فضائلِ توبہ و استغفار حصّہ چہارم
توبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک عظیم الشان مبارک فعل ہے کہ بندہ اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہو کر اس کی بندگی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ عرفاء نے اپنے اپنے طریق پر توبہ کی مختلف شرائط بیان کی ہیں، یہ شرائط ایسی ہیں کہ جن پر پورا اترنے کے بعد توبہ کی قبولیت بفضل تعالیٰ یقینی ہو جاتی ہے ۔ تاہم شریعت نے ایسی کوئی علامت یا نشانی بیان نہیں کی جس سے انسان یقینی طور پر جان سکے کہ میری توبہ قبول ہوئی ہے یا نہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور وہی اس کا حقیقی علم رکھتا ہے ۔ حقیقت میں توبہ وہی ہے جو زبان سے ادا ہو کرقلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جائے اور بندے کی باقی ماندہ زندگی کے ماہ و سال کی کایا پلٹ کر رکھ دے ۔ حقیقی توبہ کے باعث تائب کی تمام لغزشیں ، کوتاہیاں اور تمام گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ یوں مٹ جاتے ہیں جیسے وہ ابھی ماں کے بطن سے نومولود بچے کی طرح معصوم پیدا ہوا ہو ۔ عمومی طور پر توبہ کی شرائط درج ذیل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان سچی توبہ کی برکات سے دائمی طور پر مستفیض ہو سکتا ہے : ندامت و شرمندگی ، ترکِ گناہ و معصیت ، توبہ پر پختہ رہنے کا عزم ، اصلاحِ احوال ، اخلاص ۔ ان شرائط کی تفصیل درج ذیل ہے : ⬇
توبہ کی پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے برے طور طریقوں اور اعمال پر شدید پشیمانی اور شرمندگی محسوس کرے ۔ یہ ندامت دراصل برے کاموں سے کنارہ کشی کی طرف پہلا قدم ہے ۔ ندامت کے صحیح ہونے کی علامات میں دل کا نرم ہو جانا اور کثرت سے آنسوؤں کا جاری ہونا ہے کیونکہ جب دل کو اللہ اور اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا احساس جکڑلے اور اس پر عذاب کا خوف طاری ہو جائے تو یہ گریہ و زاری کرنے والا اور غم زدہ ہوجاتا ہے ۔ اسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : النَّدَمُ تَوْبَةٌ ۔ ندامت ہی توبہ ہے ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 1:376، رقم:3568،چشتی)
انسان اخلاص کے ساتھ حقیقی ندامت کے طفیل ایک ہی قدم میں مغفرت کی منزل پا لیتا ہے ۔ جمہور محققین کے نزدیک خالص ندامت ہی توبہ کی اصل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ جب بندہ مولیٰ کی توفیق سے اپنے اعمال پر غور کرتا ہے تو اسے اپنے کیے ہوئے برے افعال پر افسوس ہوتا ہے جس سے ندامت جنم لیتی ہے۔ جب کسی سے محبت کا قلبی تعلق قائم ہو جائے تو اس کی نافرمانی کرنے سے شرم آتی ہے ۔ یہی شرم و حیا بندے کو توبہ کے دروازے پر لے جاتی ہے۔ حقیقی ندامت کی نشانی یہ ہے کہ دل میں رِقّت آجائے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اِجْلِسُوْا إِلٰی التَّوَّابِيْنَ فَإِنَّهُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً ۔
ترجمہ : توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو اس لئے کہ ان کے دل سب سے زیادہ رقیق ہوتے ہیں (تاکہ اُن کی صحبت سے تمہیں بھی رقت نصیب ہو جائے) ۔ (احياء علوم الدين،4: 15)
توبہ کے عمل میں داخل ہونے کا یہ پہلا قدم ہے کہ انسان ندامت محسوس کرتے ہوئے ہر قسم کے گناہ سے کنارہ کش ہو جائے ۔ برے فعل پر شرمندگی اور پشیمانی کے احساس سے بندے کے دل میں گناہ ترک کرنے کا داعیہ جنم لیتا ہے اور بندہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک کمزور اور حقیر ترین مخلوق ہو کر اس کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی حیاء نہ کی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ۔ یہ احساس ترکِ گناہ پر منتج ہوتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ، کَانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ. فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ ۔ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتَّی تَغْلَفَ قَلْبُهُ ۔
ترجمہ : مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے ۔ (لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ (ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن، 5: 434، رقم: 3334،چشتی)
حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اَلْاِسْتِغْفَارُ مِنْ غَيْرِ إِقْـلَاعٍ هُوَ تَوْبَةُ الْکَاذِبِيْنَ ۔
ترجمہ : گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے ۔
(قشيري ، الرسالة : 95)
حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : زَلَّةٌ وَّاحِدَةٌ بَعْدَ التَّوْبَةِ أَقْبَحُ مِنْ سَبْعِيْنَ قَبْلَهَا ۔
ترجمہ : توبہ کے بعد کی ایک لغزش توبہ سے پہلے کی ستر لغزشوں سے بدتر ہے ۔ (قشيري ، الرسالة : 97)
محمد زُقاق رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو علی روذباری سے توبہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : گناہوں کا اعتراف، غلطیوں پر ندامت اور گناہوں کا ترک کرنا توبہ ہے ۔ (طبقات الصّوفية : 272)
زندگی ایک میدانِ عمل ہے جس میں حقیقی کامیابی عملِ صالح کے بغیر ممکن نہیں اور ترکِ گناہ کے بغیر عملِ صالح کا کوئی تصور نہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی اور دنیوی امور کو علیحدہ علیحدہ پلڑوں میں رکھنے کے باطل طریقۂ کار نے ہمارے معاشرے میں نیکی کے تصور کو دھندلا دیا ہے ۔ بیک وقت لُوٹ کھسُوٹ ، ظلم و ناانصافی ، حلق تلفی اور مفاد پرستی بھی جاری ہے اور عبادات کے نظام پر بھرپور توجہ بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس منافقانہ طرزِ عمل کی موجودگی میں ترکِ گناہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ حقیقی توبہ اسی وقت ہوگی جب توبہ کے بعد گناہ کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیا جائے ۔
انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پختہ عہد کرے کہ جن نافرمانیوں ، خطاؤں اور گناہوں کا ارتکاب کر چکا ہے آئندہ یہ اس کی زندگی میں کبھی داخل نہیں ہوں گے کیونکہ توبہ کی ابدی سلامتی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے عہد پر پختہ رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : اِلاَّ الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاﷲِ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ ِﷲِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ وَسَوْفَ يُؤْتِ اﷲُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا ۔
ترجمہ : مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا ۔ (سورہ النساء ، 4 : 146)
اس آیت مبارکہ میں ،،الَّذِيْنَ تَابُوْا،، کے الفاظ بندے کی توجہ اس طرف مبذول کر رہے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی میں جس قدر بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں وہ سچے دل کے ساتھ توبہ کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے گِڑگِڑا کر اللہ رب العزت کی بارگاہ سے عفو و درگزر کی دراخواست کرے ۔ درحقیقت بندے کا اپنے سابقہ کیے گئے اعمال پر ندامت محسوس کرنا اپنے جملہ گناہوں سے رو گردانی کے مترادف ہے ۔ بندہ جب تک نادم رہے گا اللہ تعالیٰ کی رحمت اس پر سایہ فگن رہے گی ۔
اِس ضمن میں حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ توبہ کے باب میں ایک حکایت لائے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا : اے جبرائیل ! اگر میری توبہ کی قبولیت کے بعد بھی مجھ سے اس بارے میں سوال ہوا تو میرا ٹھکانہ کیا ہو گا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی : اے آدم ! آپ نے اپنی اولاد کےلیے بطور وراثت رنج و تکلیف بھی چھوڑی اور توبہ بھی ۔ ان میں سے جو مجھے پکارے گا تو میں اس کی دعا قبول کروں گا جس طرح آپ کی دعا قبول کی ہے ۔ جو مجھ سے بخشش مانگے ، میں اس سے بخل نہیں کروں گا کیونکہ میں قریب ہوں اور دعا قبول کرنے والا بھی ۔ اے آدم ! میں توبہ کرنے والوں کو قبروں سے اس طرح باہر لاؤں گا کہ وہ خوش ہوں گے اور ہنس رہے ہوں گے اور ان کی دعا قبول ہو گی ۔ (اِحياء علوم الدين، 4: 5)
محض زبان سے توبہ کرنا منافقین کا عمل ہے ۔ گناہ کو چھوڑنے کا پختہ ارادہ نہ کرنا اور حقیقی توبہ کے بعد بشری تقاضے کے باعث گناہ کا سر زد ہو جانا دو جدا باتیں ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عالم الغیب ہے ۔ اُس کے علم میں ہے کہ کون اپنی توبہ میں سچا اور کون جھوٹا ہے ۔ حقیقی توبہ کے بعد بشری کمزوری کے باعث کسی بندے سے گناہ کا سر زد ہونا ممکن ہے لیکن اگر وہ گناہ کرنے کے بعد ستر بار بھی معافی مانگے تو توبہ قبول ہو گی لیکن اگر کوئی لوگوں کے سامنے خود کو نیک و پارسا ظاہر کر کے دھوکہ دینے کی غرض سے توبہ کرے گا اور پھر گناہوں میں مبتلا ہو گا تو اس کا معاملہ جدا ہے ۔ اس لیے کہ اس نے تو علیم و خبیر رب تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) اپنے طور پر دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ۔ اگرچہ بظاہر دیکھنے میں مذکورہ دونوں افراد کا عمل ایک جیسا نظر آتا ہے کہ گناہ پر گناہ کیے جارہے ہیں مگر حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے معاملے کے اعتبار سے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔
توبہ کی یہ شرط تائب سے اگلے مرحلے کا تقاضا کرتی ہے اور وہ مرحلہ سنور جانے یعنی اصلاحِ احوال کا ہے ۔ حقیقی ندامت انسان کے اندر ایک ہمہ گیر تبدیلی کو جنم دیتی ہے۔ ندامت صرف توبہ کے الفاظ ادا کرنے اور خالی آنسو بہانے کا نام نہیں ۔ ندامت اور اس کے نتیجہ میں توبہ کا اختیار کر لینا احوالِ حیات کا مکمل طور پر تبدیل ہو جانا ہے ۔ جب تک توبہ کرنے والا اصلاح کی فکر نہیں کرتا وہ تائب ہی نہیں ہوتا ۔ گناہوں سے شرمندگی کے باعث آنکھوں کا اشک ریز ہونا بھی قیمت پاسکتا ہے اگر اس کے نتیجے میں انسان کی زندگی سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ، فسق و فجور ، ظلم و ناانصافی ، شہوت رانی اور ہوس پرستی جیسے جملہ رذائلِ اخلاق کلیتاً خارج ہو جائیں اور انسان گناہوں سے یکسر پاک ہو کر اطاعت و بندگی کا پیکر بن جائے ۔
توبہ کرنا کوئی معمولی فعل نہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے کا مقام ہے جیسے کہ خود باری تعالی نے ارشاد فرمایا : اِنَّ ﷲَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ ۔
ترجمہ : بے شک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔ (سورہ البقرة ، 2 : 222)
حضرت ابو محمد سہل رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا : توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب کب بنتا ہے ؟ فرماتے ہیں : جب وہ ہر اس کام سے دور ہو جائے جسے حق تعالیٰ پسند نہیں فرماتا ۔ جیسے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ ، توبہ کرنے والے (ہی) عبادت کرنے والے ہیں ۔ (قوت القلوب ، 1 : 384)
یعنی توبہ بندگی سے مشروط ہے ۔ عرفاء نے تائب کےلیے بعض امور کا بجالانا ضروی قرار دیا ہے ۔ جن میں چند اہم ترین یہ ہیں : ⬇
نافرمانوں کی صحبت سے اجتناب کیا جائے ۔
تائب کو ہر وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے ۔
کسی گناہ کو بھی معمولی خیال نہ کرے اور فضول کاموں سے الگ رہے ۔
جس گناہ سے توبہ کی اس کو کچھ اس طرح یاد رکھے کہ اس گناہ کا احساس اسے پریشان رکھے تاکہ آدابِ بندگی بجا لاتا رہے اور کبھی بھی اس کی حلاوت محسوس نہ کرے بلکہ اس کی کڑواہٹ محسوس کرے اور اس سے سخت نفرت کرے ۔
حقوق العباد میں سے اگر کسی سے ناانصافی یا ظلم کر بیٹھے تو اولاً اس کے حقوق ادا کرے اور اگر یہ توفیق نہیں پاتا تو پھر اس سے معافی کا خواستگار ہو اور اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کےلیے دست بہ دعا رہے ۔
صحیح توبہ وہی ہے جو انسان کے شب و روز ، افعال و اعمال اور حالات و کیفیات کو یکسر بدل کر رکھ دے ۔ بندہ عبادت و ریاضت کا پیکر بن جائے اور رضائے الٰہی کا حصول اس کی خواہشات کا مرکزو محور بن جائے ۔ توبہ اپنے محبوب کے ساتھ پھر سے جُڑ جانے کا نام ہے ۔ گناہ نے محبت کی حرمت کو مجروح کیا تو گناہ گار احساسِ گناہ سے بوجھل ہو گیا ، محبوب سے شرم آنے لگی ، عفو و بخشش کی دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے تو ہاتھ کانپ گئے ، پھر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ ایسی ہی توبہ مقبول ہے ۔
توبہ میں اخلاص احساسِ ندامت سے جنم لیتا ہے ۔ گناہ پر شرمندگی اور پشیمانی جتنی زیادہ ہوگی توبہ اتنی ہی خالص ہوگی ۔ گویا توبہ میں اخلاص کا دار و مدار بندے کے اپنے من کی سچائی پر ہے ۔ اخلاص اس اَمر کا تقاضا کرتا ہے کہ دل سے احساسِ ندامت کبھی زائل نہ ہو اور گناہ سے بندے کو طبعی نفرت ہو جائے ۔ محض زبان سے استغفار کا ورد کرتے رہنا اور دل کا اس سے غافل رہنا یا دل میں معصیت کی حسرت کا پوشیدہ ہونا کوئی توبہ نہیں ۔ ہماری توبہ کا تو یہ حال ہے : ⬇
سبحہ در کف ، توبہ بر لب ، دل پُر از ذوقِ گناہ
معصیت را خندہ می آید ز استغفارِ ما
ترجمہ : تسبیح ہاتھ میں ، توبہ کا ذکر زبان پر اور دل میں گناہ سے لطف اندوزی کا داعیہ ، ایسی توبہ پر تو معصیت بھی ہنستی ہے کہ یہ کیسی توبہ ہے ۔
توبہ کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اللہ کےلیے وقف کر دے ۔ اس کا جینا ، مرنا ، مخلوق خدا کے ساتھ ملنا ، برتنا ، اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا ، کمانا ، خرچ کرنا اور کھانا پینا سب کا سب اللہ کےلیے ہو جائے ۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : اَ لَا ِﷲِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۔
ترجمہ : (لوگوں سے کہہ دیں) سن لو طاعت و بندگی خالصۃً اﷲ ہی کےلیے ہے ۔ (سورہ الزمر ، 39:3)
احادیثِ مبارکہ سے بھی اخلاص کی وضاحت ہمیں میسر آتی ہے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَخْلِصِ دِيْنَکَ يَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِيْلُ ۔ ’’اپنے دین کو خالص کرو تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا‘‘ ۔ (حاکم، المستدرک، کتاب الرقاق، 4: 341، رقم: 4844،چشتی)
صرف اللہ تعالیٰ کےلیے عبادت و بندگی کا بجا لانا اخلاص ہے ۔ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے ۔ اِسے میں اُس بندے کے دل میں رکھتا ہوں جس سے میں محبت کرتا ہوں ۔ (مسد الفردوس بمأثور الخطاب ، 3 : 187 ، رقم : 4513)
لفظ عبادت اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ معاملات عبادات و عقائد سب اس میں شامل ہیں ۔ مختلف معاملات زندگی جو بظاہر دنیاداری سے متعلق نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت اگر یہ سب معاملات اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بجا لائے جائیں اور اس سلسلے میں کوئی ذاتی غرض پیشِ نظر نہ ہو مثلاً نہ مخلوق سے کسی تعریف و شہرت اور ناموری کی چاہت ہو ، نہ نیک نامی اور نام نہاد بزرگی کی خواہش، تویہ سب امور دین کا حصہ قررا پائیں گے ۔ چنانچہ اخلاص کی تعریف ہی یہ ہے کہ مخلوق کی نگاہوں سے اپنے فعل کو پاک رکھنا ۔ اہلِ اخلاص کے نزدیک لوگوں کی اُن کے بارے میں تعریف کرنا یا مذمت کرنا برابر ہوتا ہے ۔ اپنے اعمال نہ تو ان کی نظر میں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ان سے کسی اجر و ثواب کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔ الغرض اخلاص صرف اللہ تعالیٰ کےلیے فعل کو انجام دینا ہے ۔ چنانچہ ہر وہ فعل اور کام جو کسی معاوضہ کی نیت سے کیا جائے گا ، وہ خالِص نہیں ہو گا اور اخلاص سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ اخلاص بندے اور رب کے درمیان راز ہے ۔ چنانچہ بندہ اپنے عمل پر اللہ عزوجل کے سوا کسی اور کو گواہ نہ بنائے ۔ اگر کسی نے مخلوق کی خاطر کوئی عمل ترک کیا تو یہ ریا ہے اور اگر مخلوق کی خاطر کیا تو شرک ۔
کسی سائل نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : أَيُّ شَيْئٍ أَشَدُّ عَلَی النَّفْسِ ؟ فَقَالَ : الْإِخْلَاصُ، لِأَنَّهُ لَيْسَ لَهَا فِيْهِ نَصِيْبٌ ۔
ترجمہ : نفس پر کون سی چیز سب سے زیادہ گراں ہے ؟ تو فرمایا : اخلاص (یعنی اپنے ہر فعل کو اللہ کےلیے خالص کرلینا) کیونکہ اس میں نفس کا کوئی حصہ نہیں ۔ (قشيری ، الرساله : 209)
جو شخص صاحبِ اَخلاص ہو جاتا ہے وہ صرف خالق کا نیازمند ہوتا ہے ۔ وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اس کی ذرہ برابر نیکی سے بھی آگاہ ہو کر اس کی تعریف کریں اور نہ ہی اس کا اس بات سے کوئی تعلق ہوتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں کیا کہیں گے بلکہ وہ اپنا ہر عمل صرف اللہ عزوجل کی رضا کےلیے سرانجام دیتا ہے ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment