Thursday, 23 March 2023

فضائل و مسائل اور دلائل تراویح حصّہ نمبر 2

فضائل و مسائل اور دلائل تراویح حصّہ نمبر 2

نمازِ تراویح کی بڑی ہی فضیلت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو سنت قرار دیا ہے ، اس لیے حضرات فقہا فرماتے ہیں کہ ہر عاقل بالغ مرد اور عورت کے ذمے تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔ (سنن نسائی حدیث: ۲۲۱۰)(فیض القدیر حدیث: ۱۶۶۰)(ردالمحتار مع درالمختار)

اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح مردوں کےلیے تراویح پڑھنے کا اہتمام ضروری ہے اسی طرح خواتین کےلیے بھی تراویح کا اہتمام ضروری ہے ، بعض خواتین تراویح کو اہمیت نہیں دیتیں بلکہ اس کو ترک کرنے کےلیے معمولی بہانوں کا بھی سہارا لیتی ہیں ، ان کا یہ طرز عمل ہرگز درست نہیں ۔ تراویح چونکہ سنت مؤکدہ ہے ، اس لیے بِلا عذر تراویح چھوڑتے رہنا گناہ ہے ۔ (ردالمحتار)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح ادا فرماتے تھے

رمضان المبارک کے مہینہ میں نمازِ عشاء کے بعد بیس 20 رکعت نماز تراویح پڑھنی صحیح مذہب میں سنت مؤکدہ ہے اور تمام آئمہ دین یعنی امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ ، امام مالک اور ان کے تلامذہ ، امام شافعی اور ان کے تلامذہ، امام احمد بن حنبل اور ان کے تلامذہ کے علاوہ وہ دیگر مجتہدین بھی (جن کے مقلدین آج دنیا میں نہیں ہیں) اس کے سنت ہونے اور بیس رکعات ہونے پر متفق ہیں ۔ رافضیوں کے علاوہ کوئی جماعت ِتراویح کامنکر نہیں ہے ۔ غیر مقلدین (نام نہاد اہلحدیث یا اہل الظواہر) بیس رکعات پر کمزور اعتراض کرتے ہیں اور اپنی ہٹ دھرمی کے باعث آٹھ رکعات پڑھتے ہیں ، جو ثابت نہیں ۔ آٹھ رکعات کوتراویح کہنا بھی غلط اور باطل ہے ، کیونکہ ”تراویح” جمع ہے ”ترویحہ” واحد ہے ، ایک ترویحہ چار رکعات کا ہوتا ہے توعربی قواعد کے اصولو ں کے مطابق آٹھ رکعات ادا کرنے کے نتیجے میں دو ترویحہ بنتے ہیں جس پرتثنیہ کا اطلاق ہوتا ہے اور لغت کے حساب سے ”ترویحتان” کہا جاتا ہے ۔ عربی میں کسی بھی لفظ کی جمع کا اطلاق دو سے زائد پر ہوتا ہے لہٰذا آٹھ رکعات کو کبھی بھی تراویح قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ حضوراکرم نے کبھی بھی رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کے طور پر ادا نہیں فرمائیں ۔ اور نہ ہی آٹھ رکعات ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ امام بیہقی علیہ الرحمۃ نے بسند صحیح حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سے روایت کی کہ” لوگ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، کے زمانہ میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد میں بھی ایسا ہی تھا ”اور ”موطا ”میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ ”عمر رضی اللہ عنہ، کے زمانہ میں لوگ تئیس 23 رکعات پڑھتے ”۔ بیہقی نے کہا اس میں تین رکعتیں وتر کی ہیں اور مولیٰ علی رضی اللہ عنہ ، نے ایک شخص کو حکم فرمایا کہ ”رمضان میں لوگوں کو بیس ٢٠ رکعتیں پڑھائے ۔” نیز اس کے بیس رکعت میںیہ حکمت ہے کہ فرائض و واجبات کی اس سے تکمیل ہوتی ہے اور کل فرائض و واجبات کی ہر روز بیس رکعتیں ہیں (یعنی فجر 2 + ظہر 4 + عصر 4 + مغرب 4 + عشاء فرض 4 + وتر 3 = 20رکعات) لہٰذا مناسب تھا کہ یہ بھی بیس ہوں ۔ (بہار شریعت حصہ چہارم ، صفحہ نمبر 30،چشتی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رمضان المبارک میں بیس رکعات ( تراویح) اور وتر ادا فرماتے تھے ۔ (مصنف شیبہ مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 669 حدیث نمبر 7774،چشتی)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں ۔کو بیس (20) رکعات نماز تراویح اور وتر پڑھائے رمضان المبارک میں ۔ ( تاریخ جرجان صفحہ نمبر 276)

حدیث : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رمضان المبارک میں دو راتیں لوگوں کو بیس رکعات (20) نماز تراویح پڑھائی۔(تلخیص الجبیر جلد 2 صفحہ نمبر 45)

منکرین بیس (20) غیر مقلد وھابی حضرات کو چیلنج ہے کہ آٹھ رکعات نماز تراویح پر ایک حدیث پیش کرو جس میں لفظ تراویح اور رمضان المبارک کا ذکر ہو اور جسے محدثین کرام علیہم الرّحمہ نے لکھا اور قبول کیا ہو نماز تہجد والی روایت سے دھوکہ دے کر لوگوں کا بابرکت مہینے میں عبادت سے مت روکو وقت تا قیامت ہے ہم بحوالہ جواب کے منتظر رہیں گے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیس رکعات نماز تراویح پڑھنا متعدد حوالہ جات کے ساتھ ثابت کر دیا ہے الحمد للہ ۔

بیس رکعت تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا تھا

محترم قارئینِ کرام : غیر مقلدین کے شیخ الکل جناب نذیر حسین دہلوی کے فتاویٰ نذریہ میں ہے : بیس (20) رکعات نماز تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا اور یہ اجماع صحابہ رضی عنہم کا ہے ۔ بیس رکعت تراویح اس حدیث سے ثابت ہیں ﻋﻦ ﯾﺰﯾﺪ ﺑﻦ ﺭﻭﻣﺎﻥ ﺍﻧﮧ ﻗﺎﻝ ﮐﺎﻥ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﯾﻘﻮﻣﻮﻥ ﻓﯽ ﺯﻣﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺍﻟﺨﻄﺎﺏ ﻓﯽ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺑﺜﻠﺚ ﻭﻋﺸﺮﯾﻦ رکعۃ ۔ ‏(ﻣﻮﻃﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ﺹ 98‏) ، (ﺍﺳﻨﺎﺩﮦ ﺻﺤﯿﺢ ﻋﻠﯽ ﺷﺮﻁ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ ﻭ ﻣﺴﻠﻢ،چشتی) ۔
ترجمہ : یزید بن رومان سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ لوگ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رمضان میں تیئیس رکعت (بیس تراویح اور تین وتر) پڑھتے تھے ۔ (ﺍﺱ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻭ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﻁ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ) ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر 1 صفحہ 634)

کیا کہتے ہیں منکرین بیس رکعات تراویح اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کو مانیں یا غیر مقلدین کی مانیں ؟

بیس (20) رکعات نماز تراویح پر علمائے امت کا اجماع ہے
محترم قارئینِ کرام : امام ترمذی رحمۃ ﷲ کا ارشاد : ترمذی شریف میں بابُ مَاجَاءَ فِي قِیَامِ شَھْرِ رَمضان کے تحت امام ترمذی رحمۃ ﷲ نے قیام رمضان یعنی تراویح کے باب میں احادیث پیش کرتے ہوئے فرمایا ” واختلف اھل العلم فی قیام رمضان فرأی بعضھم ان یصلی احدی واربعین رکعة مع الوتر وھو قول اھل المدینة والعمل علی ھٰذا عندھم بالمدینة وَأ کْثرُ أھلِ العِلْمِ عَلٰی مَا رُوِيَ عَن عَلِّيٍ وَ عُمَرَ وَغَیْرِھِمَا مِنْ أصحابِ النبيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عِشْرِینَ رَکْعَۃً وَ ھُوَ قَولُ الثَّوريِّ وَ ابْنِ المبارَکِ و الشَّافَعيِّ وقالَ الشافِعيُّ وَ ھَکذا أدْرکْتُ بِبَلَدِنَا مَکَّۃَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً ۔ (ترمذی صفحہ 104)
ترجمہ : تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ : علامہ ابن تیمیہ رقمطراز ہیں قَدْ ثَبَتَ أنَّ اُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ کانَ یَقُوْمُ بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً فِي قِیَامِ رَمَضانَ یُوتِرُ بِثَلاثٍ فَرَأی کَثِیْرٌ مِنْ العُلَمَاءِ أنَّ ذَلِکَ ھُوَ السُنَّۃُِ لأنَّہُ أقَامَہُ بَیْنَ المُھَاجِرِیْنَ وَالأنْصَارِ وَلَمْ یُنْکِرْہُ مُنْکِرٌ ۔
ترجمہ : علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ (صحابی) لوگوں کو قیام رمضان ( نماز تراویح) کے بیس (20) رکعات پڑھاتے اور وتر تین رکعات پڑھاتے تھے ، کثرت سے علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ بیس رکعات ہی سنت ہیں کیوں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کرام اور انصار صحابہ کے درمیان بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی اور ان میں سے کسی نے بھی اسکا انکار نہیں کیا ۔(فتاوی ابن تیمیہ ص 112 ج 23)
علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : اگرکوئی نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزیادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگی ۔ (الاختیارات 64 ،چشتی)

غنیۃ الطالبین یں ہے : وَصَلاۃُ التَراویْحِ سُنَّۃُ النَّبيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، وَھِيَ عِشْرُونَ رَکْعَۃً یَجْلِسُ عَقِبَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَ یُسَلِّمُ ۔
ترجمہ : نماز تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت ہے اور یہ بیس رکعات ہے ہر دو رکعت کے بعد بیٹھے اور سلام پھیرے ۔ (غنیۃالطالبین صفحہ 567)

امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام صاحب کے مایہ ناز شاگرد امام ابو یوسف رحمۃ اللہ نے امام صاحب سے دریافت کیا ۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیس رکعات کے بارے میں کو ئی بات معلوم تھی ۔ امام صاحب نے فر مایا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدعت کو ایجاد کر نے والے نہ تھے (یعنی بلا شبہ حضرت عمر کو بیس رکعت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کوئی بات ضرور معلوم تھی ورنہ وہ اپنی طرف سے بیس کی تعین نہ کر دیتے ) ۔ (فیض الباری شرح بخاری ،العرف الشذی ، بحر الرائق ، طحاوی)

آثار امام ابو یوسف میں ہے ۔ یوسف اپنے والد امام ابو یوسف سے وہ امام ابو حنیفہ سے وہ حماد سے وہ ابرا ہیم نخعی رحمہم اللہ سے وایت کر تے ہیں کہ لوگ (صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم) رمضان میں پانچ ترویحات پڑھتے تھے (واضح ہو ہر ترویحہ چار رکعت کا ہوتا ہے ، اس طرح پانچ ترویحات ، بیس رکعتں ہوگئیں)
امام شمس الائمہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ امام سرخسی اپنی شہرہ آفاق کتاب “ مبسوط “ جو کہ امام محمد رحمہ اللہ علیہ کی ظاہر الروایات پر مشتمل ہے ۔میں فر ماتے ہیں ۔

تراویح ہمارے نزدیک وتر کے علاوہ بیس رکعتیں ہیں اور مام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ سنت اس میں چھتیس رکعتیں ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ جو شخص امام مالک کے قول اور مسلک پر عمل کر نا چاہے ، اسے مناسب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے بیان کے مطابق عمل کرے ۔ یعنی جماعت کے ساتھ بیس رکعتیں پڑھے کیونکہ یہی سنت ہے ، پھر (16 رکعتیں) تنہا پڑھے ، ہر چار رکعات میں دو سلام ہوں (یعنی دو دو رکعتیں کر کے) اور امام شافعی رحمۃ اللہ نے فر مایا کہ کل کی کل 36 رکعتیں جماعت کے ساتھ ادا کر نے میں کوئی حرج نہیں ۔ (کتاب المبسوط جلد 2)

ملک العلماء علامہ علاء الدین ابی بکر بن مسعود کاسانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : تراویح کی مقدار بیس رکعات ہے دس سلاموں سے ، پانچ ترویحات میں ، ہر دو سلام میں ایک ترویحہ ہوگا، یہی عالم علماء کا قول ہے ۔ اور امام مالک نے ایک قول میں چھتیس رکعات اور ایک قول میں چھبیس رکعات بیان فر مائی ہے ۔اور صحیح عام علماء کا ہی قول ہے اس لئے کہ روایت کیا گیا ہے حضرت عمر نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو رمضان المبارک میں حضرت ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا ، پس انہوں نے ان کو ہر رات میں بیس رکعتیں پڑھائیں اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا ۔ پس صحابہ کرام کی طرف سے بیس رکعات پر اجماع ہو گیا ۔ (بدائع الصنائع جلد 1،چشتی)

علامہ بر ہان الدین مر غینانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب ہدایہ علامہ بر ہان الدین مر غینای نے بھی بیس رکعات تراویح کو سنت قرار دیا ہے اور یہ بھی فر مایا کہ امام حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے بیس رکعات تراویح کا مسنون ہو نا روایت کیا ہے ۔ والاصح انھا سنۃ کذا روی الحسن عن ابی حنیفہ ۔ ( ہدایہ ج1 ص 151)

علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمة الله علیه لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله علیه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله علیه، امام شافعی رحمة الله علیه ، امام احمد بن حنبل رحمة الله علیه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله علیه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات تراویح سنت ہے ۔ (بدایة المجتہد)

علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله علیه لکھتے ہیں کہ : تراویح کی بیس (20) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ادا فرمایا ۔ (کتاب المغنی)

علامہ نووی شافعی رحمة الله علیه لکھتے ہیں ۔ تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات کا ہے، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (20) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (4) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله علیه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله علیه اورامام داؤد ظاہری رحمة الله علیه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله علیه نے بیس (20) رکعات تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے ۔ (المجموع)

جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم بیس (20) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے ، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہوسکتی ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرا ت تھے ۔ جب انھوں نے بیس (20) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (20) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (8) رکعات تراویح کہتے ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے ، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے ۔

امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔ (المبسوط 2 / 145)

اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں ابوعبداللہ (یعنی امام احمد) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہیں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔ (المغنی لابن قدامہ المقدسی 1 / 457)

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائیگی باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔ (المجموع للنووی 4 / 31)

قاضی ابوالولید ابن رشد مالکی (متوفی 595ھ) بدایة المجتہد میں لکھتے ہیں : واختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بھا الناس فی رمضان فاختار مالک فی احد قولیہ وابوحنیفة والشافعی واحمد وداود القیام بعشرین رکعة سوی الوتر، وذکر ابن القاسم عن مالک انہ کان یستحسن ستًا وثلاثین رکعة والوتر ثلاث۔” رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ، امام مالک رحمہ اللہ نے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ، شافعی، احمد رحمہم اللہ اور داوٴد رحمہ اللہ نے وتر کے علاوہ بیس رکعات کو اختیار کیا ہے، اور ابنِ قاسم رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ وہ تین وتر اور چھتیس رکعات تراویح کو پسند فرماتے تھے ۔ (بدایة المجتہد ص 156، مکتبہ علمیہ لاہور،چشتی)

مختصر خلیل کے شارح علامہ شیخ احمد الدردیر المالکی (متوفی 1201ھ) لکھتے ہیں : وھی (ثلاث وعشرون) رکعة بالشفع والوتر کما کان علیہ العمل (ای عمل الصحابة والتابعین، الدسوقی)۔(ثم جعلت) فی زمن عمر بن عبدالعزیز (ستًا وثلاثین) بغیر الشفع والوتر لٰکن الذی جری علیہ العمل سلفًا وخلفًا الأوّل ۔
ترجمہ : اور تراویح ، وتر سمیت 23 رکعتیں ہیں ، جیسا کہ اسی کے مطابق (صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کا) عمل تھا ، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے زمانے میں وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئیں، لیکن جس تعداد پر سلف و خلف کا عمل ہمیشہ جاری رہا وہ اوّل ہے (یعنی بیس تراویح اور تین وتر) ۔ (شرح الکبیر الدردیر مع حاشیة الدسوقی صفحہ نمبر 315)

امام محی الدین نووی رحمہ اللہ (متوفی 676ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں(فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداوٓد وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بنیزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر ۔
ترجمہ : رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ ، علاوہ وتر کے ۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب ، امام احمد رحمہ اللہ اور امام داوٴد رحمہ اللہ وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ، اور قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے ۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے، اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تراویح نو ترویحے ہیں، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں ۔ (مجموع شرح مہذب جلد 4 صفحہ 32،چشتی)

حافظ ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی 620ھ) المغنی میں لکھتے ہیں : والمختار عند ابی عبدالله رحمہ الله فیھا عشرون رکعة وبھٰذا قال الثوری وابوحنیفة والشافعی، وقال مالک ستة وثلاثون ۔” امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک تراویح میں بیس رکعتیں مختار ہیں ۔ امام ثوری ، ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں، اور امام مالک رحمہ اللہ چھتیس کے قائل ہیں ۔ (مغنی ابنِ قدامہ ج ص 798، 799، مع الشرح الکبیر)

تراویح کی ابتدا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہوئی، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس اندیشہ سے کہ یہ فرض نہ ہوجائیں تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرداً فرداً پڑھا کرتے تھے اور کبھی دو دو ، چار چار آدمی جماعت کرلیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے عام جماعت کا رواج ہوا ، اور اس وقت سے تراویح کی بیس ہی رکعات چلی آرہی ہیں ، اور بیس رکعات ہی سنتِ مٶکدہ ہیں ۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دن کی عبادت روزہ ہے اور رات کی عبادت تراویح، اور حدیث شریف میں دونوں کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد ہےجعل الله صیامہ فریضة وقیام لیلہ تطوعًا اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کے روزے کو فرض کیا ہے اور اس میں رات کے قیام کو نفلی عبادت بنایا ہے ۔ (مشکوٰة صفحہ 173،چشتی)

اس لیے دونوں عبادتیں کرنا ضروری ہیں، روزہ فرض ہے، اور تراویح سنتِ موٴکدہ ہے ۔ تہجد الگ نماز ہے، جو کہ رمضان اور غیرِ رمضان دونوں میں مسنون ہے ، تراویح صرف رمضان مبارک کی عبادت ہے، تہجد اور تراویح کو ایک نماز نہیں کہا جا سکتا ، تہجد کی رکعات چار سے بارہ تک ہیں ، درمیانہ درجہ آٹھ رکعات ہیں ، اس لیے آٹھ رکعتوں کو ترجیح دی گئی ہے ۔

جو شخص روزے کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ بھی تراویح پڑھے۔جو شخص بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ، اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، تندرست ہونے کے بعد روزوں کی قضا رکھ لے ، اور اگر بیماری ایسی ہو کہ اس سے اچھا ہونے کی اُمید نہیں ، تو ہر روزے کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ دے دیا کرے ، اور تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہیے ، تراویح مستقل عبادت ہے ، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے ۔ رمضان شریف میں مسجد میں تراویح کی نماز ہونا سنتِ کفایہ ہے، اگر کوئی مسجد تراویح کی جماعت سے خالی رہے گی تو سارے محلے والے گناہگار ہوں گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام نہیں تھا ، بلکہ لوگ تنہا یا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے ، سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک امام پر جمع کیا ۔ (صحیح بخاری صفحہ 269 باب فضل من قام رمضان) ۔ اور یہ خلافتِ فاروقی رضی اللہ عنہ کے دُوسرے سال یعنی 14ھ کا واقعہ ہے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 121 ، تاریخ ابنِ اثیر ج ص 189) ۔ (مزید حصّہ نمبر 3 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...