فضائل و مناقب ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
محترم قارئینِ کرام : ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں ۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ ان کے والد کا نام خویلد بن اسد تھا جوکہ قریش کے بہت مالدار سردار تھے ۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی ۔ انہوں نے اپنا کاروبار تجارت اور مال اپنی وفات سے پہلے اپنی اس ذہین اور معاملہ فہم بیٹی کے سپرد کر دیا تھا ۔ سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقدِ نکاح میں آنے والی خوش نصیب خاتون ام المؤمنین حضرت خدیجۃُ الکبری رضی اللہ عنہا ہیں ، آپ کا نام خدیجہ بنتِ خویلد ، والِدہ کا نام فاطمہ ہے ۔ (اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 81)
آپ کی کنیت اُمُّ الْقَاسِم ، اُمِّ ھِند اور القاب الکبریٰ ، طاھِرہ اور سَیِّدَۃُ قُرَیْش ہیں ، آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت عامُ الفیل سے 15سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔ عقدِ نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار و عمل سے مُتاثِر ہو کر آپ رضی اللہ عنہا نے پیغامِ نکاح بھیجا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمایا ، یوں یہ بابرکت نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ شام سے واپسی کے 2 ماہ 25 دن بعد منعقد ہوا ۔ (المواہب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 101) ۔ اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر مبارک 40 برس تھی ۔ (الطبقات الکبرٰی جلد 8 صفحہ 13)
رب عزوجل کا سلام ایک بار جبریلِ امین علیہ السلام نے بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہو کر عرض کی : یا رَسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا برتن لارہی ہیں جس میں کھانا اور پانی ہے جب وہ آجائیں تو انہیں ان کے رب کا اور میراسلام کہہ دیں اور یہ بھی خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان کےلیے موتی کا ایک گھر بنا ہے جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 565 حدیث نمبر 3820)
نماز سے محبت آپ رضی اللہ عنہا نمازکی فرضیت سے پہلے بھی نماز ادا فرماتی تھیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 83)
جذبۂ قُربانی آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی ساری دولت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر قربان کردی اور اپنی تمام عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خِدمَت کرتے ہوئے گزار دی ۔ (سیرت مصطفے صفحہ 95)
جود و سخا آپ رضی اللہ عنہا کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ ایک بار قحط سالی اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کی وجہ سے حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں تو آپ نے انہیں 40 بکریاں اور ایک اُونٹ تحفۃً پیش کیا ۔ (الطبقات الكبرٰى جلد 1 صفحہ 92)
خصوصیات : (1) عورتوں میں سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا نےاسلام قبول کیا ۔ (الاستیعاب جلد 4 صفحہ 380) ۔ (2) آپ رضی اللہ عنہا کی حَیَات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی اور سے نِکاح نہ فرمایا ۔(صحیح مسلم صفحہ 1016 حدیث نمبر 6281) ۔ (3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد سِوائے حضرتِ ابراہیم رضی اللہ عنہا کے آپ رضی اللہ عنہا ہی سے ہوئی ۔ (المواہب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 391)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ عزوجل کی قسم خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب لوگوں نے میرا انکار کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کےلیے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہیں کے شکم سے اللہ تعالٰی نے مجھے اولاد عطا فرمائی ۔ (الاصابہ جلد 8 صفحہ 103)
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گھر بیٹھے اپنی ذہانت و قابلیت اور معاملہ فہمی کی بدولت اپنی تجارت کو چار چاند لگا دیے ۔ کبھی کبھار وہ قسمت و مقدر کے بارے میں سوچا کرتیں کہ پتا نہیں اللہ کو کیا منظور ہے ۔ ایک طرف اللہ نے انہیں بھائیوں سے محروم کر دیا تو دوسری طرف انہیں ازدواجی زندگی میں پے در پے صدمات برداشت کرنا پڑے ۔ ان کے پہلے خاوند ابو ہالہ بن زرارہ تھے جو شادی کے کچھ ہی عرصے بعد فوت ہوگئے ۔ ان سے ان کے دو بیٹے تھے ۔ ان کی دوسری شادی بنو مخزوم کے بہت خوش خلق نوجوان عتیق بن عابد سے ہوئی لیکن وہ بھی نہایت مختصر عرصے بعد داغِ مفارقت دے گئے ۔ ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو صحابیہ بھی ہیں اور ان کا نام ہند رضی اللہ عنہا بیان کیا گیا ہے ۔
نسب شریف
ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی ۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافعِ یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے ۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام ہند ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہا کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم در ذکر ازواج مطہرات وی ، جلد ۲ صفحہ ۴۶۴،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کل سات بچے عطا فرمائے تھے ۔ ان میں حضرت سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ باقی سب بچے حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ یہ بھی کمال ہے کہ اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو بیٹے اور چار بیٹیاں اس عظیم خاتون سے مرحمت ہوئیں لیکن دونوں بیٹے قاسم اور عبداللہ بچپن ہی میں اللہ نے واپس لے لیے جبکہ بیٹیاں حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا ، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن جوانی کی عمر کو پہنچیں ۔
حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : خير نسائها خديجة بنت خويلد و خير نسائها مريم بنت عمران ۔
ترجمہ : (اپنے زمانہ کی عورتوں میں) سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ہیں ، اور (اپنے زمانہ کی عورتوں میں) سب سے افضل مریم بنت عمران ہیں ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح ، 5: 702،رقم: 3877،چشتی)
اسی طرح ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھے جتنا رشک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ہوا اتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی دوسری زوجہ پر نہیں ہوا ۔ حالانکہ میں نے ان کا زمانہ نہیں پایا ۔ اس رشک کی وجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں کثرت سے یاد کرنا ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بکری ذبح کرتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت کا ہدیہ بھیجتے ۔ (ترمذی الجامع الصحیح، رقم الحدیث:3876)
نکاح کے بعد پچیس برس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں رہیں اور نبوت کے دسویں سال پینسٹھ برس کی عمر میں انتقال فرمایا ۔ ان کے انتقال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود قبر مبارک میں اتر کر ان کو دفن فرمایا تھا۔
حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوطالب کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہر جانا بہت کم کردیا اور گھر میں ہی قیام فرمارہے تھے ۔ ادھر قریش کو ایذا رسانی کا وہ موقعہ ہاتھ آگیا جو انہیں کبھی میسر نہیں ہوا تھا اور نہ ہی وہ اس کی امید کرسکتے تھے ۔ (الوفاء، امام عبدالرحمن ابن جوزی، ص258)
صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں جبرائیل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کیا: اے اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں ان سے ان کے رب کا سلام فرمانا ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا الحدیث ۲۴۳۲،ص۱۳۲۲)
مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،سیدہ فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ تعالیٰ عنہا امراه فرعون ہیں ۔ (المسندللامام احمدبن حنبل،چشتی)(مسند عبداللہ بن عباس الحدیث ۲۹۰۳ جلد ۱ صفحہ ۶۷۸)
سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مالدار ہونے کے علاوہ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں ۔ بکثرت قریشی آپ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے خواہشمند تھے لیکن آپ رضی اللہ عنہا نے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بلکہ سیدہ رضی اللہ عنہا نے سرکار ابدِ قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا ۔ سردارِ کُل جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے چچا ابوطالب ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر رؤساء کے ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لائے ۔ جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا ۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا ۔ (مدارج النبوت قسم دوم باب دوم درکفالت عبد المطلب الخ جلد ۲ صفحہ ۲۷)
بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس برس اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد،تسمیۃ النساء ... الخ ، ذکرخدیجہ بنت خولید جلد ۸ صفحہ ۱۳)
جب تک آپ رضی اللہ عنہا حیات رہیں آپ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ ، باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا الحدیث ۲۴۳۵ صفحہ ۱۳۲۴)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوئی ۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے ۔ فرزندوں میں حضرت قاسم اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب ، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہن ہیں ۔ (السیرۃالنبویۃلابن ہشام،حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدیجۃ ، اولادہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صفحہ ۷۷،چشتی)(اسدالغابۃ،کتاب النساء ، خدیجۃ بنت خولید جلد ۷ صفحہ ۹۱)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں کرتی جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ، حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پاچکی تھیں ، لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا (کثرت سے) ذکر فرماتے ہوئے سنتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرمایا کہ خدیجہ کو موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجیے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی سہیلیوں کو اتنا گوشت بھیجتے جو اُنہیں کفایت کر جاتا ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبی، باب : تزويج النبي صلی الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1388، الرقم : 3605، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم : 2435، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 58، الرقم : 24355، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 307، الرقم : 14574)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آ کر عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خدیجہ ہیں جو ایک برتن لے کر آرہی ہیں جس میں سالن اور کھانے پینے کی چیزیں ہیں ، جب یہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کا اور میرا سلام کہیے اور انہیں جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجیے ، جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ہو گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3609، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1887، الرقم : 2432، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم : 32287،چشتی)
حضرت اسماعیل سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بشارت دی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا ، ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں (جنت میں) ایسے محل کی بشارت دی تھی جو موتیوں سے بنا ہو گا اور اس میں نہ شورو غل ہوگا اور نہ کوئی اور تکلیف ہو گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3608، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1887، الرقم : 2433، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم : 32288)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریم ہیں اور (اسی طرح) اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت خدیجہ ہیں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1388، الرقم : 3604، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1886، الرقم : 2430، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم : 32289،چشتی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کرنا سمجھ کر کچھ لرزہ براندام سے ہوگئے۔ پھر فرمایا : خدایا ! یہ تو ہالہ ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے رشک ہوا ۔ پس میں عرض گزار ہوئی کہ آپ قریش کی ایک سرخ رخساروں والی بڑھیا کو اتنا یاد فرماتے رہتے ہیں ، جنہیں فوت ہوئے بھی ایک زمانہ بیت گیا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کا نعم البدل عطا نہیں فرما دیا ہے ؟ ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3610، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم : 2437، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 7 / 307، الرقم : 14573)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ مطہرہ پر اتنا رشک نہیں آتا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر، حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں ہے ، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر ان کا ذکر فرماتے رہتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے تو اس کے اعضاء کو علیحدہ علیحدہ کر کے انہیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ملنے والی عورتوں کے ہاں بھیجتے ۔ کبھی میں اتنا عرض کر دیتی کہ دنیا میں کیا حضرت خدیجہ کے سوا اور کوئی عورت نہیں ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : ہاں وہ ایسی ہی یگانہ روزگار تھیں اور میری اولاد بھی ان سے ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3607،چشتی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر رشک نہیں کیا، سوائے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے (یعنی میں ان پر رشک کیا کرتی تھی) اور میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی بکری ذبح کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ اس کا گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے ہاں بھیج دو ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ایک دن غصہ میں آگئی اور میں نے کہا : خدیجہ ، خدیجہ ہی ہو رہی ہے ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خدیجہ کی محبت مجھے عطا کی گئی ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم : 2435، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 467، الرقم : 7006)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں فرمائی یہاں تک کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم : 2436، و الحاکم في المستدرک، 3 / 205، الرقم : 4855، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 429، الرقم : 1475)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا کہ میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر رشک کیا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا کثرت سے ذکر فرمایا کرتے تھے حالانکہ میں نے ان کو کبھی بھی نہیں دیکھا تھا ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم : 2435)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کسی عورت پر اس قدر رشک نہیں کیا جس قدر کہ میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر رشک کیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا میری شادی سے تین سال پہلے وفات پا چکی تھیں (اور میں یہ رشک اس وقت کیا کرتی تھی) کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردگار نے حکم فرمایا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں خولدار موتیوں سے بنے ہوئے گھر کی خوشخبری دے دو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی بکری ذبح کرتے تھے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو گوشت بھیجا کرتے تھے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم : 2435،چشتی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے (اتباع و اقتداء کرنے کے) لیے چار عورتیں ہی کافی ہیں ۔ مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فرعون کی بیوی آسیہ ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فضل خديجة، 5 / 702، الرقم : 3878، و أحمد في المسند، 3 / 135، الرقم : 12414، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 464، الرقم : 7003، و الحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم : 4745)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مکہ مکرمہ والوں نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو حضرت زینب (بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ابوالعاص کے فدیہ میں مال بھیجا جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وہ ہار بھی تھا جو انہیں (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے) جہیز میں ملا تھا جب ابو العاص سے ان کی شادی ہوئی تھی ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرط غم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل بھر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہو گئی فرمایا : اگر تم مناسب سمجھو تو اس (حضرت زینب) کے قیدی کو چھوڑ دیا جائے اور اس کا مال اسے واپس دے دیا جائے ؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (ابو العاص) سے عہد و پیمان لیا کہ زینب کو آنے سے نہیں روکے گا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ اور ایک انصاری کو بھیجا کہ تم یاجج کے مقام پر رہنا یہاں تک کہ زینب تمہارے پاس آ پہنچے۔ پس اسے ساتھ لے کر یہاں آ پہنچنا ۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في فداء الأسير بالمال، 3 / 62، الرقم : 2692، وأحمد في المسند، 6 / 276، الرقم : 26405، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 428، الرقم : 1050)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے درآنحالیکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہ پر سلام بھیجتا ہے اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : بیشک سلام اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جبرائیل علیہ السلام پر سلامتی ہو اور آپ پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں ۔ (أخرجه النسائي في السنن الکبري، 6 / 101، الرقم : 10206، و الحاکم في المستدرک، 3 / 206، الرقم : 4856)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر چار خطوط کھینچے اور دریافت فرمایا ؛ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جنت کی بہترین عورتیں ہیں جو کہ حضرت خدیجہ بنت خویلد ، حضرت فاطمہ بنت محمد ، آسیہ بنت مزاحم جو کہ فرعون کی بیوی ہے اور حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ عنھن ہیں ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 293، الرقم : 2668، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 470، الرقم : 7010، و الحاکم في المستدرک، 2 / 539، الرقم : 3836)
امام ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا عورتوں میں سے سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 203، الرقم : 4844، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 367، الرقم : 12859، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 30، الرقم : 16،چشتی)
امام ابن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز فرض ہونے سے پہلے خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلی خاتون تھیں جو اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے برحق ہونے) کی تصدیق کی ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 203، الرقم : 4845، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 249، الرقم : 1099، و ابن عبدالبر في التمهيد، 8 / 51، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 117، والزهري في الطبقات الکبري، 8 / 18، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 220)
حضرت ربیعہ سعدی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ یمانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا تمام جہاں کی عورتوں سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 203، الرقم : 4846، والمناوي في فيض القدير، 3 / 431، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 116)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کبھی بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے تو ان کی خوب تعریف فرماتے : آپ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں غصہ میں آ گئی اور میں نے کہا کہ آپ سرخ رخساروں والی کا تذکرہ بہت زیادہ کرتے ہیں حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سے بہتر عورتیں اس کے نعم البدل کے طور پر آپ کو عطا فرمائی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر بدل عطا نہیں فرمایا وہ تو ایسی خاتون تھیں جو مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے اور میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اپنے مال سے اس وقت میری ڈھارس بندھائی جب لوگ مجھے محروم کر رہے تھے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری عورتوں سے مجھے اولاد عطا فرمانے سے محروم رکھا ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 117، الرقم : 24908، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 13، الرقم : 22، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 8، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 604، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 117، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 224،چشتی)
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے تھے تو ان کی تعریف اور ان کےلیے استغفار و دعائے مغفرت کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے ۔ پس ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ فرمایا تو مجھے غصہ آ گیا یہاں تک کہ میں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اس بڑھیا کے عوض (حسین و جمیل) بیویاں عطا فرمائی ہیں ۔ پس میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شدید جلال میں آ گئے ، (یہ صورتحال دیکھ کر) میں نے اپنے دل میں کہا : اے اللہ اگر آج تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصہ کو ٹھنڈا کر دے تو میں کبھی بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا برے لفظوں میں تذکرہ نہیں کروں گی ۔ پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا : تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو ؟ حالانکہ ، خدا کی قسم ! وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے اور میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور میری اولاد بھی ان کے بطن سے پیدا ہوئی جبکہ تو اس سے محروم ہے ، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ماہ تک اسی حالت (یعنی قدرے ناراضگی کی حالت میں) صبح و شام آتے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 13، الرقم : 21، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 112، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 31، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 224،چشتی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کوئی چیز پیش کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اس کو فلاں خاتون کے گھر لے جاؤ کیونکہ یہ خدیجہ کی سہیلی ہے ، اس کو فلاں خاتون کے گھر لے جاؤ کیونکہ یہ خدیجہ سے محبت رکھتی تھی ۔ (أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 90، الرقم : 232، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 41، الرقم : 40،چشتی)
آپ رضی اللہ عنہا تقریباً پچیس سال حضور پرنور شافع یو م النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات رہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کا وصال بعثت کے دسویں سال دس (10) ماہ ِ رمضان المبارک کو ہوا ۔ اور مقبرہ حجون میں مدفون ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی ۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی ۔ اس سانحہ پر رحمت عالمیان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ ملول و محزون ہوئے ۔ (مدارج النبوت قسم پنجم باب دوم در ذکر ازواج مطہرات جلد ۲ صفحہ ۴۶۵)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے ۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لیے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیاں تھیں ۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا الحدیث ۲۴۳۵ صفحہ ۱۳۲۳)
وصال شریف آپ رضی اللہ عنہا تقریباً 25 سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریکِ حیات رہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کا وصال بعثت (یعنی اعلانِ نبوت) کے دسویں سال دس رمضان المبارک میں ہوا آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جنّتُ المعلیٰ میں مدفون ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی نمازِ جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی (یعنی شرعاً اس کا آغاز نہ ہوا تھا) ، بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی ، آپ کی وفات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت غمگین ہوئے ۔ (مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 465) ۔ جس سال آپ کی وفات ہوئی اسے ’’عام الحزن (غم کا سال)‘‘ قرار دیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment