اللہ کے نیک بندے زمین کے وارث ہیں
اللہ تعالی کے وہ محبوب ومقرب بندے جنہوں نے زندگی بھر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا،اپنی زندگی کا ہر لمحہ یاد خدا کے لئے وقف کیا،دنیوی لذتوں کو ترک کرکے اپنی ساری توانائیاں دین متین کی تبلیغ واشاعت میں صرف کیں،ایسے مقربان بارگاہ الہی کے لئے آخرت میں بلند مقامات اوراعلی درجات ہیں، نیز دنیا میں اللہ تعالی نے ان کی شان وعظمت آشکار کرنے کے لئے خصائص وامتیازات عطا فرمائے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ ۔
ترجمہ : اور بے شک ہم نے "زبور"میں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیا:یقینا زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے ۔ (سورۃ الانبیاء۔ 105)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ "زمین"سے مراد جنت کی زمین ہے،اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے دنیا کی زمین مراد ہے اور علامہ ابن کثیر نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ اولیاء وصالحین 'دنیا وآخرت ہر دو کی زمین کے وارث ہوتے ہیں : يقول تعالی مخبرا عما حتمه وقضاه لعباده الصالحين، من السعادة فی الدنيا والآخرة، ووراثة الأرض في الدنيا والآخرة -
ترجمہ:اللہ تعالی ان چیزوں سے متعلق بیان فرمارہا ہے جس کا اس نے اپنے نیک بندوں کے لئے قطعی اور حتمی فیصلہ کردیا ہے کہ دنیا وآخرت میں ان کے لئے سعادت ہے اور دنیا و آخرت میں زمین ان کی وراثت ہے-(تفسیر ابن کثیرجلد نمبر 3 صفحات نمبرز394 ، 395 مترجم اردو ،سورۃ الانبیاء ۔105،-(تفسیر ابن کثیرعربی ،جلد نمبر 5 ، صفحہ نمبر 384، سورۃ الانبیاء ۔105،چشتی)
وَ لَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعْدِ الذِّکْرِ : اور بیشک ہم نے نصیحت کے بعد زبورمیں لکھ دیا۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں زبور سے وہ تمام کتابیں مراد ہیں جو انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئیں اور ذکر سے مراد لوحِ محفوظ ہے، اور آیت کا معنی یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں لکھنے کے بعد ہم نے تمام آسمانی کتابوں میں لکھ دیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ زبور سے وہ آسمانی کتاب مراد ہے جوحضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپرنازل ہوئی اور ذکر سے مراد تورات ہے، اور آیت کا معنی یہ ہے کہ تورات میں لکھنے کے بعد زبور میں لکھ دیا ۔ (تفسیر خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳/۲۹۷، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۷۲۸،)
اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ : کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے ۔ اس زمین سے مراد جنت کی زمین ہے جس کے وارث اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے ہوں گے ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اس سے کفار کی زمینیں مراد ہیں جنہیں مسلمان فتح کریں گے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے شام کی زمین مراد ہے جس کے وارث اللّٰہ تعالیٰ کے وہ نیک بندے ہوں گے جو اس وقت شام میں رہنے والوں کے بعد آئیں گے ۔ (تفسیر خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳/۲۹۷)
اس آیت کریمہ سے واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے اولیاء کرام وصالحین عظام علیہم الرّحمہ کو ‘ زمین کا وارث بنادیا، مالک کو اپنی ملکیت میں تصرف واختیار کا حق حاصل ہوتاہے، یہ حضرات زمین میں صاحب تصرف وبااختیار ہوتے ہیں ، ان مقربین بارگاہِ خداوندی سے جو خلافِ عادت کام ظاہرہوتے ہیں اور خلاف عقل امور وقوع پذیرہوتے ہیں ، اُنہیں "کرامات "کہا جاتا ہے ۔ (طالب دعا عو دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment