ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالۡمُطَلَّقٰتُ يَتَرَ بَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوۡٓءٍ ؕ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنۡ يَّكۡتُمۡنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِىۡٓ اَرۡحَامِهِنَّ اِنۡ كُنَّ يُؤۡمِنَّ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ وَبُعُوۡلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ اِنۡ اَرَادُوۡٓا اِصۡلَاحًا ؕ وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۖ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡهِنَّ دَرَجَةٌ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 228)
ترجمہ : اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک اور انہیں حلال نہیں کہ چھپائیں وہ جو اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کیااگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے شوہروں کو اس مدت کے اندر ان کے پھیر لینے کا حق پہنچتا ہے اگر ملاپ چاہیں اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔
صحيح البخاري بَابُ إِذَا حَاضَتْ فِي شَهْرٍ ثَلاَثَ حِيَضٍ وَمَا يُصَدَّقُ النِّسَاءُ فِي الْحَيْضِ وَالْحَمْلِ فِيمَا يُمْكِنُ مِنَ الْحَيْضِ ۔ باب : اس بارے میں کہ اگر کسی عورت کو ایک ہی مہینہ میں تین بار حیض آئے ؟ اور حیض و حمل سے متعلق جب کہ حیض آنا ممکن ہو تو عورتوں کے بیان کی تصدیق کی جائے گی ۔
لقول الله تعالى : وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ ۔
کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا ہے کہ ان کے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں پیدا کیا ہے وہ اسے چھپائیں ۔ (لہٰذا جس طرح یہ بیان قابل تسلیم ہو گا اسی طرح حیض کے متعلق بھی ان کا بیان مانا جائے گا) ۔
ويذكر عن علي ، وشريح ، إن امراة جاءت ببينة من بطانة اهلها ممن يرضى دينه انها حاضت ثلاثا في شهر صدقت ، وقال عطاء : اقراؤها ما كانت ، وبه قال إبراهيم : وقال عطاء : الحيض يوم إلى خمس عشرة ، وقال معتمر : عن ابيه ، سالت ابن سيرين ، عن المراة ترى الدم بعد قرئها بخمسة ايام ، قال : النساء اعلم بذلك ۔ (صحيح بخاری كِتَاب الْحَيْضِ حدیث نمبر 325)
ترجمہ : اور حضرت علی اور قاضی شریح رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اگر عورت کے گھرانے کا کوئی آدمی گواہی دے اور وہ دیندار بھی ہو کہ یہ عورت ایک مہینہ میں تین مرتبہ حائضہ ہوتی ہے تو اس کی تصدیق کی جائے گی اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ عورت کے حیض کے دن اتنے ہی قابل تسلیم ہوں گے جتنے پہلے (اس کی عادت کے تحت) ہوتے تھے ۔ (یعنی طلاق وغیرہ سے پہلے) ابراہیم نخعی نے بھی یہی کہا ہے اور عطاء نے کہا کہ حیض کم سے کم ایک دن اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہو سکتا ہے ۔ معتمر اپنے والد سلیمان کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابن سیرین سے ایک ایسی عورت کے متعلق پوچھا جو اپنی عادت کے مطابق حیض آ جانے کے پانچ دن بعد خون دیکھتی ہے تو آپ نے فرمایا کہ عورتیں اس کا زیادہ علم رکھتی ہیں ۔
اگر کسی عورت کو ایک ہی مہینہ میں تین بار حیض آئے ؟
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ سَأَلَتِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَتْ : إِنِّي أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ فَقَالَ : " لَا، إِنَّ ذَلِكِ عِرْقٌ، وَلَكِنْ دَعِي الصَّلَاةَ قَدْرَ الْأَيَّامِ الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي ۔ (صحيح البخاريكِتَاب الْحَيْضِ بَابُ إِذَا حَاضَتْ فِي شَهْرٍ ثَلاَثَ حِيَضٍ وَمَا يُصَدَّقُ النِّسَاءُ فِي الْحَيْضِ وَالْحَمْلِ فِيمَا يُمْكِنُ مِنَ الْحَيْضِ حدیث نمبر 325)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی ، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے ، ہاں اتنے دنوں میں نماز ضرور چھوڑ دیا کر جن میں اس بیماری سے پہلے تمہیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو ۔
آیت کریمہ : وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 228) کی تفسیر میں زہری اور مجاہد نے کہا کہ عورتوں کو اپنا حیض یا حمل چھپانا درست نہیں ، ان کو چاہیے کہ حقیقت حال کو صحیح صحیح بیان کر دیں۔ اب اگر ان کا بیان ماننے کے لائق نہ ہو تو بیان سے کیا فائدہ۔ اس طرح حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت سے باب کا مطلب نکالا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ قاضی شریح کے سامنے ایک مقدمہ آیا۔ جس میں طلاق پر ایک ماہ کی مدت گزر چکی تھی۔ خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن عورت کہتی تھی کہ میری عدت گزر گئی اور ایک ہی ماہ میں تین حیض آ گئے ہیں۔ تب قاضی شریح نے یہ فیصلہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے سنایا ، اس کو دارمی نے سند صحیح کے ساتھ موصولاً روایت کیا ہے ۔ قاضی شریح کے فیصلہ کو سن کر حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے اچھا فیصلہ کیا ہے ۔
اس واقعہ کو اسی حوالہ سے امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب جلد 1 صفحہ 295 پر ذکر فرمایا ہے ۔ قاضی شریح بن حرث کوفی ہیں ۔ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ پایا مگر آپ سے ان کو ملاقات نصیب نہ ہو سکی ۔ قضاۃ میں ان کا مقام بہت بلند ہے ۔
حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہیں ۔
ایک مہینہ میں عورت کو تین بار حیض نہیں آیا کرتا ، تندرست عورت کو ہر ماہ صرف چند ایام کےلیے ایک ہی بار حیض آتا ہے ، لیکن اگر کبھی شاذ و نادر ایسا ہو جائے اور عورت خود اقرار کرے کہ اس کو تین بار ایک ہی مہینہ میں حیض آیا ہے تو اس کا بیان تسلیم کیا جائے گا ۔ جس طرح استحاضہ کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جائے گا کہ کتنے دن وہ حالت حیض میں رہتی ہے اور کتنے دن اس کو استحاضہ کی حالت رہتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا ہی کے بیان پر ان کو مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے ۔
مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ سے پہلے ایلاء کی دو آیتوں کو اللہ تعالیٰ نے طلاق پر ختم کیا تھا اور طلاق کو عدت لازم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عدت کا حکم بیان فرمایا ہے ۔ حافظ جلال الدین سیوطی نے اس آیت کے شان نزول میں حسب ذیل احادیث ذکر کی ہیں : ⏬
امام ابوداؤد ‘ امام ابی حاتم اور امام بیہقی ‘ نے روایت کیا ہے کہ حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں طلاق دی گئی ‘ اس وقت مطلقہ کے لیے کوئی عدت نہیں ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کی عدت کو بیان فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی ۔ وہ پہلی خاتون ہیں جن کے متعلق عدت طلاق نازل ہوئی ۔
امام عبد بن حمید نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں طلاق کی کوئی عدت نہیں ہوتی تھی ۔ (الدرالمنثور ‘ ج ١ ص ٢٧٤‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران)
اس آیت میں مطلقات کی عدت تین قروء (تین حیض) بیان کی گئی ہے اور مطلقہ کے کئی افراد ہیں غیر مدخولہ کی سرے سے عدت ہی نہیں ہے ۔
(آیت) ” یایھا الذین امنوا اذا نکحتم المؤمنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا ‘ فمتعوھن وسرحوھن سراحا جمیلا “۔۔ (الاحزاب : ٤٩)
ترجمہ : اے مسلمانو ! جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو ‘ پھر تم ان کو مباشرت سے پہلے طلاق دے دو تو پھر تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو ‘ سو تم ان کو کچھ فائدہ پہنچاؤ اور حسن سلوک کے ساتھ انہیں چھوڑ دو ‘۔
جو عورت مطلقہ ہو اور حاملہ ہو اس کی عدت وضع حمل ہے : واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “۔ (الطلاق : ٤)
ترجمہ : اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے ۔
جو عورت مطلقہ ہو ‘ غیر حاملہ ہو لیکن صغر سن یا بڑھاپے کی وجہ سے اس کو حیض نہ آتا ہو ‘ اس کی عدت تین ماہ ہے : والی یئسن من المحیض من نسآئکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھر والی لم یحضن ۔ (الطلاق : ٤)
ترجمہ : اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں اگر تمہیں اشتباہ ہو (کہ انکی عدت کیا ہوگی ؟) تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور جن عورتوں کو ابھی حیض آنا شروع نہیں ہوا (ان کی عدت بھی تین ماہ ہے) ۔
جو مطلقہ عورت مدخولہ ہو ‘ غیر حاملہ ہو ‘ بالغہ اور جوان ہو لیکن باندی ہو اس کی عدت دو حیض ہے ‘ سو اس آیت میں جس مطلقہ عورت کی عدت تین حیض بیان کی گئی ہے وہ ایسی مطلقہ عورت ہے جو مدخولہ ہو ‘ غیر بالغہ اور جوان ہو اور آزاد ہو اور مطلقات کے عموم سے مطلقہ عورتوں کے باقی افراد مستثنی ہیں اس لیے یہ آیت عام مخصوص عنہ البعض ہے ۔
عدت کا لغوی اور شرعی معنی اور عدت کے احکام : ⏬
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : یایھا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقوھن لعدتھن واحصوالعدۃ ‘ واتقوا اللہ ربکم لاتخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ ‘ وتلک حدود اللہ ‘ ومن یتعدحدود اللہ فقد ظلمہ نفسہ ۔ (الطلاق : ١)
ترجمہ : اے نبی ! (مسلمانوں سے کہیے جب تم (اپنی) عورتوں کو طلاق دو ‘ تو ان کو عدت کےلیے (اس زمانہ میں جس میں جماع نہ کیا ہو) طلاق دو ‘ اور عدت کو شمار کرو ‘ اور اپنے رب اللہ سے ڈرتے رہو ‘ تم مطلقہ عورتوں کو دوران عدت ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ خود (بھی) نہ نکلیں ‘ البتہ اگر وہ کسی کھلی گھروں سے نہ نکالو اور وہ خود (بھی) نکلیں ‘ البتہ اگر وہ کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں (تو پھر نکال دو ) اور یہ اللہ کی حدود ہیں ‘ اور جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا اس نے اپنی جان پر ظلم کیا ۔
عدت کا لغوی معنی ہے : گننا اور شمار کرنا ‘ اور اس کا اصطلاح شرع میں یہ معنی ہے کہ زوال نکاح کے بعد عورت کا شوہر کے مکان میں ایک مدت معینہ تک ٹھہرنا اور انتظار کرنا ۔ عورت کے حق میں عدت کا رکن یہ ہے کہ دوران عدت اس کا گھر سے باہر نکلنا حرام ہے ‘ اور دوران عدت نکاح کرنا یا نکاح کا پیغام کرنا حرام ہے اور مرد پر لازم ہے کہ وہ عدت کے زمانہ میں عورت کو رہائش اور کھانے کا خرچ مہیا کرے ۔ اگر اس نے تین طلاقیں دی ہیں تو مطلقہ اس کے گھر میں اجنبی عورت کی طرح رہے گی اور اس سے پردہ کرے گی۔ عدت کے دوران مرد پر مطلقہ کی بہن ‘ اس کی پھوپھی ‘ اس کی خالہ ‘ اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے نکاح کرنا حرام ہے ‘ اسی طرح اگر مطلقہ اس کی چوتھی بیوی تھی اور بقیہ تین اس کے نکاح میں ہیں تو اب وہ دوران عدت مزید کسی عورت سے نکاح نہیں کرسکتا ۔ (رد المختار ج ٢ ص ‘ ٥٩٩۔ ٥٩٨ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ،چشتی)
عدت کی حکمت یہ ہے کہ عورت کے رحم کا استبراء ہوجائے اور معلوم ہوجائے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں ‘ کیونکہ اگر اس کو حیض آگیا تو وہ حاملہ نہیں ہوگی اور اس کی عدت تین حیض ہوگی ‘ ورنہ وضع حمل تک اس کی عدت ہوگی ‘ دوسری حکمت یہ ہے کہ اگر عورت دوسرا نکاح کرتی ہے تو اس نکاح اور دوسرے نکاح کے درمیان واقع ہونا چاہیے تاکہ اس وقفہ میں عورت کے دل و دماغ پر پہلے شوہر کے جو اثرات نقش ہوچکے تھے وہ محو ہو جائیں اور وہ خالی الذہن ہو کر دوسرے شوہر کے نکاح میں جائے ‘ تیسری حکمت یہ ہے کہ عدت کے دوران عورت طلاق کے عواقب اور نتائج پر غور کرے کہ اس کی کس خطا یا زیادتی کی وجہ سے طلاق واقع ہوئی تاکہ دوسرے نکاح میں وہ ان غلطیوں کا اعادہ نہ کرے اور اگر شوہر کی کسی بدسلوکی یا زیادتی کے نتیجے میں طلاق واقع ہوئی ہے تو اب دوسرے نکاح میں زیادہ غور و فکر اور تامل سے کام لے اور احتیاط سے نکاح کرے تاکہ پرھ اسی قماش کے شوہر کے پلے نہ بندھ جائے ‘ چوتھی حکمت یہ ہے کہ اگر ایک طلاق ‘ یا دو طلاقوں کی عدت گزار رہی ہے تو شوہر کے لیے اس طلاق سے رجوع کرنے کا موقع باقی رہے اور جس جھگڑے یا فساد کی بناء پر یہ طلاق واقع ہوئی تھی بعد میں جب فریقین کا جوش غضب ٹھنڈا ہوجائے تو اس جھگڑے کے عوامل پر غور کریں اور شوہر حسن سلوک کے ساتھ زندگی گزارنے کےلیے رجوع کرلے ‘ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے : اور ان کے خاوند اس مدت میں (طلاق رجعی کو) واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں بشرطیکہ ان کا ارادہ حسن سلوک کے ساتھ رہنے کا ہو ‘ اس لیے یہ ضروری ہے کہ صرف ایک یا زیادہ سے زیادہ دو طلاقیں دی جائیں تاکہ رجوع کا موقع باقی رہے اور تین طلاقیں دے کر بعد میں پچھتانا نہ پڑے اور بچوں کی زندگی ویران نہ ہو ‘ ہمارے زمانہ میں یہ وبا عام ہے کہ لوگ جب طلاق دیتے ہیں تو تین طلاقوں سے کم نہیں دیتے یا وثیقہ نویس سے طلاق لکھواتے ہیں اور وہ تین طلاقیں لکھ کر دستخط کرا لیتا ہے اور جب جھگڑے کا جوش ختم ہوجاتا ہے تو میاں بیوی دونوں دربدر مارے مارے پھرتے ہیں ‘ غیر مقلد مولوی سے فتوی لیتے ہیں یا حلالہ کی ناگوار صورت اختیار کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے مطلقہ کی عدت تین قروء بیان فرمائی ہے لیکن قروء کی تفسیر میں مجتہدین کا اختلاف ہے ‘ امام ابوحنیفہ اور امام احمد کے نزدیک قروء کا معنی حیض ہے ‘ اور امام مالک اور امام شافعی علیہم الرحمہ کے نزدیک قروء کا معنی طہر ہے ۔ لغت میں قرء کا معنی حیض اور طہر ہے اور یہ لغت اضداد سے ہے ۔
علامہ فیروز آبادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : قرء کا معنی حیض ‘ طہر اور وقت ہے ۔ (قاموس ج ١ ص ‘ ١٣٦ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ ھ)
علامہ جوہری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : قرء کا معنی حیض ہے ‘ اس کی جمع قروء اور اقراء ہے ‘ حدیث میں ہے : اپنے ایام اقراء میں نماز کو ترک کردو ‘ اس حدیث میں قروء کا اطلاق حیض پر ہے اور قرء کا معنی طہر بھی ہے ‘ یہ لغت اضداد سے ہے ۔ (الصحاح ج ١ ص ٦٤‘ مطبوعہ دارا العلم ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)
علامہ ابن منظور افریقی علیہ الرحمہ نے بھی یہی لکھا ہے ۔ (لسان العرب ج ١ ص ١٣٠‘ مطبوعہ نشر ادب الحوذۃ ‘ قم ‘ ایران ١٤٠٥ ھ)
علامہ راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : قرء حقیقت میں طہر سے حیض میں داخل میں داخل ہونے کا نام ہے ‘ اور جب کہ یہ لفظ حیض اور طہر دونوں کا جامع ہے تو اس کا ہر ایک پر اطلاق کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو (نکاح ثانی سے) تین قروء تک روکے رکھیں ‘ یعنی تین حیض تک روکے رکھیں ‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے ایام اقراء میں نماز پڑھنے سے بیٹھی رہو ‘ یعنی اپنے ایام حیض میں۔ اہل لغت نے کہا ہے کہ قرء کا معنی ہے : جمع ہونا اور ایام حیض میں رحم میں خون جمع ہوتا ہے ۔ (المفردات ص ‘ ٤٠٢ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)
قرء بہ معنیٰ حیض کی تائید میں احادیث اور فقہاء احناف کے دلائل : ⏬
امام ترمذی علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : عدی بن ثابت اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستحاضہ کے متعلق فرمایا : تم اپنے ان ایام اقراء میں نماز چھوڑ دو جن میں تم کو حیض آتا ہے ‘ پھر تم غسل کرو اور ہر نماز کے لیے وضو کرو ‘ نماز پڑھو اور روزہ رکھو ۔ (جامع ترمذی صفحہ ٤٤ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی)
اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرء کا اطلاق حیض پر کیا ہے اور یہ دلیل بھی ہے کہ حیض کی کم از کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے کیونکہ اقراء عربی قواعد کے اعتبار سے جمع قلت ہے اور اس کا اطلاق کم ازکم تین اور زیادہ سے زیادہ دس پر ہوتا ہے اور آپ نے حیض کے لیے اقراء کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
اس حدیث کو امام ابوداؤد ۔ ١ (امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ ‘ سنن ابوداؤد ج ١ ص ٣٧ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ) ۔امام نسائی۔ ٢۔ (امام ابو عبدالرحمان نسائی متوفی ٣٠٣ ھ ‘ سنن نسائی ج ١ ص ٦٥‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی) ۔ اور امام دارقطنی۔ ٣ (امام علی بن عمر دار قطنی متوفی ٢٨٥ ھ سنن دارقطنی ج ١ ص ٢١٢‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان) نے بھی روایت کیا ہے ۔
نیز امام ترمذی علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : باندی کی طلاق (مغلظہ) دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہیں۔ (جامع ترمذی ص ‘ ١٩١ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی،چشتی)
اس حدیث کو امام ابوداؤد۔ ١ (امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ ‘ سنن ابوداؤد ج ٢ ص ٢٧٥ ھ ‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ) ۔ امام ابن ماجہ۔ ٢ (امام ابو عبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ، سنن ابن ماجہ ص ١٥٠ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی)
امام مالک۔ ٣ (امام مالک بن انس اصبحی متوفی ١٧٩ ھ ‘ موطا امام مالک ص ٥٢٦‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی ‘ پاکستان ‘ لاہور) ۔ امام دارمی۔ ٤ (امام ابو عبدالرحمان نسائی متوفی ٣٠٣ ھ ‘ سنن نسائی ج ٢ ص ٢٩٨‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی) ۔ اور امام احمد نے بھی روایت کیا ہے۔ ٥ (امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ، مسنداحمد ج ٦ ص، ١١٧ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٣٩٨ ھ)
اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس پر اتفاق ہے کہ آزاد اور باندی کی عدت کے عدد میں فرق ہے جنس میں فرق نہیں ہے اور جب باندی کی عدت دو حیض ہے تو آزاد عورت کی عدت تین حیض ہوئی اور حدیث میں یہ تصریح ہے کہ قرء سے مراد حیض ہے ۔
امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : امام عبدالرزاق ‘ امام ابن جریر اور امام بیہقی نے عمرو بن دینار علیہم الرحمہ سے روایت کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے کہا : الاقراء سے مراد حیض ہے۔
امام ابن جریر اور امام بیہقی علیہما الرحمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ” ثلاثۃ قروء “ سے مراد تین حیض ہیں ۔
امام عبد بن حمید نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد حیض ہے ۔
وکیع نے حسن سے روایت کیا ہے کہ عورت حیض کیساتھ عدت گزارے خواہ اس کو ایک سال کے بعد حیض آئے ۔
امام عبدا الرزاق نے عکرمہ علیہما الرحمہ سے روایت کیا ہے کہ الاقراء حیض ہیں ‘ طہر نہیں ہیں ۔
امام عبدالرزاق نے عکرمہ علیہما الرحمہ سے روایت کیا ہے کہ الاقراء حیض ہیں طہر نہیں ہیں ۔
امام عبدالرزاق اور امام بیہقی علیہما الرحمہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ طلاق دینا مردوں پر موقوف ہے اور عدت عورتوں پر موقوف ہے ۔ (الدر المنثور ‘ ج ١ ص ‘ ٢٧٥۔ ٢٧٤ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران،چشتی)
فقہاء احناف علیہم الرحمہ نے ” ثلاثۃ قروء “ میں لفظ ” ثلثۃ “ سے بھی استدلال کیا ہے کیونکہ اگر قرء کا معنی طہر لیا جائے تو جس طہر میں طلاق دی جائے گی اس طہر کیا جائے گایا نہیں ‘ اگر اس طہر کو شمار کیا جائے تو دو طہر اور ایک طہر کا کچھ حصہ یعنی اڑھائی طہر عدت قرار پائے گی اور اگر اس طہر کو شمار نہ کیا جائے تو ساڑھے تین طہر عدت قرار پائے گی اور تین قروء صرف اسی صورت میں عدت ہوسکتی ہے جب قرء کا معنی حیض کیا جائے ۔
فقہاء احناف علیہم الرحمہ نے قرء بہ معنی حیض لینے پر یہ عقلی استدلال کیا ہے کہ عدت مشروع کرنے کی حکمت یہ ہے کہ استبراء رحم ہوجائے یعنی یہ معلوم ہوجائے کہ عورت کے رحم میں شوہر کا نطفہ استقرار پا گیا ہے اور بچہ بننے کا عمل شروع ہوگیا ہے یا اس کا رحم خالی اور صاف ہے ‘ سو اگر عورت کو حیض آگیا تو معلوم ہوا کہ اس کا رحم خالی ہے اور اگر حیض نہیں آیا تو معلوم ہوا کہ اس میں نطفہ ٹھہر گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عدت کی حکمت حیض سے پوری ہوتی ہے نہ کہ طہر سے ‘ اس لیے صحیح یہی ہے کہ قرء کا معنیٰ حیض کیا جائے ۔
فقہاء شافعیہ اور مالکیہ علیہم الرحمہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے : (آیت) ” فطلقوھن لعدتھن “۔ (الطلاق : ١) انہوں نے کہا : اس آیت میں لام توقیت کے لیے ہے اور آیت کا معنی ہے : ان کو حدت کے وقت میں طلاق دو ‘ اور چونکہ حیض میں طلاق دینا مشروع نہیں ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ عدت کا وقت طہر ہے اس لیے ” ثلثہ قروء “ میں قروء بہ معنی طہر ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں لام توقیت کیلیے نہیں بلکہ اختصاص کے لیے ہے یعنی طلاق عدت کے ساتھ مختص ہے اور عدت حیض سے شروع ہوتی ہے ‘ اس لیے طلاق حیض سے پہلے دینی چاہیے نہ کہ دوران حیض ‘ اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ایک قراءت میں ہے : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو یوں بھی پڑھا ہے : ” فی قبل عدتھن ۔ (تفسیر روح المعانی ج ١ ص ١٣٢) یعنی ان کو عدت سے پہلے طلاق دو ‘ نیز قرء بہ معنی حیض پر یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ” ثلثۃ قروء “ کے بعد فرمایا ہے :” عورتوں کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے “ اور یہ واضح ہے کہ اس کا تعلق حیض سے ہے نہ کہ طہر سے ۔
قرء کے معنی کی تعیین میں دیگر ائمہ مذاہب کی آراء : ⏬
علامہ ماوردی شافعی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : قروء کے متعلق دو قول ہیں : ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد حیض ہے ‘ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ ‘ مجاہد ‘ قتادہ ضحاک ‘ عکرمہ ‘ سدی ‘ امام مالک اور ابوحنیفہ علیہم الرحمہ کا قول ہے (علامہ ماوردی کو نقل میں تسامح ہوا ہے ‘ امام مالک کے نزدیک اس کا معنی حیض نہیں ‘ طہر ہے ‘ البتہ امام احمد کے نزدیک اس کا معنی حیض ہے) دوسرا قول یہ ہے کہ اس کا معنی طہر ہے ‘ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ‘ زہری ‘ ابان بن عثمان ‘ امام شافعی اور اہل حجاز کا قول ہے ۔ (النکت والعیون ج ١ ص ٢٩١۔ ١٩٠‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت،چشتی)
علامہ قرطبی مالکی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین ادواریا تین انتقالات تک (عقدثانی سے) روکے رکھیں ‘ اور مطلقہ کبھی حیض سے طہر کی طرف اور کبھی طہر سے حیض کی طرف منتقل ہوتی ہے ‘ اور یہاں طہر سے حیض کی طرف انتقال تو قطعا مراد نہیں ہے کیونکہ حیض میں طلاق دینا تو اصلا مشروع نہیں ہے ‘ اور جب کہ طلاق دینا طہر میں مشروع ہے تو پھر عدت تین انتقالات ہے اور پہلا انتقال اس طہر سے ہے جس میں طلاق واقع ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ٣ ص ١١٥۔ ١١٤ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ ١٣٨٧ ھ)
علامہ ابن جوزی حنبلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اقراء کے متعلق فقہاء کے دو قول ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد حیض ہے ‘ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ‘ حضرت بوموسی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ‘ عکرمہ ‘ ضحاک ‘ سدی ‘ سفیان ثوری ‘ اوزاعی ‘ حسن بن صالح ‘ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل علیہم الرحمہ کا یہی قول ہے ‘ امام احمد نے کہا : میں پہلے یہ کہتا تھا کہ قرء بہ معنی طہر ہے ‘ اور اب میرا مذہب یہ ہے کہ قرء کا معنی حیض ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اقراء سے مراد اطہار ہیں ‘ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ‘ حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا زہری ‘ ابان بن عثمان ‘ امام مالک بن انس اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے ۔ (زادالمیسر ج ١ ص ٢٦٠۔ ٢٥٩‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ،چشتی)
علامہ ابوبکر جصاص حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ہر چند کہ قرء کا اطلاق حیض اور طہر دونوں پر ہوتا ہے ‘ لیکن چند دلائل کی وجہ سے قرء بہ معنی حیض راجح ہے ‘ ایک دلیل یہ ہے کہ اہل لغت نے کہا ہے کہ قرء کا معنی کا معنی اصل لغت میں وقت ہے اور اس لحاظ سے اس کا بہ معنی حیض ہونا راجح ہے ‘ کیونکہ وقت کسی چیز کے حادث ہونے کا ہوتا ہے اور حادث حیض ہوتا ہے کیونکہ طہر تو حالت اصلی ہے اور بعض نے کہا : قرء کا معنی اصل لغت میں جمع اور تالیف ہے ‘ اس اعتبار سے بھی حیض اولی ہے کیونکہ ایام حیض میں رحم میں خون جمع ہوتا رہتا ہے ‘ دوسری دلیل یہ ہے کہ اس عورت کو ذات الاقراء کہا جاتا ہے جس کو حیض آتا ہو اور جو کم سن ہو یا بڑھیا بانجھ ہو اس کو ذات الاقراء نہیں کہا جاتا ہے ‘ حالانکہ طہر تو ان کو اس وقت حاصل ہوتا ہے ‘ تیسری دلیل یہ ہے کہ لغت قرآن پر اتھارٹی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرء کو حیض کے معنی میں استعمال فرمایا ہے ‘ طہر کے معنی میں استعمال نہیں فرمایا کیونکہ آپ نے فرمایا : مستحاضہ اپنے ایام اقراء میں نماز پڑھنا چھوڑ دے ‘ اور آپ نے حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش سے فرمایا : جب تمہارا قرء آئے تو نماز چھوڑ دے ‘ اور آپ نے حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش سے فرمایا : جب تمہارا قرء آئے تو نماز چھوڑ دو اور جب وہ چلا جائے تو غسل کرکے نماز پڑھو ‘ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : باندی کی طلاقیں دو ہیں اور اس کا قرء دو حیض ہیں ‘ اور ایک روایت میں فرمایا : اس کی عدت دو حیض ہیں ‘ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوطاس کی باندیوں کے متعلق فرمایا : وضح حمل سے پہلے حاملہ سے وطی نہ کی جائے اور جب تک ایک حیض سے استبراء نہ ہو جائے غیر حاملہ سے وطی نہ کی جائے ۔ (احکام القرآن ج ١ ص ‘ ٣٦٧۔ ٣٦٤ مطبوعہ سہیل اکیڈمی ‘ لاہور ‘ ١٤٠٠ ھ،چشتی)
عدت کا لفظ عربی زبان میں’’عددت الشئي عدا وعدة‘‘ سے ماخوذہے اور عد یعد کا مصدر ہے۔جس کا معنی ہے کسی چیز کو شمار کرنا ،گننا اور حساب کرنا ، اور یہ تعداد اور چند گنتی پر بھی بولا جاتا ہے عربی میں کہا جاتا ہے’’ عدةرجال وعدة نساء‘‘ ’’چند آدمی اور چند عورتیں‘‘ ۔ بعض اہل لغت نے لکھا ہے کہ یہ لفظ’’اعداد‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنیٰ ہے کسی چیز کو تیار کرنا ۔ عدت کا نام اس لیے رکھا گیا کیونکہ عام طور پر اس میں مقررہ دنوں کو شمار کر کے گزارنا ہوتا ہے ۔ (مقاییس اللغۃ؍ ابن فارس تھذیب اللغۃ ازھری والنھایہ فی غریب الحدیث ابن الاثیرالجزری)
اہلِ علم نے عدت کی متعدد تعریفات کی ہیں جنہیں کتبِ فقہ میں دیکھا جا سکتا ہے ، یہاں ایک جامع تعریف ذکر کی جارہی ہے جسے بعض اہلِ علم نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے : العدة اسمٌ لِمُدَّةٍ تترَبَّصُ فيها المرأةُ عن التَّزويجِ بعدَ وفاةِ زَوجِها أو فِراقِه لها ، إمَّا بالوِلادةِ، أو بالأقرائِ ، أوالأشهُرِ ۔
ترجمہ : عدت اس مقررہ مدت کو کہتے ہیں جس میں ایک عورت شوہر کی وفات یا اس سے جدائی کی وجہ سے وضعِ حمل یا مقررہ ایامِ حیض یا مقررہ مہینوں تک شادی کرنے کےلیے انتظار کرتی ہے ۔ (فتح الباری لابن حجر جلد ۹ صفحہ ۴۷۰)(سبل السلام؍الصنعانی جلد ۳ صفحہ ۱۹۶)(نیل الأوطار الشوکانی جلد ۶ صفحہ ۳۴۱)
طلاق یافتہ اور بیوہ کی عدت کے احکام و مسائل حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عدت گزارنا واجب ہے اور یہ ہر اس عورت پر لازم ہے جو اپنے شوہر سے الگ ہو ، الگ ہونے کی وجہ چاہے طلاق ہو یا خلع ،چاہے فسخ نکاح ہو یا شوہر کی وفات بشرطیکہ خلوت صحیحہ ثابت ہو ۔ اس کی مشروعیت اور اس کا حکم قرآن مجید ، احادیث مبارکہ اور اجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر طلاق ہو جانے کے بعد یا شوہر کی وفات کے بعد عدت گزارنے اور اس کے شمار کرنے کا حکم ہے ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے : وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوئٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔ (سورہ البقرۃ آیت نمبر ۲۲۸)
ترجمہ : اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک اور انہیں حلال نہیں کہ چھپائیں وہ جو اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کیا اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے شوہروں کو اس مدت کے اندر ان کے پھیر لینے کا حق پہنچتا ہے اگر ملاپ چاہیں اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے : وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير ۔ (سورہ البقرۃ آیت نمبر ۲۳۴)
ترجمہ : اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں تو جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو اے والیو تم پر مواخذہ نہیں اس کام میں جو عورتیں اپنے معاملہ میں موافق شرع کریں اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔
اورایک جگہ طلاق کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَّأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ وَمَن يَّتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ۔ (سورہ الطلاق آیت نمبر ۱)
ترجمہ : اے نبی جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر اُنہیں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور اپنے رب اللہ سے ڈرو عدت میں انھیں اُن کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں مگر یہ کہ کوئی صریح بے حیائی کی بات لائیں اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھا بے شک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا تمہیں نہیں معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی نیا حکم بھیجے ۔
اسی طرح احادیث ِمبارکہ میں نبی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی متوفی عنہا زوجہا یا مطلقہ یا حاملہ عورتوں کو طلاق اور شوہر سے جدائی کی شکل میں عدت گزارنے کا حکم دیا ہے ۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا : لا يحل لامرأة تؤمن باللّٰه واليوم الآخر أن تُحِدَّ علٰي ميت فوق ثلاث، إلا علٰي زوج: أربعة أشهر وعشرًا ۔ (بخاری:۵۳۳۴،چشتی)(مسلم:۱۴۸۶)
ترجمہ : کسی بھی عورت کےلیے جواللہ اورآخرت پر ایمان رکھتی ہے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہر کے جس پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی ۔
دوسری حدیث میں حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں اور حجۃ الوداع میں ان کے شوہر کی وفات ہو گئی اس حالت میں کہ وہ حمل سے تھیں چنانچہ ان کی وفات کے بعد بچے کی پیدائش ہوئی اور یہ نفاس اور زچگی کے مرحلے سے نکلنے کے بعد شادی کرنے کی سوچنے لگیں ، اتفاق سے صحابی رسول حضرت ابو السنابل رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے روکا اور کہا کہ جب تک چار مہینے ۱۰ دن تک عدت کی مدت مکمل نہ کر لو اس وقت تک تم شادی نہیں کر سکتیں چنانچہ یہ معاملہ سن کر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار رسالت کا رخ کیا اور پہنچ کر مسئلہ پوچھا ، فرماتی ہیں : فأفتاني بأني قد حللت حين وضعت حملي، وأمرني بالتزويج، إن بدا لي ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے بچہ جن دیا ہے اس لیے اب حلال ہو چکی ہو اور اگر شادی کرنا چاہتی ہو تو شادی کر سکتی ہو ۔ (بخاری:۳۱۹۱،چشتی)(مسلم:۱۴۸۴)
اس حدیثِ مبارکہ میں متوفی عنہا حاملہ کی عدت کا ذکر ہے ۔
اسی طرح علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ عدت واجب ہے جیسا کہ علامہ ابن المنذر علیہ الرحمہ اور دیگر فقہاء نے کتبِ فقہ میں اس کی صراحت کی ہے ، علامہ ابن المنذر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ولا خلاف بين اهل العلم فى وجوب العدة فى الجملة على المراة المدخول بها ۔
ترجمہ : تمام اہل علم کے درمیان اس عورت پر عدت کے واجب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے جس کے شوہر نے اس کے ساتھ دخول کیا ہے ۔ (الاجماع ابن منذر:۴۹۳،چشتی)(احکام القرآن ابن العربی:۳؍۵۸۷)(المغنی لابن قدامۃ)
اسلامی شریعت میں جب کسی چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اس میں اللہ عزوجل کی کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پنہاں ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سماجی و معاشرتی فوائد و مصالح بھی ہوتے ہیں چاہے ہمارے علم کی وہاں تک رسائی ہو یا نہ ہو ، عدت بھی انہی شرعی احکام میں سے ایک ہے جس کے پیچھے بہت ساری حکمتیں ہیں جنہیں فقہائے اسلام اور اہل علم نے اپنی اپنی کتابوں میں بیان فرمایا ہے ، ہو سکتا ہے کہ آئندہ زمانے میں اس کی اور بھی حکمتیں اور مصلحتیں اجاگر ہوں جنہیں اللہ عزوجل ہی بہتر جانتا ہے ، اس میں اہل علم نے درج ذیل حکمتیں اور مصلحتیں بیان کی ہیں : ⏬
استبرائے رحم : اسلامی شریعت نسل انسانی اور لوگوں کے حسب و نسب کو تحفظ دینے اور اسے شکوک و شبہات سے بچانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے چنانچہ اسی حکمت کے پیش نظر کہ نسب کا ثبوت ممکن ہو اور اس میں کوئی شبہ اور اختلاط پیدا نہ ہو یہ حکم دیا گیا کہ ہر عورت کا رحم اپنے پرانے شوہر کے نطفے اور اس کے حمل سے پاک اور صاف ہو جائے اور کسی طرح کا کوئی اختلاط اور شبہ نہ ہو اسی لیے بعض اہل علم نے لکھا ہے : ولأن العده تجب لمعرفه براء ةالرحم والحاجه الي الاستبراء بعد الدخول لا قبله ۔
ترجمہ : رحم مادرکی پاکی اوربرأ ت کےلیے عدت ضروری ہے اور یہ شوہر سے ملاپ کے بعد ہوگا نہ کہ اس سے پہلے ۔ (المغنی لابن قدامہ : ۱۱؍۱۴۹)
علامہ ابن القیم جوزی لکھتے ہیں اس کی حکمت میں سے ایک یہ ہے کہ : العِلمُ ببَراء ةِ الرَّحِمِ، وألَّا يجتَمِعَ ماء ُ الواطِئَينِ فأكثَرَ فى رَحِمٍ واحِدٍ، فتختَلِطَ الأنسابُ وتَفسُدَ، وفي ذلك مِن الفَسادِ ما تمنَعُه الشَّريعةُ والحِكْمةُ ۔
ترجمہ : اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے رحم مادر کی پاکی کا علم ہوتا ہے ،اوریہ مقصد بھی ہے کہ رحم مادر میں دویااس سے زیادہ لوگوں کا نطفہ بیک وقت اکٹھانہ ہو تاکہ اس کی وجہ سے حسب ونسب میں اختلاط اور فساد نہ پیدا ہو جائے ، اور اس میں بہت فساد و بگاڑ ہے جسے شریعت وعقل دونوں مٹانا چاہتی ہے ۔ (اعلام الموقعین:۲؍۵۱،چشتی)
اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی اور علمِ طب اور اس کے آلات کے ذریعہ استبراء رحم کاپتہ لگانے اور عدت کی ضرورت نہ ہونے کے شبہات کی تردید کرتے ہوئے مصر کے ایک ڈاکٹر نے بڑی پیاری بات لکھی ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ استبراء رحم کیوں ضروری ہے وہ لکھتے ہیں کہ : الدراسات الحديثة أثبتت أن ماء الرجل يحتوي علي 62 نوعا من البروتين وأن هذا الماء يختلف من رجل إلى آخر فلكل رجل بصمة فى رحم زوجته۔وإذا تزوجت من رجل آخر بعد الطلاق مباشرة، قد تصاب المرأة بمرض سرطان الرحم لدخول أكثر من بصمة مختلفة فى الرحم، وقد أثبتت الأبحاث العلمية أن أول حيض بعد طلاق المرأة يزيل من 32 فى المئة إلى 35 فى المئة، وتزيل الحيضة الثانية من 67 فى المئة إلي72 فى المئة منها، بينما تزيل الحيضة الثالثة 99.9 فى المئة من بصمة الرجل، وهنا يكون الرحم قد تم تطهيره من البصمة السابقة وصار مستعدا لاستقبال بصمة أخري ۔
ترجمہ : جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مردکے نطفے میں ۶۲ قسم کے پروٹین ہوتے ہیں اوریہ ہرمرد میں الگ الگ نوعیت کے ہوتے ہیں اسی طرح ہر مرد اپنی بیوی کے رحم یعنی بچہ دانی میں ایک الگ بصمہ یعنی نشان اور چھاپ چھوڑتا ہے ، اب اگر یہ طلاق کے بعد فوراً (بغیر استبراء رحم کے) شادی کرلیتی ہے تو کبھی رحم میں ایک ساتھ دو نطفوں کے چھاپ کی وجہ سے عورت کینسر جیسی بیماری میں مبتلا ہو سکتی ہے ، اور جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ طلاق کے بعد پہلے حیض سے ۳۲ تا ۳۵ % اور اس کے بعد دوسرے حیض سے ۶۲ تا ۷۲ % اور تیسرے حیض سے ۹ ۔ ۹۹ % رحم میں موجود مرد کے نشان اور چھاپ زائل ہو جا تے ہیں اور اس طرح عورت کا رحم پہلے شوہر کے بصمات سے پاک ہو کر دوسرے بصمات کے استقبال کےلیے تیار ہو جاتا ہے ۔ (الإعجاز العلمی فی عدۃ المطلقۃ والمتوفی عنہا زوجہا’’بقلم الدکتور رفیق المصری منشورۃ بإصدارۃ‘‘’’إعجاز‘‘ بالموقع الإلکترونی لمنتدی الإعجاز العلمی فی القرآن والسنۃ فی لبنان)
عقد نکاح کی عظمت اور بلند شان : عدت کے ذریعے نکاح جیسے عظیم عمل اور عقد کا بلند مقام و مرتبہ واضح ہوتا ہے اس طور پر کہ ایک عورت اس عقد سے جڑنے کے بعد ڈائریکٹ ، بلا فصل اور بلا عدت مقررہ کے اپنے شوہر کی زوجیت سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکتی اور اس طرح اس میں طرفین کےلیے مصلحت ہے ، ہو سکتا ہے کہ صبح کا بھولا ہوا شام کو واپسی کا ارادہ کرے ایسی صورت میں گویا عدت دونوں کےلیے رجوع کا ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہے ۔ علامہ ابن القیم جوزی لکھتے ہیں اس کی حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ : تعظيمُ خَطَرِ عَقدِ النِّكاحِ، ورَفعُ قَدْرِه، وإظهارُ شَرَفِه ۔
ترجمہ : اس میں عقد نکاح کی خطرناکی ،اس کابلند مقام اوراس کی عظمت شان کوواضح کرنا ہے ۔ (اعلام الموقعین: ۲؍۵۱)
اظہار تأسف وملال :عدت ایک طرح سے نکاح جیسے پاکیزہ عمل کے ختم ہونے اور ٹوٹنے پر اظہارِ تأسف اور رنج و غم ہے کیونکہ نکاح کی وجہ سے عورت کو شوہر کی طرف سے عزت و آبرو کی حفاظت و صیانت کے ساتھ نان و نفقہ اور اخراجات کے برداشت کرنے کی نعمت بھی ملی تھی اور اس کے ٹوٹنے سے عورت ان نعمتوں سے گویا محروم ہو گئی ۔ (بدایع الصنائع الکاسانی : ۳؍۱۹۲،چشتی)
چار مہینے دس دن کا فلسفہ : بیوہ کی عدت کے بارے میں علامہ ابن کثیر اپنی کتاب تفسیرابن کثیر میں رقمطراز ہیں : سعید بن مسیب اور ابو العالیہ وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ : بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن رکھنے میں حکمت یہ ہے کہ حمل کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ آیا کہیں حمل تو نہیں ، جب یہ عرصہ انتظار کیا جائے گا تو اس سے حمل کے متعلق علم ہو جائے گا کہ حمل ہے یا نہیں ۔ جیسا کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی صحیحین وغیرہ کی درج ذیل روایت میں بیان ہوا ہے : یقیناً تمہاری خلقت کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک نطفہ رکھا جاتا ہے ، اور پھر وہ اتنے ہی ایام میں ایک لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اتنے ہی ایام میں گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے ، پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے ۔
تو یہ چالیس ایام تین بار ہوں تو چار ماہ بنتے ہیں ، اور اس کے بعد دس دن اور احتیاط کے ہیں کیونکہ بعض اوقات کوئی مہینہ کم ہوتا ہے ، اور پھر اس میں حرکت اور روح پھونکے جانے کےلیے یہ ایام رکھے گئے ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم
سعید بن عروبہ قتادہ علیہماالرحمہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ یہ دس دن کے متعلق کیا ہے ؟
ان کا جواب تھا : اس میں روح پھونکی جاتی ہے ۔
اور الربیع بن انس علیہ الرحمہ کہتے ہیں میں نے ابو العالیہ سے عرض کیا :
چار ماہ کے ساتھ یہ دس دن کیوں رکھے گئے ؟
ان کا جواب تھا : اس لیے کہ ان ایام میں اس بچہ میں روح پھونکی جاتی ہے ۔ دونوں کو ابن جریر نے روایت کیا ہے ۔ (تفسیرابن کثیر؍البقرہ:۲۳۴)
علامہ شوکانی فتح القدیر میں لکھتے ہیں : بیوہ کی عدت اتنی مقدار میں رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ غالباً بچہ تین ماہ میں حرکت کرنے لگتا ہے ، اور بچی چار ماہ کی حرکت کرنے لگتی ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس پر دس دن اور زائد اس لیے کیے کہ بعض اوقات بچہ کمزور ہوتا ہے اور کچھ ایام حرکت میں بھی تاخیر ہو سکتی ہے لیکن اس عرصہ سے زائد تاخیر نہیں ہوتی ۔ (فتح القدیر؍البقرہ:۲۳۴)(زاد المسیر ابن الجوزی:۱؍۲۷۵)(اعلام الموقعین:۲؍۵۲،وزادالمعاد ابن القیم: ۵؍۵۹۰)
عدت گزارنے والی عورتوں کی کل نو قسمیں ہیں : ⏬
نمبر 1 : وہ عورت جس پر عدت نہیں ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو مجامعت یعنی ملاپ کے بغیر طلاق دے دے تو اس پر عدت نہیں ہے جیسا کہ قران مجید میں اللہ رب العالمین نے فرمایا : يَٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوٓاْ إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ۔
ترجمہ : اے مومنو جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو اور بھلے طریق پر انہیں رخصت کر دو ۔ (ورہ الاحزاب آیت نمبر ۴۹)
نمبر 2 : عورت اگر حمل سے ہے تو اس کی عدت وضع حمل یعنی بچے کو جن دیناہے ، اس کے بعد جب تک بچے کی پیدائش نہیں ہوتی وہ عدت گزارے گی اور جب بچے کی پیدائش ہو جائے گی تو عدت ختم ہو جائے گی ، اس صورت میں عورت چاہے مطلقہ ہو یا متوفی عنہا زوجہا ہو یا کوئی اور ہو اس کی مدت یہی وضع حمل ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَأُوْلَٰتُ لْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۔
ترجمہ : اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے ۔ (سورہ الطلاق:۴)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم حضرت سبیعہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھی اور حجۃ الوداع میں ان کے شوہر کی وفات ہو گئی اس حالت میں کی وہ حالت حمل میں تھی چنانچہ ان کی وفات کے بعد بچے کی پیدائش ہوئی اور یہ نفاس اور زچگی کے مرحلے سے نکلنے کے بعد شادی کرنے کی سوچنے لگیں ، اتفاق سے صحابی رسول حضرت ابو السنابل رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے روکا اور کہا کہ جب تک چار مہینے ۱۰ دن تک عدت کی مدت مکمل نہ کر لو اس وقت تک تم شادی نہیں کر سکتی چنانچہ یہ معاملہ سن کر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار رسالت کا رخ کیا اور پہنچ کر مسئلہ پوچھا فرماتی ہیں : فأفتاني بأني قد حللت حين وضعت حملي، وأمرني بالتزويج، إن بدا ليكه ۔
ترجمہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے جب بچہ جن دیا ہے اس لیے اب حلال ہو چکی ہو اور اگر شادی کرنا چاہتی ہو تو شادی کر سکتی ہو ۔ (بخاری:۳۹۹۱،چشتی)(مسلم:۱۴۸۴)
نمبر 3 : شادی کے بعد عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس کی دو شکلیں ہیں : یا تو عورت حمل سے ہو تو اس کی عدت جیسا کہ گذر چکا ہے وضع حمل ہے ، چاہے چار مہینہ ۱۰ دن سے پہلے بچے کی پیدائش ہو جائے یا بعد میں جب تک بچے کی پیدائش نہ ہوگی عدت ختم نہ ہو گی ۔ یا عورت حمل سے نہیں ہے ،اس صورت میں چاہے عورت مدخول بہا ہو یا نہ ہو اس کی عدت شوہر کی وفات کی وجہ سے چار مہینے دس دن ہی ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير ۔
ترجمہ : تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں پھر جب مدت ختم کر لیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لیے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے خبردار ہے ۔ (سورہ البقرہ:۲۳۴)
نمبر 4 : عورت اگر مطلقہ مدخول بہا ہے اوراسے حیض کا خون جاری ہے ۔تو اس کی عدت تین حیض ہے ، جیسا کہ قرآن مجید میں وارد ہے کہ : وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوء ۔ (سورہ البقرہ:۲۲۸)
ترجمہ : طلاق شدہ عورتیں تین مہینے تک انتظار کریں گے ۔
نمبر 5 : مطلقہ عورت کو اگر حیض نہیں آتا ہے چاہے وہ زیادہ عمر کی وجہ سے حیض سے مایوس ہے یعنی آئسہ ہے یا صغیرہ غیر بالغہ ہے اس لیے ایسا ہے تو اس کی عدت تین مہینہ ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں وارد ہے : وَلَّٰٓـِئي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَآئِكُمْ إِنِ رْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ أَشْهُرٍ وَلَّٰٓـِئي لَمْ يَحِضْنَ ۔
ترجمہ : تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہو گئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہو ۔ (سورہ الطلاق:۴)
نمبر 6 : وہ عورت جس کا حیض سن یا س سے پہلے ہی بند ہو جائے اور اسے اس کا سبب معلوم نہ ہو تو اگر اس کا شوہر اسے چھوڑ دے یا طلاق دے دے یا اس کی وفات ہو جائے تو اس کی عدت ایک سال ہے ، جس میں نو مہینے برأت رحم کےلیے اور تین مہینے سن یاس کے یعنی کل بارہ مہینے اور اس طرح کل ایک سال تک وہ عدت گزارے گی ۔ امام شافعی علیہ الرحمہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ فیصلہ ہے جسے مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں انہوں نے دیا تھا اور ہمارے علم کی حد تک کسی نے اس کا انکار نہیں کیا تو گویا کہ اس پر اجماع ہے ۔ (الکافی: ۵؍۱۵۔ ۱۶، شرح المنتہی:۵؍۵۹۷،چشتی)
اور اگر ایسی عورت کو سال پورا ہونے سے پہلے حیض آجائے تو وہ حیض کے ذریعے عدت گزارے گی ۔ اور اگر عدت میں رہنے والی عورت کو پتہ چل جائے کہ انقطاع حیض بچے کو دودھ پلانے یا کسی مرض کے سبب ہے تو وہ عدت میں ہی رہے گی یہاں تک کہ اسے حیض آجائے اور پھر عدت گزارے گی چاہے جتنا وقت لگے ۔ اس کی دلیل حضرت علقمہ ابن قیس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دیا یا پھر انہیں ایک بار یا دو بار حیض آنے کے بعد سات یا آٹھ مہینے تک حیض ہی نہیں آیا اور پھر ان کی وفات ہو گئی چنانچہ یہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : حبس اللّٰه عليك ميراثها فورثه منها ’’ اللہ نے تمہارے اوپر اس کی میراث کو روکے رکھا چنانچہ یہ عورت کی وراثت میں حصے دار ہوئے ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی:۷؍۴۱۹ بسند صحیح)
نمبر 7 : مفقود الخبرشوہر کی بیوی کے سلسلے میں اہلِ علم کے مابین صریح نصوص نہ ہونے کی وجہ سے شدید اختلاف وارد ہے ، تاہم آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور دیگر فقہاء کی آراء و اجتہادات سے جو بات راجح محسوس ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اگراس کی موت وحیات کے مابین کشمکش ہے تو عورت چار سال تک انتظار کرے گی اور اس کے بعد عدت الوفاہ چار مہینہ دس دن گزار کر آزاد ہو جائے گی جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس بابت فیصلہ ہے ۔ (مؤطاامام مالک:۲۱۳۴، مصنف ابن ابی شیبہ:۱۶۷۲۰)
اور بعض اہل علم نے اسے قاضی وقت پر چھوڑا ہے کہ وہ مفقود کے موت و حیات کی تحقیق کے بعد جو مناسب فیصلہ سمجھیں کریں گے ۔
نمبر 8 : خلع لینے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے جیسا کہ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لے لیا ، چنانچہ مسئلہ دریافت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا : فأمرت أن تعتد بحيضة ۔ یعنی ایک حیض آنے تک عدت گزارو ۔ (سنن ترمذی:۱۱۸۵، ابن ماجہ: ۲۰۵۸،بسند صحیح)
اور ایسے ہی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کہ جب حضرت ثابت ابن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لے لیا ’’فجعل النبى صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عدتها حيضة ‘‘ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی عدت ایک حیض مقرر فرمایا ۔ (سنن ابی داؤد:۲۲۳۱،سنن ترمذی:۱۱۸۵،نسائی:۳۴۹۷ بسندصحیح)
نمبر 9 : وہ عورت جو زنا جیسے گناہ کبیرہ کی مرتکب ہوتی ہے : فقہائے کرام نے ایسی عورتوں کی عدت کے سلسلے میں بھی کلام کیا ہے جو زنا کی وجہ سے حاملہ ہو جاتی ہے یا جن سے یہ گناہ عظیم سرزد ہوتا ہے تو اگر وہ حمل سے نہیں ہے تو اس کی عدت ایک حیض ہے تاکہ استبرائے رحم کیا جا سکے اور نسب کے اختلاط سے بچا جا سکے اور اگر حاملہ ہے تو عدت وضع حمل ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔
یہ کل نو طرح کی عورتیں ہیں جن کے بارے میں فقہاء کرام نے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں عدت کی الگ الگ قسمیں ذکر کی ہیں ۔
جب تین طلاق دے دیا تو عورت اس کے نکاح سے نکل گئی اب کسی صورت میں اس کےلیے حلال نہیں ، بے حلالہ دوبارہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی ۔ جیسا کہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ : عورت بے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی یعنی اس کی عدت گزرے ، پھر عورت دوسرے شخص سے نکاح کرے اور اس سے ہمبستری بھی ہو ، پھر وہ اسے طلاق دے ، یا مر جائے اور عدت گزر جائے اس کے بعد اس شخص کو عورت سے نکاح جائز ہو گا ۔ قال اللہ تعالیٰ : فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ۔ (القرآن الکریم ٢/ ٣٢٠) ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اگر تیسری طلاق دے دی تو اس کے لئے مطلقہ دوبارہ حلال نہیں ہوگی ، تاوقتیکہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے ۔ وقال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : یعنی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تحلین لزوجک الاول حتی یذوق الاخر عسیلتک و تذوقی عسیلتہ ۔ (صحیح البخاری جلد ٢ صفحہ ٧٩٢،چشتی) ۔ یعنی " اے عورت ..! تو حلال نہ ہوگی پہلے شوہر کے لئے جب تک تو دوسرے خاوند کا مزہ اور وہ تیرا مزہ نہ لے لے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد ١٢ صفحہ ٣٧٦ مطبوعہ جدید)
مطلقہ عورت کےلیے حکم ہے کہ وہ عدت شوہر کے گھر گزارے جیسا کہ "قرآن کریم پارہ ٢٨ سورہ طلاق " میں ہے کہ : لاتخرجو ھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یا تین بفاحشۃ مبینۃ ۔ یعنی " طلاق والی عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو ت نہ وہ خود نکلیں مگر جب وہ کھلی ہوئی بے حیائی کریں ۔ اور اگر شوہر فاسق ہو اور کوئی وہاں ایسا نہ ہو کہ اگر اس کی نیت بد ہو تو روک سکے تو ایسی حالت میں البتہ مکان بدلنے کا حکم ہے ۔ (فتاویٰ فیض الرسول جلد دوم صفحہ ٢٩٠،چشتی)
اگروہ ایسی صورت حال میں مکان بدلنے پر شرعاً مجبور ہے تو جو قریب تر مکان کیرایہ کا دستیاب ہو یا قریب میں کسی عزیز کا مکان ہو جس میں بے کیرایہ رہ سکتی ہے تو اس قریب تر مکان میں چلی جائے اور وہاں عدت کے دن پورے کرے ۔(فتاویٰ امجدیہ جلد دوم صفحہ ٢٨٢)
عدت کی مدت تک طالق پر مطلقہ کا نان و نفقہ اور اگر وہ کرایہ کے مکان میں عدت گزارے تو اس کا کرایہ طالق کے ذمہ ہے ۔ (فتاویٰ امجدیہ جلد دوم صفحہ ٣١١)
اگر نہیں دے گا تو سخت گنہگار ہوگا ۔ وہ حقوق العباد میں سے ہے قیامت کے دن اس سے سوال ہوگا اور بغیر اس کے معاف کئے خدا بھی نہیں معاف فرمائے گا ۔
طلاق کی عدت کی مدت کے متعلق حکم یہ ہے : حیض والی کےلیے تین حیض ہیں جو بعد طلاق شروع ہو کر ختم ہو جائیں اور جسے حیض ابھی نہیں آیا ، یا حیض کی عمر گذر چکی اس کےلیے تین مہینہ اور حمل والی کےلیے وضع حمل ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد ١٣ صفحہ ٢٩٥ مطبوعہ جدید)
اور بچپن کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو کہ وہ ابھی نو سال سے کم عمر ہے یا بڑھاپے کی وجہ سے کہ وہ عمر رسیدہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ حیض والی نہیں تو اس کی عدت تین ماہ ہوگی - (فتاویٰ رضویہ شریف جلد ١٣ صفحہ ٣٩٣)
عدت ختم ہونے سے پہلے عورت کا دوسرے مرد کے ساتھ رہنا یا اس سے نکاح کرنا حرام ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد ١٣ صفحہ ٢٩٤)
دوران عدت اگر کوئی لوازمات زندگی محیا کرنے والا نہ ہو تو ایسی صورت اس کےلیے حکم شرعی یہ ہے : وہ صبح و شام باہر نکلے اور شب اسی مکان میں بسر کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد ١٣ صفحہ ٣٢٧)
آخر میں یہ بات واضح رہے کہ عورت کی گواہی (شہادت) کے نصاب کو تین قسم کے معاملات پر تقسیم کیا جا سکتا ہے : ⏬
(1) حدود و قصاص : جیسے حدِ زنا ، حدِ سرقہ ، قتل کی سزا وغیرہ ، اس میں عورتوں کی گواہی سرے سے مقبول ہی نہیں ہے ، خواہ ان کے ساتھ مرد ہوں یا نہ ہوں، اور خواہ عورتوں کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو ۔
(2) وہ معاملات جن پر مرد مطلع نہیں ہو سکتے : جیسے بچے کی ولادت ، عورت کا باکرہ ہونا ماہانہ مینسز وغیرہ ، اس قسم کے معاملات میں تنہا ایک عورت کی گواہی بھی کافی ہے ۔
(3) مذکورہ دونوں قسم کے معاملات کے علاوہ دیگر معاملات : جیسے نکاح ، طلاق ، وکالت ، وصیت ، ہبہ وغیرہ ، اس قسم کے معاملات میں عورتوں کی گواہی مقبول تو ہے ، مگر تنہا نہیں ، بلکہ دو شرائط کے ساتھ : ایک یہ کہ کم از کم ان گواہی دینے والی عورتوں کی تعداد "دو" ہو ، اور دوسری یہ کہ ان دو عورتوں کے ساتھ کم از کم ایک مرد بھی گواہی دینے والا ہو ۔
لہٰذا دوسری قسم کے معاملات کے علاوہ ، کسی بھی جگہ تنہا عورتوں کی گواہی قبول نہیں ہوگی ، خواہ اُن کی تعداد کتنی بھی ہو جائے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے : (ونصابها للزنا أربعة رجال) ... (و) لبقية (الحدود والقود و) منه (إسلام كافر ذكر) لمآلها لقتله بخلاف الأنثى بحر (و) مثله (ردة مسلم رجلان) ... (وللولادة واستهلال الصبي للصلاة عليه) وللإرث عندهما والشافعي وأحمد وهو أرجح فتح (والبكارة وعيوب النساء فيما لا يطلع عليه الرجال امرأة) حرة مسلمة والثنتان أحوط ... (و) نصابها (لغيرها من الحقوق سواء كان) الحق (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال صبي) ولو (للإرث رجلان) ... (أو رجل وامرأتان) ۔ (فتاویٰ شامی كتاب الشهادات جلد ٥ صفحہ ٤٦٤ مطبوعہ ایچ ایم سعيد کراچی)
درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے : (ونصابها للزنا أربعة رجال) لقوله تعالى {واللاتي يأتين الفاحشة من نسائكم فاستشهدوا عليهن أربعة منكم}، وقوله تعالى {ثم لم يأتوا بأربعة شهداء} ۔ (و) نصابها (لبقية الحدود والقود رجلان) لقوله تعالى {واستشهدوا شهيدين من رجالكم}، ولا تقبل فيها شهادة النساء لما فيها من شبهة البدلية (و) نصابها (للولادة واستهلال الصبي للصلاة عليه والبكارة وعيوب النساء في موضع لا يطلع عليه الرجال امرأة واحدة) لقوله - صلى الله عليه وآله وسلم - "شهادة النساء جائزة فيما لا يستطيع الرجال النظر إليه" والجمع المحلى باللام يراد به الجنس إذا لم يكن ثمة معهود إذ الكل ليس بمراد قطعا فيراد به الأقل لتيقنه (و) نصابها (لغيرها) من الحقوق سواء كان (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال الصبي للإرث رجلان أو رجل وامرأتان) لما روي أن عمر وعليا - رضي الله تعالى عنهما - أجازا شهادة النساء مع الرجال في النكاح والفرقة كما في الأموال وتوابعها ۔ (درر الحکام شرح غرر الاحکام كتاب الشهادات جلد ٢ صفحہ ٣٧١ مطبوعہ دار إحياء الكتب العربية)
الہدایہ میں ہے : (والشهادة على مراتب: منها الشهادة في الزنا يعتبر فيها أربعة من الرجال) لقوله تعالى: {وَاللَاّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ}، ولقوله تعالى: {ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ} (ولا تقبل فيها شهادة النساء) لحديث الزهري رضي الله عنه: مضت السنة من لدن رسول الله عليه الصلاة والسلام والخليفتين من بعده أن لا شهادة للنساء في الحدود والقصاص، ولأن فيها شبهة البدلية لقيامها مقام شهادة الرجال فلا تقبل فيما يندرئ بالشبهات (ومنها الشهادة ببقية الحدود والقصاص تقبل فيها شهادة رجلين) لقوله تعالى: {وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ} (ولا تقبل فيها شهادة النساء) لما ذكرنا ۔
قال : (وما سوى ذلك من الحقوق يقبل فيها شهادة رجلين أو رجل وامرأتين سواء كان الحق مالا أو غير مال) مثل : النكاح والطلاق والعتاق والعدة والحوالة والوقف والصلح والوكالة والوصية والهبة والإقرار والإبراء والولد والولاد والنسب ونحو ذلك ... قال: (وتقبل في الولادة والبكارة والعيوب بالنساء في موضع لا يطلع عليه الرجال شهادة امرأة واحدة) لقوله عليه الصلاة والسلام : "شهادة النساء جائزة فيما لا يستطيع الرجال النظر إليه" والجمع المحلى بالألف واللام يراد به الجنس فيتناول الأقل ۔ (الہدایہ كتاب الشهادات، باب مراتب الشهادات جلد ٣صفحہ ١١٦ مطبوعہ دار إحياء التراث العربي) ۔ مزید تفصیل کےلیے کتب فقہ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شریعت کے احکام سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment