Tuesday 1 August 2017

زیر ناف بال کاٹنے کا شرعی حکم

0 comments
زیر ناف بال کاٹنے کا شرعی حکم

اسلام طہارت وپاکیزگی، نفاست وستھرائی والا دین ہے، شریعت اسلامیہ میں ظاہر وباطن کی طہارت وپاکیزگی کو نہایت اہمیت دی گئی ہے او راسکے مسائل واحکام کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، چنانچہ بغل کی صفائی اور زیرناف بال نکالنے کا حکم اسی قبیل سے ہے، یہ سنت اور اعمال فطرت سے ہے، ہفتہ میں ایک مرتبہ صفائی کرنا مستحب اور خاص جمعہ کے دن اس کا اہتمام کرنا باعث فضیلت ہے ، پندرہ دن کی تاخیر سے کرنا بھی جائز ہے، ہاں چالیس دن سے زیادہ مدت تک نہ نکالنا مکروہ تحریمی ہے ، اگر چالیس دن سے زیادہ مدت تک بغل اورزیرناف بال نہ نکالے جائیں تو اس کی وجہ سے نماز مکروہ نہیں ہوتی لیکن یہ عمل فی نفسہ گناہ اور مکروہ تحریمی ہے حدیث شریف میں اس کی سخت وعید آئی ہے ۔ صحیح مسلم شریف ج1کتاب الطہارۃ،باب خصال الفطرۃص 129میں حدیث مبارک ہے(حدیث نمبر:258)
عن انس بن مالک قال قال انس وقت لنا فی قص الشارب وتقلیم الاظفار ونتف الابط وحلق العانۃ ان لانترک اکثر من اربعین لیلۃ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: مونچھیں تراشنے، ناخن کاٹنے، بغل کے بال اکھیڑنے اور زیر ناف بال صاف کرنے سے متعلق ہمارے لئے مدت مقرر کی گئی کہ ہم چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔

اب رہا بیٹا اپنے ضعیف والد کے بالوں کی صفائی کرسکتا ہے یا نہیں؟ تو یاد رہے کہ بیٹے کا بلاضرورت اپنے والد کے مقامِ ستر کی طرف دیکھنا اور اس کو چھونا شرعا ًناجائز وحرام ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرالمختار ج 5 کتاب الحظر والا باحۃ ، فصل فی النظر واللمس ، ص 257/258 میں ہے ۔ (وینظرالرجل من الرجل )۔ ۔ ۔ (سوی مابین سرتہ الی ماتحت رکبتہ)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
لہذا کسی شخص کو اپنے والد کے زیرناف بالوں کی صفائی کی ازروئے شریعت اجازت نہیں دی جاسکتی ، اسی لئے وہ خود اپنے بالوں کی صفائی کرلیں اگر استرہ کے استعمال میں کوئی اندیشہ ہو تو شریعت میں گنجائش ہے کہ وہ اسکے بجائے کریم یا کوئی اور کیمیاوی شیٔ کے ذریعہ بالوں کی صفائی کرلیں، بصورت دیگر خود ان کی بیوی صفائی کرے توکوئی مضائقہ نہیں ۔
درمختار برحاشيۂ ردالمحتار ج 5کتاب الحظروالا باحۃ فصل فی البیع ص 288میں ہے
(و)یستحب (حلق عانتہ وتنظیف بدنہ بالاغتسال فی کل اسبوع مرۃ ) والافضل یوم الجمعۃ وجاز فی کل خمسۃ عشرۃوکرہ ترکہ وراء الاربعین ،
ردالمحتار کے اسی صفحہ پر ہے ، ولو عالج بالنورۃ یجوز۔ زیر ناف بالوں کو کاٹنا واجب اور ضروری ہے اور اس کا مقصد نجاست سے صفائی اور پاکیزگی ہے۔

فتاویٰ عالمگیریہ اور دیگر کتب فقہ میں لکھا ہے : و يبتدی فی حلق العانة من تحت السرة . (عالمگيری، 5 : 358)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ : ناف سے لے کر خصیتین (انڈوں) تک اور ارد گرد تک بال کاٹنا چاہیے۔
الغرض سبیلین کے آس پاس موجود تمام بالوں کا تلف کرنا ضروری ہے تاکہ صفائی برقرار رکھ سکے۔

امام ابن حجر رحمہ اللہ " فتح البارى " ميں فرماتے ہيں : امام نووى رحمۃ اللہ علیہ كا كہنا ہے كہ: ( العانۃ ) زيرناف بالوں سے مراد وہ بال ہيں جو عضو تناسل پر اور اس كے ارد گرد بال ہيں، اور اسى طرح عورت كى شرمگاہ كے ارد گرد بال زيرناف بال كہلاتے ہيں.

اور ابو العباس بن سريج سے منقول ہے كہ: دبر كے سوراخ كے ارد گر پائے جانے والے بال.تو اس مجموعى كلام سے يہ حاصل ہوا كہ قبل اور دبر اور ان كے ارد گرد پائے جانے والے سارے بال مونڈنا مستحب ہيں، وہ كہتے ہيں كہ: مونڈنے كا ذكر اس ليے كيا ہے كہ يہ غالب طور پر ہوتا ہے، وگرنہ پاؤڈر كے ساتھ يا اكھاڑ كر يا كسى اور طريقہ سے بھى اتارنے جائز ہيں.

امام ابو شامہ رحمہ اللہ فرماتے ہيں : العانۃ: وہ بال ہيں جو الركب ( راء اور كاف پر زبر كے ساتھ ) يعنى پيٹ كے نچلے حصہ اور شرمگاہ كے اوپر ہوں، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ ہر ران كى ركب ہوتى ہے، اور يہ بھى قول ہے كہ شرمگاہ كے اوپر والے، اور يہ بھى كہا گيا ہے گہ مرد يا عورت كى بنفسہ شرگاہ پر اگے ہوئے بال.

وہ كہتے ہيں: قبل اور دبر سے بال ختم كرنے مستحب ہيں، بلكہ دبر سے زائل كرنا اولى ہيں كہ كہيں ان ميں پاخانہ وغيرہ نہ اٹك جائے، كہ پانى سے استنجاء كيے بغير وہ گندگى ختم ہى نہ ہو، اور پتھر اور ڈھيلے استمال كرنے سے وہ گندگى ختم نہيں ہوگى.

اور ان كا كہنا ہے كہ: مونڈنے كى جگہ پاؤڈر بھى استعمال كيا جا سكتا ہے، اور اسى طرح اكھاڑنے اور كاٹ كر بھى صاف كرنے صحيح ہيں.

امام احمد رحمہ اللہ سے زيرناف بال قينچى كے ساتھ كاٹنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا : مجھے اميد ہے كہ يہ كفائت كرےگا، تو ان سے عرض كيا گيا: تو پھر اكھاڑنا كيسا ہے ؟ تو انہوں نے جواب ديا: آيا كيا كوئى اس كى طاقت ركھتا ہے ؟

اور ابن دقيق العيد كہتے ہيں كہ: اہل لغت كا كہنا ہے : العانۃ: وہ بال ہيں جو شرمگاہ پر اگے ہوں، اور ايک قول يہ بھى ہے كہ: وہ بال اگنے والى جگہ ہے. وہ كہتے ہيں: اور حديث سے مراد بھى يہى ہے، اور ابو بكر بن عربى كہتے ہيں: اتارے جانے بالوں ميں زيرناف بال اتارے جانے كا زيادہ حق ركھتے ہيں، كيونكہ ان ميں گندگى اور ميل كچيل پھنس جاتى ہے.

چالیس دن تک یا اس سے زائد بلاوجہ چھوڑنا مکروہ ہے، اس کی حد ناف کے نیچے پیڑوکی ہڈی سے لیکر شرم گاہ اور اس کے آس پاس کا حصہ، خصیتین، اسی طرح پاخانہ کے مقام کا آس پاس کاحصہ اور رانوں کا وہ حصہ جہاں نجاست ٹھہرنے یا لگنے کا خطرہ ہو ،یہ تمام بال کاٹنے کی حد ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔