امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تابعی ہیں (حصّہ دوم)
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے شرف ملاقات بھی حاصل تھا ، آپ کے تمام انصاف پسند تذکرہ نگار اور مناقب نویس اس بات پر متفق ہیں اور یہ وہ خصوصیت ہے جو ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ میں کسی کو حاصل نہیں ۔ بلکہ بعض نے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کابھی ذکر کیا ہے ۔
علامہ ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو پایا ۔آپکی ولادت ٨٠ھ میں ہوئی ، اس وقت کوفہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک جماعت تھی ۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ٨٨ھ کے بعد ہواہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت بصرہ میں موجود تھے اور 95ھ میں وصال فرمایا ۔ آپ نے انکو دیکھا ہے ۔ ان حضرات کے سوا دوسرے بلاد میں دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی موجود تھے ۔ جیسے :حضرت واثلہ بن اسقع شام میں ۔وصال ٨٥ھ ۔ حضرت سہل بن سعد مدینہ میں ۔وصال ٨٨ھ ۔ حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ مکہ میں ۔وصال ١١٠ھ ۔ یہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں آخری ہیں جنکا وصال دوسری صدی میں ہوا ۔اور امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٩٣ھ میں انکو حج بیت اللہ کے موقع پر دیکھا ۔
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے خود امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے سنا کہ : میں 93 ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کو گیا ،اس وقت میری عمر سولہ سال کی تھی ۔میں نے ایک بوڑھے شخص کودیکھا کہ ان پر لوگوں کا ہجوم تھا ،میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ بوڑھے شخص کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحابی ہیں اور ان کا نام عبداللہ بن حارث بن جز رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے ، پھر میں نے دریافت کیا کہ ان کے پاس کیا ہے ؟ میرے والد نے کہا : ان کے پاس وہ حدیثیں ہیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنی ہیں ۔ میں نے کہا : مجھے بھی ان کے پاس لے چلئے تاکہ میں بھی حدیث شریف سن لوں ، چنانچہ وہ مجھ سے آگے بڑھے اور لوگوں کو چیرتے ہوئے چلے یہاں تک کہ میں ان کے قریب پہونچ گیا اور میں نے ان سے سنا کہ آپ کہہ رہے تھے ۔ قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : من ثفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ وھمہ ورزقہ من حیث لایحسبہ ۔ ( الخیرات الحسان،چشتی)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دین کی سمجھ حاصل کرلی اسکی فکروں کا علاج اللہ تعالیٰ کرتاہے اوراس کو اس طرح پر روزی دیتاہے کہ کسی کو شان و گمان بھی نہیں ہوتا۔علامہ کوثری کی صراحت کے مطابق پہلا حج ٨٧ھ میں سترہ سال کی عمر میں کیا ،اور دوسرا '٩٦'ھ میں ٢٦سال کی عمرمیں ۔ اور متعدد صحابہ کرام سے شرف ملاقات حاصل ہوا ۔درمختار میں بیس اور خلاصہ اکمال میں چھبیس صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ملاقات ہونا بیان کی گئی ہے ۔ بہر حال اتنی بات متحقق ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ملاقات ہوئی اور آپ بلاشبہ تابعی ہیں اوراس شرف میں اپنے معاصرین واقران مثلا امام سفیان ثوری ،امام اوزاعی ،امام مالک،اور امام لیث بن سعد پر آپ کو فضیلت حاصل ہے ۔ (قلائد العقیان)
لہذا آپ کی تابعیت کا ثبوت ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے ۔ بلکہ آپ کی تابعیت کے ساتھ یہ امر بھی متحقق ہے کہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے احادیث کا سماع کیا اورروایت کیاہے ۔تویہ وصف بھی بلاشبہ آپ کی عظیم خصوصیت ہے ۔ بعض محدثین ومورخین نے اس سلسلہ میں اختلاف بھی کیا ہے لیکن منصف مزاج لوگ خاموش نہیں رہے ، لہذا احناف کی طرح شوافع نے بھی اس حقیقت کو واضح کردیا ہے ۔
علامہ عینی حضرت عبداللہ بن ابی اوفی صحابی رسول کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : ھواحد من راٰہ ابوحنیفۃ من الصحابۃ وروی عنہ ولا یلتفت الی قول المنکر المتعصب وکان عمر ابی حنیفۃ حینئذ سبع سنین وھو سن التمییز ہذاعلی الصحیح ان مولد ابی حنیفۃ سنۃ ثمانین وعلی قول من قا ل سنۃ سبعین یکون عمر ہ حینئذ سبع عشرۃ سنۃ ویستبعدجدا ان یکون صحابی مقیما ببلدۃ وفی اہلہا من لارأہ واصحابہ اخبر بحالہ وہم ثقاۃ فی انفسہم ۔(الفوائد المہمہ علامہ عمر بن عبدالوہاب عرضی شافعی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
ترجمہ : عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ہیں جن کی امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیارت کی اور ان سے روایت کی قطع نظر کرتے ہوئے منکر متعصب کے قول سے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اس وقت سات سال کی تھی کیونکہ صحیح یہ ہے کہ آپ کی ولادت 80 ھ میں ہوئی اور بعض اقوال کی بنا پر اس وقت آپکی عمر سترہ سال کی تھی۔ بہر حال سات سال عمر بھی فہم وشعور کاسن ہے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک صحابی کسی شہر میں رہتے ہوں اور شہر کے رہنے والوں میں ایسا شخص ہو جس نے اس صحابی کو نہ دیکھا ہو۔ اس بحث میں امام اعظم کی تلامذہ کی بات ہی معتبر ہے کیونکہ وہ ان کے احوال سے زیادہ واقف ہیں اور ثقہ بھی ہیں ۔(الفوائد المہمہ علامہ عمر بن عبدالوہاب عرضی شافعی رحمۃ اللہ علیہ)
ملاعلی قاری امام کردری علیہما الرّحمہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں : قال الکردری جماعۃ من المحدثین انکر واملاقاتہ مع الصحابۃ واصحابہ اثبتوہ بالاسانید الصحاح الحسان وہم اعرف باحوالہ منہم والمثبت العدل اولی من النافی۔
امام کردری فرماتے ہیں کہ محدثین کی ایک جماعت نے امام اعظم کی صحابہ کرام سے ملاقات کا انکار کیا ہے اور انکے شاگردوں نے اس بات کو صحیح اور حسن سندوں کے ساتھ ثابت کیا ۔(مرآۃ الجنان امام یافعی شافعی رحمۃ اللہ علیہ) ۔ اور ثبوت روایت نفی سے بہتر ہے ۔
مشہور محدث شیخ محمد طاہر ہندی نے کرمانی کے حوالہ سے لکھا ہے : واصحابہ یقولون انہ لقی جماعۃ من الصحابۃ وروی عنہم۔( تذکرۃ الحفاظ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ)
امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے اور ان سے سماع حدیث بھی کیا ہے ۔
امام ابو معشر عبدالکریم بن عبدالصمد طبری شافعی نے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مرویات میں ایک مستقل رسالہ لکھا اور اس میں روایات مع سند بیان فرمائیں ۔ نیز ان کو حسن وقوی بتایا ۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات کو تبییض الصحیفہ میں نقل کیا ہے جن کی تفصیل یوں ہے ۔ عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ حدیث پچاس طرق سے مجھے معلوم ہے اور صحیح ہے ۔(تہذیب التہذیب)
حضرت امام ابو یوسف حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : الدال علی الخیر کفاعلۃ ۔ (الکاشف) ۔ اس معنی کی حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔
حضرت امام ابو یوسف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورانہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : نیکی کی رہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے کے مثل ہے ۔ عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول :ان اللہ یحب اغاثۃ اللہفان ۔(تہذیب الکمال) ۔ضیاء مقدسی نے مختارہ میں اسکو صحیح کہا۔
حضرت امام ابویوسف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : بیشک اللہ تعالیٰ مصیبت زدہ کی دست گیری کو پسند فرماتاہے ۔عن یحی بن قاسم عن ابی حنیفۃ سمعت عبداللہ بن ابی اوفی یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : من بنی للہ مسجدا ولو کمفحص قطاۃ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ ۔(جامع الاصول،چشتی) ۔ امام سیوطی فرماتے ہیں ،اس حدیث کا متن صحیح بلکہ متواتر ہے ۔
حضرت یحیی بن قاسم حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے سنا کہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : جس نے اللہ کی رضا کیلئے سنگ خوار کے گڑھے کے برابر بھی مسجد بنائی تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں گھر بنائے گا ۔عن اسمعیل بن عیاش عن ابی حنیفۃ عن واثلۃ بن اسقع ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قال :دع مایریبک الی مالا یریبک ۔ (احیاء العلوم)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصحیح فرمائی ۔
حضرت اسمعیل بن عیاش حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شک وشبہ کی چیزوں کو چھوڑ کر ان چیزوں کو اختیار کرو جو شکوک وشبہات سے بالاتر ہیں ۔
ان تمام تفصیلات کی روشنی میں یہ بات ثابت ومتحقق ہے کہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی رویت وروایت دونوں سے مشرف ہوئے ۔یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام اعظم کے بعض سوانح نگا راپنی صاف گوئی اور غیر جانب داری کا ثبوت دیتے ہوئے وہ باتیں بھی لکھ گئے ہیں جن سے تعصب کا اظہار ہوتاہے ۔ان کے پیچھے حقائق تو کیا ہوتے دیانت سے بھی کام نہیں لیا گیا ۔اس سلسلہ میں علامہ غلام رسول سعیدی کی تصنیف تذکرۃ المحدثین سے ایک طویل اقتباس ملاحظہ ہو لکھتے ہیں : شبلی نعمانی نے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت کے انکار پر کچھ عقلی وجوہات بھی پیش کئے ہیں لکھتے ہیں ۔ میرے نزدیک اس کی ایک اور وجہ ہے ۔ محدثین میں باہم اختلاف ہے کہ حدیث سیکھنے کیلئے کم از کم کتنی عمرشرط ہے ؟ اس امر میں ارباب کوفہ سب سے زیادہ احتیاط کرتے تھے یعنی بیس برس سے کم عمر کا شخص حدیث کی درسگاہ میں شامل نہیں ہوسکتا تھا ، ان کے نزدیک چونکہ حدیثیں بالمعنی روایت کی گئی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ طالب علم پوری عمر کو پہنچ چکا ہوورنہ مطالب کو سمجھنے اوراس کے اداکرنے میں غلطی کا احتمال ہے ،غالباً یہی قید تھی جس نے امام ابوحنیفہ کو ایسے بڑے شرف سے محروم رکھا ۔
اس سلسلہ میں : اولاً تو ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اہل کوفہ کایہ قاعدہ کہ سماع حدیث کیلئے کم ازکم بیس سال عمر درکار ہے ، کونسی یقینی روایت سے ثابت ہے ؟ امام صاحب کی مرویات صحابہ کیلئے جب یقینی اورصحیح روایت کامطالبہ کیاجاتاہے تواہل کوفہ کے اس قاعدہ کو بغیر کسی یقینی اور صحیح روایت کے کیسے مان لیا گیا ،
ثانیاً : یہ قاعدہ خود خلاف حدیث ہے کیونکہ صحیح بخاری میں امام بخاری نے متی یصح سماع الصغیر کاباب قائم کیا ہے اس کے تحت ذکرفرمایاہے کہ محمود بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے پانچ سال کی عمر میں سنی ہوئی حدیث کو روایت کیاہے ،اس کے علاوہ حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی عمر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کے وقت چھ اورسات سال تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی عمر حضور کے وصال کے وقت تیرہ سال تھی ،اور یہ حضرات آپ کے وصال سے کئی سال پہلے کی سنی ہوئی احادیث کی روایت کرتے تھے۔ پس روایت حدیث کیلئے بیس سال عمرکی قید لگانا طریقہ صحابہ کے مخالف ہے اور کوفہ کے ارباب علم وفضل اوردیانت دار حضرات کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے اتنی جلدی صحابہ کی روش کو چھوڑدیاہوگا ۔
ثالثا : برتقدیر تسلیم گزارش یہ ہے کہ اہل کوفہ نے یہ قاعدہ کب وضع کیا ،اس بات کی کہیں وضاحت نہیں ملتی ۔اغلب اورقرین قیاس یہی ہے کہ جب علم حدیث کی تحصیل کاچرچا عام ہوگیا اور کثرت سے درس گاہیں قائم ہوگئیں اوروسیع پیمانے پر آثار وسنن کی اشاعت ہونے لگی ،اس وقت اہل کوفہ نے اس قید کی ضرورت کو محسوس کیاہوگا تاکہ ہرکہ ومہ حدیث کی روایت کرنا شروع نہ کردے ،یہ کسی طرح بھی باور نہیں کیاجاسکتا کہ عہد صحابہ میں ہی کوفہ کے اندر باقاعدہ درس گاہیں بن گئیں اوران میں داخلہ کیلئے قوانین اورعمر کا تعین بھی ہوگیا تھا ۔
رابعاً : اگریہ مان بھی لیاجائے کہ ٨٠ھ ہی میں کوفہ کے اندر باقاعدہ درسگاہیں قائم ہوگئی تھیں اوران کے ضوابط اورقوانین بھی وضع کئے جاچکے تھے توان درس گاہوں کے اساتذہ سے سماع حدیث کیلئے بیس برس کی قید فرض کی جاسکتی ہے مگر یہ حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفی وغیرہ ان درس گاہوں میں اساتذہ تو مقررتھے نہیں کہ ان سے سماع حدیث بھی بیس سال کی عمر میں کیا جاتا ۔
خامساً : بیس برس کی قید اگر ہوتی بھی توکوفہ کی درس گاہوں کے لئے اگر کوفہ کاکوئی رہنے والا بصرہ جاکر سماع حدیث کرے تویہ قید اس پر کیسے اثر انداز ہوگی ؟ حضرت انس بصرہ میں رہتے تھے اورامام اعظم ان کی زندگی میں بارہابصرہ گئے اور ان کی آپس میں ملاقات بھی ثابت ہے توکیوں نہ امام صاحب نے ان سے روایت حدیث کی ہوگی ۔
سادساً : اگر بیس سال عمر کی قید کو بالعموم بھی فرض کرلیا جائے توبھی یہ کسی طور قرین قیاس نہیں ہے کہ حضرات صحابہ کرام جن کا وجود مسعود نوادرروزگار اور مغتنمات عصر میں سے تھا ان سےاز راہ تبرک وتشرف احادیث کے سماع کیلئے بھی کوئی شخص اس انتظار میں بیٹھا رہے گا کہ میری عمر بیس سال کو پہنچ لے تومیں ان سے جاکر ملاقات اور سماع حدیث کروں ۔حضرت انس کے وصال کے وقت امام اعظم کی عمر پندرہ برس تھی اورامام کردری فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں امام اعظم بیس سے زائد مرتبہ بصرہ تشریف لے گئے ۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ امام اعظم پندرہ برس تک کی عمر میں بصرہ جاتے رہے ہوں اور حضرت انس سے مل کر اوران سے سماع حدیث کرکے نہ آئے ہوں ،راوی اورمروی عنہ میں معاصرت بھی ثابت ہوجائے توامام مسلم کے نزدیک روایت مقبول ہوتی ہے ۔ یہاں معاصرت کے بجائے ملاقات کے بیس سے زیادہ قرائن موجود ہیں پھر بھی قبول کرنے میں تامل کیا جارہاہے ۔
الحمد للہ العزیز : کہ ہم نے اصول روایت اورقرائن عقلیہ کی روشنی میں اس امر کو آفتاب سے زیادہ روشن کردیا ہے کہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوصحابہ کرام رضٰ اللہ عنہم سے روایت حدیث کا شرف حاصل تھا اوراس سلسلے میں جتنے اعتراضاف کئے جاتے ہیں ان پر سیر حاصل گفتگوکرلی ہے ۔ اس کے باوجود بھی ہم نے جو کچھ لکھا وہ ہماری تحقیق ہے ہم اسے منوانے کیلئے ہرگزاصرار نہیں کرتے ۔(تہذیب الاسماء واللغات امام نووی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اساتذہ
امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کثیر شیوخ واساتذہ سے علم حدیث حاصل کیا ،ان میں سے بعض کے اسماء یہ ہیں ۔
عطاء بن ابی رباح ،حماد بن ابی سلیمان ،سلیمان بن مہران اعمش ،امام عامر شعبی ، عکرمہ مولی ابن عباس ،ابن شہاب زہری ،نافع مولی بن عمر ،یحیی بن سعید انصاری ،عدی بن ثابت انصاری ، ابوسفیان بصری ،ہشام بن عروہ ،سعید بن مسروق، علقمہ بن مرثد ،حکم بن عیینہ ، ابواسحاق بن سبیعی ،سلمہ بن کہیل ،ابوجعفر محمد بن علی ، عاصم بن ابی النجود ،علی بن اقمر ،عطیہ بن سعید عوفی ، عبدالکریم ابوامیہ ،زیاد بن علاقہ ۔سلیمان مولی ام المومنین میمونہ ،سالم بن عبداللہ ، علیہم الرّحمہ ۔
چونکہ احادیث فقہ کی بنیاد ہیں اور کتاب اللہ کے معانی ومطالب کے فہم کی بھی اساس ہیں لہذا امام اعظم نے حدیث کی تحصیل میں بھی انتھک کوشش فرمائی ۔یہ وہ زمانہ تھا کہ حدیث کادرس شباب پرتھا ۔تمام بلاد اسلامیہ میں اس کا درس زور وشور سے جاری تھا اورکوفہ تو اس خصوص میں ممتاز تھا ۔کوفہ کا یہ وصف خصوصی امام بخاری کے زمانہ میں بھی اس عروج پرتھا کہ خودامام بخاری فرماتے ہیں ،میں کوفہ اتنی بار حصول حدیث کیلئے گیا کہ شمار نہیں کرسکتا۔
امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حصول حدیث کا آغاز بھی کوفہ ہی سے کیا ۔ کوفہ میں کوئی ایسا محدث نہ تھا جس سے آپ نے حدیث اخذ نہ کی ہو ۔ابوالمحاسن شافعی نے فرمایا :۔ تر انوے وہ مشائخ ہیں جو کوفے میں قیام فرماتھے یاکوفے تشریف لائے جن سے امام اعظم نے حدیث اخذ کی ۔ان میں اکثر تابعی تھے ۔ بعض مشائخ کی تفصیل یہ ہے ۔
امام عامر شعبی :۔انہوں نے پانچسو صحابہ کرام کا زمانہ پایا ،خود فرماتے تھے کہ بیس سال ہوئے میرے کان میں کوئی حدیث ایسی نہ پڑی جسکا علم مجھے پہلے سے نہ ہو ۔ امام اعظم نے ان سے اخذحدیث فرمائی ۔
امام شعبہ :۔انہیں دوہزار حدیثیں یادتھیں ،سفیان ثوری نے انہیں امیرالمومنین فی الحدیث کہا ،امام شافعی نے فرمایا : شعبہ نہ ہوتے توعراق میں حدیث اتنی عام نہ ہوتی ۔امام شعبہ کو امام اعظم سے قلبی لگاؤ تھا ،فرماتے تھے ،جس طرح مجھے یہ یقین ہے کہ آفتاب روشن ہے اسی طرح یقین سے کہتاہوں کہ علم اورابو حنیفہ ہمنشیں ہیں ۔
امام اعمش:۔مشہور تابعی ہیں شعبہ وسفیان ثوری کے استاذ ہیں ،حضرت انس اورعبداللہ بن ابی اوفی سے ملاقات ہے ۔ امام اعظم آپ سے حدیث پڑھتے تھے اسی دوران انہوں نے آپ سے مناسک حج لکھوائے ۔واقعہ یوں ہے کہ امام اعمش سے کسی نے کچھ مسائل دریافت کئے ۔انہوں نے امام اعظم سے پوچھا ۔آپ کیاکہتے ہیں ؟ حضرت امام اعظم نے ان سب کے حکم بیان فرمائے ۔امام اعمش نے پوچھا کہاں سے یہ کہتے ہو ۔فرمایا۔آپ ہی کی بیان کردہ احادیث سے اور ان احادیث کو مع سندوں کے بیان کردیا ۔امام اعمش نے فرمایا ۔ بس بس ،میں نے آپ سے جتنی حدیثیں سودن میں بیان کیں آپ نے وہ سب ایک دن میں سناڈالیں ۔میں نہیں جانتا تھا کہ آپ ان احادیث میں یہ عمل کرتے ہیں ۔
یامعشر الفقہاء انتم الاطباء ونحن الصیادلۃ وانت ایہا الرجل اخذت بکلاالطرفین۔
اے گروہ فقہاء !تم طبیب ہواور ہم محدثین عطار اورآپ نے دونوں کو حاصل کرلیا ۔
امام حماد :۔امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عظیم استاذ حدیث وفقہ ہیں اور حضرت انس سے حدیث سنی تھی بڑے بڑے ائمہ تابعین سے ان کو شرف تلمذ حاصل تھا ۔
سلمہ بن کہیل :۔تابعی جلیل ہیں ،بہت سے صحابہ کرام سے روایت کی ۔کثیرالروایت اور صحیح الروایت تھے ۔
ابواسحاق سبیعی ۔ علی بن مدینی نے کہا انکے شیوخ حدیث کی تعداد تین سو ہے ۔ان میں اڑتیس صحابہ کرام ہیں ۔ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر ، عبد اللہ بن زبیر، نعمان بن بشیر ،زید بن ارقم سرفہرست ہیں۔
کوفہ کے علاوہ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں آپ نے ایک زمانہ تک علم حدیث حاصل فرمایا: چونکہ آپ نے پچپن حج کئے اس لئے ہرسال حرمین شریفین زادھما اللہ شرفا وتعظیما میں حاضری کا موقع ملتاتھا اور آپ اس موقع پر دنیا ئے اسلام سے آنے والے مشائخ سے اکتساب علم کرتے ۔
مکہ معظمہ میں حضرت عطاء بن ابی رباح سرتاج محدثین تھے ،دوسرے صحابہ کرام کی صحبت کا شرف حاصل تھا ۔ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مجتہد وفقیہ تھے ۔ حضرت ابن عمر فرماتے تھے کہ عطاء کے ہوتے ہوئے میرے پاس کیوں آتے ہیں ۔ ایام حج میں اعلان عام ہوجاتا کہ عطاء کے علاوہ کوئی فتوی نہ دے ۔ اساطین محدثین امام اوزاعی ،امام زہری ، امام عمروبن دینار انکے شاگردتھے۔ امام اعظم نے اپنی خداداد ذہانت وفطانت سے آپ کی بارگاہ میں وہ مقبولیت حاصل کرلی تھی آپ کو قریب سے قریب تر بٹھاتے ۔ تقریباً بیس سال خدمت میں حج بیت اللہ کے موقع پر حاضر ہوتے رہے ۔
حضرت عکرمہ کا قیام بھی مکہ مکرمہ میں تھا ، یہ جلیل القدر صحابہ کے تلمیذ ہیں۔ حضرت علی،حضرت ابوہریرہ ، ابوقتادہ ، ابن عمر اورابن عباس کے تلمیذ خاص ہیں ۔ستر مشاہیر ائمہ تابعین انکے تلامذہ میں داخل ہیں ۔امام اعظم نے ان سے بھی حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
مدینہ طیبہ میں سلیمان مولی ام المومنین میمونہ اورسالم بن عبداللہ سے احادیث سنیں ۔
انکے علاوہ دوسرے حضرات سے بھی اکتساب علم کیا ۔
بصرہ کے تمام مشاہیر سے اخذ علم فرمایا ،یہ شہر حضرت انس بن مالک کی وجہ سے مرکز حدیث بن گیا تھا۔ امام اعظم کی آمد ورفت یہاں کثرت سے تھی ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپکی ملاقات بصرہ میں بھی ہوئی اورآپ جب کوفہ تشریف لائے اس وقت بھی ۔
غرضکہ امام اعظم کو حصول حدیث میں وہ شرف حاصل ہے جو دیگر ائمہ کو نہیں ،آپکے مشائخ میں صحابہ کرام سے لیکر کبار تابعین اورمشاہیر محدثین تک ایک عظیم جماعت داخل ہے اور آپ کے مشائخ کی تعداد چارہزار تک بیان کی گئی ہے ۔
تلامذہ : آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علم حدیث وفقہ حاصل کرنے والے بے شمار ہیں ، چند مشاہیر کے اسماء اس طرح ہیں ۔امام ابو یوسف ،امام محمد بن حسن شیبانی ،امام حماد بن ابی حنیفہ ، امام مالک ،امام عبداللہ بن مبارک ،امام زفربن ہذیل ،امام داؤد طائی ،فضیل بن عیاض ،ابراہیم بن ادہم ،بشربن الحارث حافی ، ابوسعید یحی بن زکریاکوفی ہمدانی ،علی بن مسہر کوفی ، حفص بن غیاث ،حسن بن زناد ، مسعر بن کدام ،نوح بن درا ج نخعی ،ابراہیم بن طہران ،اسحاق بن یوسف ازرق ،اسد بن عمر وقاضی ،عبدالرزاق ،ابونعیم ،حمزہ بن حبیب الزیات ،ابو یحیی حمانی ،عیسی بن یونس ،یزید بن زریع ،وکیع بن جراح ، ہیثم، حکام بن یعلی رازی ،خارجہ بن مصعب ،عبدالحمید بن ابی داؤد ، مصعب بن مقدام ،یحیی بن یمان ،لیث بن سعد ،ابو عصمہ بن مریم ،ابو عبدالرحمن مقری ،ابوعاصم علیہم الرّحمہ وغیرہم ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment