مشہور اہلحدیث عالم حافظ عبد المنّان نور پوری لکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کودرود و سلام پیش کیا جاتا ہے آپ سنتے ہیں
عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! کَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ يَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ قَالَ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَي الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه ۔
ترجمہ : حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ کا جسدِ مبارک خاک میں مل چکا ہو گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام کر دیا ہے ۔ (احکام و مسائل نماز جلد دوم صفحہ 93 یہ حدیث صحیح ہے مصنف مشہور اہلحدیث عالم حافظ عبد المنّان نور پوری)
حیات الانبیاء عليهم السلام کے بارے میں حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث کو ضعیف کہنے پر غیر مقلدین وہابی حضرات کا رد
(1) اس حدیث کو غیر مقلد زبیر علی زئی نے ضعیف کہا ہے ، جب کے اسی طبقہ کے غیر مقلد محمد آمین نے زبیر کا رد کیا ہے ، وہ لکھتا ہے ۔ "مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے سنداً صحیح قرار دیا ہے ۔ اور دلائل کی رو سے انہیں کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے ۔ ( سنن نسائی جلد 3 صفحہ 219،چشتی)
(2) زبیرزئی کے استاد غیر مقلد وہابی عبد المنان نور پوری نے ایک سوال کے جواب میں اس حدیث کونقل کیا ہے اور البانی کے حوالے سے اسے صحیح کہا ہے ۔ (احکام ومسائل جلد 2 صفحہ 93)
(3) غیرمقلد ابو عبد اللہ اور عبد الغفار نے بھی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور صحیح کہا ہے ۔ (صحیح اور مستند فضائل اعمال صفحہ 716،چشتی)
حیات انبیاء علیہ السّلام کی ایک اور روایت پر غیر مقلس سِفلی وہابیوں کے اعتراض کا جواب
مسند أبي يعلى الموصلي (۶ ۱۴۷)
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الْأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ»[حكم حسين سليم أسد] : إسناده صحيح
ترجمہ--- رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا " انبیاء علیہ السّلام اپنی قبور میں حیات ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں.
اعتراض (۱). مذکورہ روایت میں حجاج مجہول ہے.
جواب --- یہ اعتراض مردود ہے، کیوں کی کتب رجّال میں مُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ کا ایک ہی استاد ہے جسکا نام حجاج ہے.
تهذيب الكمال في أسماء الرجال (۲۷ ۴۲۹) المزي (المتوفى: ۷۴۲هـ،چشتی)
مستلم بن سَعِيد الثقفي الواسطي ، ابن أخت منصور بْن زاذان.
رَوَى عَن: حجاج بْن أَبي زياد الأسود.
حجاج بْن أَبي زياد الأسود جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں.
تهذيب الكمال في أسماء الرجال (۲۷ ۴۳۰)
قال حرب بْن إِسْمَاعِيل ، عَن أحمد بْن حنبل: شيخ ثقة
وَقَال إسحاق بْن منصور عَن يحيى بْن مَعِين: صويلح
وَقَال النَّسَائي: ليس بِهِ بأس
وذكره ابنُ حِبَّان فِي كتاب "الثقات
لسان الميزان ت أبي غدة (۲ ۵۵۹)
وقال ابن معين: ثقة
وقال أبو حاتم: صالح الحديث
حافظ ابن حجر رح نے فتح الباري شرح صحيح البخاري میں بهی حجاج بْن أَبي زياد الأسود رح کا تعّین کیا ہے.فتح الباري لابن حجر (۶ ۴۸۷) وَالصَّوَابُ الْحَجَّاجُ الْأَسْوَدُ.
اعتراض (۲ ). کتب رجّال کے اس تعّین کو ہم نہی مانتے ہیں. کوئی صحيح سند پیش کیجئے جس میں حجاج کا مکمّل نام و نسب ہو مثلاََ حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ (حجاج بْن أَبي زياد الأسود ) ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ سند میں دکها دو ؟؟؟؟؟
الجواب--- اگر سفلی وہابیوں کا یہ خود ساختہ خانہ ساز اصول تسلیم کیا جائے تو "بخاری و مسلم" کی کئی روایات سے ہا تهه دهونا پڑے گا. مثلاََ
صحيح البخاري (۱ ۱۶)
۳۴ ء حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ " تَابَعَهُ شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ.
چیلنج : مذکورہ سند میں "مَسْرُوقٍ" کون ہیں ؟؟؟ صحیح سند سے نام و کنّیت ثابت کرو ؟؟؟ کتب رجّال کا سہارہ نہ لینا کیوں کی جمات غیر مقلد سِفلی وہابی کتب رجّال کے تعّین کو تسلیم نہی کر تے ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment