فضائل و مسائل زکواۃ حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی نشوونما کےلیے زمین اور آسمان سے اس کی ضروریات زندگی ، خوراک ، پوشاک ، رہائش اور سماجی و تمدنی کفالت کا ایسا معقول و وافر انتظام کیا ہے کہ اپنی مخلوق کو کسی بات میں کسی کا محتاج نہ رکھا لیکن ابتدائے خلق سے نسل انسانی کے دشمن شیطانی عناصر نے خدا کے پیدا کیے ہوئے وسائل رزق پر غاصبانہ تسلط کررکھا ہے ۔ ایک محدود و حقیر طبقہ روزی کے سرچشموں پر قابض ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ عام لوگوں کو بھی زندگی کی آسائشیں میسر ہوں ۔ اللہ کے رزق سے وہ بھی متمع ہوں ، وہ عزت و وقار سے زندہ رہیں ۔ یہی وہ مشکل گھاٹی ہے جس کا قرآن کریم نے ان الفاظ میں ذکر کیا : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ ۔ فَكُّ رَقَبَةٍ ۔ أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ ۔ يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ۔ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ۔ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ۔ أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ۔
ترجمہ : پھر بے تامل گھاٹی میں نہ کودا ۔ اور تم نے کیا جانا وہ گھاٹی کیا ہے۔ کسی مملوک کی گردن چھڑانا ، یا بھوک کے دن کھانا کھلانا ، رشتہ دار یتیم کو، یا خاک نشین مسکین کو، پھر ہوجائے ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے آپس میں صبر کی وصیتیں کیں اور آپس میں مہربانی کی وصیتیں کیں ۔ یہی دائیں طرف والے (جنتی) ہیں ۔ (سورہ البلد، 90 : 11، 18)
دیکھا ، غربت ، بھوک ، تنگی ، پسماندگی ، بیماری و لاچاری میں گرفتار انسانوں کی طرف توجہ کرنا اور ان کے مسائل و مصائب کو حل کرنا کتنا مشکل لیکن ضروری فریضہ ہے گویا دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنا ہے ۔
قیامت کے منکر
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ۔ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ۔ وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ ۔
ترجمہ : تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے پھر وہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہیں دیتا ۔ (الماعون، 107 : 1، 3)
جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے ۔
مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ۔ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ۔ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ۔
ترجمہ : تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ بو لے ہم نماز نہ پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہ دیتے تھے ۔ (المدثر، 74 : 42۔ 44)
جھٹلانے والے مالدار
قرآنی نظام ربویت چونکہ ہر ضرورت مند کی ضرورت کا کفیل ہے لہذا جو امیر کبیر مالدار لوگ اس نظام کے قیام میں رکاوٹ ڈالیں، وہ ایک طرف اللہ کے دشمن ہیں اور دوسری طرف عام انسان کے بدخواہ، وہ چاہتے ہیں ہم بلا روک ٹوک اللہ کی نعمتوں پر سانپ بن کر بیٹھے رہیں اور عوام دانے دانے کو ہمارے محتاج ہوں۔ ان کی عزت، آبرو، آزادی، یہاں تک کے ان کی زندگی و موت بھی ہمارے ہاتھوں میں گروی ہو۔ اس ظالمانہ سوچ اور ذہنیت رکھنے والوں کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے : وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا ۔
ترجمہ : مجھے اور ان جھٹلانے والے مالداروں کو چھوڑ دو، اور ان کو تھوڑی مہلت دو ۔ (سورہ المزمل، 73 : 11)
مال کے پجاری
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ۔ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَـذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! بے شک بہت پادری اور جوگی، لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں خوشخبری سنادو درد ناک عذاب کی جس دن وہ (مال) تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں، پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں، یہ ہے وہ جسے تم نے اپنے لئے جوڑ رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا ۔ (سورہ التوبہ، 9 : 34، 35)
کیا کچھ خرچ کریں ؟
وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوِ ۔
ترجمہ : اور (یا رسول اللہ) تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ تم فرماؤ جو ضرورت سے زائد بچ جائے ۔ (سورہ البقرہ، 2 : 219)
ضرورت سے زائد حاجت مندوں کو دو تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات پوری کرسکیں ۔
غریبی وجہ کفر ہوسکتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : کادا الفقر ان یکون کفرا ۔ ’’قریب ہے غریبی کفر ہوجائے‘‘۔ (بیہقی)
زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں حق ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان فی المال لحقا سوی الزکوٰة ۔
ترجمہ : بے شک مال میں زکوٰۃ کے علاوہ (بھی) حق ہے ۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
امیروں کے مال میں غریبوں کا حق ہے ۔
وَفِیْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ۔
ترجمہ : اور ان کے مالوں میں حق ہے مانگنے والے اور بے نصیب کا ۔
(سورہ الذاریت، 51 : 19)
مالداروں کے مالوں میں غریبوں کا حق ہے کہہ کر بتادیا کہ ضرورت مند کو لینے میں عار نہیں اور مالدار کو دینے میں احسان نہیں۔ وہ اپنا حق لے رہا ہے یہ اپنا فرض ادا کررہا ہے ۔
غریبوں پر ترس نہ کرنے والوں کیلئے مقام تفکر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : عذبت إمراة فی هرة امسکتها حتی ماتت من الجوع فلم تکن تطعمها ولا ترسلها فتاکل من خشاش الارض ۔
ترجمہ : ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا ۔ جسے اس نے باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ بھوک سے مرگئی ، نہ اس کو کھلاتی تھی اور نہ چھوڑتی کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی ۔ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوۃ : 168)
جانوروں پر رحم بھی مغفرت کا باعث ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : غفرلا مراة موسة مرت بکلب علی رأس رکی یلهث کاد یقتله العطش فنزعت خفها و ثقة بخمارها فنزعت له من الماء فغفرلها بذلک قیل ان لنا فی البهائم اجرا قال فی کل ذات کبدرطبة اجر ۔
ترجمہ : ایک بدکار عورت کی بخشش ہو گئی صرف اتنی بات پر کہ اس کا گذر ایک کتے کے قریب سے ہوا جو کنویں کے کنارے گیلی مٹی پر منہ مار رہا تھا، لگتا تھا کہ پیاس اسے مار دیگی، عورت نے اپنا موزہ (یا جوتا) اتارا ، اسے اپنے دوپٹے سے باندھا اس کے لئے پانی نکالا (اور پلایا) اسی سے اس کی بخشش ہو گئی ۔ عرض کی گئی کیا جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے اجرو ثواب ہے ؟ فرمایا ہر دھڑکتے دل والی (زندہ) چیز کی خدمت میں اجرو ثواب ہے ۔ (متفق علیہ بحوالہ مشکوۃ، 147)
زکوٰة اسلام کا بنیادی رکن ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے : اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے ، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکات ادا کرنا ، حج کرنا او ررمضان کے روزے رکھنا ۔ (بخاری شریف، کتاب الایمان باب دعا ء کم ایمانکم حدیث نمبر۸،ج۱،ص۱۴،چشتی)
زکوٰة کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں نماز اور زکوٰة کا ایک ساتھ 32 مرتبہ ذکر آیا ہے ۔ (ردالمحتار کتاب الزکاۃ جلد ۳ صفحہ ۲۰۲)
علاوہ ازیں زکوٰة دینے والا خوش نصیب دنیوی واُخری سعادتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے ۔ زکوٰة کی فرضیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ اللہ پاک قرآنِ حکیم میں ارشاد فرماتا ہے : وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ۔
ترجمہ : اور نماز قائم رکھو اور زکات دو ۔ (پ ۱،البقرۃ:۴۳)
اس آیت میں نمازو زکوٰة کی فرضیت کا بیان ہے ۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا ۔
ترجہ : اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے مال میں سے زکات کی تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو ۔ (پ۱۱، التوبۃ:۱۰۳)
اس آیت میں جو صدَقہ وارِد ہوا ہے اس کے معنٰی میں مفسِّرین کے کئی قول ہیں : ⬇
ایک تو یہ کہ وہ صدَقہ غیر واجِبہ تھا جو بطورِ کَفّارہ کے اِن صاحبوں نے دیا تھا جن کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدَقہ سے مراد وہ زکات ہے جو ان کے ذمّہ واجب تھی ، وہ تائب ہوئے اور انہوں نے زکات ادا کرنی چاہی تو اللہ پاک نے اس کے لینے کا حکم دیا ۔ امام ابوبکر رازی جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدَقہ سے زکات مراد ہے ۔ (خازن و احکام القرآن بحوالہ خزائن العرفان،چشتی)
زکوٰة 2 ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی ۔ (الدرالمختار،کتاب الزکات،ج۳،ص۲۰۲)
زکوٰة کا فرض ہونا قرآن سے ثابت ہے ، اس کا اِنکار کرنے والا کافر ہے ۔ (الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکات ،الباب الاول،ج۱،ص۷۰ ۱)
فرضیتِ زکوٰة احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ⬇
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اللہ پاک نے اس پر مامور کیا ہے کہ مَیں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ یہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)خدا کے سچے رسول ہیں ، ٹھیک طرح نماز ادا کریں ، زکوٰة دیں ، پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جا نیں محفوظ ہو جائیں گے سواے اس سزا کے جو اِسلام نے (کسی حد کے سلسلہ میں) ان پر لازم کر دی ہو ۔ (صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فان تابواواقامواالصلوۃ،حدیث نمبر ۲۵ جلد ۱ صفحہ ۲۰،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا : ان کو بتاؤ کہ اللہ پاک نے ان کے مالوں میں زکوٰة فرض کی ہے مال داروں سے لے کر فقرا کو دی جائے ۔ (سنن الترمذی، کتاب الزکاۃ ،باب ما جاء فی کراھیۃ اخذ خیار المال فی الصدقۃ ،حدیث نمبر ۶۲۵ جلد ۲ صفحہ ۱۲۶)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصالِ ظاہری ہو گیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور کچھ قبائل عرب مرتد ہو گئے (کہ زکوٰة کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَیں لو گوں سے جہاد کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ پڑھیں ۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ اللہ پاک کے ذمے ہے ۔ (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں ، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا) ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم! مَیں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکوٰة میں فرق کرے گا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکاۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکوٰة مال کا حق ہے بخدا اگر انہوں نے (واجب الاداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں دیا کرتے تھے تو مَیں ان سے جنگ کروں گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وﷲ ! میں نے دیکھا کہ ﷲ پاک نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے ۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے ۔ (صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ،باب وجوب الزکوۃ،حدیث نمبر ۱۳۹۹، ۱۴۰۰، ج۱،ص۴۷۲،۴۷۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کلمہ گوئی اِسلام کےلیے کافی نہیں ، جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے اور امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بحث کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے علم میں پہلے یہ بات نہ تھی ، کہ وہ فرضیت کے منکر ہیں یہ خیال تھا کہ زکوٰة دیتے نہیں اس کی وجہ سے گنہگار ہوئے ، کا فر تو نہ ہوئے کہ ان پر جہاد قائم کیا جائے ، مگر جب معلوم ہو گیا تو فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ وہی حق ہے ، جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھا اور کیا ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ حصہ ۵ صفحہ ۸۷۰،چشتی)
تکمیل ایمان کا ذریعہ
زکوٰة دینا تکمیلِ ایمان کا ذریعہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکات ادا کرو ۔(الترغیب والترھیب کتاب الصدقات باب الترغیب فی اداءِ الزکوٰۃ حدیث نمبر۱۲، ج۱، ص۳۰۱ )
ایک مقام پر ارشاد فرمایا : جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مال کی زکات ادا کرے ۔ (المعجم الکبیر حدیث نمبر ۱۳۵۶۱،ج۱۲،ص۳۲۴)
رحمتِ الہٰی کی برسات
زکوٰة دینے والے پر رحمتِ الہٰی کی برسات ہوتی ہے ۔ سورۃُ الاعراف میں ہے : وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ ۔
ترجمہ : اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کےلیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکات دیتے ہیں ۔
(پ۹،الاعراف۱۵۶)
تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول
زکوٰة دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔ قرآنِ پاک میں مُتَّقِیْن کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۔
ترجمہ : اور ہماری دی ہوئی روزی ميں سے ہماری راہ ميں اٹھائيں ۔
(پ۱،البقرۃ:۳)
کامیابی کا راستہ
زکوٰة دینے والا کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فلاح کو پہنچنے والوں کا ایک کام زکات بھی گنوایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ ۔
ترجمہ : بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکات دینے کا کام کرتے ہیں ۔ (پ ۱۸،المؤمنون ۱تا۴)
نصرتِ الہٰی کا مستحق
اللہ تعالیٰ زکوٰة ادا کرنے والے کی مدد فرماتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۴۰﴾اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالْمَعْرُوۡفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾ ۔
ترجمہ : اور بے شک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بے شک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے، وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں تو نماز برپا رکھیں اور زکات دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لئے سب کاموں کا انجام۔(پ ۱۷،الحج:۴۰،۴۱)
اچھے لوگوں میں شمارہونے والا
زکوۃ ادا کرنا اللہ کے گھروں یعنی مساجد کو آباد کرنے والوں کی صفات میں سے ہے چناں چہ ارشاد پاک ہے : اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ ۟ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۸﴾ ۔
ترجمہ : اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکات دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں ۔
(پ۱۰،التوبۃ: ۱۸)
غربا کے دل میں خوشی داخل کرنے کا ثواب
زکوٰة کی ادائیگی سے غریب لوگوں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اور ان کے دل میں خوشی داخل ہوتی ہے ۔
بھائی چارے کا بہترین اظہار
زکوٰة دینے کا عمل اخوتِ اسلامی کی بہترین تعبیر ہے کہ ایک غنی مسلمان اپنے غریب مسلمان بھائی کو زکوٰة دے کر معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ مہیا کرتا ہے ۔ نیز غریب مسلمان بھائی کا دل کینہ و حسد کی شکارگاہ بننے سے محفوظ رہتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے غنی مسلمان بھائی ، بہن کے مال میں اس کا بھی حق ہے چنانچہ وہ اپنے بہن ، بھائی کے جان ، مال اور اولاد میں برکت کےلیے دعاگو رہتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مؤمن کےلیے مؤمن مثل عمارت کے ہے، بعض بعض کو تقویت پہنچاتا ہے ۔ (صَحِیْحُ الْبُخَارِیْ،کتاب الصلوۃ،باب تشبیک الاصابع…الخ،حدیث نمبر ۴۸۱ جلد ۱ صفحہ ۱۸۱،چشتی)
فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مصداق
زکوٰة مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ مضبوط بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے اسلامی معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے اور امدادِ باہمی کی بنیاد پر مسلمان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ عظیم کا مصداق بن جاتے ہیں : مسلمانوں کی آپس میں دوستی اور رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے ، جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہو تا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو تا ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب،باب تراحم المؤمنین ..الخ،حدیث نمبر ۲۵۸۶،ص۱۳۹۶،چشتی)
مال کا پاک ہونا
زکوٰة دینے سے مال پاک ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مال کی زکوٰة نکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے، تجھے پاک کردے گی ۔ (المسند للامام احمد بن حنبل مسند انس بن مالک ،حدیث نمبر ۱۲۳۹۷ جلد ۴ صفحہ ۲۷۴،چشتی)
بُری صفات سے چھٹکارا
زکوٰة دینے سے لالچ وبخل جیسی بُری صفات سے (اگر دل میں ہوں تو) چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے اور سخاوت وبخشش کا محبوب وصف مل جاتا ہے ۔
مال میں برکت
زکوٰة دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ مَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۳۹﴾ ۔
ترجمہ : اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ۔ (پ۲۲،سبا:۳۹ )
ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے : مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾ ۔
ترجمہ : ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں، ہربال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کےلیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے، وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر دیے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ (انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم ۔ (پ۳،البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲)
پس زکوٰة دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوش دلی سے زکات دینی چاہیے کہ اللہ پاک اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ۔ (المعجم الاوسط حدیث نمبر ۲۲۷۰،ج۱،ص۶۱۹)
اگرچہ ظاہری طور پر مال کم ہوتا لیکن حقیقت میں بڑھ رہا ہوتا ہے جیسے درخت سے خراب ہونے والی شاخوں کو اُتارنے میں بظاہر درخت میں کمی نظر آرہی ہے لیکن یہ اُتارنا اس کی نشوونما کا سبب ہے ۔ زکوٰة دینے والے کی زکوٰة ہر سال بڑھتی ہی رَہتی ہے ۔ یہ تجرِبہ ہے ۔ جو کسان کھیت میں بیج پھینک آتا ہے وہ بظاہِر بوریاں خالی کر لیتا ہے لیکن حقیقت میں مع اضافہ کے بھر لیتا ہے ۔ گھر کی بوریاں چوہے ، سُرسُری وغیرہ کی آفات سے ہلاک ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ جس مال میں سے صَدَقہ نکلتا رہے اُس میں سے خرچ کرتے رہو، اِن شاءَ اللہ بڑھتا ہی رہے گا، کُنویں کا پانی بھرے جاؤ ، تو بڑھے ہی جائے گا ۔ (مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ۳ صفحہ ۹۳،چشتی)
شر سے حفاظت
زکات دینے والا شر سے محفوظ ہوجاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے :
جس نے اپنے مال کی زکوٰة ادا کردی بے شک اللہ پاک نے اس سے شر کو دور کر دیا ۔ (المعجم الاوسط باب الالف من اسمہ احمد حدیث نمبر ۱۵۷۹ جلد ۱ صفحہ ۴۳۱)
حفاظتِ مال کا سبب
زکوٰة دینا حفاظتِ مال کا سبب ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مالوں کو زکوٰة دے کر مضبوط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج خیرات سے کرو ۔ (مراسیل ابی داؤد مع سن ابی داؤد باب فی الصائم یصیب اھلہ صفحہ ۸)
حاجت روائی
اللہ پاک زکوٰة دینے والوں کی حاجت روائی فرمائے گا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو کسی بندے کی حاجت روائی کرے اللہ پاک دین و دنیا میں اس کی حاجت روائی کرے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر والدعائ،باب فضل الاجتماع ….الخ، حدیث نمبر۲۶۹۹، صفحہ ۱۴۴۷،چشتی)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : جو کسی مسلمان کودنیاوی تکلیف سے رہائی دے تو اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبت دور فرمائے گا ۔ (جامع الترمذی ،کتاب الحدود،باب ماجاء فی السترعلی المسلم،حدیث نمبر، ج۳، ص۱۱۵)
دُعاؤں کی حصول یابی
غریبوں کی دعائیں ملتی ہیں جس سے رحمتِ خداوندی اور مدد الہٰی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمھیں اللہ پاک کی مدد اور رزق ضعیفوں کی برکت اور ان کی دعاؤں کے سبب پہنچتا ہے ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجہاد باب عن استعان بالضعفاء،الخ، حدیث نمبر،۲۸۹۶، ج۲،ص۲۸۰)
زکوٰة نہ د ینے کے نقصانات
زکوٰة کی عدم ادائیگی کے متعدد نقصانات ہیں جن میں چند یہ ہیں : ⬇
(1) ان فوائد سے محرومی جو اسے ادائیگیِ زکوٰة کی صورت میں مل سکتے تھے ۔
(2) بخل یعنی کنجوسی جیسی بُری صفت سے (اگر کوئی اس میں گرفتار ہو تو) چھٹکارا نہیں مل پائے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے : سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ پکڑ لی ، وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور بخل آگ میں ایک درخت ہے ، جو بخیل ہوا ،اس نے اس کی شاخ پکڑی ، وہ اسے نہ چھوڑے گی ، یہاں تک کہ آگ میں داخل کر ے گی ۔ (شعب الایمان باب فی الجودِ والسخاء حدیث نمبر ۱۰۸۷۷ جلد ۷ صفحہ ۴۳۵،چشتی)
مال کی بربادی کا سبب ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوا ہے وہ زکات نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوا ہے ۔ (مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ،حدیث نمبر ۴۳۳۵ جلد ۳ صفحہ ۲۰۰)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا : زکوٰة کا مال جس میں ملا ہوگا اسے تباہ وبرباد کردے گا ۔ (شعب الایمان باب فی الزکوٰۃ فصل فی الاستعفاف حدیث نمبر ۳۵۲۲ جلد ۳ صفحہ ۲۷۳)
بعض ائمہ نے اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے کہ: زکوٰۃ واجب ہوئی اور ادا نہ کی اور اپنے مال میں ملائے رہا تو یہ حرام اُس حلال کو ہلاک کر دے گا اور امام احمد رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ معنی یہ ہیں کہ مال دار شخص مالِ زکاۃ لے تویہ مالِ زکاۃ اس کے مال کو ہلاک کر دے گا کہ زکات تو فقیروں کے لیے ہے اور دونوں معنی صحیح ہیں ۔ (بہار شریعت جلد ۱ حصہ ۵ صفحہ ۸۷۱)
زکوٰة ادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو قوم زکوٰة نہ دے گی اللہ پاک اسے قحط میں مبتلاء فرمائے گا ۔ (المعجم الاوسط حدیث نمبر ۴۵۷۷ جلد ۳ صفحہ ۲۷۵،چشتی)
ایک اورمقام پر فرمایا : جب لوگ زکوٰة کی ادا ئیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ پاک بارش کو روک دیتا ہے اگر زمین پر چوپا ئے مو جود نہ ہو تے تو آسمان سے پا نی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب العقوبات حدیث نمبر۴۰۱۹،ج۴،ص۳۶۷)
زکوٰة نہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے جیسا کہ حضرت سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : زکوٰة نہ دینے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ۔ (صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃ کتاب الزکاۃ باب جماع ابواب التغلیظ،ذکر لعن لاوی …الخ،حدیث نمبر ۲۲۵۰ جلد ۴ صفحہ ۸)
بروزِقیامت یہی مال وبال جان بن جائے گا ۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے : وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِجَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوۡبُہُمْ وَظُہُوۡرُہُمْ ؕ ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ فَذُوۡقُوۡا مَاکُنۡتُمْ تَکْنِزُوۡنَ ۔
ترجمہ : اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہيں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ ميں خرچ نہيں کرتے انہيں خوش خبری سناؤدرد ناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ ميں پھر اس سے داغيں گے ان کی پیشانياں اورکروٹيں اور پیٹھيں يہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا ۔ (پ۱۰،التوبۃ:۳۴،۳۵)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس کی زکوٰة ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی (یعنی دو نشان ہوں گے)، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔پھر اس (یعنی زکات نہ دینے والے) کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا : ”میں تیرا مال ہوں،میں تیرا خزانہ ہوں ۔” اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبْخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ ۔ اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کےلیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا ۔ (پ۴، اٰل عمران:۱۸۰) ۔ (صحیح البخاری،کتاب الزکات ، باب اثم مانع الزکوٰۃ،حدیث نمبر ۱۴۰۳ جلد ۱ صفحہ ۴۷۴،چشتی)
حساب میں سختی کی جائے گی
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فقیر ہر گز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر اغنیاء کے ہاتھوں ، سن لو ایسے مالداروں سے اللہ تعالیٰ سخت حساب لے گا اور انہیں درد ناک عذاب دے گا ۔ (مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ حدیث نمبر ۴۳۲۴ جلد ۳ صفحہ ۱۹۷)
عذابِ جہنم میں مبتلا ہوسکتا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے غرقی لنگوٹیوں کی طرح کچھ چیتھڑے تھے اور جہنم کے گرم پتھر اور تھوہر اور سخت کڑوی جلتی بدبو دار گھاس چوپایوں کی طرح چرتے پھرتے تھے ۔ جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی : یہاں پر مالوں کی زکوٰة نہ دینے والے ہیں اور اللہ پاک نے ان پر ظلم نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں فرماتا ۔ (الزواجر کتاب الزکوٰۃ الکبیرۃ السابعۃ الثامنۃ والعشرون …. الخ جلد ۱ صفحہ ۳۷۲،چشتی)
ایک مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : زکوٰة نہ دینے والا قیامت کے دن دوزخ میں ہوگا ۔ (مجمع الزوائد ،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوۃ،حدیث نمبر۴۳۳۷،ج۳،ص۲۰۱)
ایک اور مقام پر فرمایا : دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار جو اپنے مال میں اللہ پاک کا حق ادا نہیں کرتا ۔ (صحیح ابن خزیمہ، کتاب الزکوٰۃ،باب لذکر ادخال مانع الزکات النار ۔ الخ ، حدیث نمبر ۲۲۴۹ جلد ۴ صفحہ ۸)
اللہ عزوجل ہم میں سے جو صاحب نصاب ہیں انہیں اپنے مال کی زکوٰة نکالنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ مستحقین تک اسے پہنچانے کی توفیق بخشے ۔ اور خصوصاً ہم خادمانِ امت کو زیادہ سے زیادہ خدمات دینیہ و علمیہ کی توفیق خیر مرحمت فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ و افضل التسلیم ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)
الحَمْدُ ِلله الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دور دراز دیہاتوں میں غریب بچوں کو مفت عصری و دینی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے : ⬇
رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں دین کا درد رکھنے والے اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ : الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ، کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : محمد جواد اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ، 03215555970 ، جزاكم اللهُ خیراً کثیرا آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment