فضائلِ توبہ و استغفار حصّہ پنجم
توبہ کرنے والوں کے چند نصیحت آموز واقعات : ⬇
حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے سات سے بھی زیادہ مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ واقعہ بیان فرماتے سنا ۔ بنی اسرائیل میں کِفْل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے نہیں بچتا تھا ، ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺭﺍﺕ ﺩﻥ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﯿﺎﮦ ﮐﺎﺭﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﮨﻮ ۔ ﻧﻔﺲ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ
ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﮐﯽ ﮨﻮ ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺳﺎﭨﮫ ﺩﯾﻨﺎﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺑﺪﮐﺎﺭﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮐﯿﺎ ۔ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮮ
ﭘﺮ ﻣﺴﺘﻌﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻧﯿﮏ بخت بیدِ ﻟﺮﺯﺍﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﮭﺮﺍﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﺟﮭﮍﯾﺎﮞ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻓﻖ ﭘﮍﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺭﻭﻧﮕﭩﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯﮨﯿﮟ ، ﮐﻠﯿﺠﮧ ﺑﺎﻧﺴﻮﮞ ﺍﭼﮭﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ، ﮐﻔﻞ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮈﺭ ، ﺧﻮﻑ ، ﺩﮨﺸﺖ ﺍﻭﺭ ﻭﺣﺸﺖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ؟ ﭘﺎﮎ ﺑﺎﻃﻦ ، ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻟﻨﻔﺲ ، ﺑﺎﻋﺼﻤﺖ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺑﺪﯾﺘﯽ ﮨﮯ ن ﻣﺠﮭﮯ اللہ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺑﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺯﺑﻮﮞ ﮐﺎﻡ ﮐﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ اللہ ﻧﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﻓﻌﻞ ﺑﺪ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺎﻟﮏ ﺫﻭﺍﻟﺠﻼﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺫﻟﯿﻞ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ۔ ﻣﻨﻌﻢِ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻣﺤﺴﻦ ﻗﺪﯾﻤﯽ
ﮐﯽ ﯾﮧ ﻧﻤﮏ ﺣﺮﺍمی ﮨﮯ ۔ ﻭاللہ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ اللہ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﺟﺮﺍﺕ ﻧﮧ ﮐﯽ ۔ ﮨﺎﺋﮯ ﺣﺎﺟﺖ ﺍﻭﺭ ﻓﻘﺮ ﻭ ﻓﺎﻗﮧ ، ﮐﻢ ﺻﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍﺳﺘﻘﻼﻟﯽ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺭﻭﺯ ﺑﺪ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺼﻤﺖ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭼﮭﻮﺕ ﺩﺍﻣﻦ ﭘﺮ ﺩﮬﺒﮧ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮮ ﮐﻔﻞ ! ﺑﺨﺪﺍﺋﮯ ﻻﯾﺰﺍﻝ ، ﺧﻮﻑ اللہ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﮭﻼﺋﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺑﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮭﭩﮑﺎ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮐﯿﻄﺮﺡ ﮐﮭﭩﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﮨﺎﺋﮯ ﺁﺝ ﮐﺎ ﺩﻭ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﺎ ﻟﻄﻒ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺧﻮﻥ ﺗﮭﮑﻮﺍﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻟﮩٰﯽ ﮐﺎ ﻟﻘﻤﮧ ﺑﻨﻮﺍﺋﮯ ﮔﺎ ۔ ﺍﮮ ﮐﻔﻞ اللہ کےلیے ﺍﺱ ﺑﺪﮐﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﺑﺎﺯ ﺁ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﮐﺮ ۔ ﺁﺧﺮ اللہ ﮐﻮ ﻣﻨﮧ ﺩﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﻧﯿﮏ ﻧﮩﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮎ ﺑﺎﻃﻦ ﺍﻭﺭ ﻋﺼﻤﺖ ﺑﺂﺏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﯽ ﭘﺮ ﺍﺛﺮ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻟﻮﺙ ﻣﺨﻠﺼﺎﻧﮧ ﺳﭽﯽ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺮ ﺻﻮﺍﺑﯽ ﻧﮯ ﮐﻔﻞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﺛﺮ ﮈﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﺳﭽﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻝ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ۔ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮔﮭﯿﺮ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻟﮩٰﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﻓﻨﺎﮎ ﺷﮑﻠﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﮐﺮ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺣﺘﯽٰ ﮐﮧ ﺩﺭ ﻭ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺟﺴﻢ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ، ﻗﺪﻡ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺩﻝ ﺗﮭﺮﺍ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ﺳﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﻔﻞ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ . ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﯿﺎﮦ ﮐﺎﺭﯾﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺭﻭ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯﻟﮕﺎ ۔ ﺍﮮ ﭘﺎﮐﺒﺎﺯ ﻋﻮﺭﺕ ! ﺗﻮ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﮔﻨﺎﮦ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﮐﺮﺩﮦ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮐﺒﺮﯾﺎﺋﮯ ﺫﻭﺍﻟﺠﻼﻝ ﺳﮯ ﻟﺮﺯﺍﮞ ﮨﮯ ۔ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺪﮐﺎﺭﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﮧ ﺍﻋﻤﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﺎﻣﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﯿﺎﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ ﺧﻮﻑ اللہ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺑﮭﭩﮑﻨﮯ ﺩﯾﺎ ۔ ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻟﮩٰﯽ ﮐﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻧﮧ ﮐﯽ ۔ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺎﻟﮏ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻏﺼﮯ ﮨﻮﮔﺎ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﮐﮯ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﻣﯿﺮی تاﮎ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ۔ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﯽ ﻏﯿﻆ ﻭ ﻏﻀﺐ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﺮ ﺁﻟﻮﺩﮦ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻧﭗ ﺑﭽﮭﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﯼ نسبت زﯾﺎﺩﮦ ﮈﺭﻧﺎ ﮈﭼﺎﮨﯿﮯ ۔ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥِ ﻣﺤﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﮔﺎ ۔ ﺍﮮ ﺑﺰﺭﮒ ﻋﻮﺭﺕ ﮔﻮﺍﮦ ﺭﮦ ۔ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺳﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ۔ اللہ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﭘﮭﭩﮑﻮﮞ ﮔﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺭﻗﻢ ﺗﻤﮩﯿﮟ اللہ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﭘﺎﮎ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ کےلیے ﺑﺎﺯ ﺁﯾﺎ ۔ ﭘﮭﺮ ﮔﺮﯾﮧ ﺯﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺏ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺗﻮﺑﮧ ﻭ ﺍﺳﺘﻐﻔﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﺭﻭ ﺭﻭ ﮐﺮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮨﯽ ﺩﮬﻮﺗﺎ ﮨﮯ . ﺩﺍﻣﻦ ﺍﻣﯿﺪ ﭘﮭﯿﻼ ﮐﺮﺩﺳﺖ ﺩﻋﺎ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺍلٰہَ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺮﮐﺸﯽ ﺳﮯ ﺩﺭﮔﺰﺭ ﻓﺮﻣﺎ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﺍﻣﻦ ﻋﻔﻮ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﻟﮯ ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺸﻢ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺬﺍﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ ۔ نبی کریم ﺻﻠﯽ ﷲ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﯽ ﺭﺍﺕ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ ۔ ﺻﺒﺢ ﮐﻮ ﻟﻮﮒ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﻗﺪﺭﺗﺎً ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ فَأَصْبَحَ مَكْتُوبًا عَلَى بَابِهِ ، صبح اس کے گھر کے دروازے پر لکھا ہوا تھا : إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لِلْكِفْلِ ، بے شک اللہ عزوجل نے کِفْل کو بخش دیا ہے ۔ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﯾﮧ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﻧﮧ ﻟﮑﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻻﺵ ﮐﻮ ﺩﻓﻦ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﮭﺮ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺣﻠﯿﮧ ﺧﺮﺍﺏ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ۔ (ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب فیہ أربعۃ أحادیث ، ۴ / ۲۲۳ ، حدیث : ۲۵۰۴)
بصرہ ميں ايک انتہائی حسين و جميل عورت رہا کرتی تھی ۔ لوگ اسے "شعوانہ" کے نام سے جانتے تھے ۔ ظاہری حسن و جمال کے ساتھ ساتھ اس کی آواز بھی بہت خوبصورت تھی ۔ اپنی خوبصورت آواز کی وجہ سے وہ گائيکی اور نوحہ گری میں مشہور تھی۔ بصرہ شہر ميں خوشی اور غمی کی کوئی مجلس اس کے بغير ادھوری تصور کی جاتی تھی۔ يہی وجہ تھی کہ اس کے پاس بہت سا مال و دولت جمع ہو گيا تھا ۔ بصرہ شہر ميں فسق و فجور کے حوالے سے اس کی مثال دی جاتی تھی ۔ اس کا رہن سہن اميرانہ تھا ، وہ بيش قيمت لباس زيب تن کرتی اور گراں بہا زيورات سے بنی سنوری رہتی تھی ۔ ايک دن وہ اپنی رومی اور ترکی کنيزوں کے ساتھ کہيں جا رہی تھی ۔ راستے ميں اس کا گزر "حضرت صالح المری علیہ الرحمۃ" کے گھر کے قریب سے ہوا ۔ آپ اللہ عزوجل کے برگزيدہ بندوں ميں سے تھے ۔ آپ باعمل عالم دين اور عابد و زاہد تھے ۔ آپ اپنے گھر ميں لوگوں کو وعظ ارشاد فرمايا کرتے تھے ۔ آپ کے وعظ کی تاثير سے لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی اور وہ بڑی زور زور سے آہ و بکاء شروع کر ديتے اور اللہ عزوجل کے خوف سے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑياں لگ جاتيں ۔ جب "شعوانہ" نامی وہ عورت وہاں سے گزرنے لگی تو اس نے گھر سے آہ و فغاں کی آوازيں سنيں ۔ آوازيں سن کر اسے بہت غصہ آيا ۔ وہ اپنی کنيزوں سے کہنے لگی : تعجب کی بات ہے کہ يہاں نوحہ کیا جا رہا ہے اور مجھے اس کی خبر تک نہيں دی گئی ۔ پھر اس نے ايک خادمہ کو گھر کے حالات معلوم کرنے کےليے اندر بھیج ديا ۔ وہ لونڈی اندر گئی اور اندر کے حالات ديکھ کر اس پر بھی خدا عزوجل کا خوف طاری ہوگيا اور وہ وہيں بيٹھ گئی ۔ جب وہ واپس نہ آئی تو شعوانہ نے کافی انتظار کے بعد دوسری اور پھر تيسری لونڈی کو اندر بھیجا مگر وہ بھی واپس نہ لوٹيں ۔ پھر اس نے چوتھی خادمہ کو اندر بھیجا جو تھوڑی دير بعد واپس لوٹ آئی اور اس نے بتايا کہ گھر ميں کسی کے مرنے پر ماتم نہيں ہو رہا بلکہ اپنے گناہوں پر آہ وبکاء کی جا رہی ہے ، لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ عزوجل کے خوف سے رو رہے ہيں ۔ شعوانہ نے يہ سنا تو ہنس دی اور ان کا مذاق اڑانے کی نيت سے گھر کے اندر داخل ہو گئی ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جونہی وہ اندر داخل ہوئی اللہ عزوجل نے اس کے دل کو پھیر ديا ۔ جب اس نے حضرت صالح المری علیہ الرحمۃ کو ديکھا تو دل ميں کہنے لگی : افسوس! ميری تو ساری عمر ضائع ہو گئی، ميں نے انمول زندگی گناہوں ميں اکارت کر دی، وہ ميرے گناہوں کو کیونکر معاف فرمائے گا ؟
انہی خيالات سے پريشان ہو کر اس نے حضرت صالح المری علیہ الرحمۃ سے پوچھا : اے امام المسلمين ! کيا اللہ عزوجل نافرمانوں اور سرکشوں کے گناہ بھی معاف فرما ديتا ہے ؟
آپ نے فرمايا : ہاں ! يہ وعظ و نصيحت اور وعدے وعيديں سب انہی کےليے تو ہيں تاکہ وہ سيدھے راستے پر آ جائيں ۔ اس پر بھی اس کی تسلی نہ ہوئی تو وہ کہنے لگی : ميرے گناہ تو آسمان کے ستاروں اور سمندر کی جھاگ سے بھی زيادہ ہيں ۔
آپ نے فرمايا : کوئی بات نہيں! اگر تيرے گناہ شعوانہ سے بھی زيادہ ہوں تو بھی اللہ عزوجل معاف فرمادے گا ۔
يہ سن کر وہ چيخ پڑی اور رونا شروع کر ديا اور اتنا روئی کہ اس پر بے ہوشی طاری ہو گئی ۔ تھوڑی دير بعد جب اسے ہوش آيا تو کہنے لگی : حضرت ! ميں ہی وہ شعوانہ ہوں جس کے گناہوں کی مثاليں دی جاتی ہيں ۔
پھر اس نے اپنا قيمتی لباس اور گراں قدر زيور اتار کر پرانا سا لباس پہن ليا اور گناہوں سے کمايا ہوا سارا مال غرباء میں تقسیم کر ديا اوراپنے تمام غلام اور خادمائيں بھی آزاد کر ديں ۔ پھر اپنے گھر ميں مقيد ہو کر بيٹھ گئی ۔ اس کے بعد وہ شب و روز اللہ عزوجل ، کی عبادت ميں مصروف رہتی اور اپنے گناہوں پر روتی رہتی اور ان کی معافی مانگتی رہتی ۔ رو رو کر رب عزوجل کی بارگاہ ميں التجائيں کرتی : اے توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھنے والے اور گنہگاروں کو معاف فرمانے والے ! مجھ پر رحم فرما ، ميں کمزور ہوں تيرے عذاب کی سختيوں کو برداشت نہيں کر سکتی ، تو مجھے اپنے عذاب سے بچا لے اور مجھے اپنی زيارت سے مشرف فرما ۔ اس نے اسی حالت ميں چاليس سال زندگی بسر کی اور انتقال کر گئی ۔ (حکايات الصالحين صفحہ ۷۴)
ایک دن حضرت سَیِّدُنا مَنْصُوربن عمّار علیہ الرحمہ لوگوں کو وَعْظ ونصیحت کرنے کےلیے مِنْبر پرتشریف لائے اورانہیں عذابِِ اِلٰہی سے ڈرانے اور گُناہوں پر ڈانٹنے لگے ۔ قریب تھاکہ لوگ شِدَّتِ اِضْطِراب سے تَڑپ تَڑپ کر مَرجاتے ۔ اس محفل میں ایک گُنہگار نوجوان بھی مَوْجُود تھا ، جو اپنے گُناہوں کی وَجہ سے قَبْر میں اُترنے کے مُتَعَلِّق کافی پریشان تھا ۔ جب وہ آپ علیہ الرحمہ کے اِجتماع سے واپس گیا تو یُوں لگتاتھا جیسے بیان اس کے دل پر بہت زِیادہ اَثْراَنداز ہو چُکا ہو ۔ وہ اپنے گُناہوں پر نادِم ہو کر اپنی ماں کی خِدْمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اے میری امّی جان! آپ چاہتی تھیں کہ میں شیطانی لَہْو و لَعِب اور اللہ عزوجل کی نافرمانی چھوڑ دوں ، لہٰذا آج سے میں اسے تَرک کرتا ہوں ۔ اوراس نے اپنی امّی جان کو یہ بھی بتایا کہ میں حضرت سیِّدُنا مَنْصُور بن عمّار علیہ الرحمہ کے اِجتماعِ پاک میں حاضر ہوا اور اپنے گُناہوں پر بہت نادِم ہوا ۔ چُنانچہ ، ماں نے کہا : اے میرے بیٹے ! تمام خُوبیاں اللہ عزوجل کےلیے ہیں ، جس نے تجھے بڑے اچھے اَنداز سے اپنی بارگاہ کی طرف لوٹایا اور گُناہوں کی بیماری سے شِفا عَطا فرمائی اور مجھے قَوِی اُمید ہے کہ اللہ عزوجل میرے تجھ پر رونے کے سبب تجھ پر ضَرور رَحم فرمائے گا اور تجھے قَبول فرماکر تجھ پر اِحْسان فرمائے گا ، پھر اس نے پوچھا : اے بیٹے ! نصیحت بھرا بیان سُنتے وَقْت تیرا کیا حال تھا ؟ تو اس نے جواب میں چند اَشْعار پڑھے جن کا مفہوم یہ ہے : میں نے توبہ کےلیے اپنا دامن پھیلا دیا ہے اوراپنے آپ کو مَلامت کرتے ہوئے مُطِیْع و فرماں بردار بن گیا ہوں ۔ جب بیان کرنے والے نے میرے دِل کو اِطاعتِ خُداوَنْدی کی طرف بُلایا تو میرے دل کے تمام قُفْل (یعنی تالے) کُھل گئے ۔ اے میری امّی جان ! کیا میرا مالک ومولیٰ عزوجل میری گُنا ہوں بھری زِنْدگی کے باوُجُود مجھے قَبول فرمالے گا ۔ ہائے اَفْسوس!اگر میرا مالک مجھے ناکام و نامُراد واپس لوٹا دے یا اپنی بارگاہ میں حاضِر ہونے سے روک دے تو میں ہَلاک ہو جاؤں گا ۔ پھر وہ نوجوان دن کو روزے رکھتا اور راتوں کو قِیام کرتا ، یہاں تک کہ اس کا جسم لاغَر و کمزور ہو گیا ، گوشت جَھڑ گیا ، ہڈیاں خُشک ہو گئیں اور رَنگ زَرْد ہو گیا ۔ ایک دن اس کی والدۂ مُحترمہ اس کےلیے پیالے میں سَتُّو لے کر آئی اور اِصْرار کرتے ہوئے کہا : میں تجھے اللہ عزوجل کی قسم دے کر کہتی ہوں کہ یہ پی لو ، تمہاراجسم بہت مَشَقَّت اُٹھا چکا ہے ۔ چنانچہ ، ماں کی بات مانتے ہوئے جب اس نے پیالہ ہاتھ میں لیا تو بے چینی و پریشانی سے رونے لگا اور اللہ عزوجل کےاس فرمانِ عالیشان کو یاد کرنے لگا : یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ ۔ ترجمہ : بمشکل اس کا تھوڑا تھوڑا گُھونٹ لے گا اور گلے سے نیچے اُتارنے کی اُمّید نہ ہوگی ۔ پھر اس نے زور زور سے رونا شُروع کر دیا اور زمین پر گِر گیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا طائرِ رُوْح قَفَسِ عُنْصُری سے پرواز کر گیا۔(حکایتیں اور نصیحتیں صفحہ ۳۶۳،چشتی)
حضرت رَبیعہ بن عُثمان تیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ایک شخص بہت زِیادہ گُناہ گار تھا،اس کے شب و روز اللہ عزوجل کی نافرمانی میں گُزرتے ۔ وہ گُناہوں کے گہرے سَمُنْدر میں غَرق تھا ۔ پھر اللہ عزوجل نے اس کے ساتھ بھلائی کا اِرادہ فرمایا اوراس کے دِل میں اِحساس پیدا فرمایا کہ اپنے آپ پر غور کر ، تُو کس رَوِش پر چل رہا ہے ، اللہ عزوجل جب اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا اِرادہ کرتاہے تو اسے اِحساس اور گُناہوں پر نَدامت کی توفیق عَطا فرما دیتا ہے ، اس پر بھی اللہ عزوجل نے کرم فرمایا اور اسے اپنے گُناہوں پر شَرمِنْدَگی ہوئی ، غَفْلَت کے پردے آنکھوں سے ہَٹْ گئے ۔ سوچنے لگا کہ بہت گُناہ ہو گئے ، اب اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کر لینی چاہیے ۔ چنانچہ اس نے اپنی زَوْجہ سے کہا : میں اپنے سابقہ تمام گُناہوں پر نادِم ہوں اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ، وہ رحیم و کریم میرے گُناہوں کو ضَرور مُعاف فرمائے گا ۔ میں اب کسی ایسی ہَسْتی کی تلاش میں جارہا ہوں جو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں میری سِفارِش کرے ۔ اتنا کہنے کے بعد وہ شخص صحراء کی طرف چل دیا ۔ جب ایک وِیران جگہ پہنچا تو زور زور سے پُکارنے لگا : اے زمین ! تُواللہ عزوجل کی بارگاہ میں میرے لیے شَفیع بن جا ، اے آسمان !تُو میرا شَفیع بن جا ، اے اللہ عزوجل کے مَعْصُوم فرشتو ! تم ہی میری سِفارِش کردو ۔ وہ زاروقطار روتا رہا اور اسی طرح صَدائیں بُلند کرتا رہا ۔ ہر ہر چیز سے کہتا کہ تم میری سفارش کرو ، میں اب اپنے گُناہوں پر شرمندہ ہوں اورسچے دل سے تائب ہو گیا ہوں ۔ وہ شخص مُسلسل اسی طرح پُکارتا رہا ، بالآخر روتے روتے بے ہوش ہو کر زمین پر مُنہ کے بَل گِر گیا ، اس کی اس طرح سے آہ وزاری اور گُناہوں پر نَدامت کا یہ اَنداز مقبول ہوا اوراس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا گیا ، جس نے اسے اُٹھایا اور اس کے سر سے گَرد وغیرہ صاف کی اور کہا : اے اللہ عزوجل کے بندے ! تیرے لیے خُوشخبری ہے کہ تیری توبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں قَبول ہو گئی ہے ۔ اس پر وہ بہت خُوش ہوا اور کہنے لگا : اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے ، اللہ عزوجل کی بارگاہ میں میری سِفارِش کون کرے گا ؟ وہاں میرا شفیع کون ہوگا ؟ فرشتے نے جواب دیا : تیرا اللہ عزوجل سے ڈرنا ، یہ ایک ایسا عمل ہے جو تیرا شفیع ہوگا اور تیرا یہی عمل بارگاہِ خُداوَنْدی میں تیری سِفارِش کرے گا ۔ (عیون الحکایات صفحہ ۱۷۳،چشتی)
حضرت عبدُ اللہ بن مُبارَک علیہ الرحمہ ایک عام سے نوجوان تھے ، آپ علیہ الرحمہ کوایک کنیز سے عِشْق ہو گیا تھا اور مُعامَلہ کافی طُول پکڑ چُکا تھا ۔سخت سردیوں کے موسِم میں ایک بار دِیدار کے اِنتِظار میں اس کنیز کے مکان کے باہَر ساری رات کھڑے رہے یہاں تک کہ صُبح ہو گئی ۔ رات بے کا ر گُزرنے پر دل میں مَلامت (شرمندگی) کی کَیفیَّت پیدا ہو ئی اور اس بات کا شِدَّت سے اِحْساس ہوا کہ اس کنیز کے پیچھے ساری رات برباد کر دی مگر کچھ ہاتھ نہ آیا ، کاش ! یہ رات عِبادت میں گُزاری ہوتی ۔ اس تصوُّر سے دل کی دنیا زَیر وزَبَر ہو گئی اور آپ علیہ الرحمہ کے قلب میں مَدَنی انقِلاب برپا ہو گیا ۔ آپ علیہ الرحمہ نے خالِص توبہ فرمائی ، کنیز کی مَحَبَّت سے جان چُھڑائی ، اپنے اللہ عزوجل سے لَو لگائی اورقلیل ہی عرصے میں وِلایَت کی اَعْلیٰ مَنْزِل پائی اور اللہ عزوجل نے شان اِس قَدربڑھائی کہ ایک بار والِدۂ ماجِدہ علیہا الرحمہ ، آپ علیہ الرحمہ کی تلاش میں نکلیں تو ایک باغ میں گُلْبُن یعنی گُلاب کے پودے کے نیچے آپ علیہ الرحمہ کو اس طرح مَحوِ خواب (یعنی سوتا) مُلاحَظَہ کیا کہ ایک سانپ مُنْہ میں نَرگِس کی ٹہنی لیے مَگس رانی کر رہا ہے یعنی آپ کے وُجُودِ مَسْعُود پر سے مکّھیاں اُڑا رہا ہے ۔ (تذکرۃ الاولیاء جلد ۱ صفحہ ۱۶۶،چشتی)
حضرتِ صالح مُرِّی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سِتار (ایک قسم کا باجا) بجانے والی ایک لڑکی کسی قارِیٔ قرآن کے پاس سے گُزری جو یہ آیت ِمُبارَکہ تِلاوت کر رہا تھا : وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ ۔ (پ۱۰،التوبۃ:۴۹)
تَرْجَمَہ : اور بےشک جہنّم گھیرے ہوئے ہے کافروں کو ۔
آیتِ مُبارَکہ سنتے ہی لڑکی نے سِتار پھینکا ، ایک زور دار چیخ مار ی اور بے ہوش ہو کر زمین پر گِر گئی ۔ جب اِفاقہ ہوا تو سِتار توڑ کر عِبادت و رِیاضت میں ایسی مشغول ہو ئی کہ عابدہ وزاہدہ مَشہور ہوگئی ۔ ایک دن میں نے اُس سے کہا کہ ’’اپنے آپ پر نرمی کر ۔ ‘‘یہ سُن کر روتے ہوئے بولی : کاش ! مجھے معلوم ہو جائے کہ جہنّمی اپنی قبروں سے کیسے نکلیں گے ؟ پُلِ صِراط کیسے عُبور کریں گے ؟ قِیامت کی ہولناکیوں سے کیسے نَجات پائیں گے ؟ کھولتے ہوئے گر م پانی کے گُھونٹ کیسے پئیں گے ؟ اور اللہ عزوجل کے غَضَب کو کیسے برداشت کریں گے ؟ اتنا کہہ کر پھربے ہوش ہوکر گِر پڑی ۔ جب اِفاقہ ہوا تو بارگاہِ خُداوَندی میں یُوں عرض گُزار ہوئی : یااللہ عزوجل میں نے جوانی میں تیری نافرمانی کی اور اب کمزوری کی حالت میں تیری اِطاعت کر رہی ہوں،کیا تُو میری عبادت قُبول فرما لے گا؟‘‘پھر اس نے ایک آہِ سَردْ، دِلِ پُردَرْدْسے کھینچی اور کہا:’’آہ! کل بروزِ قیامت کتنے لوگوں کے عیب کُھل جائیں گے ۔‘‘پھر اس نے ایک چیخ ماری اورایسے دَرْد بھرے اَنداز میں روئی کہ وہاں مَوْجُود سب لوگ اُس کی شِدَّتِ گریہ وزاری سے بے ہوش ہو گئے ۔ (الروض الفائق صفحہ ۱۴۸)
حضرت ابراہیم آجُرِی کبیر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : سردیوں کے دن تھے ، میں مسجِد کے دروازے پر بیٹھا ہوا تھا کہ قریب سے ایک شخص گُزرا ، جس نے دو گُدڑِیاں اَوڑھ رکھی تھیں ۔ میرے دِل میں بات آئی کہ شاید یہ بِھکاری ہے ، کیا ہی اچّھا ہوتا کہ یہ اپنے ہاتھ سے کَما کر کھاتا ۔ جب میں سویا تو خواب میں دو فرشتے آئےمجھے بازو سے پکڑا اور اُسی مسجد میں لے گئے ۔ وہاں ایک شخص دوگُدڑِیاں اَوڑھے سو رہا ہے ، جب اس کے چہرے سے گُدڑِی ہَٹائی گئی تو یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ یہ تو وُہی شخص ہے جو میرے قریب سے گُزرا تھا ۔ فرشتو ں نے مجھ سے کہا : اِس کا گوشت کھاؤ ۔ میں نے کہا : میں نے اس کی کوئی غیبت تو نہیں کی ۔ کہا : کیوں نہیں ! تُو نے دل میں اس کی غیبت کی ، اس کو حقیر جانا اور اس سے ناخُوش ہوا ۔ حضرت ابراہیم آجُرِی کبیر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : پھر میری آنکھ کُھل گئی ، خوف کی وَجہ سے مجھ پر لَرزَہ طاری تھا ، میں مُسَلْسَل تیس (30) دن اُسی مسجد کے دروازے پربیٹھا رہا ، صِرْف فرض نماز کےلیے وہاں سے اُٹھتا ۔ میں دُعا کرتا رہا کہ دوبارہ وہ شخص مجھے نظر آ جائے تاکہ اس سے مُعافی مانگو ں ۔ ایک ماہ بعد وہ پُراَسرار شخص مجھے نظر آ گیا ، پہلے کی طرح اُس کے جسم پر دو گُدڑِیاں تھیں ۔ میں فوراً اس کی طرف لَپکا ، مجھے دیکھ کر وہ تیز تیز چلنے لگا ، میں بھی پیچھے ہو لیا ۔ آخِر کار میں نے اُس کو پُکار کر کہا : اے اللہ عزوجل کے بندے ! میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔ اُس نے کہا : اے ابراہیم ! کیا تم بھی ان لوگوں میں سے ہو جو دِل کے اَندر مومنین کی غیبت کرتے ہیں ؟ اس کے مُنہ سے اپنے بارے میں غیب کی خَبر سُن کر میں بے ہوش ہوکر گِر پڑا ۔ جب ہوش آیاتو وہ شخص میرے سِرہانے کھڑا تھا ۔ اُس نے کہا : کیا دوبارہ ایسا کرو گے ؟ میں نے کہا : نہیں ، اب کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا ۔ پھر وہ پُراَسرار شخص میری نظروں سے اَوجَھل ہو گیا اور دوبارہ کبھی نظر نہ آیا ۔ (عُیونُ الْحِکایات عربی صفحہ ۲۱۲)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment