Thursday, 30 March 2023

فضائل و مسائل زکوٰۃ حصّہ دوم

فضائل و مسائل زکوٰۃ حصّہ دوم
اسلام نے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کےلیے اخلاق اور قانون دونوں سے کام لیا ۔ زکوٰۃ کی صورت میں نقد اور عشر کی صورت میں زمین سے پیدا ہونے والی اجناس پر مقرر و متعین شرح سے آمدنی کا ایک حصہ صاحب ثروت لوگوں سے قانوناً لے کر ضرورت مندوں کی کفالت کا بندوبست کیا اور یہ کام اسلامی حکومت کے اولین فرائض میں شامل کر دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۔
ترجمہ : وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں اختیار و اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں ۔ (سورہ الحج، 22 : 41)

توخذ من اغنیاهم فترد علی فقرائهم ۔
ترجمہ : زکوٰۃ ان کے امیروں سے لی جائے اور ان کے غریبوں پر لوٹا دی جائے گی ۔ (متفق علیہ)

زکوٰۃ کے نصاب

مال مویشی

اگر سال کا اکثر حصہ مفت چر کر گزارا کریں تو سائمہ کہلاتے ہیں ۔ ان پر مقرر شرح سے سال گزرنے پر زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔ اگر سال کا اکثر حصہ قیمتی چارہ ڈالا جائے تو علوفہ کہلاتے ہیں ان پر زکوٰۃ نہیں ۔

زرعی پیداوار

اگر زمین بارانی ہے یا چشموں کے پانی سے مفت سیراب ہوتی ہے تو اس کی کل پیداوار میں سے دسواں حصہ وصول کیا جائے گا ۔ یہ مسلمان سے لیں تو عشر، غیر مسلم سے لیں تو خراج ۔ اگر زمین قیمتاً سیراب ہو جیسے ٹیوب ویل یا نہری پانی جس پر آبیانہ وصول کیا جاتا ہے تو کل پیداوار پر نصف عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ وصول کیا جائے ۔ غیر مسلموں سے زمین کی پیداوار پر خراج وصول کیا جائے گا ، جو اسلامی حکومت ان پر مقرر کرے گی ۔ پھل سبزیاں اور غلے وغیرہ کا ایک ہی حکم ہے ۔

سونا چاندی یا مال تجارت

سونا چاندی ، مال تجارت یا روپیہ پیسہ (کرنسی) ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ، کے برابر مالیت کے ہوں اور ضروریات اصلیہ سے زائد ہوں ، ضروریات اصلیہ رہائش ، لباس ، خوراک ، سواری ، علاج ، تعلیم وغیرہ ہیں اور اس مال پر سال گزر جائے تو ایسے مال سے اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی ۔

مصارف زکوٰۃ

ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ۔ (سورہ التوبہ، 9 : 60)
ترجمہ : زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کےلیے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے ۔

اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے : ⬇

1 ۔ فقراء
2 ۔ مساکین
3 عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)
4 ۔ مؤلفۃ القلوب
5 ۔ غلام کی آزادی
6 ۔ مقروض
7 ۔ فی سبیل اللہ
 8 ۔ مسافر

قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہو جائے گا ۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے ۔

زکوٰۃ کا پہلا اور دوسرا مصرف فقیر و مسکین

فقیر اور مسکین دونوں ہی مالی ضروریات کےلیے دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں دونوں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے فقیر سے بڑھ کر مسکین خستہ حال ہوتا ہے فقیر تنگدست ہوتا ہے تہی دست نہیں ہوتا مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ، فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر ضروریات زندگی اس سے پوری نہیں ہوتیں ۔ (بدائع الصنائع 2 : 43،چشتی)(فتاویٰ عالمگیری 188)(تفسیر کبیر 107 طبع ایران)(احکام القرآن للحبصاص 3 : 122)(روح المعانی 15 : 120)(ہدایہ : 163)(الجامع الاحکام القرآن للقرطبی 7 : 157)

تیسرا مصرف والعاملین علیہا

وہ لوگ جو زکوٰۃ و عشر جمع کرنے پر مامور ہوں ، ان سب کو زکوٰۃ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی خواہ امیر ہوں خواہ غریب ۔

ان مایستحقه العامل انما یستحقه بطریق العمالته لابطریق الزکاة بدلیل ان یعطی وان کان غنیا بالا جماع ولو کان ذلک صدقته لما حلت للغنی ۔
ترجمہ : عامل جو زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے وہ صرف اپنے کام کی بناء پر اس کا حقدار ہے نہ کہ زکوٰۃ کی حیثیت سے دلیل یہ ہے کہ اسے تنخواہ ملے گی گو غنی وامیر ہو اس پر امت کا اجماع ہے اگر یہ صدقہ ہوتا تو امیر کے لئے جائز نہ ہوتا ۔ (بدائع الصنائع 2 : 44،چشتی)(فتح القدیر 2 : 204)(تفسیر کبیر 16 : 115)

امااخذ طلمه زماننا من الصدقات والعشور والخراج والجبایات و المصادرات فالا صح انه یسقط جمیع ذلک عن ارباب الاموال اذا نوواعند الدفع التصدق علیھم ۔
ترجمہ : رہا ہمارے دور کے ظالم حکمرانوں کو زکوٰۃ و عشر خراج جزیہ اور محصولات لینا تو صحیح تر یہ ہے کہ مالدار لوگ ان کو مال دیتے وقت ان پر صدقہ کی نیت کرلیں ، تو ان سے شرعی مالی واجبات ساقط ہوجائیں گے ۔ (فتاویٰ عالمگیری، 1 : 190)

گویا ان کو دوبارہ ادا نہیں کرنا پڑے گا جیسے آج کل حکومت زبردستی زکوٰۃ بینکوں سے کاٹ لیتی ہے اور افسر شاہی شیر مادر سمجھ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہمراہ ڈکار لیے بغیر سب کچھ ہڑپ کر جاتی ہے ۔ اسی لیے حقیقت شناس لوگ بینکوں پر بھروسہ نہیں کرتے اپنے طور پر زکوٰۃ کی رقم اس کے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ ہی احسن طریقہ ہے ۔

اموال ظاہرہ واموال باطنہ

مال دو طرح کا ہے ایک ظاہری جیسے مویشی غلہ مال تجارت وغیرہ اس کی زکوٰۃ اسلامی حکومت وصول کرتی ہے ۔ دوسرا باطنی یا پوشیدہ مال جیسے زیورات یا نقدی اس کی زکوٰۃ ہر شخص خود ادا کرتا ہے ۔

فی زمانہ چونکہ زکوٰۃ وعشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصول کے مطابق نہیں اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں ، محتاجوں ، مسکینوں کی کفالت عامہ کی ذمہ داری بھی حکومت نہیں لیتی نہ اس کے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے ۔ بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے ۔ نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں اس لیے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مالوں کی زکوٰۃ مناسب مصارف میں خود صرف کرتے ہیں یہ بالکل جائز ہے ۔ حالانکہ زکوٰۃ امراء سے لے کر فقراء پر صرف کرنے کےلیے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب ومسکین حاجت مندوں کی باعزت کفالت ہو ۔

بنی ہاشم پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں کہ یہ لوگوں کے مال کا میل کچیل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کبھی خود اپنی ذات پر مال زکوٰۃ صرف کیا نہ اپنے خاندان بنی ہاشم پر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان بنی ہاشم پر زکوٰۃ و عشر کا مال حرام فرمادیا ۔ حضور بھی زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کا کام بلا معاوضہ کرتے تھے اور اپنے خاندان کےلیے بھی یہ حکم تھا کہ ان میں سے جو کوئی بلا معاوضہ یہ خدمت کرنا چاہے کرے ، لیکن زکوٰۃ میں سے معاوضہ لے کریہ خدمت انجام نہیں دے سکتا ۔ ہاں زکوٰۃ کے محکمہ میں کام کرنے والا ہاشمی زکوٰۃ فنڈ کے علاوہ تنخواہ پائے تو یہ جائز ہے ۔ البتہ زکوٰۃ کے علاوہ ان تحائف دیئے جاسکتے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد 1 صفحہ 188)

چوتھا مصرف ، مؤلفة القلوب

زکوٰۃ وعشر کاچوتھا مصرف مؤلفتہ القلوب ہیں یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا ، مائل کرنا ، مانوس کرنا ۔ اس حکمِ خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جا سکتی ہے یا ایسے نادار کافر جن کی مالی امداد کرکے ان کو اسلام کی طرف مائل کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجہ میں پہلے ان کا جوش عداوت ٹھنڈا ہوگا اور بالآخر وہ اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے ۔ ایسے لوگوں کو و قتی عطیات یا مستقل وظائف مال زکوٰۃ سے دے کر ان کو اسلام کا مطیع وفرماں بردار یا کم ازکم بے ضرر دشمن بنالیا جائے ایسے لوگوں کو مال زکوٰۃ دینا جائز ہے خواہ وہ غریب ہوں خواہ مالدار اس بات میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ قرآن کریم میں زکوٰۃ و عشر کے جو آٹھ مصارف ذکر کیے گئے ہیں ان میں ’’مؤلفتہ القلوب‘‘ کا حصہ بھی شامل ہے اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤلفة القلوب کو اپنی حیات ظاہری میں مالی وظائف دیا کرتے تھے ۔ مثلاً خاندان بنی امیہ میں سفیان بن حرب ، نبی مخزوم میں حارث بن ہشام، عبدالرحمن بن یربوع ، نبی جمح میں صفوان بن امیہ ، بنی عامر بن لوئی میں سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزیٰ ، بنی اسد بن عبدالعزیٰ میں حکیم بن حزام، بنی ہاشم میں ابوسفیان بن الحارث بن عبدالمطلب ، فزارہ عینیہ بن حصن ، بنی تمیم میں اقرع بن حابس ، بنی نصر میں مالک بن عوف ، بنی سلیم میں عباس بن مرد اس، ثقیف میں علاء بن حارثہ ، بنی حارثہ ، بنی سہم میں عدی بن قیس، ان میں سے بعض کو 100 اونٹ اور بعض کو 50 ملے ۔

لیکن جب خلافت صدیقی میں عینیہ بن حصن اپنا حصہ لینے آئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی : الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۔ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے سو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے ۔ دوسری روایت میں ہے عینیہ اور اقراع ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس زمین مانگنے آئے ۔ آپ نے ان کو تحریر لکھ دی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چاک کر دیا ، اور فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں یہ کچھ اس لیے دیتے تھے کہ تم اسلام سے مانوس ہو جاؤ ۔ اب اللہ نے اسلام کو غلبہ دے دیا ہے اور اسے تم لوگوں سے مستغنی کر دیا ہے ، اسلام پر قائم رہو گے تو ٹھیک ، ورنہ ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی وہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر آئے اور کہنے لگے آپ خلیفہ ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی اور کسی صحابی نے انکار نہیں کیا ۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 114،چشتی)(بدائع الصنائع 2 : 45)(فتح القدیر 1۔ 200)(تفسیر کبیر 16 : 111)

کیا مؤلّفة القلوب کا حصہ منسوخ ہو چکا ہے ؟

امام رازی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : الصحیح ان هذا الحکم غیر منسوخ وان للامام ان یتألف قوما علی هذا الوصف ویدفع الیهم سهم المؤلّفة ۔
ترجمہ : صحیح یہ ہے کہ حکم منسوخ نہیں اور امام کا حق ہے کہ ایسے لوگوں کو اسی طرح مانوس کرتا رہے اور ان کو مؤلّفتہ القلوب کا حصہ دیتا رہے ۔ (تفسیر کبیر جلد 16 صفحہ 111)

جیسا کہ عرض کیا گیا ہے مصارف زکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مصرف مؤلّفة القلوب کا مقرر فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مد میں زکوٰۃ و عشر کی آمدنی خرچ فرمائی ۔ اور کبھی اسے منسوخ نہ فرمایا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان تمام حضرات کے وہ وظائف بند کر دیے جو تالیف قلب کے طور پر وہ اس سے پہلے وصول کرتے تھے ۔ بعض ائمہ کرام علیہم الرحمہ (جیسے احناف) کا موقف یہ ہے کہ مؤلّفة القلوب کا حصہ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ایسا ہوا اور کسی نے اس پر اختلاف یا انکار نہ کیا پس معلوم ہوا کہ اس مصرف کے سقوط پر اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے اور چونکہ اجماع دلیل قطعی ہے ۔ لہٰذا قرآن کا نسخ اس سے جائز ہے بعض ائمہ نے فرمایا پہلے تالیف قلب کی ضرورت تھی لہٰذا یہ مصرف بحال رہا ۔ جب اسلام کو قوت حاصل ہو گئی تو کسی کی تالیف قلب کی ضرورت نہ رہی پس حکم جاتا رہا ۔ ہمارے نزدیک تالیف قلب کی آج بھی اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی ابتدائے اسلام میں ۔ آج بھی ضرورت اس امرکی ہے کہ اس فنڈ میں سے غریبوں کی مدد کر کے ان کے عقیدہ کو بچایا جائے ۔ مسلمانوں کو مال کی لالچ میں مرتد ہونے سے اور غیر مسلم غریبوں کی مالی اعانت کرکے انہیں مسلمان کیا جائے ۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ غیر مسلم امیر ممالک اور ان کی ایجنسیاں غریبوں کو مرتد کرنے پر اربوں ڈالر اور بعض پٹرول کی دولت سے مالا مال شرق اوسط کے ممالک لوگوں کو بدعقیدہ کرنے پر پانی کی طرح پیسہ بہارہے ہیں ۔ پختہ صحیح العقیدہ صاحبانِ ثروت مسلمانوں کو اپنی دولت اور عشر و زکوٰۃ غریب وفادار غیر مسلموں کی اصلاح پر خرچ کرنی چاہیے ۔ بیروزگار و بیمار لوگوں کی مالی اعانت کرنی چاہیے ۔ یونہی نادار و مفلس مسلم و غیر مسلموں کے بچوں کی تعلیم وتربیت پر زکوٰۃ و عشر کی رقوم خرچ کرناچاہیے نیز ذمی شہریوں سے جزیہ و خراج وصول کرکے ذمی طلباء و غربا کی ہر طرح کی مالی اعانت کی جائے اور ان کو ضروریات زندگی مہیا کی جائیں ۔ یہ سب اسلامی فلاحی حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے ۔

امیروں اور ڈانواں ڈول لوگوں پر خرچ کرکے ان کو مخالفینِ اسلام کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچایا جائے ۔ نومسلموں کی مالی اعانت کر کے ان کو اسلام کی طرف مائل و مانوس کیا جائے۔ مال کے خواہش مندوں کو مالی مدد دیکر اسلام پر کار بند کیا جائے ۔ دشمن قوتوں کی مالی اعانت کر کے ان کے شر سے ملک و ملت کو بچایا جائے غیر مسلم قوتیں مال دے کر مسلمانوں کے عقیدے خراب کرتی اور ان کو مرتد کرتی ہیں ۔ اسلام بھی ان پر مال خرچ کرکے ان کو مسلمان ہونے کی ترغیب دیتا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع اس بات پر ہوا تھا کہ اس دور میں مؤلّفة القلوب کو کچھ دینے کی ضرورت نہ رہی تھی ۔

آج بھی ضرورت نہ ہو تو آپ کو کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ضرور مؤلّفة القلوب کا مصرف پیدا کریں ۔ لیکن ضرورت ہو تو پھر آپ اس مد میں زکوٰۃ صرف کر سکتے ہیں ۔ جیسے دوسری مدات ہوں تو زکوٰۃ صرف کریں کوئی مدنہ ہو تو چھوڑ دیں بیت المال میں مال جمع کرا دیں ۔ یہ قرآنی حکم کا نسخ نہیں بلکہ علت نہ رہنے سے حکم ختم ہو گیا ، جیسے تیمم اس وقت تک کر سکتے ہیں جب تک پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو ۔ جونہی پانی پر قدرت حاصل ہوئی تیمم کا حکم ختم ۔ حکم علت کے ساتھ رہا ۔ ہمیشہ کےلیے منسوخ ہوا نہ ہر صورت میں نافذ ! یہی معاملہ ہے مؤلّفة القلوب کا جہاں جب ضرورت ہو صرف کریں ضرور ت نہ ہو مت کریں ۔ جیسے آئمہ احناف علیہم الرحمہ نے فرمایا : ان المقصود بالدفع الیهم کان اعزاز الاسلام لضنعفه فی ذلک الوقت لغلبه اهل الکفر فکان الاعزازیه فی الدفع فلما تبدل الحال بغلبته اهل الاسلام صار الااعزاز هو المقصود وهو باق علی جاله فلم یکن نسخا کالمتیم ۔ الخ (فتح القدیر شرح ہدایہ لابن الھمام ہے الکفایہ للخوارزمی 2 : 201)
ترجمہ : اس وقت اسلام کمزور تھا لہٰذا مؤلّفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا ۔ کیونکہ کافر غالب تھے پس اعزاز اسلام ان کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا۔ اہل اسلام کے غلبہ سے جب صورت حال بدل گئی اب غلبہ اہل اسلام ان کو زکوٰۃ نہ دینے میں ہوگیا پس اس (ابتدائی) زمانہ میں ان (مؤلّفتہ القلوب) کو دینا اور اس پچھلے دور میں نہ دینا (جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے کیا) غلبہ دین کے بمنزلہ ذریعہ و وسیلہ ہوا ۔ اصل مقصود غلبہ دین ہے اور وہ اسی طرح اب بھی باقی ہے ۔ پس نسخ نہ ہوا ۔ جیسے تیمم (کہ مجبوری کے وقت جائز ہو گیا اور مجبوری نہ رہی تو ختم ہو گیا نہ ہمیشہ کےلیے جائز نہ منسوخ) ۔ (شرح ہدایہ للخوارزمی فتح القدیر شرح ہدایہ لعلامہ ابن ہمام 2 : 201 طبع پاکستان)

پانچواں مصرف ۔  وفی الرقاب

گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا ، کمزور ، نادار ، اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنالیتے تھے ۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم ، مغلوب قوم کو اپنا غلام بناکر ان کے گھر بار زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قرار دیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً و اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا ۔ جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہو گئی جو مالک اپنے غلاموں لونڈیوں کو بلا معاوضہ آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے ۔ ان کو مالی معاوضہ دے کر غلاموں کو آزادی دلائی گئی ۔ مالک اپنے مملوک سے آزادی کےلیے جو مالی معاوضہ طلب کرے اسے بدل کتابت کہاجاتا ہے غلام مطلوبہ رقم ادا کر کے آزادی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور وہ رقم مال زکوٰۃ سے دی جا سکتی ہے ۔ یونہی جو مسلمان آج کل ظالم و غاصب کافروں سے اپنی اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء وآزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ محکوم و مظلوم مسلمان بھی مال زکوٰۃ کے مستحق ہیں ۔ اور اس قرآنی مصرف میں شامل ہیں ۔

چھٹا مصرف ۔ الغارمین

’’والغارمین‘‘ اور قرضداروں کو یعنی مال زکوٰۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کیے جا سکتے ہیں ۔

ساتواں مصرف ۔ وفی سبیل اللہ

’’اور اللہ کے راستے میں‘‘ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین مراد لیے ہیں اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ عازمین حج جو راستے میں مالی مدد کے محتاج ہوں ۔ کچھ علماء کے نزدیک طالب علم مراد ہیں ۔ امام کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ۔ وہ ’’فی سبیل اللّٰه ‘‘ عبارة عن جمیع القرب فید خل فیه کل من سعی فی طاعة اللّٰه و سبیل الخیرات اذا کان محتاجا‘‘ ۔ فی سبیل اللہ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام ، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ و دو کرے ۔ جب کہ (زکوٰۃ کا) حاجت مندہو ۔ (بدائع الصنائح، 2 : 45،چشتی)(تفسیر روح المعانی، 10 : 123)(درمختار مع ردالمختار للشامی، 2 : 343)

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان ظاهر اللفظ لایو جب القصر علی کل الغزاة ۔ ظاہر لفظ مجاہدین پر حصر لازم نہیں کرتا ۔ (تفسیر کبیر16 : 113 طبع بیروت)

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ساتواں مصرف قرآن کریم میں فی سبیل اللہ بیان فرمایا گیا ہے۔ بعض فقہاء کرام نے اس سے حج اور جہاد پر جانے والے وہ لوگ مراد لئے ہیں جو سفر اور متعلقہ ضروریات کے سلسلہ میں مالی تعاون کے طالب ہیں ان پر زکوٰۃ صرف کی جاسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ کتاب و سنت میں براہ راست یہ وضاحت نہیں کی گئی ۔ لہٰذا مجاہدین سے مراد اگر عام معنی مراد لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے یعنی وہ لوگ جو دین اسلام کی سر بلندی کےلیے جد و جہد میں مصروف ہیں خواہ وہ جہد فوجی میدان میں ہو خواہ تعلیمی میدان میں ، خواہ تبلیغی و تربیتی میدان میں جہاد کا مفہوم قتال و غزاء سے عام ہے ۔ پس جو لوگ ان محاذوں پر مصروف کار ہیں اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں تو زکوٰۃ سے ان کے وقتی یا مستقل وظائف مقرر کیے جا سکتے ہیں ۔

آٹھواں مصرف ’’ابن سبیل‘‘ مسافر

زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف مسافر ہے ۔ خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہو جائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو ، تو زکوٰۃ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی ۔ المراد الذی انقطعت به الاسباب فی سفره عن بلده ومستقره وماله فانه یعطی منها وان کان غنیا فی بلده ۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل واسباب گھر ٹھکانہ اور مال سے دور سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہیں ۔ اس کو مال زکوٰۃ سے دیاجائے گا اگرچہ اپنے شہر میں امیر ہو ۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 119،چشتی)(بدائع الصنائع کاسانی 2 : 46)(ہدایہ مع فتح القدیر لعلامہ ابن الھمام 2 : 204 ردالمختار شامی ج 2 : 343)

زکوٰۃ کی ادائیگی کےلیے ضروری ہے کہ متعلقہ فرد یا جماعت کو زکوٰۃ کا مالک بنادیا جائے تاکہ مالدار کا دینا اور حقدار کا لینا ثابت ہو جائے ۔ اسے تملیک یعنی مالک بنانا کہتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کےلیے یہ شرط ہے ۔ (عامہ کتب فقہ) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)

الحَمْدُ ِلله الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دور دراز دیہاتوں میں غریب بچوں کو مفت عصری و دینی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے : ⬇

رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں دین کا درد رکھنے والے اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ : الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : محمد جواد اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ، 03215555970 ، جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...