Friday 10 March 2023

فضائلِ توبہ و استغفار حصّہ اوّل

فضائلِ توبہ و استغفار حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام اللہ عزوجل کا ارشادِ مبارک ہے : وَ  الَّذِیْنَ  اِذَا  فَعَلُوْا  فَاحِشَةً  اَوْ  ظَلَمُوْۤا  اَنْفُسَهُمْ  ذَكَرُوا  اللّٰهَ  فَاسْتَغْفَرُوْا  لِذُنُوْبِهِمْ۫ ۔ وَمَنْ  یَّغْفِرُ  الذُّنُوْبَ  اِلَّا  اللّٰهُ  وَلَمْ  یُصِرُّوْا  عَلٰى  مَا  فَعَلُوْا  وَ  هُمْ  یَعْلَمُوْنَ ۔ اُولٰٓىٕكَ  جَزَآؤُهُمْ  مَّغْفِرَةٌ  مِّنْ  رَّبِّهِمْ  وَ  جَنّٰتٌ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُ  خٰلِدِیْنَ  فِیْهَاؕ-وَ  نِعْمَ  اَجْرُ  الْعٰمِلِیْنَ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 135 ، 136)
ترجمہ : اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اڑ نہ جائیں ۔ ایسوں کا بدلہ ان کے رب کی بخشش اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں اور کامیوں (نیک لوگوں ) کا کیا اچھا نیگ (انعام، حصہ) ہے ۔

پرہیزگاروں کے اوصاف  کا بیان جاری ہے اوریہاں ان کا مزید ایک وصف بیان فرمایا ، وہ یہ کہ اگر اُن سے کوئی کبیرہ یا صغیرہ گناہ سرزد ہو جائے تو وہ فوراً اللہ عزوجل کو یاد کر کے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ، اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں اور آئندہ کےلیے اس سے باز رہنے کا پختہ عزم کر لیتے ہیں اور اپنے گناہ پر اِصرار نہیں کرتے اور یہی مقبول توبہ کی شرائط ہیں ۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ تیہان نامی ایک کھجور فروش کے پاس ایک حسین عورت کھجوریں خریدنے آئی ۔ دکاندار نے کہا کہ یہ کھجوریں اچھی نہیں ہیں ، بہترین کھجوریں گھر میں ہیں ، یہ کہہ کر اس عورت کو گھر لے گیا اور وہاں جا کر اس کا بوسہ لے لیا اور اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا ۔ اس عورت نے کہا : اللہ عزوجل سے ڈر ۔ یہ سنتے ہی تیہان نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور شرمندہ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں سارا ماجرا عرض کیا ۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ ایک روایت یہ ہے کہ دو شخصوں میں بڑا پیار تھا ، ان میں سے ایک جہاد کےلیے گیا اور اپنا گھر بار دوسرے کے سپرد کر گیا ۔ ایک روز اُس مجاہد کی بیوی نے اُس انصاری سے گوشت منگایا ، وہ آدمی گوشت لے آیا ، جب اُس مجاہد کی بیوی نے گوشت لینے کےلیے ہاتھ آگے بڑھایا تو اس نے ہاتھ چوم لیا لیکن چومتے ہی اسے سخت شرمندگی ہوئی اور وہ جنگل میں نکل گیا اور منہ پر طمانچے مارنا اور سرپر خاک ڈالنا شروع کر دی ۔ جب وہ مجاہد اپنے گھر واپس آیا تو اپنی بیوی سے اپنے اُس دوست کا حال پوچھا ۔ عورت بولی کہ اللہ عزوجل ایسے دوست سے بچائے ۔ وہ مجاہد اُس کو تلاش کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لایا ۔ اس کے حق میں یہ آیات اتریں ۔ (تفسیر خازن سورہ اٰل عمران الآیۃ: ۱۳۵، ۱ / ۳۰۲) ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں واقعے اس آیت کا شانِ نزول ہوں ۔

وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗؕ-وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ كَبِیْرٍ ۔ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْۚ-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔ (سورہ ھود آیت نمبر 3 ، 4)
ترجمہ : اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا دے گا ایک ٹھہرائے وعدہ تک اور ہر فضیلت والے کو اس کا فضل پہنچائے گا اور اگر منہ پھیرو تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں۔ تمہیں اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے ۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں کو یہ حکم دیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگو اور آئندہ گناہ کرنے سے توبہ کرو تو جس نے اپنے گناہوں سے پکی توبہ کی اور اخلاص کے ساتھ رب تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بن گیا تو اللہ تعالیٰ اسے کثیر رزق اور وسعتِ عیش عطا فرمائے گا جس کی وجہ سے وہ امن و راحت کی حالت میں زندگی گزارے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا ، اگر دنیا میں اسے کسی مشقت کا سامنا بھی ہوا تو اللہ عزوجل کی رضا حاصل ہونے کی وجہ سے یہ اس کے درجات کی بلندی کا سبب ہو گی اور جو توبہ نہ کرے ، کفر اور گناہوں پر قائم رہے تو وہ خوف اور مرض میں مبتلا رہے گا اور اسے اللہ عزوجل کی ناراضی کا سامنا بھی ہو گا اگرچہ دنیا کی لذتیں اس پر وسیع ہو جائیں کیونکہ اس عیش میں کوئی بھلائی نہیں جس کے بعد جہنم نصیب ہو ۔ (تفسیر خازن سورہ ہود الآیۃ: ۳، ۲ / ۳۳۹-۳۴۰،چشتی)(تفسیر صاوی سورہ ہود الآیۃ: ۳، ۳ / ۸۹۹)

توبہ کی تعریف

جب بندے کو اس بات کی معرفت حاصل ہو جائے کہ گناہ کا نقصان بہت بڑا ہے ، گناہ بندے اور اس کے محبوب کے درمیان رکاوٹ ہے تو وہ اس گناہ کے ارتکاب پر ندامت اختیار کرتا ہے اور اس بات کا قصد و اِرادہ کرتا ہے میں گناہ کو چھوڑ دوں گا ، آئندہ نہ کروں گا اور جو پہلے کیے ان کی وجہ سے میرے اعمال میں جو کمی واقع ہوئی اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا تو بندے کی اس مجموعی کیفیت کو توبہ کہتے ہیں ۔ علم ندامت اور اِرادے ان تینوں کے مجموعے کا نام توبہ ہے لیکن بسا اوقات ان تینوں میں سے ہر ایک پر بھی توبہ کا اطلاق کردیا جاتا ہے ۔ (اِحیاء العلوم، ۴ / ۱۱)

اللہ عزوجل قرآنِ پاک میں ارشادفرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ ۔ (پ۲۸، التحریم: ۸) ۔ ترجمہ : اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے ۔

صدرالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : توبۂ صادِقہ جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو ، اُس کی زندگی طاعتوں اور عبادتوں سے معمور ہو جائے اور وہ گناہوں سے مجتنب (یعنی بچتا) رہے ۔ امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور دوسرے اَصحاب نے فرمایا کہ توبۂ نصوح وہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا ۔ (خزائن العرفان، پ ۲۸، التحریم ، تحت الآیۃ: ۸)

ہرمسلمان پر ہر حال میں ہر گناہ سے فوراً توبہ کرنا واجب ہے ، یعنی گناہ کی معرفت ہونے کے بعداس پر ندامت اختیار کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کرنا اور گزرے ہوئے گناہوں پر ندامت وشرمندگی اور افسوس کرنا بھی واجب ہے اور وجوبِ توبہ پر اِجماعِ اُمت ہے ۔ (احیاء العلوم، ج۴، ص۱۷)

گناہوں سے توبہ کرنے کا طریقہ

امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لیے کہ وہ اس کے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی تھی، نادِم وپریشان ہو کر‏فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہوبجا لائے۔مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب (ناجائز قبضہ)، سرقہ(چوری)، رشوت، ربا(سود)سے توبہ کی تو صرف آئندہ کے لیے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے جو نماز روزے ناغہ کیے ان کی قضا کرے، جو مال جس جس سے چھینا، چرایا، رشوت، سود میں لیا انہیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال تصدق (یعنی صدقہ)کردے اور دل میں یہ نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تصدق پر راضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انہیں پھیر دوں گا ۔ (فتاوی رضویہ،۲۱ / ۱۲۱)

اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ، رحمتِ خداوندی کس طرح اپنے امیدوار کو آغوش میں لیتی ہے ، اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مکی مدنی سرکار، جناب احمد مختار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ تَعَالٰی اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے، جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے پر شفقت کرتی ہے ۔ (مسلم، کتاب التو بۃ ،باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالی ، ص ۱۴۷۲، حدیث:۲۷۵۴)

جو بندہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے توبہ کی طرف نہیں بڑھتا تو اسے پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پر گناہوں کی سیاہی تہہ درتہہ جمتی رہتی ہے حتی کہ زنگ سارے دل کو گھیر لیتا ہے اور گناہ عادت وطبیعت بن کر رہ جاتا ہے اور پھر وہ صفائی کو قبول نہیں کرتا۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ اُسے بیماری یا موت آگھیرتی ہے اور اُسے گناہ کے اِزالے کی مہلت نہیں مل پاتی۔ اسی لیے روایت میں آیا ہے : دوزخیوں کی زیادہ چیخ وپکار توبہ میں ٹال مٹول کے سبب ہوگی ۔ (احیاء العلوم،۴ / ۳۸،چشتی)

کئی ہنستے بولتے انسان اچانک موت کا شکار ہوکر اندھیری قبر میں پہنچ جاتے ہیں، انہیں توبہ کا موقع ہی نہیں ملتا ، جب بندہ اچانک آنے والی موت کو یاد رکھے گا تو امید ہے اسے توبہ کا اسلامی ذہن نصیب ہوگا ۔ اسی لیے حکمت و دانائی کے پیکر حضرت حکیم لقمان رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت فرمائی : بیٹا ! توبہ میں تاخیر نہ کرنا کیونکہ موت اچانک آتی ہے ۔ (احیاء العلوم،۴ / ۳۸)

عموماً شیطان بندے کا یہ ذہن بناتا ہے کہ تو نے توبہ کرلی تو فلاں فلاں دُنیوی چیزوں سے محروم ہوجائے گا، فلاں معاملے میں تجھے دنیوی ترقی نہیں مل سکے گی، اس شیطانی وسوسے کی یوں کاٹ کیجئے کہ اگر اچانک مجھے موت آجائے توبھی یہ ساری دُنیوی نعمتیں چھن جائیں گی اور توبہ نہ کرنے کے سبب ربّ تَعَالٰی کی ناراضی کے ساتھ دنیا سے رخصتی ہوگی، کیوں نہ میں گناہوں سے توبہ کرکے ربّ تَعَالٰی کی رضا کے ساتھ دنیا سے رُخصت ہوجاؤں تاکہ ہمیشہ کی اُخروی نعمتیں نصیب ہوں۔فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے : جودنیا سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے تو (اے مسلمانو!) فنا ہونے والی چیز (یعنی دنیا) کو چھوڑ کر باقی رہنے والی چیز (یعنی آخرت) کو اختیار کر لو ۔ (مسند امام احمد، حدیث ابی موسی الاشعری، ۷ / ۱۶۵، حدیث: ۱۹۷۱۷،چشتی)

توبہ پر استقامت پانے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ بندہ سونے سے قبل اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرکے سوئے اور دو رکعت نماز صلاۃ التوبہ بھی ادا کر لے ، امید ہے کہ اس طرح توبہ پر استقامت پانے میں آسانی ہوگی ۔ توبہ پر استقامت پانے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہےکہ کسی بھی گناہ سے توبہ کرنے کے بعد فوراً بعد کوئی نیکی کرلیجیے کہ وہ نیکی اس گناہ کو مٹا دے گی اور آئندہ بھی توبہ پر توفیق نصیب ہوگی ۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے : گناہ کے بعد نیکی کرلو یہ اسے مٹادے گی ۔ (مسند امام احمد، حدیث معاذ بن جبل،۸ / ۲۴۵، حدیث: ۲۲۱۲۰)

جب بندہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا جو گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں تو امید ہے کہ اسے بھی توبہ کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب ہو جائے گی ، امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ ارشاد فرماتے ہیں : توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو کیونکہ وہ بہت زیادہ نرم دل ہوتے ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الزھد، کلام عمر بن الخطاب، ۸ / ۱۵۰، حدیث: ۲۴)

بعض گناہ صرف توبہ کرنے والے کی ذات تک محدود ہوتے ہیں ۔ مثلاً خود شراب پینا اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی طرف اس شخص نے کسی دوسرے کوراغب کیا ہوگا ، اسے گناہِ جاریہ بھی کہتے ہیں۔ مثلاً کسی کو شراب نوشی کی ترغیب دینا یا فحش ویب سائٹ دیکھنے کی ترغیب دینا وغیرہ ۔ جو گناہ اس کی ذات تک محدود ہوں ان سے مذکورہ طریقے کے مطابق توبہ کرے اور اگر گناہِ جاریہ کا ارتکاب کیا ہو تو جس طرح اس گناہ سے خود تائب ہوا ہے اس کی ترغیب دینے سے بھی توبہ کرے اور دوسرے شخص کو جس طرح گناہ کی رغبت دی تھی اب توبہ کی ترغیب دے ، جہاں تک ممکن ہو نرمی یا سختی سے سمجھائے ، اگر وہ مان جائے تو ٹھیک ورنہ یہ بری الذمہ ہوجائے گا ۔  (فتاویٰ رضویہ قدیم، ۱۰ / ۹۷)

(5) بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو پوشیدہ طورپر کیے۔ مثلاً اپنے کمرے میں فحش فلمیں دیکھنا جبکہ کچھ گناہ وہ ہوں گے جو اعلانیہ کیے مثلاًداڑھی منڈانا، سرعام شراب پیناوغیرہ۔ جو گناہ بندے اور اس کے رب عَزَّ وَجَلَّ کے درمیان ہو یعنی کسی پر ظاہر نہ ہوا ہو تو اس کی توبہ پوشیدہ طور پر کرے یعنی اپنا گناہ کسی پر ظاہر نہ کرے اور اگر گناہ اعلانیہ کیا ہو تو اس کی توبہ بھی اعلانیہ کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۱ / ۱۴۲)

توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرنا توبہ ہے اوراس آیت سے معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ توبہ وا ستغفار کرنا درازیٔ عمر اور رزق میں وسعت کےلیے بہتر عمل ہے ۔

جس نے دنیا میں نیک عمل کئے ہوں آخرت میں اللہ تعالیٰ اسے اجر و ثواب عطا فرمائے گا ۔ حضرت ابو عالیہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ، آیت کا معنی یہ ہے کہ جس کی دنیا میں نیکیاں زیادہ ہوں گی اس کی نیکیوں کا ثواب اور جنت میں درجات بھی زیادہ ہوں گے کیونکہ اعمال کے مطابق جنت کے درجات ملیں گے ۔ بعض مفسرین نے فرمایا : اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کےلیے عمل کیا تو اللہ تعالیٰ آئندہ کےلیے اسے نیک عمل اور اطاعت کی توفیق عطا فرمائے گا ۔ (تفسیر بغوی سورہ ہود الآیۃ: ۳، ۲ / ۳۱۴-۳۱۵)

آیت کے تیسرے معنی کے اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک نیکی اگلی نیکی کی توفیق کا ذریعہ بنتی ہے ، اس لیے نیکی کی ابتداء بہت عمدہ شے ہے ، جیسے فرائض کی ادائیگی کرتے رہیں گے تو نوافل کی طرف بھی دل مائل ہو ہی جائیں گے ، یونہی زبان سے ذکر کرتے رہیں گے تو دل بھی ذاکر ہو ہی جائے گا ۔ یہاں ایک اور بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ جتنی مستحب چیزوں پر عمل کی تاکید کرتے ہیں ا تنی فرائض پر عمل کی تاکید نہیں کرتے اور جب انہیں فرائض پر عمل کی تاکید کا کہا جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ جب لوگ مستحب پر عمل کرنا شروع ہو جائیں گے تو فرائض کے خود ہی پابند بن جائیں گے ،جبکہ ان کی مستحب پر عمل کی مسلسل تاکید کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے فرائض کے مقابلے میں مستحبات پرزیادہ عمل کرنا شروع کر دیا اور فرائض پر عمل میں کوتاہی کرنے لگ گئے ،اس لئے ہونا یہ چاہئے فرائض پر عمل کی ترغیب دینا اَوّلین تَرجیح ہو اور اس کے لئے کوشش بھی زیادہ ہو تاکہ لوگوں کی نظر میں فرائض کی اہمیت میں اضافہ ہو اور وہ فرائض کی بجا آوری کی طرف زیادہ مائل ہوں البتہ اس کے ساتھ مستحب پر عمل کا بھی ذہن دیا جائے تاکہ لوگوں میں زیادہ نیکیاں کرنے کاجذبہ پیدا ہو ۔

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قَالَ : کَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيْلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِيْنَ إِنْسَانًا، ثُمَّ خَرَجَ یَسْأَلُ فَأَتَی رَاھِبًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ : ھَلْ مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ : لَا، فَقَتَلَهُ فَجَعَلَ یَسْأَلُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : ائْتِ قَرْیَةَ کَذَا وَکَذَا، فَأَدْرَکَهُ الْمَوْتُ فَنَاءَ بِصَدْرِهِ نَحْوَھَا فَاخْتَصَمَتْ فِيْهِ مَلَائِکَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِکَةُ الْعَذَابِ، فَأَوْحَی اللهُ إِلَی ھَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِي وَأَوْحَی اللهُ إِلَی ھِذِهِ أَنْ تَبَاعَدِي وَقَالَ : قِيْسُوْا مَا بَيْنَھُمَا فَوُجِدَ إِلَی ھَذِهِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَلَهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل میں سے ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے اور پھر مسئلہ پوچھنے نکلا تھا (کہ اس کی توبہ قبول ہو سکتی یا نہیں)۔ وہ ایک راہب کے پاس آیا اور اس سے پوچھا : کیا (اس گناہ سے) توبہ کی کوئی صورت ممکن ہے؟ راہب نے جواب دیا : نہیں۔ اس نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا۔ پھر اس نے ایک اور شخص سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم فلاں بستی (میں جہاں نیک لوگ رہتے ہیں) جائو (ان کے ساتھ مل کر توبہ کرو۔) وہ اس بستی کی طرف روانہ ہوا لیکن ابھی نصف راستے میں بھی نہیں پہنچا تھا کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا کہ کون اس کی روح لے جائے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو (جہاں وہ توبہ کرنے کے لئے جا رہا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش کے قریب ہو جائے اور دوسری بستی کو (جہاں سے نکلا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سے دور ہو جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا : اب دونوں کا فاصلہ دیکھو (جس طرف کا فاصلہ کم ہو اسے اس بستی کے رہنے والوں کے حساب میں ڈال دو) اور جب فاصلہ ناپا گیا تو اس بستی کو (جہاں وہ توبہ کرنے جا رہا تھا) ایک بالشت نعش سے زیادہ قریب پایا اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الأنبیاء، باب : أم حسبت أن أصحاب الکهف والرقیم، 3 / 1280، الرقم : 3283، ومسلم في الصحیح، کتاب : التوبۃ، باب : قبول توبۃ القاتل وإن کثر قتله، 4 / 2119، الرقم : 2766، وابن ماجه في السنن، کتاب : الدیات، باب : ھل لقاتل مؤمن توبۃ، 2 / 875، الرقم : 2622)

2۔ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : کَيْفَ تَقُوْلُوْنَ بِفَرَحِ رَجُلٍ انْفَلَتَتْ مِنْهُ رَاحِلَتُهُ تَجُرُّ زِمَامَهَا بِأَرْضٍ قَفْرٍ لَيْسَ بِهَا طَعَامٌ وَلَا شَرَابٌ وَعَلَيْهَا لَهُ طَعَامٌ وَشَرَابٌ، فَطَلَبَهَا حَتَّی شَقَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ مَرَّتْ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ فَتَعَلَّقَ زِمَامُهَا فَوَجَدَهَا مُتَعَلِّقَةً بِهِ۔ قُلْنَا : شَدِيْدًا، یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : أَمَا وَاللهِ، لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنَ الرَّجُلِ بِرَاحِلَتِهِ ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَھَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ ۔
ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تم اس شخص کی خوشی کے متعلق کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی سنسنان جنگل میں اپنی نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی نکل جائے، جس سر زمین میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو اور اس اونٹنی پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں لدی ہوں، وہ شخص اس اونٹنی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے، پھر وہ اونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی نکیل اس تنے میں اٹک جائے اور اس شخص کو وہ اونٹنی اس تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ بہت خوش ہو گا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : سنو! بخدا، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص کی سواری کے (ملنے کی) بہ نسبت زیادہ خوشی ہوتی ہے ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں ۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الدعوات، باب : التوبۃ، 5 / 2324، الرقم : 5949، ومسلم في الصحیح، کتاب : التوبۃ، باب : في الحض علی التوبۃ والفرح بھا، 4 / 2104، الرقم : 2746، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 283، الرقم : 18515، وأبو یعلی في المسند، 3 / 257، الرقم : 1704،چشتی)

عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا، تَابَ اللهُ عَلَيْهِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مغرب سے سورج طلوع ہونے (یعنی آثار قیامت نمودار ہونے) سے پہلے پہلے توبہ کرلے گا، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا ۔ اس حدیث کو امام ـمسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : استحباب الاستغفار والاستکثار منه، 4 / 2076، الرقم : 2703، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 344، الرقم : 11179، وابن حبان في الصحیح، 2 / 396، الرقم : 629، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 395، الرقم : 9119)

رَوَی أَبُوْحَنِيْفَةَ رضي الله عنه عَنْ عَبْدِ الْکَرِيْمِ بْنِ مَعْقِلٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍص أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قَالَ : النَّدَمُ تَوْبَةٌ۔ رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : (گناہ پر) نادم ہونا ہی توبہ ہے ۔ اس حدیث کو امام ابو حنیفہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الخوارزمي في جامع المسانید للإمام أبي حنیفۃ، 1 / 98، وأخرج المحدثون ھذا الحدیث بأسانیدھم منھم : ابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر التوبۃ، 2 / 1420، الرقم : 4252، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 376، وابن حبان في الصحیح، 2 / 377، الرقم : 612،چشتی)

عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قَالَ : کُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِيْنَ التَّوَّابُوْنَ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ہر انسان خطاکار ہے اور بہترین خطا کار، توبہ کرنے والے ہیں ۔ اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : 49، 4 / 659، الرقم : 2499، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر التوبۃ، 2 / 1420، الرقم : 4251، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 62، الرقم : 34216، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 198، الرقم : 13072، وأبو یعلی في المسند، 5 / 301، الرقم : 2922، والحاکم في المستدرک، 4 / 272، الرقم : 7617)

عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قَالَ : إِنَّ الْمُؤْمِنَ، إِذَا أَذْنَبَ، کَانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ۔ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ۔ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتَّی تَغْلَفَ قَلْبُهُ۔ فَذَلِکَ الرَّانُ الَّذِي ذَکَرَهُ اللهُ فِي کِتَابِهِ {کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْن} ۔ [المطففین، 83 : 14]۔رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔ (لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ ’’رَانَ‘‘ (زنگ ) ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے : { کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِھِمْ مَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ} ’’(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں) ۔ اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن جبکہ حاکم نے کہ صحیح کہا ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ ویل للمطففین، 5 / 434، الرقم : 3334، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر الذنوب، 2 / 1418، الرقم : 4244، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 110، الرقم : 10251، 11658، وفي عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 317، الرقم : 418، والحاکم في المستدرک، 2 / 562، الرقم : 3908،چشتی)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قَالَ : إِنَّ اللهَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضي الله عنهما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک روح اس کے حلق میں پہنچ کر غر غر نہیں کرتی (یعنی جب تک وہ حالتِ نزع میں مبتلا نہیں ہوتا) ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن جبکہ حاکم نے کہ صحیح کہا ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : في فضل التوبۃ والاستغفار وما ذکر من رحمۃ الله لعباده، 5 / 547، االرقم : 3537، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر التوبۃ، 2 / 1420، الرقم : 4253، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 173، الرقم : 35077، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 153، الرقم : 6408، والحاکم في المستدرک، 4 / 286، الرقم : 7659)

8۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَقَالَ الْھَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : گناہ سے (سچی) توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور ہیثمی نے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر التوبۃ، 2 / 1419، الرقم : 4250، والطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 150، الرقم : 10281، والبیهقي في السنن الکبری، 10 / 154، وفي شعب الإیمان عن ابن عباس، 5 / 436، الرقم : 7178، وابن الجعد في المسند، 1 / 266، الرقم : 1756)

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللهُ لَهُ مِنْ ضِيْقٍ مَخْرَجًا وَمِنْ کُلِّ ھَمٍّ فَرَجاً، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص پابندی کے ساتھ استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر غم سے نجات اور ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کے وہم و خیال میں بھی نہ ہو ۔ اس حدیث کو امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : في الاستغفار، 2 / 85، الرقم : 1518، وابن ماجه في السنن، کتاب : الأدب، باب : الاستغفار، 2 / 1254، الرقم : 3819، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 248، الرقم : 2234، والطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 281، الرقم : 10665، والحاکم في المستدرک، 4 / 291، الرقم : 7677)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : إِنْ کُنَّا لَنَعُدُّ لِرَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فِي الْمَجْلِسِ الْوَاحِدِ مِائَةَ مَرَّةٍ : رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ ، وَابْنُ مَاجَه ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم گنا کرتے تھے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک مجلس کے اندر سو مرتبہ کہا کرتے۔ اے رب! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بے شک تو توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے ۔ اس حدیث کو امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : في الاستغفار، 2 / 85، الرقم : 1516، وابن ماجه في السنن، کتاب : الأدب، باب : الاستغفار، 2 / 1253، الرقم : 3814، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 57، الرقم : 29443، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 21، الرقم : 4726)

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : صَلَّی رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الضُّحَی ثُمَّ قَالَ : اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ حَتَّی قَالَھَا مِائَةَ مَرَّةٍ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ ۔
ترجمہ : اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز چاشت ادا فرمائی، پھر سو مرتبہ فرمایا : اے اللہ میری مغفرت فرما، میری توبہ قبول فرما، بے شک تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور مغفرت فرمانے والا ہے ۔ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن الکبری، 6 / 32، الرقم : 9935، والبخاري في الأدب المفرد : 217، الرقم : 619، وابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : 553)

عَنْ سَعِيْدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ : جَاءَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وَنَحْنُ جُلُوْسٌ فَقَالَ : مَا أَصْبَحْتُ غَدَاةً قَطُّ إِلَّا اسْتَغْفَرْتُ اللهَ فِيْھَا مِائَةَ مَرَّةٍ ۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَالنَّسَائِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت سعید بن ابی بردہ اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے درانحالیکہ ہم سبھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کوئی صبح طلوع نہیں ہوتی مگر میں اس میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں ۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور نسائی نے روایت کیا ہے ۔
(أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 172، الرقم : 35075، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 115، الرقم : 10275، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 196، الرقم : 558، والطبراني في الدعائ : 510، الرقم : 1809)

13۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قَالَ : إِنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ : وَعِزَّتِکَ یَا رَبِّ، لَا أَبْرَحُ أُغْوِي عِبَادَکَ مَادَامَتْ أَرْوَاحُھُمْ فِي أَجْسَادِھِمْ۔ قَالَ الرَّبُّ : وَعِزَّتِي وَجَـلَالِي، لَا أَزَالُ أَغْفِرُ لَھُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِي ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلَی وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : شیطان نے (بارگاهِ الٰہی میں) کہا : (اے اللہ!) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رہیں گی، گمراہ کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا ۔ اس حدیث کو امام احمد، ابو یعلی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 29، الرقم : 11255، 11747، وأبو یعلی في المسند، 2 / 530، الرقم : 1399، والحاکم في المستدرک، 4 / 290، الرقم : 7672، والدیلمی في مسند الفردوس، 3 / 199، الرقم : 4559،چشتی)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : إِنَّ لِلْقُلُوْبِ صَدَأً کَصَدَإِ الْحَدِيْدِ وَجِلَاؤُھَا الْاِسْتِغْفَارُ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ بِإِسْنَادِهِ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : لوہے کی طرح دلوں کا بھی ایک زنگ ہے اور اس کا پالش استغفار ہے ۔ اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے اپنی اپنی سند سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 307، الرقم : 509، وفي المعجم الأوسط، 7 / 74، الرقم : 6894، والبیھقي في شعب الإیمان، 1 / 441، الرقم : 649، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2 / 310، الرقم : 2507، والھیثمی في مجمع الزوائد، 10 / 207)

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : لِلْجَنَّةِ ثَمَانِیَةُ أَبْوَابٍ، سَبْعَةٌ مُغْلَقَةٌ وَبَابٌ مَفْتُوْحٌ لِلتَّوْبَةِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ نَحْوِهِ ۔ رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت (عبد اللہ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جنت کے آٹھ دروازے ہیں، سات دروازے بند ہیں اور ایک دروازہ توبہ کے لئے اس وقت تک کھلا ہے جب تک سورج اس طرف سے (یعنی مغرب کی طرف سے) طلوع نہیں ہوتا ۔ اسے ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أبو یعلی في المسند، 8 / 429، الرقم : 5012، والطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 254، الرقم : 10479، والحاکم في المستدرک، 4 / 290، الرقم : 7671،چشتی)

عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یَقُوْلُ : اَللَّھُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِيْنَ إِذَا أَحْسَنُوْا اسْتَبْشَرُوْا وَإِذَا أَسَاءُ وْا اسْتَغْفَرُوْا ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا کرتے تھے : اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نیکی کریں تو خوش ہوں اور خطا کر بیٹھیں تو استغفار کریں ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 68) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...