Saturday 17 February 2024

چھوٹے بھائیوں پر اپنے بڑے بھائی کا ادب و احترام اور حقوق

0 comments
چھوٹے بھائیوں پر اپنے بڑے بھائی کا ادب و احترام اور حقوق
محترم قارئینِ کرام : اسلامی اخلاق و آداب کی رو سے چھوٹے بھائیوں پر اپنے بڑے بھائی کا ادب و احترام اسی طرح لازم ہے جس طرح والد محترم کا احترام لازم ہوتا ہے ۔ والدین کے بعد بہن بھائی کا آپس کا رشتہ بہت قریبی شمار کیا جاتا ہے ، والدین کے مرنے کے  بعد عُموماً ان کے درمیان تعلُّقات خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے ، لہٰذا  بھائی بہنوں کے درمیان ناراضیوں کا دروازہ بند کرنے کےلیے والدین کے بعد گھر کے افراد میں سے جس شخصیت کے مقام و مرتبے کو اسلام نے شان و شوکت سے نوازا اور جس کے ادب و احترام کادرس دیا ہے وہ ہے ”بڑا بھائی“ ۔ بڑے بھائی کی اَہَمِّیَّت کو اُجاگر کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : حَقُّ كَبِيْرِ الْاِخْوَةِ عَلٰى صَغِيْرِهِمْ حَقُّ الْوَالِدِ عَلٰى وَلَدِهٖ ۔
ترجمہ : بڑے بھائی کا حق اپنےچھوٹے بہن  بھائیوں پر ایسا ہے جیسا باپ کا حق اپنے بیٹے پر ۔ (شعب الایمان باب فی برالوالدین فصل فی صلۃ الرحم جلد ۶ صفحہ ۲۱۰ حديث نمبر ۷۹۲۹)

چھوٹے بھائیوں کے سامنے بڑے بھائی کا مرتبہ و مقام شرعی نقطہ نظر سے والد کے برابر ہے چنانچہ اس چیز کی وضاحت اور تعلیم امت کی خاطر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس ارشادِ مبارک سے ہوتی ہت : وعن سعيد بن العاص قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : حق كبير الإخوة على صغيرهم حق الوالد على ولده ۔
ترجمہ : حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : بڑے بھائی کا اپنے چھوٹے بھائیوں پر ایسے حق ہے جیسے والد کا اپنی اولاد پر حق ہے ۔ (مشکوۃ المصابیح کتاب الآداب باب البر والصلة صفحہ 421 حدیث نمبر 4946،چشتی)

حضرت جَرِیْر بن حازِم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے ایک مرتبہ خواب دیکھا  کہ میرا سر میرے ہاتھوں میں ہے ، اس کی تعبیر جاننے کےلیے میں نے اپنا یہ خواب حضرت امام اِبْنِ سیرین رحمۃ اللہ علیہ کو سُنایا (جو خوابوں کے نتائج بتانے میں کافی مہارت رکھتے تھے) اُنہوں نے مجھ سے پوچھا : تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ؟ میں نے کہا : جی نہیں ، ارشاد فرمایا : کیا تمہارا کوئی بڑا بھائی ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک سے ڈرتے رہو ، اس کے ساتھ اچّھا سُلُوک کیا کرو اور اس سےتعلّق توڑنے سے باز رہو ۔ (شعب الایمان باب فی برالوالدین فصل فی صلۃ الرحم جلد ۶ صفحہ ۲۱۰ حدیث نمبر ۷۹۲۸،چشتی)

بڑے بھائی کامقام و مرتبہ بھی لائقِ تعظیم  ہے ۔ بڑے بھائی کے دل میں اللہ پاک کی طرف سے چھوٹے بہن بھائیوں کےلیے والد جیسی  شفقت و مَحَبَّت  رکھی جاتی ہے ۔ بڑا بھائی  والد کی موجُودگی میں بھی چھوٹوں کا خیال رکھتاہے ، ان کی ضرورتوں کو پُورا کرتا ہے اور اگر والد کا سایَۂ شفقت اُٹھ جائے تو بعد میں بھی اپنی ذِمّہ داریاں اچھے طریقے سے نبھاتا ہے ، بڑے بھائی کے اتنے احسانات اس بات کا تقاضاکرتے ہیں کہ اس کے چھوٹے بہن بھائی بھی اس کا ادب کریں ، اس کی عزّت و قدر کریں ، والِدَین کی غیر مَوْجُودگی میں اسے اپنے والدین کا مرتبہ دیں ، ورنہ اسے اپنا دیکھ بھال کرنے والا سمجھیں ، اس کی غیبت ، چُغلی اور اس کے بارے میں بدگمانیوں سے بچیں ۔ حتّی الامکان ان کی جائز خواہشات اور اَحْکامات کو مانیں ، ہمیشہ ان سے اچھے تعلُّقات قائم رکھیں اور اگر کبھی ناراضی ہو جائے  تو خود بڑھ کر بڑے بھائی سے معافی مانگیں اور اسے  منانے کیلئے جس قدر ممکن ہو کوشش کریں ۔ بڑے بھائی کا مقام ادب و اِحْترام  کے لحاظ سے  باپ جیسا ہوتا ہے ۔ لیکن بڑے بھائی کو بھی چاہیے کہ اپنے فضائل سُن کر ہرگز ہرگز یہ ذِہْن نہ بنائے کہ صرف چھوٹے ہی میری عزّت کریں ، میں چاہے ان کے ساتھ سخت لہجے میں بات کروں ، انہیں جب چاہوں سب کے سامنے ذلیل کردوں ، کوئی غلطی کر بیٹھیں تو گالی گلوچ اور مارپِیٹ  پر اُتر آؤں ، ہر وقت اپنا رُعب و دَبْدَبہ قائم رکھنے کےلیے آنکھیں دِکھاؤں ۔ یاد رکھیے اسلام  نے ہر ایک کے حُقُوق و آداب بیان فرمائے ہیں  ، جہاں چھوٹوں کو حکم دیا کہ اپنے بڑوں کا ادب کریں ، وہیں بڑوں کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی  چھوٹوں سے  شَفْقَت و مَحَبَّت  کا برتاؤ کریں ۔

نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمایا : لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَعْرِفْ لَنَا حَقَّنَا ۔
ترجمہ : جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے ، ہمارے بڑوں کی عزّت نہ کرے اور مُسلمان کاحق نہ جانے ، وہ ہم سے نہیں ۔ (معجم کبیر جلد ۱۱ صفحہ ۳۵۵ حدیث نمبر ۱۲۲۷۶)

نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشادفرمایا : بڑوں کی عزّت کرو ، چھوٹوں پر رحم کرومیں اور تم قیامت میں یُوں آئیں گے ۔ آپ  صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی انگلیوں کو ایک ساتھ مِلایا ۔ (المطالب العالیہ کتاب الرقاق باب الوصایا النافعۃ جلد ۷ صفحہ ۵۷۰ حدیث نمبر ۳۱۴۳)

بڑے بھائی کا حق دوسرے چھوٹے بھائیوں پر ایسا ہے جیسے باپ کا حق اولاد پر ، حق کبیر الإخوة علی صغیرہم کحق الوالد علی ولدہ (مراسیل أبي داوٴد) (مشکاة) چھوٹے بھائیوں کو چاہیے کہ بڑے بھائی کا ادب و احترام کریں ، ان سے رابطہ رکھیں ، ان کی غلطیوں پر عفو و درگذر سے کام لیں ، اگر وہ غلط راستے پر چلیں تو حکمت و حسن تدبیر سے تنبیہ کریں ، ان کےلیے دعا بھی کریں ، جائز امور میں ان کی رائے مشورے پر عمل کریں اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا برتاوٴ کریں ، والدین کے گذر جانے کے بعد بڑے بھائی کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے ، بڑے بھائی کو چاہیے کہ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں پر شفقت و رحمت کا معاملہ کریں ، ان کی اچھی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں ، ان کا ہرممکن تعاون کریں اور ان کی دینی ، علمی ، فکری اور اصلاحی راہنمائی کرتے رہیں ۔

بڑے بھائی کے دل میں چھوٹے بہن بھائیوں کےلیے والد جیسی  شفقت و مَحَبَّت رکھی گئی ہے ۔ بڑا بھائی  والد کی موجُودگی میں چھوٹوں کا خیال رکھتا ہے ، ان کی ضرورتوں کو پُورا کرتا ہے اور اگر والد کا سایَۂ شفقت اُٹھ جائے تو بعد میں بھی  اپنی ذِمّہ داریاں اچھے طریقے سے نبھاتا ہے ، بڑے بھائی کے اتنے احسانات اس بات کا تقاضاکرتے ہیں کہ چھوٹے بہن بھائی بھی اس کا ادب کریں ، والِدَین کی غیرمَوْجُودگی میں اسے اپنے والدین کا مرتبہ دیں ، ورنہ اسے اپنا نگران و سربراہ سمجھیں ، اس کی غیبت ، چُغلی اوراس کے مُتَعَلِّق بدگمانیوں سے بچیں ، حتّی الامکان اس کی جائز خواہشات اور اَحْکامات پر عمل کریں ، ہمیشہ اس سے اچھے تعلُّقات قائم رکھیں اور اگر کبھی وہ ناراضی ہو جائے تو خود بڑھ کر اس سے معافی مانگیں اور اسے منانے کےلیے جس قدر ممکن ہو کوشش کریں ۔

اخوت (بھائی  ہونا) ایک ایسا وصف  اور  خوبی (characteristic) ہے جو ہر اعتبار سے باہمی تعاون ، مدد اور خیر خواہی سےعبارت ہوتا ہے ، یہ ایسا وصف ہے جو اپنی تاثیر میں زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے ، زندگی کے ہر موڑ پر بھائی اپنےبھائی کا ہمدم و ہمساز اور غم خوار ہوتا ہے ، اگر وہ  ان اوصاف سے خالی ہے  تو پھر اللہ تعالی   اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےمتعین کردہ اخوت  کے معیار پر  وہ بھائی نہیں ہے ، بلکہ صرف اور صرف شریک وراثت و جائداد (property sharer)  ہے ، اور اس کی اپنے بھائی کے ساتھ رفاقت اور دل چسپی بس اسی وقت تک کےلیے ہوتی  ہے جب تک ان کا باپ مر نہ جائے ، اور وراثت میں حصہ نہ مل جائے ، باپ  کے  مرتے ہی ایسا بھائی ، بھائی کے تمام اوصاف سے عاری ہوکر محض  شریک جائداد رہ جاتا ہے ، وہ نہ اس کے ساتھ کھلے پن کا مظاہرہ کرتا ہے ،  نہ اس کی مدد کرتا ہے ، نہ اس کی خوشی ، اپنی خوشی سمجھتا ہے ، نہ  اس کا غم ، اپنا غم سمجھتا ہے ، اپنے کردار و گفتار ، اخلاق و اعمال سے اپنے بھائی کے ساتھ ذرا بھی دل چسپی کا مظاہرہ  نہیں  کرتا ۔

خاندان کا سب سے بڑا ستون اور زندگی کی گاڑی کو منزل تک پہنچانے میں بھائی کے کلیدی کردار اور بنیادی رول کے تعلق سے بعض واقعہ نگاروں نے ایک واقعہ لکھا ہےکہ ایک مرتبہ ایک عورت کا بیٹا ، بھائی اور شوہر تینوں گرفتار ہو گئے ، اور تینوں کو پھانسی کی سزا ملنی طے پائی ، بادشاہ بڑا رحم دل تھا ، اس نے سوچا کہ عورت کی زندگی کہیں برباد نہ ہو جائے ، اس لیے ان میں سےکسی ایک کی جان بخش دی جائے ، چنانچہ اس نے عورت کو اختیار دیا کہ بھائی ، شوہر اور بیٹا  میں سے کسی ایک کو اختیار کر لے ، اس پر اس نے اپنےبھائی کو اختیار کیا ، بادشاہ کو حیرت ہوئی کہ بیٹے اور شوہر کے ہوتے ہوئے بھائی کو کیوں اختیار کیا ، عورت نےکہا کہ بیٹا اور شوہر تو مل سکتے ہیں ، چنانچہ اگر دوسری شادی کر لی جائے تو شوہر مل جائے گا ، اور پھر جب توالد و تناسل کا سلسہ چلے گا ، تو بیٹا بھی مل جائے گا ، لیکن بھائی کا ملنا ناممکن ہے ، اس لیے میں نے بھائی کو اختیار کیا ۔
مختصر یہ کہ بھائی ہی وہ عظیم ہستی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر انسان کے کام آتی ہے ، زندگی کی مایوسیوں میں حوصلوں کی روح پھونکتی ہے ۔ جب کوئی بھائی ، بھائی کی عظمت سے واقف ہو جاتا ہے ، تو اپنے ان  بھائیوں سے بھی ، جن سے وہ لا تعلقی اختیار کیے رہتا ہے ، یا ان سے پہلو تہی کیے رہتا ہے ، ان کے کاموں ، پیشوں اور تمام سماجی ، معاشرتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں روڑے اٹکاتا ہے ، یا اس کی معاشرتی ترقی و تنزلی ، کی طرف ایک نگاہ غلط بھی ڈالنا گوارہ نہیں کرتا ، بلکہ اسے یوں چھوڑ دیتا ہے جیسے کہ وہ ایک اجنبی ہے ، اور اس کے پڑوس میں آکر بس گیا ہے ، اس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ وہاں محل تعمیر کرتا ہے ، یا جھونپٹرا بناتا ہے ، موسم گرما می گرمی کی تمازت سے جھلستے ، یا  جاڑے کی یخ  بستہ ہواؤں سے ٹھٹھرتے ہوئے بھائیوں پر نگاہ ڈالنے یا ان پر  سوچنے کی اسے فرصت نہیں ہوتی ، وہ  ان  کی  دامے، درمے ،قدمے ، سخنے مدد اور تعاون تو دور کی بات ہے، اس  کے ترقی  کرنے   کی شکل میں نہ حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور نہ ہی   پریشانی   کی صورت میں ڈھارس بندھاتا ہے،   وہ  مرض   و   تکلیف، خوشی و  شادی  اور   دوسرے  مراسم سے  بھائیوں  کو آگاہ  کرکے  نہ  پریشانیوں  کو  دور  کرتا  ہے،  اور  نہ  ہی  خوشیوں  کو  دوبالا  کرتا  ہے،  بلکہ وہ   بھائیوں  کے  تعلق  سے  گاڑی کا ایک نیوٹل گیر بن جاتا ہے،  ہاں  دوستوں  کے  ساتھ  ضرور  ٹچ  میں  رہتا  ہے۔  لیکن  ان  تمام  کے  باوجود  وہ  بھائی  کی  عظمت  اور  خاندان  میں  اس  کے  عظیم  کردار  سے  واقف  ہوتا  ہے،  وہ  اسے   اپنی طاقت و قوت کا مظہرسمجھتا ہے، وہ اچھی طرح یہ سمجھتا ہے کہ انھیں بھائیوں سےاس کی شان اور آن بان قائم ہے، اوروں کےسامنے انھیں سے اس کی واہ  واہی ہوتی ہے، اور عزت و شہرت قائم رہتی ہے، اسی سے اس کےاعلی خاندان کا وقار اور بھرم برقراررہتا ہے، اور اس کی ایک بہترین شناخت اور پہچان قائم ہوتی ہے، چناں چہ وہ حسب موقعہ بھائیوں کو اپنی بڑے خاندان کے حصے کے طور پر پیش کرتا ہے، شادی بیاہ اور اس جیسے مواقع پر جہاں حسب و نسب کا مسئلہ پیش آتا ہے، وہ اپنا رشتہ ضرور جوڑتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بھائی کی بہر حال ایک عظمت ہے،   اس  کی  عظمت  کو  تاراج  ہونے  سے  بچانا  خاندان  کے  ہر  فرد  کی  اولین  ذمہ  داری  ہے۔
تاریخ اسلامی میں مواخا‏ت  کا  واقعہ ناقابل فراموش ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  جب انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم کےدرمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا، تو  اس وقت تاریخ کی آنکھوں نےدیکھا  تھا کہ ایک انصاری اپنے مہاجربھائی کو جو دراصل حقیقی بھائی نہیں تھا، بلکہ اسے حقیقی بھائی کی مانند مان لیا گیا تھا، اپنی دولت ، پراپرٹی، گھر بار حتی کہ ایک سے زائد بیویوں کو طلاق دےکراس  سےنکاح کرادیا  تھا، انسانی تاریخ میں اس طرح کی کوئی ایک مثال بھی ملنی بہت مشکل ہے۔دراصل بھائی ہونے کا یہی وہ معیار ،     parameter     اور کسوٹی ہے، جس پر کسی کے بھی وصف اخوت کو پرکھا جاسکتا ہے، اگر وہ ان اصولوں اور کسوٹیوں پر پورا اترتا ہے تو وہ بھائی ہے، ورنہ پھر وہ ایک پڑوسی اور شریک جائداد کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،  ہمیں،  خود  اپنے  آپ،  اپنے  گھر  اور  خاندان  پر  ان  اصولوں  کو  منطبق  کر  کے  دیکھنا  ہے  کہ  آیا ہم آپس  میں بھائی  بھائی ہیں  یا  کچھ  اور ۔ حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےایک روایت آئی ہے کہ انصار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے درمیان اور ہمارے بھائیوں (مہاجرین) کے درمیان ہمارے کھجور کے باغات تقسیم فرما دیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےفرمایا : ”نہیں” انصار نے کہا :  “تب آپ لوگ یعنی مہاجرین ہمارا کام کر دیا کریں اور ہم پھل میں آپ لوگوں کو شریک رکھیں گے ۔ انہوں نےکہا : ٹھیک ہے ہم نے بات سنی اور مانی ۔ (صحیح بخاری، باب اذا قال اکفنی مؤنۃ النخل جلد 1 صفحہ 213)

زاد المعاد میں اس بھائی چارہ کی مزید تفصیل یہ بھی درج ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان مہاجر بھائیوں کو   ان انصار   کا   وارث بھی بنایا  ،  یعنی  اگر  انصاری  کا  انتقال  ہوا    تو  مہاجر    (جو  کسی  طور  پر  رشتہ  دار  نہیں  ہے،  بس  ایک  اسلامی  بھائی  ہے)  اس  کے  مال  کا  وارث  ہوگا،  جو غزوہ بدر تک چلتا  رہا،  حتی  کی  آیت  میراث  نازل  ہوئی  تو  وراثت  سے  اس  کا  نام  خارج  ہو  گیا،    البتہ    اس  کے  علاوہ  تمام  حقوق  (جو  ایک  نہیں  بہت  سے  ہیں)    بعینہ  باقی  رہے ۔
غور کرنے کا مقام ہےکہ بھائی ہونے کا مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا سمجھایا ،  صحابہ رضی اللہ عنہم نے  اسے  کس  طرح  سمجھا ، اور  پھر کس طرح اسےصحابہ نے  باہم  implement کیا ۔ اور آج ہم بھائی ہونے کا کیا مطلب لیتے ہیں ۔

بعض انصار نے اپنےگھروں کےبیچوں بیچ دیوار کر کے ایک حصہ اپنے لیے رکھ لیا اور دوسرا حصہ اپنےمہاجربھائی کودے دیا۔ اس طرح کےایثارکے واقعات اور بھی ہیں ۔ کچھ انصار صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہوآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے  پاس چند زرعی زمینیں ہیں، یافلاں باغ ہماری ملکیت میں ہے، آپ یہ باغ اور زمین ہمارے اور ہمارے مہاجر  بھائی کےدرمیان تقسیم فرمادیں، مگرآپ نےیہ پیشکش قبول نہیں فرمائی، بلکہ حکم دیا کہ وہ اپنی زمینیں اور باغات اپنے پاس رکھیں اور محنت کے عوض اپنے بھائی کو اس کی پیداوارمیں شریک کرلیں۔ تمام انصار صحابہؓ اپنےمہاجر  بھائیوں کےساتھ ہمدردی کےساتھ پیش آتے، ہرچیزمیں ان کوترجیح دیتے، اور ان کی خدمت اور دل جوئی کےلئے  ہمہ وقت تیاررہتے۔  دراصل  یہی    وہ  مراعات    و  حقوق  ہیں  جو  ایک  بھائی  کے  دوسرے  پر  لازم  ہوتے  ہیں، کسی  بھی  بھائی  کا ان  میں  کوتاہی  کرنا  اس  کی    اپنی  عرفی،  شرعی  اور  اخلاقی  حیثیت  سے  بغاوت  اور  غداری  کے  مرادف  ہے ۔ ایک مرتبہ مہاجرین نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمدردی اور ایثارمیں انصار بھائیوں کا کوئی ثانی نہیں ہے، ہمیں ڈرہےکہ آخرت کا سارا اجرو ثواب ہمارے یہ بھائی ہی نہ سمیٹ لیں ۔ (مسند احمد بن حنبل: ۲۰/۳۶۱، رقم الحدیث : ۱۳۰۷۶،چشتی) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم ان کے ممنون احسان رہوگے، اور ان کی تعریف کرتےرہوگے، اور اللہ کی بارگاہ میں ان کی لئے دُعا کرتے رہوگے تو اللہ تعالیٰ اس شکرگزاری، احسان شناسی اور دعا کی برکت سےتمہیں بھی اجر و ثواب سےنوازے گا۔ (شعب الایمان للبیہقی: ۱۹/۱۰۸، رقم الحدیث: ۸۸۱۱، المعجم الاوسط للطبرانی: ۱۶/۷۸، رقم الحدیث: ۷۵۰۲، مسند احمد بن حنبل: ۲۶/۱۹۵، رقم الحدیث: ۱۲۶۴۸)

مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ بھائی کے بھائی پر بے پناہ حقوق ہیں، اگر ایک بھائی کسی وجہ سےکمزور ہے،  اس کی اقتصادی حالت ناگفتہ بہ ہے، تو جس بھائی  کے پاس وسعت ہے تو محض چند بہانوں  سے   جیسے اپنے کھیت کی نگہبانی، رکھوالی، اور  اپنے  کام کی دیکھ ریکھ پر ہی وہ اس کو اس کی پیداوار  اور آمدنی میں سے حصہ دے، اور اس طرح اس کی عزت نفس کے تحفظ کے ساتھ اس کی مدد کرے، گھر بار،  یا  کسی  بزنس    و  تجارت  میں بھی اگر وسعت ہو، تو   اسے  ضرور  کچھ  حصہ  دے،  جیسا  کہ  صحابہ  رضی  اللہ  عنہم  کی  باہمی  اخوت  کی  اعلی  اقدار  سے  ثابت  ہوتا  ہے۔ مہاجر  و  انصار  صحابہ رضی اللہ عنہم جو کہ حقیقی   بھائی   نہ  تھے،  پھر بھی جس طرح کی مثال قائم کی ہے وہ ہمارے معاشرے کے لیے مشعل راہ ہے،   اور اسی طرز عمل کواختیار کرکے ہی صحیح معنوں میں  ہم   بھائی کہلانے اور پھر آخرت میں اجر و ثواب کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ورنہ  اس وقت ہماراجس طرح کا طرز عمل ہے ، اس سے ہم کو ثواب کیا ملے، کچھ عجب نہیں کہ کہیں عتاب خداوندی کے شکار نہ ہوجائیں۔   آج ہم میں باہمی تعاون، پراپرٹی الاٹ کرنے، زمین، عمارت اور فلیٹ وغیرہ میں کچھ حصہ دینےکا رواج تو دور کی بات ہے اس کا تصور تک نہیں ہے، معروف و مروج طریقے پر ایک دوسرے سے ملنے، خوشی و مسرت کے مواقع پر باہم مبارک بادیوں کے تبادلے، اس طرح باہم خوش کلامی کے مواقع تلاش کرکے بات کرنے، ایک دوسرے کے کاموں میں ہاتھ بٹانے، باہم ایک دوسرے کے حالات پوچھ کر ان پر غور و فکر کرنے اور ان کی بہتری  کے لیے دانشورانہ کوشش (intellectual efforts) پیش کرنے، نیز کمزور بھائیوں کے تجارت و پیشے میں بہتر مشاورت   اور   تعاون دینے،   اور ان کے کسی بھی اقتصادی و تعمیری پروجیکٹ سے خوشی کا اظہار کرنے، یا حوصلہ افزائی کے چند کلمات ادا کرنے تک کا فقدان ہے ۔
مذکورہ سطور میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھائیوں کا جو حال بیان ہوا ہے  جیسا  کہ  معلوم  ہے  کہ وہ باہم حقیقی بھائی نہیں تھے بلکہ انھیں بھائی بنایا گیاتھا،لیکن آج ہم حقیقی  بھائی کا کیا معنی  سمجھتے ہیں اور کیا کرتے ہیں، آج ہم شریعت کے اس اصول کوسامنےرکھتےہیں کہ بھائی بھائی کا وارث نہیں، بھائی کا بھائی پرخرچ واجب نہیں، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےایک وقت میں ان اخلاقیات کو فرض قرار دیا تھا، ظاہرکہ ایسے  یا  اس جیسے  حالات   اگر  ہمارے خاندان میں پیدا ہوجائیں تو اخلاقیات کی یہ ساری تعلیمات واجب اور فرض ہوں گی،  جب بھائی کسی بھی طرح کسی بھی چیزمیں محتاج   ہو،   چاہے وہ خورونوش کا مسئلہ ہو، چاہےرہائش کی ضرورت ہو، ہمیں ان اخلاقی ذمہ داریوں کوپوری کرنی ہوگی، ہماری یہ عجیب دوغلی پالیسی ہےکہ ہم ساری اخلاقی ذمہ داریاں بیویوں پر فرض کرکے ان سے پورےاخلاقی حقوق بدرجہ فرض وصول کرتے ہیں، اور ان کی بھی اخلاقی ضروریات واجبی طور پرپوری کرتے ہیں، لیکن باہم بھائیوں میں اسے محض اخلاقی، نہ کہ واجبی کہہ کرپلہ جھاڑ لیتے ہیں،  ہماری  مسلم  سوسائٹی  کا  یہ  انتہائی  افسوس  ناک  پہلو  ہے،  اور  کسی  بھی  طرح  شریعت  کے  تقاضوں  سے  ہم  آہنگ  نہیں  ہے ۔ افسوس کہ آج ہمارا سماج  بھائی پن کے ان تمام جذبات اور اقدار سےخالی ہوگیا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعین فرمائے تھے، اور جن اقدار ہی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاں بھی باہمی محبت و تعاون کےساتھ رہنےکی بات کی ہے وہاں بھائی بن کررہنے کی، کی ہے۔ آج ہم میں بےاعتنائی کی وہ خصلت پیداہوگئی ہےکہ ہم بھائیوں کے مسائل سے دل چسپی لینا تو دور کی بات ہے، ان  سے  بات تک نہیں کرتے، اگر  کبھی  کچھ بات کرتےبھی ہیں تو محض موسم  کے  احوال ،  کرونا  کے  احوال  کے متعلق چند رسمی باتوں کےسوا  کچھ نہیں کرتے، ان کی مالی، اقتصادی،  عائلی  اور  بچوں  کے  تعلیمی  مسائل،  گھر  گرہستی  سے  جڑی  ہوئی  مشکلات  کی بو تک نہیں سونگھتے، مبادا کہیں خود نہ پھنس جائیں،  حالاں  کہ  اخوت  کی  گاڑی  انہیں  راستوں  سے  ہوکر  آتی  ہے،  آج ہم اپنی دنیا  میں مگن  رہتے ہیں،    دوست  آئے  تو  کئی  دن  سے  اس  کے  استقبال  کی  تیاری  کرتے  ہیں،  لیکن  کبھی  بھائی  اگر  آجائے،  تو  اس  کا    خاطر  خواہ  استقبال  نہیں  کرتے،  نہ  ہی  اسے  وقت  دیتے  ہیں۔ آج کے سماج نے  ایک ماں کےشکم میں پلنےوالےبھائیوں کوباہم خود غرض اور انٹرورڈ بنا دیا ہے ۔ ایک وقت تھا جب کم از کم باپ کی حیات میں بھائی اپنےباپ اور ماں کی رعایت میں اپنی پراپرٹی اور عیش و عشرت کے سامان الگ نہیں کرتاتھا،  وہ والدین کی حیات تک اپنی کمائی کی ایک ایک پائی باپ کےقدموں میں ڈال کر اس کےسائےتلےاپنےبھائیوں کےلیےزندگی کے مراحل آسان کردیتا تھا، وہ باپ کی موروثی جائداد کوبڑھاتا تھا، تاکہ تمام بھائی جس طرح ایک ماں کے شکم سے ایک  ہی  جگہ  سے  خوراک  لے  کر  آئے  ہیں،   اور ایک باپ کی تربیت اور پسینے کی کمائی سے پلے اور بڑھے ہیں، آئندہ بھی کم ازکم ایک نسل تو آسودگی کے ساتھ زندگی بسر کر  لے، چاہے اس  کاتعلق گھر بار اور عمارت سے ہو، یا زراعت سے ہو، زرعی یا تجارتی زمینوں کی بڑھوتری سے ہو، ہر جگہ وہ مشترکہ طور پر بڑھاوا دے کر زندگی کی ڈگر کو آسان کر دیتا تھا،  حالاں کہ اس طرح کبھی کبھی اس کےساتھ مسائل بھی پیدا ہوجاتےتھے، مگروہ ان کی پروا کیےبغیرباپ کی حیات تک کم از کم اپنے لیے نہیں،  اپنوں کےلیے جیتا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےبھائی پنےکی جو  وسیع حدود متعین کی تھیں  ان کی پابندی کرتا تھا، اس طرح ایک خوش حال خاندان کو وجود میں لاتا تھا۔ مگر بدلتے  ہوئے  حالات  کے  ساتھ   رسم و ریت بدل گئی،   اور اب بھائیوں کی ترجیحات بدل گئیں۔  مادیت پرستی،   اور   مال کی ہوس نے جب انھیں خود غرض اور  self-centered  بنا دیا تو انھوں نے  اپنے  بچوں  کے  لیے ایک باپ کی  طرف  سے اٹھائے  گئے  کاسۂ  گدائی کو بڑی حقارت کےساتھ اچھال دیا، اور باپ کی موروثی جائداد منقولہ و غیرمنقولہ میں اضافہ کرنے، اور اس کے بچوں یا اپنے سگے بھائیوں کو خود کفیل بنانے کے بجائے، اپنی الگ شناخت اور پہچان بنانےکی تگ و دو شروع کردی، اس تگ و دو نے انھیں جہاں ایک طرف بھائیوں سےبےنیاز اور بے گانہ کردیا وہیں دوسری طرف والدین کے ان ارمانوں اور ِخواہشات و تمناؤں  کا گلابھی گھونٹ کررکھ دیا، کہ کاش ہمارے سارے بچےباہم شراکت کےساتھ اولا پراپرٹی، جائداد اور آمدنی کے ذرائع بڑھاتے، پھر خود کفیل ہوکرزندگی بسر کرتے، تاکہ ان میں باہم کافی حد تک سماجی ، معاشی اور اقتصادی مساوات باقی رہتی، مگر عام طور سے ایسا نہیں ہوتا، جس کےنتیجےمیں ایک ترقی پذیر اور خوش حال خاندان غربت اور امیری کے مختلف خانوں میں بٹ جاتا ہے، باہم سگے بھائیوں کےبیچ دولت کی بنیادوں پربرتری اور کہتری کی دیواریں کھڑی ہوجاتی ہیں، ایک بھائی، باپ اور دوسرےبھائیوں کےزیرسایہ دعاؤں اور قربانیوں سے حاصل شدہ علم و ہنرکےنتیجےمیں، بیش بہا دولت کا  مالک اور عزت و وقار کی علامت بن جاتا ہے، تو دوسرا بھائی اپنی کم مائیگی، اور مختصر سےسرمائےکی وجہ سےذلیل و خوار سمجھا جانےلگتا ہے، ، ایک  چھپ  چھپا کر کسی  شہر  یا  لب  روڈ  محل  بنا  لیتا  ہے،  یا  اپنی  آمدنی  کے  ذرائع  پختہ  کر  لیتا  ہے، تو  دوسرا  باپ  کے  ساتھ  گاؤں  کے  جھونپٹرے  ہی  میں  رہ  جاتا  ہے،  کوئی  اپنے  بچوں  کے  لیے  اعلی  تعلیم  کا  انتظام  کروا  کر  ان  کا  مستقبل  تابناک  بنا  دیتا  ہے،  تو  دوسرا  نان  شبینہ  کا  محتاج  ہوکر  اپنے  بچوں  کی  تعلیم  کا  تصور  ہی  ترک  کردیتا  ہے۔،  دولت کسی کو سماج  میں  بظاہر  عقل و دانش اور تہذیب و تمدن کا شاہکار بنا دیتی ہے تو دوسرے کو غربت،  حماقت و وقوفی اور کم عقلی کا آیکن بنا دیتی ہے، ایک بھائی، سماج کےلیےمسیحا بن جاتاہے تو دوسرا سماج پربوجھ بن جاتاہے،  اس طرح ایک خاندان جو کبھی خوش حال اور فارغ البال سمجھا جاتا تھا، اور عزت و وقار کا آئینہ ہواکرتا تھا، سماج میں بحیثیت خاندان اپنا وقار اور اپنی پہچان کھودیتا ہے۔  مگر  اس  حقیقت  سے  انکار  نہیں  کیا  جاسکتا  ہے  کہ انفرادی دولت اور عزت علیحدہ طور پرکسی کے بھی کام نہیں آتی،  اپنے لوگ، ایسےخاندان سےمنہ موڑلیتےہیں، پرانےملنسار اس در سےدوری بنا لیتےہیں اور پھراعلی اخلاق و کردارسےدیوالیہ خاندان کو پوچھنے والا کوئی نہیں رہتا، ملنےجلنے اور دعائیں دینےوالےگھرکےدروازےسےہی لوٹنےلگتے ہیں، یہ ایسا نقصان ہوتاہے، جس کی تلافی  صدیوں میں ممکن نہیں ہوتی،  چنان چہ لوگ جس خاندان کواپنی قیادت اور رہبری کےلیے پہلی پسند قرار  دیتے  تھے، اب وہ خاندان، ان کے لیے محض ایک پارینہ داستان بن جاتاہے، اور وہ   اس   خاندان   کےمتعلق اس کے پرکھوں کی  داستان  سرائی  تو   کرتے  ہیں،  لیکن  موجودہ  نسل  کو  گھاس  ڈالنا  بھی  گوارہ  نہیں  کرتے۔ ظاہرہے کہ ایسے حالات اس لیےآتےہیں کیونکہ ہم اجتماعی طور پرایک مضبوط و منظم اور خوش حال خاندان کی طرح جینےکےبجائےانفرادی ترقی اور خود غرضی کی راہ اپناتے ہیں، جس سےہم اگرچہ انفرادی طور پرمادی بد حالی سےبچ جاتےہیں، لیکن اخلاقی، معاشی، اقتصادی ، سماجی اور ہمارے قائدانہ اقدار کی بدحالی ہمارا مقدر بن جاتی ہے ، جس کی تلافی  بہت صدیوں میں بھی بہت مشکل سے ہوتی ہے ۔
آئیے ہم اپنا اور اپنے خاندان کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ ہم اخوت و بھائی چارگی کے بحران میں کہاں اسٹینڈ کرتے ہیں ، تاکہ اس کی تلافی کی کوشش کریں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔