Sunday, 18 February 2024

پندرہ شعبانُ المعظم اور دیگر نفلی روزے رکھنے کی فضیلت

پندرہ شعبانُ المعظم اور دیگر نفلی روزے رکھنے کی فضیلت
محترم قارئینِ کرام : پندرہ شعبان کا روزہ اور امام شہاب الدین رملی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۹۵۷ھ ہجری فرماتے ہیں : (سُئِلَ) عَنْ صَوْمِ مُنْتَصَفِ شَعْبَانَ كَمَا رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ «إذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا» هَلْ هُوَ مُسْتَحَبٌّ أَوْ لَا وَهَلْ الْحَدِيثُ صَحِيحٌ أَوْ لَا وَإِنْ كَانَ ضَعِيفًا فَمَنْ ضَعَّفَهُ ؟ 
(فَأَجَابَ) بِأَنَّهُ يُسَنُّ صَوْمُ نِصْفِ شَعْبَانَ بَلْ يُسَنُّ صَوْمُ ثَالِثَ عَشَرِهِ وَرَابِعَ عَشَرِهِ وَخَامِسَ عَشَرِهِ وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ يُحْتَجُّ بِهِ ۔
ترجمہ : مجھ سے سوال کیا گیا  پندرہویں شعبان کے روزے کے بارے میں جیسا کہ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب پندرہویں شعبان کی رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور اس دن کو روزہ رکھو تو کیا یہ مستحب ہے یا نہیں ؟ اور کیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف اگر ضعیف ہے تو اسے کس نے ضعیف قرار دیا ہے ؟
تو میں نے جواب دیا کہ پندرہویں شعبان کا روزہ سنت ہے بلکہ تیرہویں چودہویں اور پندرہویں شعبان کا روزہ بھی سنت ہے ۔ اور حدیث مذکور قابلِ احتجاج و استدلال ہے ۔ (فتاوی الرملی فی فروع الفقہ الشافعی کتاب الصوم صفحہ نمبر ۲۰۲ مطبوعہ بیروت)

عن علی ابن أبی طالب قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اذا کانت لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلها وصوموا نهارها فان الله ینزل فیها لغروب الشمس الی سماء الدنیا فیقول : الا من مستغفرلی فاغفرله؟ الا مسترزق فارزقه ؟ الا مبتلی فاعا فیه الا کذا ؟ الا کذا ؟ حتی یطلع الفجر ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو رات کو قیام کرو ۔ دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالی اس رات میں سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں ؟ کون مجھ سے رزق طلب کرتا ہے کہ میں اسے رزق دوں ؟ کون مبتلائے مصیبت ہے کہ میں اسے عافیت دوں ؟ اسی طرح صبح تک ارشاد ہوتا رہتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 1 صفحہ 44 رقم الحدیث 1388 دار الفکر بیروت،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان سے زِیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرتے بلکہ پُورے شَعبان ہی کے روزے رکھ لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے : اپنی اِسْتِطاعت کے مُطابِق عمل کرو کہ اللہ  پاک اُس وَقْت تک اپنا فَضل نہیں روکتا جب تک تم اُکتا نہ جاؤ ۔ (صَحیح بُخاری جلد ۱ صفحہ ۶۴۸ حدیث نمبر ۱۹۷۰)

شارِحِ بُخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریفُ الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے  ہیں : مُراد یہ ہے کہ شَعْبان میں اَکْثر دِنوں میں روزہ رکھتے تھے اسے تَغْلِیْباً (یعنی غلبے اور زِیادَت کے لحاظ سے) کُل (یعنی سارے مہینے کے روزے رکھنے) سے تعبیر کر دیا ۔ جیسے کہتے ہیں : فُلاں نے پُوری رات عبادت کی ۔ جب کہ اس نے رات میں کھانا بھی کھایا ہو اور ضَروریات سے فَراغت بھی کی ہو ، یہاں تَغْلِیْباً اکثر کو کُل کہہ دیا ۔ مزید فرماتے ہیں : اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں جسے قُوّت ہو وہ زِیادہ سے زِیادہ روزے رکھے ۔ البتَّہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رَمَضان کے روزوں پر اَثْر پڑے گا ، یِہی مَحمَل (یعنی مُراد و مَقْصد) ہے ان احادیث کا جن میں فرمایا گیا کہ نِصْف شَعْبان کے بعد روزہ نہ رکھو ۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر ۷۳۸،چشتی)(نزھۃ القاری جلد ۳ صفحہ ۳۷۷،۳۸۰)

عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، قَالَتْ: لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صلی الله علیہ وآلہ وسلم يَصُوْمُ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُوْمُ شَعْبَانَ كُلَّهُ ۔ وَفِي رِوَايَةِ لِمُسْلِمٍ : كَانَ يَصُوْمُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيْلًا 
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں (نفلی) روزے نہیں رکھتے تھے ۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم شعبان کا سارا مہینہ روزے رکھتے تھے ۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے : آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم چند دن چھوڑ کر شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھا کرتے تھے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصوم، باب صوم شعبان، 2: 695، الرقم: 1869،)(مسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب صيام النبي صلی الله علیہ وآلہ وسلم رمضان واستحباب أن لا يخلي شهر عن صوم، 2: 811، الرقم: 1156)(أحمد بن حنبل في المسند، 6: 143، الرقم: 25144،چشتی)(النسائي في السنن، كتاب الصيام، باب ذكر اختلاف ألفاظ الناقلين لخبر عائشة فيه، 4: 151، الرقم: 2179-2180)(ابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب ما جاء في صيام النبي صلی الله علیہ وآلہ وسلم ، 1: 545، الرقم: 1710)

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضی الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیہ وآلہ وسلم قَالَ لَهُ أَوْ لِآخَرَ : أَصُمْتَ مِنْ سُرَرِ شَعْبَانَ؟ قَالَ: لَا. قَالَ: فَإِذَا أَفْطَرْتَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ ۔
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ان سے یا کسی اور شخص سے فرمایا : کیا تم نے شعبان کے درمیانی دن کا روزہ رکھا ہے ؟ اسں نے عرض کیا : نہیں ! آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم عید (الفطر) کر لو تو تم (اس کے بدلے میں) دو روزے رکھنا ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصوم، باب الصوم آخر الشهر، 2: 700، الرقم: 1882)(مسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب صوم سرر شعبان، 2: 821، الرقم: 1161)(أحمد بن حنبل في المسند، 4: 443، الرقم: 19992،چشتی)(أبو داود في السنن، كتاب الصوم، باب في التقدم، 2: 298، الرقم: 2328)(النسائي في السنن الكبرى، 2: 164، الرقم: 2868)

39. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : كَانَ أَحَبُّ الشُّهُوْرِ إِلَى رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیہ وآلہ وسلم أَنْ يَصُوْمَهُ شَعْبَانَ ثُمَّ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو تمام مہینوں میں سے شعبان کے روزے رکھنا زیادہ محبوب تھا ۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم شعبان کے روزوں کو رمضان المبارک سے ملا دیا کرتے تھے ۔ (أخرجه أحمد في المسند، 6: 188، الرقم: 25589،چشتی)(وأبو داود في السنن، كتاب الصوم، باب في صوم شعبان، 2: 323، الرقم: 2431)(النسائي في السنن، كتاب الصيام، باب صوم النبي صلی الله علیہ وآلہ وسلم ، 4: 199، الرقم: 2350)

وَفِي رِوَايَةِ أُمِّ سَلَمَةَ رضی الله عنها عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیہ وآلہ وسلم : أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَصُوْمُ مِنَ السَّنَةِ شَهْرًا تَامًّا إِلَّا شَعْبَانَ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ ۔
ترجمہ : حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم (شعبان کے علاوہ) سال میں کسی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھتے تھے اور آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا دیا کرتے تھے ۔ (أخرجه أبو داؤد في السنن، كتاب الصوم، باب كراهية صوم يوم الشك، 2: 300، الرقم: 2336)(البيهقي في السنن الكبرى، 4: 210، الرقم: 7755)

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهَا رضی الله عنها قَالَتْ : مَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیہ وآلہ وسلم يَصُوْمُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ ۔
ترجمہ : اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، وہ فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل دو مہینوں کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا مگر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم شعبان المعظم کے مسلسل روزے رکھتے کہ وہ رمضان المبارک کے روزہ سے مل جاتا ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6: 300، الرقم: 26604)(النسائي في السنن، كتاب الصيام، باب ذكر حديث أبي سلمة في ذلك، 4: 150، الرقم: 2175،چشتی)(ابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب ما جاء في وصال شعبان برمضان، 1: 528، الرقم: 1648)(أبو يعلى في المسند، 12: 405، الرقم: 6970)

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضی اللہ عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَمْ أَرَكَ تَصُومُ مِنْ شَهْرٍ مِنْ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ؟ قَالَ: ذَاكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ يُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ۔
ترجمہ : حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے (نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں) عرض کیا : یا رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم میں آپ کو سب مہینوں سے زیادہ شعبان میں روزے رکھتے دیکھتا ہوں (اس کی کیا وجہ ہے ؟) ۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رجب اور رمضان کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل رہتے ہیں ۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں (بندوں کے) اعمال رب العالمین کے حضور پیش کیے جاتے ہیں، سو مجھے پسند ہے کہ میرا عمل حالتِ روزہ میں بارگاہ ایزدی میں پیش کیا جائے ۔ (أخرجه أحمد في المسند، 5: 201، الرقم: 21801،چشتی)(النسائي في السنن، كتاب الصيام، باب صوم النبي ﷺ بأبي هو وأمي، 4: 201، الرقم: 2357)(البزار في المسند، 7: 69، الرقم: 2617)(ابن أبي شيبة في المصنف، 2: 346، الرقم: 9765)

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنه أَنَّ عَائِشَةَ رضی الله عنها حَدَّثَتْهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیہ وآلہ وسلم كَانَ يَصُوْمُ شَعْبَانَ كُلَّهُ. قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَحَبُّ الشُّهُوْرِ إِلَيْكَ أَنْ تَصُوْمَهُ شَعْبَانَ؟ قَالَ: إِنَّ اللهَ يَكْتُبُ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ مَيِّتَةٍ تِلْكَ السَّنَةَ، فَأُحِبُّ أَنْ يَأْتِيَنِي أَجَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ۔
ترجمہ : 

أخرجه أبو يعلى في المسند، 8: 311، الرقم: 4911، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 72، الرقم: 1540، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 192.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم شعبان کا پورا مہینہ ہی روزے رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم تمام مہینوں سے زیادہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو شعبان میں روزے رکھنا زیادہ پسند ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقینا الله تعالیٰ اس سال میں ہر ایک مرنے والے کی موت کو (اسی مہینہ میں) لکھتا ہے ۔ لہٰذا میں پسند کرتا ہوں کہ حالتِ روزہ میں میرا وصال نامہ لکھا جائے ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضی اللہ عنه قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیہ وآلہ وسلم إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ، قَالَ: اَللَّهُمَّ، بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَأَبُو نُعَيْمٍ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَفِيْهِ زَائِدَةُ بْنُ أَبِي الرُّقَادِ وَفِيْهِ كَلَامٌ وَقَدْ وُثِّقَ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ماہِ رجب کا آغاز ہوتا تو رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم دعا کرتے : اے الله ! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان نصیب فرما ۔ اِسے امام طبرانی ، بیہقی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے ۔ امام ہیثمی نے کہا ہے کہ اس میں ایک راوی زائدہ بن ابی الرقاد ہے جس پر کلام ہے ، مگر اسے ثقہ قرار دیا گیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4: 189، الرقم: 3939،چشتی)(البيهقي في شعب الإيمان، 3: 375، الرقم: 3815)(أبو نعيم في حلية الأولياء، 6: 269)(الديلمي في مسند الفردوس، 1: 485، الرقم: 1984)(ذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 140)

قَالَتْ لُؤْلُؤَةُ مَوْلَاةُ عَمَّارٍ: كَانَ عَمَّارٌ رضی اللہ عنه يَتَهَيَّأُ لِصَوْمِ شَعْبَانَ كَمَا يَتَهَيَّأُ لِصَوْمِ رَمَضَانَ ۔ (الجوزي في التبصرة جلد 2 صفحہ 47)
ترجمہ : حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی آزاد کردہ لونڈی لؤلؤۃ کہتی ہیں کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ شعبان کے روزوں کےلیے ایسے ہی اہتمام کرتے جیسے وہ رمضان کے روزوں کےلیے اہتمام کرتے تھے ۔

قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ : كَانَ يُقَالُ شَهْرُ شَعْبَانَ شَهْرُ القُرَّاءِ ۔ (ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف صفحہ 258)
ترجمہ : حضرت سلمہ بن کہیل فرماتے ہیں : کہا جاتا تھا کہ شعبان قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کا مہینہ ہے ۔

وَكَانَ حَبِيْبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ، قَالَ: هَذَا شَهْرُ الْقُرَّاءِ ۔ (ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف صفحہ 259)
ترجمہ : حبیب بن ابی ثابت شعبان کے آنے پر کہتے تھے کہ یہ قرآن مجید کے قاریوں کا مہینہ ہے ۔

وَكَانَ عَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْمُلَائِيُّ، إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ، أَغْلَقَ حَانُوْتَهُ وَتَفَرَّغَ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِي شَعْبَانَ وَ رَمَضَانَ ۔ (ذكره ابن الجوزي في التبصرة جلد 2 صفحہ 47،چشتی)(ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف صفحہ 259)
ترجمہ : عمرو بن قیس المُلَائی شعبان کے آنے پر اپنی دکان کو تالا لگا دیتے اور شعبان اور رمضان میں تلاوتِ قرآن کےلیے خود کو مکمل طور پر فارغ کر دیتے ۔

قَالَ الْحَسَنُ بْنُ سَهْلٍ: قَالَ شَعْبَانُ : يَا رَبِّ، جَعَلْتَنِي بَيْنَ شَهْرَيْنِ عَظِيْمَيْنِ فَمَا لِي؟ قَالَ: جَعَلْتُ فِيْكَ قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ ۔ (ذكره ابن الجوزي في التبصرةجلد 2 صفحہ 47،چشتی)(ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف صفحہ 259)
ترجمہ : حسن بن سہل فرماتے ہیں کہ شعبان کہتا ہے : اے میرے پروردگار ! آپ نے مجھے دو عظیم مہینوں کے درمیان رکھا ہے تو میرے لیے کیا چیز ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے تیرے اندر قرآن حکیم کی تلاوت رکھی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے : جس نے ثواب کی اُمّید رکھتے ہوئے ایک نفْل روزہ رکھا ، اللہ  پاک اُسے دوزخ سے چالیس40 سال (کافاصِلہ ) دُور فرمادے گا ۔ (کَنْزُالْعُمّال جلد ۸ صفحہ ۲۵۵ حدیث نمبر ۲۴۱۴۸)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے ہے : اگر کسی نے ایک دِن نَفْل روزہ رکھا اور زَمین بھر سونا اُسے دیا جائے ، جب بھی اِس کا ثواب پُورا نہ ہو گا ، اس کا ثواب تو قِیامت ہی کے دِن ملے گا ۔ (مسند ابو یعلٰی جلد ۵ صفحہ ۳۵۳ حدیث نمبر ۶۱۰۴)

حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں میں نے عَرض کی ، یا رَسُوْلَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کوئی عمل بتایئے ۔ اِرْشاد فرمایا : روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا عمل کوئی نہیں ۔ میں نے پھر عَرض کی ، مجھے کوئی عمل بتایئے ۔ فرمایا : روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا کوئی عمل نہیں ۔ میں نے پھر عَرض کی مجھے کوئی عمل بتایئے ۔ فرمایا : روزے رکھا کرو کیونکہ اس کا کوئی مِثل نہیں ۔ (سنن نسائی جلد ۴ صفحہ ۱۶۶)

ماہِ شَعْبانُ الْمُعَظَّم میں نفلی روزے رکھنے کا اِہْتِمام کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس ماہ میں کثرت سے عِبادَت بھی کرنی چاہیے ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ اس مُبارَک مہینے کی آمد ہوتے ہی اپنا زِیادہ تَر وَقْت نیک اَعمال میں صَرف فرمایا کرتے ۔ حضرت اَنَس بن مالِک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ماہِ شَعْبانُ الْمُعَظَّم کا چاندنظر آتے ہی صَحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تِلاوتِ قرآنِ پاک میں مَشْغُول ہو جاتے ، اپنے اَموال کی زَکوٰۃ نکالتے تاکہ کمزور و مِسکین لوگ ماہِ رَمَضَانُ المُبارَک کے روزوں کےلیے تیاری کر سکیں ، حُکّام قیدیوں کو طَلَب کرکے جس پر حَد (یعنی سزا) قائم کرنا ہوتی اُس پرحَد قائم کرتے ، بقیّہ کو آزاد کر دیتے ، تاجِر اپنے قَرضے اَدا کر دیتے ، دوسروں سے اپنے قَرضے وُصُول کر لیتے ۔ (یُوں ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کا چاند نظر آنے سے قَبل ہی اپنے آپ کو فارِغ کر لیتے) اور رَمَضان شریف کا چاند نظر آتے ہی غُسل کر کے (بعض حضرات سارے ماہ کےلیے) اِعتِکاف میں بیٹھ جاتے ۔ (غُنْیَۃُ الطّالبین جلد ١ صفحہ ٣٤١) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...