے یا ممنوع و خلافِ شریعت کام کرنے سے توبہ کرنا فی الفور واجب اور ضروری ہے اور یہ توبہ کرنا تمام اہلِ ایمان مکلفین پر واجب ہے ۔
مستحب توبہ : مکروہات کو ترک کرنا اور مکرو ہات کے مرتکب ہونے پر توبہ کرنا مستحب ہے ۔
حقیقی اور سچی توبہ کی شرائط : ⬇
1 ۔ تائب ہونا ۔ جلد از جلد معصیات و گناہ سے باز آنا ۔
2 ۔ ندامت و شرمندگی ۔ تمام سابقہ گناہوں پر دل سے نادم ہو نا ۔
حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے :
الندم التوبہ ۔ ترجمہ : گناہوں ، خطائوں پر ندامت توبہ ہے ۔
ندامت ہی توبہ کا رکنِ اعظم ہے ۔
3 ۔ دوبارہ گناہ و معصیت نہ کرنے کا عزم کرنا ۔
4 ۔ حقوق العباد کی ادائیگی یا ان سے معاف کرانا ۔ (تفسیر ابنِ کثیر)(تفسیر الخازن)
ریاض الصالحین میں امام شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اگر معصیت کا تعلق آدمی سے ہو تو اس کے لئے چار شرائط ہیں۔ تین تو وہ ہیں جن کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے اور چوتھی شرط یہ ہے کہ خود کو حقوق العباد سے بری کرے مثلاً اگر کسی کا مال یا اس طرح کی کوئی اور چیز لی ہے تو وہ حقدار کو واپس لوٹا دے ۔ اگر کسی پر جھوٹی تہمت وغیرہ لگائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے اور اگر کسی کی غیبت کی ہے تو اس کی بھی معافی مانگے ۔
5 ۔ توبہ النصوح یعنی حقیقی سچی توبہ کی پانچویں شرط یہ ہے کہ طالب توبہ اخلاص کو اختیار کرے ۔
اخلاص کیاہے ؟ اللہ کے عذاب کے خوف اور اس کی رحمت، مغفرت اور ثواب کی امید پر گناہوں کو ترک کرنا اخلاص کہلاتا ہے ۔
6 ۔ چھٹی شرط یہ ہے کہ توبہ کرنے کا عمل ’’توبہ کے وقت‘‘ میں سر انجام دے بلکہ ہر وقت توبہ کرے ۔
حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے : ’’توبہ‘‘ روح کا غسل ہے۔ یہ جتنی بار کی جائے روح میں نکھار پیدا ہوتا ہے ۔
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : وَاللہِ اِنِّی لَاَسْتَغْفِرُ اللہَ وَاَتُوبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّۃً ۔
ترجمہ : خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔ (مشکواۃ المصابیح جلد 1 صفحہ 434 حدیث نمبر 2323،چشتی)
اللہ عزوجل کے سارے انبیائے کرام علیہمُ السَّلام معصوم ہیں ، وہ گناہوں سے پاک ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو سب انبیاء و رُسُل کے سردار ہیں ۔ علمائے کرام و محدثینِ عظام علیہم الرحمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِستغفار کرنے (یعنی مغفرت مانگنے) کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِستِغفَار کرنے کی حکمتیں : ⬇
علّامہ بدرُالدّین عَیْنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بطورِ عاجزی یا تعلیمِ اُمّت کےلیے اِستِغفَار کرتے تھے ۔ (عمدۃ القاری جلد 15صفحہ 413 تحت الحدیث : 6307)
علّامہ ابنِ بطّال مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انبیائے کرام علیہمُ السَّلام (کسی گناہ پر نہیں بلکہ) لوگوں میں سب سے زیادہ شکر گزاری و عبادت گزاری کے باوجود اللہ پاک کا کما حقّہ حق ادا نہ ہوسکنے پر اِستِغفَار کرتے ہیں ۔ (شرح بخاری لابن بطال جلد 10 صفحہ 77)
امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیشہ بلند درجات کی طرف ترقی فرماتے ہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرتے تو اپنے پہلے حال پر اِستِغفَار کرتے ہیں ۔ (فتح الباری جلد 12 صفحہ 85 تحت الحدیث : 6307)
حکیمُ الاُمّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں : توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس پر عمل کرتے تھے ورنہ نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 3 صفحہ 353)
نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو گناہوں سے پاک ہونے کے باوجود ہماری تعلیم کےلیے اِستغفار کریں اور ایک ہم ہیں کہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہونے کے باوجود اِستغفار کی کمی رکھیں، ہمیں چاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں خوب خوب توبہ و استغفار کرتے رہیں ۔ اِستغفار کرنے سے گناہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی فوائد ملتے چند فوائد ملاحظہ ہوں : ⬇
(1) اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔ (پ2، البقرۃ: 222)
(2) جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو ۔ (سنن ابو داؤد جلد 2 صفحہ 122 حدیث نمبر 1518)
(3) اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے ۔ (مجمع البحرین جلد 4 صفحہ 272 حدیث نمبر 4739)
(4) جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ عزوجل لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلا دیتا ہے ، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں )کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتا ہے ۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا ۔ (الترغیب والترھیب جلد 4 صفحہ 48 رقم : 17،چشتی)
حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے خُشک سالی کی شکایت کی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اِستغفار کرنے کا حکم دیا ، دوسرا شخص آیا ، اس نے تنگ دستی کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا، پھر تیسرا شخص آیا ، اُس نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا ، پھر چوتھا شخص آیا ، اس نے اپنی زمین کی پیداوار کم ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا ۔ حضرت رَبیع بن صَبِیح رحمۃ اللہ علیہ وہاں حاضر تھے انہوں نے عرض کی : آپ کے پاس چند لوگ آئے اور انہوں نے مختلف حاجتیں پیش کیں ، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ اِستغفار کرو ؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے سامنے یہ آیات پڑھیں (جن میں اِستغفار کو بارش ، مال ، اولاد اور باغات کے عطا ہونے کا سبب فرمایا گیا ہے) : فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ ۔ یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ ۔ وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ ۔
تَرجمہ : تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے، تم پر شرّاٹے کا مینہ (موسلا دھار بارش) بھیجے گا اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا ۔ (تفسیر خازن سورہ نوح جلد 4 صفحہ 335 الآیۃ : 10-11،چشتی)
قال عمر رضي الله عنه : جالسوا التوّابین فإنهم أرقّ شيء أفئدۃ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا : کثرت سے توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو کیونکہ ان کے دل نہایت ہی نرم ہوتے ہیں ۔(أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 177)
قال عمر رضي الله عنه : حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا وزنوا أنفسکم قبل أن توزنوا ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اپنے نفسوں کو تولو(یعنی تزکیہ کرو) قبل اس کے کہ تمہیں تولا(یعنی جواب دہی کے لیے طلب کیا ) جائے ۔ (أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 177)
قال أبو هریر رضی اللہ عنہ ما جلست إلی أحد أکثر استغفارا من رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر استغفار کرنے والے کسی شخص کے پاس نہیں بیٹھا ۔ (أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 67)
قال أبو ذر رضي الله عنه : هل تری الناس ما أکثرهم ما فیهم خیر إلا تقي أو تائب ۔
ترجمہ : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : گناہوں سے توبہ کرنے والا اور متقی انسان لوگوں میں سے بہترین افراد ہیں ۔ (أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء ، 1 / 161)
قال الإمام جعفر الصادق رضي الله عنه : من استبطأ رزقه، فلیکثر من الاستغفار ۔
ترجمہ : حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس کا رزق تنگ ہو اسے کثرت سے استغفار کرنا چاہیے ۔ (أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 51،چشتی)
قال ذو النون المصري رحمۃ اللہ علیہ : حقیقۃ التوبۃ أن تضیق علیک الأرض بما رحُبتْ حتی لا یکون لک قرار، ثم تضیق علیک نفسک ۔
ترجمہ : حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ زمین باوجود اپنی فراخی کے تمہارے لئے اس قدر تنگ معلوم ہو کہ تمہیں قرار حاصل نہ ہو بلکہ تمہارا نفس بھی تمہارے لئے تنگ ہو جائے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96)
قال ذو النون المصري رحمۃ اللہ علیہ : الاستغفار من غیر إقلاع هو توبۃ الکاذبین ۔
ترجمہ : حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا کذاب لوگوں کی توبہ ہے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 95)
سُئِلَ ذو النّون المصري رحمۃ اللہ علیہ عن التوبۃ ، فقال : توبۃ العوام من الذنوب، وتوبۃ الخواص من الغفلۃ ۔
ترجمہ : حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے توبہ کی نسبت پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : عوام کی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے اور خواص کی غفلت سے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 95)
أوحی اللہ عزوجل إلی داود علیه السلام : لو یعلم المُدْبِرُوْنَ عنّي کیف انتظاري لهم ورفقي بهم وشوقي إلی ترکِ مَعَاصِيْهِمْ لماتوا شوقاً إليّ، وانقطعت أوصالهم من محبّتي، یا داود، هذه إرادتي في المُدْبِرِيْنَ عنّي، فکیف إرادتي في مُقْبِلِيْنَ إليّ ؟
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اگر وہ لوگ جو مجھ سے منہ موڑ لیتے ہیں، یہ جان لیں کہ میں ان کا کیسے انتظار کر رہا ہوں اور ان پر کیسے مہربانی کرنے والا ہوں اور ان کے معصیت کاریوں کو ترک کرنے کو کتنا پسند کرتا ہوں تو وہ میرے شوق میں مر جائیں اور ان کے جوڑ میری محبت کی وجہ سے منقطع ہو جائیں۔ اے داؤد! یہ میرا ارادہ ان لوگوں کے متعلق ہے جو مجھ سے منہ موڑتے ہیں پس جو لوگ میری طرف آتے ہیں ان کے ساتھ میرا ارادہ کیا ہو گا ؟ ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 332،چشتی)
10۔ قال یحیی بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ : زلۃ واحد بعد التوبۃ أقبح من سبعین قبلها ۔
ترجمہ : حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : توبہ کے بعد کی لغزش توبہ سے پہلے کی ستر لغزشوں سے بدتر ہے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96)
قال محمد الزقاق رحمۃ اللہ علیہ : سألت أبا علي الروذباري عن التوبۃ، فقال : الاعتراف، والندم، والإقلاع۔
ترجمہ : محمد زقاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے ابو علی روذباری رَحِمَهُ اللہ سے توبہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : (گناہوں کا) اعتراف، ندامت اور (گناہوںکا) ترک کرنا (توبہ ہے) ۔ (أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 357،چشتی)
قال مطرف بن عبد الله رضي الله عنه : اللّٰھم ارض عنا، فإن لم ترض فاعف فإن المولی قد یعفو عن عبده، وهو غیر راض عنه ۔
ترجمہ : حضرت مطرف بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ (اللہ کے حضور دعا کرتے ہوئے عرض کرتے) : اے اللہ! ہم سے راضی ہو جا اگر تو راضی نہ ہو تو معاف فرما کیونکہ کبھی مالک راضی نہ ہونے کے باوجود اپنے غلام کو معاف کر دیتا ہے ۔ (أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 53)
قال أبو الحسن الشاذلي رحمۃ اللہ علیہ : علیک بالاستغفار وإن لم یکن هناک ذنب، واعتبر باستغفار النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعد البشارۃ والیقین بمغفرۃ ما تقدم من ذنبه، وما تأخر۔ هذا في معصوم لم یقترف ذنباً قط وتقدس عن ذلک فما ظنک بمن لا یخلو عن العیب، والذنب في وقت من الأوقات ۔
ترجمہ : شیخ ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : استغفار لازم کرو اگرچہ کوئی گناہ نہ ہو اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے استغفار سے عبرت حاصل کرو جبکہ آپ کو آپ کے اگلوں پچھلوں کے گناہوں کی بخشش کی بشارت اور یقین حاصل تھا اور یہ اس عظیم معصوم کا معاملہ ہے جن میں کسی گناہ کا کبھی تصور تک نہیں اور اس سے ہمیشہ پاک ہیں تو اس کے متعلق تیرا کیا گمان ہے جو کسی وقت بھی عیب اور گناہ سے خالی نہیں ۔ (أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 301)
سُئل البوشنجي رحمۃ اللہ علیہ عن التوبۃ، فقال : إذا ذکرت الذنب، ثم لم تجد حلاوته عند ذکره فهو التّوبۃ ۔
ترجمہ : شیخ بوشنجی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے توبہ کی نسبت سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : جب تو گناہ کا ذکر کرے اور تجھے اس کے ذکر سے اس کی مٹھاس محسوس نہ ہو تو یہی توبہ ہے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96،چشتی)
قال إبراهیم الأطروش رحمۃ اللہ علیہ : کنا قعوداً ببغداد، مع معروف الکرخي رَحِمَهُ الله، علی نهر الدجلۃ، إذ مر بنا قوم أحداث في زورق، یضربون بالدف ویشربون، ویلعبون، فقلنا لمعروف : ألا تراهم کیف یعصون الله تعالی مجاهرین؟ أدع الله علیهم۔ فرفع یده وقال : إلهي کما فرحتهم في الدنیا ففرحهم في الآخرۃ۔ فقلنا : إنما سألناک أن تدعو علیهم، فقال : إذا فرحهم في الآخرۃ تاب علیهم ۔
ترجمہ : حضرت ابراہیم الاطروش رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ہم بغداد میں حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ دریائے دجلہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کشتی میں نو عمروں کی ایک ٹولی دف بجاتے، شراب پیتے اور کھیلتے ہوئے گزری۔ ہم نے حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ آپ انہیں دیکھ رہے ہیں یہ لوگ علی الاعلان خدا کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ ان کے لئے بددعا کیجئے۔ یہ سن کر حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا : خدایا! جس طرح تو نے انہیں دنیا میں خوش کر رکھا ہے آخرت میں بھی خوش رکھنا۔ لوگوں نے کہا : ہم نے آپ کو بددعا کرنے کو کہا تھا(اور آپ نے ان کے حق میں دعا فرمادی) ؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جب اللہ ان کو آخرت میں خوش رکھے گا تو (دنیا میں)ان کی توبہ بھی قبول فرمائے گا ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 137)
قال النوري رحمۃ اللہ علیہ : التوبۃ أن تتوب من کل شيء سوی الله عزوجل ۔
ترجمہ : شیخ نوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : توبہ یہ ہے کہ تو اللہ کے سوا ہر چیز سے توبہ کر ے (یعنی رجوع کرے) ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 95)
قال عبد الله التمیمي رحمۃ اللہ علیہ : شتان ما بین تائب یتوب من الزلات، وتائب یتوب من الغفلات، وتائب یتوب من رؤیۃ الحسنات ۔
ترجمہ : شیخ عبد اللہ بن علی تمیمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ان تین شخصوں کی توبہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے : ایک وہ جو اپنی لغزشوں سے توبہ کرتا ہے، دوسرا وہ جو اپنی غفلتوں سے توبہ کرتا ہے اور تیسرا وہ جو اپنی نیکیوں کو دیکھنے سے توبہ کرتا ہے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ صفحہ 95)
قال الإمام القشیري رحمۃ اللہ علیہ : قال بعضهم : توبۃ الکذابین علی أطراف ألسنتهم، یعني أنهم یقتصرون علی قولهم : أستغفر الله ۔
ترجمہ : امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ کسی صوفی کا قول ہے کہ کذابین کی توبہ، ان کی زبان کی نوک پر ہوتی ہے، ان کی مراد استغفر اللہ کہنے سے ہے (یعنی وہ زبان سے توبہ یا اِستغفار کہتے رہتے ہیں مگر دل پر کچھ اثر نہیں ہوتا) ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96)
قال الإمام القشیري رحمۃ اللہ علیہ : قال رجل لرابعۃ العدویۃ : إني قد أکثرت من الذنوب والمعاصي، فلو تبت هل یتوب الله عليّ؟ فقالت : لا، بل لو تاب علیک لتبت۔
ترجمہ : امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا سے کہا : میں نے بہت سے گناہ اور معاصی کئے ہیں۔ اب اگر میں توبہ کروں تو کیا اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے گا؟ انہوں نے فرمایا : اصل معاملہ یوں نہیں، اصل بات یہ ہے کہ (پہلے) خدا تجھے معاف کر دے گا تو تب ہی تو توبہ کرے گا ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ صفحہ 96،چشتی)
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سچی توبہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنےپر شرمندہ ہوتے ہوئے رب سے معافی مانگے اور آئندہ کےلیے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کےلیے کوشش کرے ، مثلاً نماز قضا کی تھی تو اب ادا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعدِ توبہ وہ مال اصل مالک یا اس کے وُرَثاء کو واپس کرے یا معاف کروالے اور اگر اصل مالک یا وُرَثاء نہ ملیں تو ان کی طرف سے راہِ خدا میں اس نیّت سے صدقہ کر دے کہ وہ لوگ جب ملے اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں واپس دوں گا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 21 صفحہ 121)
توبہ و اِستغفارکی تمام تر اہمیت اور فضائل کے باوجود بعض بد نصیب نفس و شیطان کے بہکاوے میں آکر توبہ و اِستغفار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں ۔ توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ کیے اس دارِ فانی سے چلے جاتے ہیں ، موت کا کوئی بھروسا نہیں اس لیے ہمیں بھی بکثرت توبہ و اِستِغفار کرنی چاہیے ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment