Friday, 17 March 2023

فضائل و مسائلِ رمضان المبارک حصّہ دوم

فضائل و مسائلِ رمضان المبارک حصّہ دوم

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ ۔ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ ۔ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ ۔ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘ ۔ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 185)

ترجمہ : رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کےلیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔


اس آیتِ مبارکہ میں ماہِ رمضان کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے اوراس کی دو اہم ترین فضیلتیں ہیں ، پہلی یہ کہ اس مہینے میں قرآن اترا اور دوسری یہ کہ روزوں کےلیے اس مہینے کا انتخاب ہوا ۔ اس مہینے میں قرآن اترنے کے یہ معانی ہیں : (1) رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت کے بارے میں قرآن پاک نازل ہوا ۔ (2) قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان میں ہوئی ۔ (تفسیر کبیر سورہ البقرۃ الآیۃ : ۱۸۵، ۲/۲۵۲-۲۵۳،چشتی) ۔ (3) مکمل قرآن کریم رمضان المبارک کی شب ِقدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا ، (تفسیر خازن سورہ البقرۃ الآیۃ : ۱۸۵،۱/۱۲۱)


یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فَوقتاً حکمت کے مطابق جتنا جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام لاتے رہے اوریہ نزول تیئس سال کے عرصہ میں پورا ہوا ۔


عظمت والی چیز سے نسبت کی برکت


رمضانُ المبارک وہ واحد مہینہ ہے کہ جس کا نام قرآن پاک میں آیا اورقرآن مجید سے نسبت کی وجہ سے ماہِ رمضان کو عظمت و شرافت ملی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس وقت کو کسی شرف و عظمت والی چیز سے نسبت ہو جائے وہ قیامت تک شرف والا ہے ۔ اسی لیے جس دن اور گھڑی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت اور معراج سے نسبت ہے وہ عظمت و شرافت والے ہو گئے ، جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی روزِ جمعہ پیدائش پر جمعہ کا دن عظمت والا ہوگیا ۔ (مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۷(۸۵۴)،چشتی)


حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش ، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر قرآن میں سلام فرمایا گیا ۔ (مریم: ۱۵) اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی پیدائش ، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر سلام فرمانا قرآن میں مذکور ہے ۔ (سورہ مریم آیت نمبر ۳۳)


زیر تفسیر آیت میں قرآن مجیدکی تین شانیں بیان ہوئیں : (۱) قرآن ہدایت ہے ، (۲) روشن نشانیوں پرمشتمل ہے اور ، (۳) حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے ۔ قرآن شریف کے23نام ہیں اور یہاں قرآن مجیدکا دوسرا مشہور نام فرقان ذکر کیا گیا ہے ۔


اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہم پر فرض فرمائی لیکن اپنی رحمت سے ہم پرتنگی نہیں کی بلکہ آسانی فرماتے ہوئے متبادل بھی عطا فرما دیے ۔ روزہ فرض کیا لیکن رکھنے کی طاقت نہ ہو تو بعد میں رکھنے کی اجازت دیدی، بعض صورتوں میں فدیہ کی اجازت دیدی ، کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر اشارے سے پڑھنے کی اجازت دیدی، ایک مہینہ روزہ کا حکم فرمایا تو گیارہ مہینے دن میں کھانے کی اجازت دیدی اور رمضان میں بھی راتوں کو کھانے کی اجازت دی بلکہ سحری و افطاری کے کھانے پر ثواب کا وعدہ فرمایا ۔ گنتی کے چند جانوروں کا گوشت حرام قرار دیا تو ہزاروں جانوروں ، پرندوں کا گوشت حلال فرما دیا ۔ کاروبار کے چند ایک طریقوں سے منع کیا تو ہزاروں طریقوں کی اجازت بھی عطا فرمادی ۔ مرد کو ریشمی کپڑے سے منع کیا تو بیسیوں قسم کے کپڑے پہننے کی اجازت دیدی ۔ الغرض یوں غور کریں تو آیت کا معنیٰ روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر آسانی چاہتا ہے اور وہ ہم پر تنگی نہیں چاہتا ۔


گنتی پوری کرنے سے مراد رمضان کے انتیس یا تیس دن پورے کرنا ہے اور تکبیر کہنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے دین کے طریقے سکھائے تو تم اس پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو اور ان چیزوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ۔


حافظ ابن عساکر علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ابراہیم پر صحائف رمضان کی پہلی شب میں نازل کیے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات رمضان کی چھٹی شب میں نازل کی ‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل رمضان کی اٹھارویں شب میں نازل ہوئے ۔ (تاریخ ابن عساکر ج 3 ص 195‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ 1404 ھ،چشتی)


امام رازی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : مجاہد نے کہا : کہ رمضان اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور رمضان کے مہینہ کا معنی ہے : اللہ کا مہینہ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے روایت ہے کہ یہ نہ کہو کہ رمضان آیا اور رمضان گیا ‘ بلکہ یہ کہو کہ رمضان کا مہینہ آیا اور رمضان کا مہینہ گیا ‘ کیونکہ رمضان ‘ اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے ۔


دوسرا قول یہ ہے کہ رمضان مہینہ کا نام ہے جیسا کہ رجب اور شعبان مہینوں کے نام ہیں۔ خلیل سے منقول ہے : رمضان ‘ رمضاء سے بنا ہے اور رمضاء خریف کی اس بارش کو کہتے ہیں جو زمین سے گرد و غبار کو دھو ڈالتی ہے ‘ اس طرح رمضان بھی اس امت کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے اور ان کے دلوں کو گناہوں سے پاک کردیتا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ رمضان رمض سے بنا ہے اور رمض سورج کی تیز دھوپ کو کہتے ہیں اور اس مہینے میں روزہ داروں پر بھوک اور پیاس کی شدت بھی تیز دھوپ کی طرح سخت ہوتی ہے ‘ یا جس طرح تیز دھوپ میں بدن جلتا ہے اسی طرح رمضان میں گناہ جل جاتے ہیں اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : رمضان اللہ کے بندوں کے گناہ جلا دیتا ہے ۔


رمضان کے مہینہ میں نزول قرآن کی ابتداء اس وجہ سے کی گئی کہ قرآن اللہ عزوجل کا کلام ہے اور انوار الہیہ ہمیشہ متجلی اور منکشف رہتے ہیں ‘ البتہ ارواح بشریہ میں ان انوار کے ظہور سے حجابات بشریہ مانع ہوتے ہیں اور حجابات بشریہ کے زوال کا سب سے قوی سبب روزہ ہے ‘ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کشف کے حصول کا سب سے قوی ذریعہ روزہ ہے ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اگر بنی آدم کے قلوب میں شیطان نہ گھومتے تو وہ آسمانوں کی نشانیوں کو دیکھ لیتے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں اور رمضان میں عظیم مناسبت ہے ‘ اس لیے نزول قرآن کی ابتداء کے لیے اس مہینہ کو خاص کرلیا گیا ۔ (تفسیر کبیر ج 2 ص 121۔ 120 مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ 1398 ھ،چشتی)


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں موجود ہو وہ ضرور اس ماہ کے روزے رکھے ۔ (سورہ البقرہ : 185)


بہ ظاہر اس آیت میں یہ اشکال کہ اس آیت سے یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس مہینہ سے غائب بھی ہوسکتا ہے ‘ ہوسکتا ہے کہ پہلے یہ بات عجیب معلوم ہو لیکن اب جب کہ یہ محقق ہوگیا کہ قطبین میں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے تو وہاں کے رہنے والے رمضان کے مہینہ میں حاضر نہیں ہوتے ‘ اس لیے قطبین کے رہنے والوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں ہیں ‘ البتہ جب باقی دنیا میں رمضان کا مہینہ ہو ان دنوں میں کسی قریبی اسلامی ملک کے حساب سے وہاں کے رہنے والے طلوع فجر اور غروب آفتاب کے اوقات کا اپنے علاقہ کی گھڑیوں کے وقت سے ایک نظام الاوقات مقرر کرلیں اور اتنا وقت روزہ سے گزاریں تو بہت بہتر ہے ‘ اور جب کہ تمام دنیا کاٹائم بتانے والی گھڑیاں ایجاد ہوچکی ہیں ‘ یہ ایسا مشکل بھی نہیں ہے ‘ وہاں کے رہنے والے اگر گھڑیوں کے حساب سے نمازیں پڑھیں تو یہ بھی بہت بہتر ہے ہرچند کہ سورج کے طلوع اور غروب کے لحاظ سے ان پر ایک سال میں صرف ایک دن کی نمازیں فرض ہوں گی ۔


سعودی عرب کے حساب سے روزے رکھتا ہوا پاکستان آیا تو عید کس حساب سے کرے گا ؟


پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ سعودی عرب سے ایک یا دو روز پہلے روزے رکھتے ہوئے آتے ہیں اور ان کے تیس روزے پورے ہوجاتے ہیں اور یہاں ہنوز رمضان ہوتا ہے تو چونکہ مذاہب اربعہ کے محققین فقہاء کے نزدیک بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے ‘ اس لیے اس کو روزے رکھنے چاہئیں ‘ نیز قرآن مجید میں ہے : (آیت) ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “۔ (البقرہ : 185) تم میں سے جو اس مہینے میں موجود ہو تو وہ ضرور اس کے روزے رکھے “۔ اور اس شخص نے اس صورت میں رمضان کا مہینہ پایا ہے اس لیے وہ سب کے ساتھ روزے رکھے ‘ نیز امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ” الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون “۔ جس دن لوگ روزہ رکھیں اس دن روزہ ہے اور جس دن لوگ عید کریں اس دن عید ہے۔ (جامع ترمذی ص 124) اس حدیث کا بھی یہ تقاضا ہے کہ جو شخص پاکستان میں آگیا وہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ روزے رکھے اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ عید کرے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر اس کے تیس روزے پورے ہوچکے ہیں تو اس پر اب روزے لازم نہیں ‘ کیونکہ حدیث کے اعتبار سے مہینہ انتیس یا تیس دنوں کا ہوتا ہے اور وہ ایک مہینہ کے روزے رکھ چکا ہے ‘ لیکن پہلی رائے کے دلائل زیادہ قوی ہیں۔

پاکستان سے روزے رکھتا ہوا سعودی عرب گیا تو عید کس حساب سے کرے گا ؟


بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے پاکستان میں چاند دیکھ کر روزے رکھنے شروع کیے اور اثناء رمضان میں سعودی عرب چلا گیا جہاں جہاں لوگوں نے ایک یا دو روز پہلے روزے رکھنے شروع کیے تھے اور ابھی اس کے اٹھائیس یا انتیس روزے ہوئے تھے کہ انہوں نے عید کرلی اس صورت کے بارے میں علامہ نووی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ایک شخص نے ایک ایسے شہر سے سفر کیا جنہوں نے رمضان کا چاند نہیں دیکھا اور اس شہر میں پہنچا جس میں (اس کے حساب سے) ایک دن پہلے چاند دیکھ لیا گیا تھا اور ابھی اس نے انتیس روزے رکھے تھے کہ انہوں نے عید کرلی۔ اب اگر ہم عام حکم رکھیں یا یہ کہیں کہ اس کے لیے اس شہر کا حکم ہے تو وہ عید کرلے اور ایک دن کے روزے کی قضاء کرے ‘ اور اگر ہم حکم عام نہ رکھیں اور یہ کہیں کہ اس کے لیے پہلے شہر کا حکم ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس دن روزہ رکھے ۔


چونکہ مذاہب اربعہ کے محققین فقہاء کے نزدیک بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے ‘ اس لیے پاکستان سے سعودی عرب پہنچنے کے بعد اس شخص پر سعودی عرب کے مطلع کے احکام لازم ہوں گے وہ اس کے حساب سے روزے رکھے گا اور ان کے حساب سے عید کرے گا ‘ لیکن اس کے روزے تیس سے کم ہیں تو وہ کم دونوں کی احتیاط قضا کرلے ۔


سعودی عرب سے عید کے دن سوار ہو کر پاکستان پہنچا اور یہاں ہنوز رمضان ہے۔ ایسی صورت کے بارے میں علامہ نووی لکھتے ہیں : اگر ایک شخص نے ایک شہر میں چاند دیکھا تو صبح عید کی اور وہ کشتی کے ذریعہ کسی دو دراز شہر میں پہنچا جہاں لوگوں کا روزہ تھا۔ شیخ ابو محمد نے کہا : اس پر لازم ہے کہ وہ بقیہ دن کھانے پینے سے اجتناب کرے۔ یہ اس صورت میں ہے جب ہم یہ کہیں کہ اس پر اس شہر کا حکم لازم ہے اور اگر ہم حکم عام رکھیں یا اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کریں تو اس پر افطار کرنا لازم ہے ۔


چونکہ بلادِ بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے ‘ اس لیے جو شخص سفر کر کے دور دراز علاقہ میں پہنچے گا اس پر وہاں کے جغرافیائی حالات کے اعتبار سے شرعی احکام لازم ہوں گے ۔


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جو مریض یا مسافر ہو (اور روزے نہ رکھے) تو وہ دوسرے دنوں سے (مطلوبہ) عدد پورا کرے ۔ (سورہ البقرہ : 185)


اس حکم کو دوبارہ ذکر فرمایا تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ یہ رخصت منسوخ ہوگئی ہے۔ کتنی مسافت کے سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے ؟ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے ‘ داؤد ظاہری کے نزدیک مسافت کم ہو یا زیادہ اس پر شرعی سفر کے احکام نافذ ہوجاتے ہیں ‘ خواہ ایک میل کی مسافت کا سفر ہو ‘ امام احمد کے نزدیک دو دن کی مسافت کا اعتبار ہے ‘ امام شافعی کے نزدیک بھی دو دن کی مسافت کا اعتبار ہے ‘ امام مالک کے نزدیک ایک دن کی مسافت معتبر ہے ‘ امام ابوحنفیہ سفر شرعی کے لیے تین دن کی مسافت کا اعتبار کرتے ہیں ‘ ان کی دلیل یہ حدیث ہے ‘ امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : کوئی عورت بغیر محرم کے تین دن کا سفر نہ کرے۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 147‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1381 ھ،چشتی)


جمہور فقہاءِ احناف علیہم الرحمہ نے تین دن کی مسافت کا اندازہ اٹھارہ فرسخ کیا ہے ۔ (ردالمختار ج 1 ص 527۔ 526) اٹھارہ فرسخ ‘ 54 شرعی میل کے برابر ہیں جو انگریزی میلوں کے حساب سے اکسٹھ میل ‘ دو فرلانگ ‘ بیس گز ہے اور 724۔ 98 کلومیٹر کے برابر ہے ۔ مسافت قصر کی پوری تفصیل اور تحقیق ہم نے ” شرح صحیح مسلم “ جلد ثانی میں بیان کی ہے ۔


جو شخص فوت ہوگیا اور اس نے رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں تو امام مالک ‘ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک کوئی شخص اس کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکتا ‘ ان کی دلیل یہ آیت ہے : ولا تزروازۃ وزر اخری ۔ (سورہ الانعام : 164)

ترجمہ : کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔


علامہ مرداوی حنبلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : جب کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس پر نذر کے روزے ہوں تو صحیح مذہب یہ ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ سکتا ہے اور صحیح مذہب یہ ہے کہ ایک جماعت میت کی طرف سے روزے رکھ سکتی ہے ‘ نیز صحیح مذہب یہ ہے کہ ولی کا غیر بھی میت کی طرف سے اس کی اجازت سے اور اس کی اجازت کے بغیر روزے رکھ سکتا ہے ‘ اگر ولی روزے نہ رکھے تو میت کے مال سے ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے ۔ (الانصاف ج 3 ص 337۔ 336‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی،چشتی)


علامہ سرخسی حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے موقوفا روایت ہے کہ کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ نہ رکھے اور نہ کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز پڑھے۔ (موطا امام مالک ص 245‘ مطبوعہ لاہور)


دوسرے دلیل یہ ہے کہ زندگی میں عبادات کی ادائیگی میں کوئی شخص کسی کا نائب نہیں ہوسکتا ‘ لہذا موت کے بعد بھی نہیں ہوسکتا ‘ کیونکہ عبادت کا مکلف کرنے سے یہ مقصود ہے کہ مکلف کے بدن پر اس عبادت کی مشقت ہو اور نائب کے ادا کرنے سے مکلف کے بدن پر کوئی مشقت نہیں ہوئی ‘ البتہ اس کی طرف سے ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا ‘ کیونکہ اب اس مکلف کا خود روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے تو فدیہ اس کے روزہ کا قائم مقام ہوجائے گا جیسا کہ شیخ فانی کی صورت میں ہے اور اس نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو اس کے تہائی مال سے کھانا کھلانا لازم ہے اور امام شافعی کے نزدیک وہ وصیت کرے یا نہ کرے اس کی طرف سے کھانا کھلانا لازم ہے ‘ فدیہ کی مقدار ہمارے نزدیک دو کلو گندم ہے اور امام شافعی کے نزدیک ایک کلو گندم ہے ۔ (المبسوط جلد 3 صفحہ 37 مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ‘ 1398 ھ،چشتی)


روزہ چھ چیزوں کا ہے


(1) آنکھ کا بدنظری اور تاک جھانک سے بچے ۔


(2) کانوں کا کہ جھوٹ ، غیبت اور گانے بجانے کے سننے سے بجائے ۔


(3) زبان کا کہ جھوٹ، غیبت، گالیوں، فضول اور بے ہودہ بکواس سے بچائے ۔


(4) باقی بدن کا کہ ہاتھوں سے چوری اور ظلم نہ کرے اور پیروں سے چل کر کسی بری اور گناہ کی جگہ نہ جائے ۔


(5) حرام غذا کا کہ اس سے پرہیز کرے اور حلال بھی جہاں تک ہو، کم کھائے تاکہ روزے کے انوار اور برکات حاصل ہوں ۔


(6) پھر ڈرتا رہے کہ خدا جانے یہ روزہ قبول بھی ہوگا یا نہیں کہ شاید کوئی غلطی ہوگئی ہو مگر اس ڈر کے ساتھ کریم پروردگار کے کرم کے بھروسہ پر امید بھی رکھے ۔


اور خاص بندوں کے لئے ان 6 کے ساتھ ایک ساتویں چیز اور ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا ہر چیز کی طرف سے دل کو ہٹالے یہاں تک کہ افطاری کا سامان بھی نہ کرے ۔


احیاءالعلوم کی شرح میں بعض بزرگوں کا قصہ آیا ہے کہ اگر کہیں سے افطاری آجاتی تو اس کو خیرات کر ڈالتے تاکہ دل اس میں مشغول نہ رہے ۔


مفسرین لکھتے ہیں کہ کتب علیکم الصیام میں انسان کی ہر چیز پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ پس زبان کا روزہ، جھوٹ اور غیبت سے بچنا ہے اور کان کا روزہ ناجائز چیزوں کے سننے سے پرہیز ہے اور آنکھوں کا روزہ کھیل تماشے سے بچنا ہے اور نفس کا روزہ حرص اور خواہشوں سے اور دل کا روزہ دنیا کی محبت سے بچنا ہے اور روح کا روزہ یہ ہے کہ آخرت کی لذتوں کی بھی خواہش نہ ہو اور سر خاص کا روزہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا کسی پر بھی نظر نہ ہو ۔


ایک اہم بات : واضح ہو کہ اگر ان فضیلتوں اور برکتوں کو سن کر روزے کو ضروری اور برکت کا باعث سمجھا جاتا ہے تو نماز کا خیال اس سے کہیں بڑھ کر ہونا چاہئے کیونکہ وہ روزے اور زکوٰۃ اور حج سب سے افضل ہے اور سب کی اصل ہے اور یہ سب عبادتیں اس میں موجود ہیں ۔ چنانچہ :


(1) ذکر و تلاوت اور تسبیح اور کلمہ شہادت تو زبانی عبادتوں کی اصل الاصول ہیں ۔


(2) اور اس میں حج کا نمونہ بھی ہے کہ پہلی تکبیر احرام کے اور قبلہ کی طرف منہ کرنا طواف کے اور کھڑا ہونا عرفات میں ٹھہرنے کے اور رکوع اور سجود اور رکعتوں کے لئے اٹھنا، بیٹھنا صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کے قائم مقام ہے ۔


(3) نیز اس میں ہر چیز کا روزہ بھی پایا جاتا ہے کہ نظر کو دوست کے سوا غیر پر ڈالنے سے اور زبان کو ذکر اور تلاوت کے سوا باتیں کرنے سے اور ہاتھوں کو لینے دینے سے اور پائوں کو چلنے پھرنے سے اور دل کو خیالات کے میدان میں دوڑنے سے اور چیزوں میں غوروفکر کرنے سے روکتا ہے حالانکہ روزے میں اتنی پابندی نہیں ہیں۔


(4) اور اس میں زکوٰۃ بھی ہے کہ ستر چھپانے کے لئے کپڑا اور پاکی کے لئے برتن اور پانی خریدنے میں مال خرچ کرتا ہے نیز اپنے وقت کو تمام ضروریات سے اﷲ کے لئے فارغ کرتا ہے جس طرح زکوٰۃ کے لئے مال کی ایک مقدار کو علیحدہ کرتا ہے ۔


(5) نیز اس میں ہر مخلوق کی عبادت بھی پائی جاتی ہے چنانچہ کھڑا ہونے میں درختوں اور ذکرو تلاوت میں اڑنے والے خوش آواز جانوروں کی اور رکوع میں چرنے والے جانوروں کی اور سجدے میں بے ہاتھ پائوں کے جانوروں کی اور بیٹھنے میں پتھروں اور پہاڑوں وغیرہ تمام چیزوں کی عبادت موجود ہے ۔


(6) اور حق تعالیٰ کی معرفت و ذات میں استغراق ’’کروبیوں‘‘ یعنی فرشتوں کی عبادت ہے ۔ غرض نماز میں تمام مخلوقات کی عبادتیں موجود ہیں اسیلئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل کون سا عمل ہے؟ تو آپ نے فرمایا ’’الصلوٰۃ لوقتھا‘‘ (نماز کا اسکے وقت پڑھنا) اور اسی لئے ارشاد ہوا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔


(7) اور نماز کوثر سے بھی مشابہت رکھتی ہے اس لئے کوثر کو عطا کرنے کے شکریہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نماز ادا کرنے کا حکم ہوا کیونکہ: (1) نماز میں جو ہمکلامی ہوتی ہے وہ شہد سے زیادہ میٹھی ہے (2) اور اس میں جو غیبی انوار نمازی کے دل کو منور کرتے ہیں وہ دودھ سے زیادہ سفید ہے (3) اور اس میں جو یقین کو ترقی ہوتی ہے وہ برف سے زیادہ ٹھنڈی ہے (4) اور جو لطف و چین نماز میں نصیب ہوتا ہے وہ مکھن سے زیادہ نرم ہے (5) اور جو سنت ومستحب چیزیں نماز کو گھیرے ہوئے ہیں اور باطنی زندگی کو سرسبز کرتی ہیں وہ زمرد کے درختوںکی طرح ہیں جو کوثر کے کناروں پر ہیں (6) اور ذکروتسبیحات سونے چاندی کے گلاس ہیں جن سے محبت الٰہی کی شراب گھونٹ گھونٹ ہوکر باطن میں پہنچتی ہے اور روح کو سیراب کرتی ہے اور کوثر میں بھی یہی چھ صفتیں پائی جاتی ہیں (تفسیر عزیزیزی پارہ الم اور عم)


پس نماز کی قدر اور محبت روزے سے اور سب عبادتوں سے زیادہ ہونی چاہیے ۔


(8) اور بڑی قدر یہ ہے کہ اس کو نہایت عاجزی کے ساتھ باجماعت ادا کیا جائے کیونکہ جماعت کے بغیر ادا کرنے کو اصول فقہ میں ناقص ادا بتایا ہے ۔


مراۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے کہ جو نماز جماعت کے بغیر پڑھی جائے ، وہ ادا تو ہوجاتی ہے لیکن اس پر ثواب نہیں ملتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ مسجد کے قریب رہنے والوں کی نماز مسجد کی بغیر گویا ہوتی ہی نہیں اور اس سے بڑھ کر کون سی تاکید ہوگی کہ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جماعت ترک کرنے والوں کے گھروں میں آگ لگا دینے کی خواہش ظاہر فرمائی ۔ (مزید حصّہ سوم میں  ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...