Saturday 6 October 2018

انبیاء علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں نمازیں ادا فرماتے ہیں

0 comments
انبیاء علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں نمازیں ادا فرماتے ہیں

وہابیوں کے سب سے بڑے محدث ناصر البانی حدیث پاک لکھتے ہیں : الانبیاء صلوات اللہ علیہم ۔ احیاء فی قبورھم یصلون ۔
ترجمی : انبیاء علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں نمازیں ادا فرماتے ہیں ۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 187)

یہ روایت بلکل صحیح ہے : اس کو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے الاذکار ، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 131 پہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے ۔

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 562 پہ ۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے مسند احمد جلد 26 صفحہ 84 پہ ذکر کیا ہے ۔
اور علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس کے رجال کو صحیح کہا ہے ۔

علامہ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن حبان جلد 3صفحہ 190،191 پہ اس کے رجال کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے ۔

امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن دارمی جلد 1 صفحہ 445،

علامہ ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6 صفحہ 40 پہ،

امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن الکبری للبہیقی جلد 4 صفحہ 432 پہ ،

ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن خزیمہ جلد 3 صفحہ 118 پہ ذکر کیا ہے ۔

اس کے رجال صحیح ہیں

علامہ ابن قیم جلاء الافھام میں یہ حدیث بیان کر کے اس پہ حسین بن علی الجعفی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''حسین بن علی الجعفی نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے یہ روایت عبدالرحمان بن یزید بن جابر سے سنی ہے چنانچہ اب حبانؒ نے صحیح ابن حبان میں ذکر کیا ہے اور اس سند میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے ۔ اور لوگوں کا یہ گمان کہ یہ ابن تمیم ہے اور حسین بن علی سے ابن جابر کہنے میں غلطی ہو گئی ہے یہ گمان صحیح نہیں ہے ۔ حسین بن علی پراس میں کوئی اشتباہ نہ تھا ۔ وہ تنقیقد کی اہلیت بھی رکھتے تھے اور دونوں کو بخوبی جانتے بھی تھے اور دونوں سے سماعت بھی کی ۔ (جلاء الفھام،صفحہ 79،80)

ثابت ہوا حیات النبیاء انبیاء علیہم السّلام کے متعلق یہ روایت بلکل صحیح ہے ۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں قلت رجال ثقات،التہذیب التہذیب جلد 3ص398)
حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297، الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 2/404،چشتی)
المحدث : الدمياطي - المصدر : المتجر الرابح - الصفحة أو الرقم: 246 ، خلاصة حكم المحدث : إسناده
المحدث : محمد بن محمد الغزي - المصدر: إتقان ما يحسن - الصفحة أو الرقم: 1/100 ، خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
المحدث : العجلوني - المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 1/190 ، خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد ۔
المحدث : الحكمي - المصدر: معارج القبول - الصفحة أو الرقم: 792/2 ، خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد ۔
المحدث : الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1672 ، خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره ۔
علامہ عزیزی لکھتے ہیں ۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔
علامہ مناوی لکھتے ہیں ، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔
اسی طرح علامہ زرقانی ، علامہ سمہووی ملاعلی قاری مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانی نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے ۔
زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، قاضی شوکانی نے نیل الاوطار جلد5ص 264،اور شمس الحق عظیم
آبادی نے عون المعبود جلد ۱ص405،چشتی)
حافظ ابن حجر نے تصریح کی ہے کہ عبادہ بن نسی حضرت ابو الدردہ رضی اللہ عنہ سے براہ راست روایت کرتے ہیں ۔ (التہذیب التہذیب جلد 5ص113)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و صححہ البیہقی (امام بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔ (فتح الباری جلد ۶ ص352)
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا ۔ (الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3089،چشتی)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہی ں۔ (مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/214،چشتی)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ (مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180)
محدث الوہابیہ علامہ ناصر البانی نے اس روایت کو (صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2790 ، التوسل - الصفحة أو الرقم: 59 ، میں صحیح ، أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272 میں اسنادہ جید اور أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272 میں اسنادہ قوی لکھا ہے ۔

غیر مقلدین کے علامہ ارشاد الحق اثری نے مسند ابو یعلی کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی نے سلسلہ احادیث صحیحیہ میں صحیح قرار دیا ہے ۔

علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا حجاج کو مجہول قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ علامہ ابن حجرؒ علامہ ذہبیؒ کا اعتراض نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ''امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ان کو ثقہ کہتے ہیں،امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ ان کو ثقہ کہتے ہیں ، ابو حاتم ان کو صالح الحدیث اور ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیں ۔ (لسان المیزان، جلد نمبر 2 صفحہ 175،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قبر انور میں ہیں یا بہشت میں

شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں ارشاد فرماتے ہیں : اما آنکہ قونوی تفضیل و ترجیح دادہ بودن آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم دربہشت اعلیٰ ’’استمرار آورد‘‘ در قبر شریف جو اب وے آنست کہ قبر احاد مومنین روضہ ایست از ریاض جنت پس قبر شریف سید المرسلین افضل ریاض جنت باشدو تو اند بودکہ وے صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہم در قبر از تصرف و نفوذ حالتی بو د کہ از سموات وارض جنان حجاب مرتفع باشد بے تجاوزو انتقال زیر ا کہ امور آخرت و احوال برزخ رابراحوال دنیا کہ مقید و مضیق حدود و جہات است قیاس نتواں کرد۔ (جذب القلوب)
اور علامہ قونوی نے جو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے قبر انور میں ہونے پر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بہشت بریں میں ہو نے کو ترجیح دی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب عام مومنین کی قبریں جنت کے باغیچے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور ان سب میں افضل ترین باغیچہ جنت ہوگی ۔
اور ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو قبرِ انور میں ایسا تصرف دیا گیا ہو اور ایسی حالت عطاء کی گئی ہو کہ آسمانوں ، زمینوں اور جنت سب سے حجاب اٹھ گیا ہو بغیر اس کے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اپنے مقام سے آگے بڑھیں یا کہیں منتقل ہوں ۔ اس لئے کہ امور آخرت اور احوال برزخ کا قیاس اس دنیا کے احوال پر نہیں کیا جا سکتا۔ جو مقید ہے اور جس کے حدود اور جہات نہایت تنگ ہیں۔ انتہیٰ ۔

اس عبارت سے بہت سے اشکال رفع ہوگئے اور احادیث کے درمیان تطبیق ہوگئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اپنے مقام میں جلوہ گر ہیں اور بغیر اس کے کہ اپنے مقام شریف سے تجاوز فرمائیں یا کہیں منتقل ہوں۔ زمینوں اور آسمانوں اور قبر انور جمیع امکنہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو مساوی نسبت ہے اور ایک جگہ ہو نے کے باو جو د ہر جگہ مو جو د ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حجاب کو اٹھادیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ہر جگہ ہو نے میں رکاوٹ کا مو جب ہو۔
رہا یہ امر کہ دنیا میں یہ بات ناممکن ہے کہ ایک ہی وجود کئی جگہ یکساں مو جو د ہو تو اس کا جواب حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح دیا کہ دنیا کی حدود جہات بہت ہی تنگ واقع ہوئی ہیں اور عالم دنیا قیود کے ساتھ مقید ہے اس لئے عالم آخرت اور برزخ کا قیاس دنیا پر نہیں کیا جا سکتا۔
اور اس میں شک نہیں کہ حضر ت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بجا اور درست فرمایا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ مقید پر غیر مقید کا قیاس کر لیا جائے کسی کو تاہ اور تنگ چیز کو فراخ اور وسیع شئے کی طرح تسلیم کر لیا جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قبر انور میں بھی ہیں اور جنت اعلیٰ میں بھی لہٰذا کوئی تعارض اور اشکال باقی نہ رہا ۔
اس بیان سے دونوں مسلکوں کی تائید ہو جاتی ہے ۔ یعنی حضورصلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے جسد اقدس کی حیات روح مبارک کے اس میں پائے جانے کی وجہ سے ہے یا کمال اتصال کی بناء پر۔ ہمارے نزدیک پہلا مسلک قوی اور راجح ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق اللہ تعالی ٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے : وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی (الضحیٰ آیت ۴) ۔ اے محبوب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم آپ کیلئے ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے ۔
اس سے ثابت ہو ا کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کیلئے کوئی ایسا وقت نہیں آئے گا۔ جس میں حضو ر صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی کوئی فضیلت پہلے سے کم ہو بلکہ ہر آنے والی گھڑی میں حضور کی فضیلتیں پہلے سے زیادہ ہوںگی ۔
روح اقدس کا استقرار اگر جسم اقدس کے علاوہ کسی اور مقام میںہو تو ’’وَلَـلْاٰخِـرَۃُ خَیْـرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی‘‘ کے خلاف لازم آئے گا۔ ا س لئے کہ جسم اقدس سے روح مبارک کے قبض ہونے کے بعد اسے کوئی ایسی جگہ نہیں مل سکتی جو جسم مبارک سے زیادہ فضیلت والی ہو زیادہ تو درکنار تمام کائنات میں کوئی جگہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے جسم اقدس کے برابر بھی فضیلت رکھنے والی نہیں کیونکہ علماء محققین نے اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ قبر انور اور زمین کا وہ حصہ جو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اعضاء شریفہ سے متصل ہے تمام زمینوں اور آسمانوں اور کرسی اور یہاں تک کہ کعبہ مکرمہ اور عرش الٰہی سے افضل ہے۔ جسم اقدس سے اتصال (تعلق) رکھنے والی زمین عرش اور کعبہ سے افضل ہوئی ۔ تو خود جسم اقدس کا تو پھر کہنا ہی کیا ہے۔ چنانچہ الدر المنتقیٰ میں علامہ محمد علاء الدین الامام فرماتے ہیں : وما ضم اعضاء الشریفۃ افضل البقاع علی الاطلاق حتیٰ من الکعبۃ ومن الکرسی وعرش الرحمٰن ۔ جو زمین اعضاء شریفہ سے متصل ہے (یعنی قبر ا نور ) مطلقاً تمام مقامات سے افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ سے اور کرسی اور عرش رحمن سے بھی افضل ہے۔ (الدر المنتقی بہا مش مجمع الانہار جلد اول ص ۳۱۲) (یہ مضمون درمختار جلد دوم اور شامی جلد دوم ص ۳۵۲/۳۵۱پر مر قوم ہے )اگر روح مبارک جسم اقدس کے علاوہ کسی اور مقام پر ہو تو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی فضیلت پہلے سے کم ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ تسلیم کر نا پڑے گا کہ روح اقدس جسم مبارک سے باہر نکلنے کے بعد پھر جسم اقدس میں واپسی آگئی اور باہر نکلنا صرف قانون خداوندی کو پورا کر نے کے لئے تھا۔ روح مبارک کا جسم اقدس میں واپس آجانا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی حسی، حقیقی اور جسمانی حیات طیبہ کو مستلزم ہے۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔