Sunday 24 May 2015

مختصر سیرت حضرت سیّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ

1 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نام و نسب: حسین رضی اللہ عنہ بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ، کنیت ابو عبداللہ، لقب سید شباب اہل الجنۃ اور ریحانۃ النبی، والدہ سیدہ فاطمہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا۔

شجرہ طیبہ: حسین بن علی بن ابی طالب بن ہاشم بن عبد مناف قریشی، ہاشمی، مطلبی۔

پیدائش: ابھی آپ مادر شکم میں تھے کہ حضرت حارث رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی نے خواب میں دیکھا کہ کسی نے رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر انکی گود میں رکھدیا ہے۔ انہوں نے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے ایک ناگوار خواب دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا دیکھا ہے؟ عرض کیا ناقابل بیان ہے۔ آپ نے فرمایا بیان کرو آخر کیا ہے؟ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر انہوں نے خواب بیان کیا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو نہایت مبارک خواب ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو لڑکا پیدا ہوگا اور تم اس کو گود میں لوگی۔

کچھ دنوں کے بعد اس خواب کی تعبیر ملی۔ اس ریاض نبوی میں وہ حق و صداقت کا پیکر ۵ شعبان سنہ ۴ ھجری میں خاتون جنت رضی اللہ عنہا کو پیدا ہوا۔

ولادت باسعادت کی خبر سن کر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمانے لگے بچے کو دکھاؤ، اور نومولود بچہ کو جگا کر اس کے کانوں میں اذان دی۔ اس طرح گویا پہلی مرتبہ لسان وحی و الہام نے اس بچے کے کانوں میں توحید الٰہی کا پیغام پہنچایا۔ در حقیقت اسی پیغام کا اثر تھا کہ

سر داد نہ داد دست در دست یزید    حقاکہ بنائے لاالٰہ است حسین

پھر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عقیقہ کرنے اور بچہ کے بالوں کے ہموزن چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ کا نام ”حرب“ رکھا تھا لیکن آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام بدل کر حسین رضی اللہ عنہ رکھا۔

عہد نبوی: حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچپن میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ان کے ساتھ پیار و محبت کے بیشمار واقعات ملتے ہیں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم تقریباً روزانہ دونوں بھائیوں کو دیکھنے کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور دونوں کو بلاکر پیار کرتے اور کھلاتے۔ یہ دونوں معصوم آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے بے حد مانوس اور شوخ تھے لیکن آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی شوخی پر تنبیہ نہیں فرمائی بلکہ ان کی شوخیاں دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے دوش مبارک پر سوار کرکے برآمد ہوتے تھے اور ان کی ادنیٰ سے ادنیٰ تکلیف پر بے قرار ہوجاتے تھے۔ حسنین کریمین کبھی نماز کی حالت میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ کر بیٹھ جاتے۔ غرض کہ طرح طرح کی شوخیاں کرتے، آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نہایت پیار اور محبت سے ان طفلانہ شوخیوں کو برداشت کرتے اور کبھی تادیباً بھی نہ جھڑکتے بلکہ ہنس دیا کرتے تھے۔

ابھی امام حسین رضی اللہ عنہ صرف سات (۷) سال کے تھے کہ ہادی دوجہاں صلّی اللہ علیہ وسلم کا سایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا۔ اس لیے انہیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے اتنا فیض حاصل کرنے کا موقعہ نہ ملا جتنا انکے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملا تھا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو صغرسنی کے باعث احادیث حفظ کرنے کے کم مواقع ملے اس لیے براہ راست آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی مرویات کی تعداد کل آٹھ (۸) ہے، جو آپ کی کمسنی کو دیکھتے ہوئے کم نہیں کہی جاسکتیں۔ البتہ بالواسطہ روایات کی تعداد کافی ہے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ جن بزرگوں سے آپ نے احادیث روایت کی ہیں ان کے نام حسب ذیل ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ،حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا، حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ جن رواۃ نے آپ سے روایتیں کی ہیں ان کے نام یہ ہیں: حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، صاحبزادہ علی رضی اللہ عنہ،صاحبزادہ زید رضی اللہ عنہ،صاحب زادی سکینہ و فاطمہ رضی اللہ عنہما، پوتے ابوجعفر۔ عام رواۃ میں: امام شعبی، حضرت عکرمہ، کرز التمیمی، سنان بن ابی سنان دولی، عبداللہ بن عمرو بن عثمان، فرزوق شاعر وغیرہ۔

امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:

آپ صلّی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ“ یعنی حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ایک مرتبہ آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ان الحسن والحسین ہما ریحانی من الدنیا“ یعنی بے شک حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں میرے دنیا میں پھول ہیں۔

ایک اور روایت میں ہے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”الٰہی ان دونوں پر رحم فرما کہ میں ان پر رحم کرتا ہوں۔“

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا اظہار فرماتے تھے، اور اپنی امت کو فرمایا کہ میرے اہل بیت سے محبت رکھو۔ جس شخصیت کا مقام اعلیٰ ہے اور لسان مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم اس کی محبت کا دعویٰ کر رہا ہے وہاں عقل کو کیا مجال ہے کہ چوں و چرا کہہ سکے۔

عہد صدیقی: حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات سے صحابہ کرام بھی بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں آپ تقریباً ۸،۹ برس کے تھے۔ آپ سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ ادب و محبت سے پیش آتے تھے اور آپ کو اپنے کندھوں پر بٹھاتے تھے۔

عہد فاروقی: حضرت عمر فارق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دور میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے ۵۰۰۰ پانچ ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا۔ اور جو جنگ بدر میں شامل صحابہ کے فرزند تھے ان کے لیے دو ہزار مقرر کیے تھے، اس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

عہد عثمانی: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دور میں آپ پورے جوان ہوچکے تھے۔ چنانچہ سب سے اول اسی عہد میں میدان جہاد میں قدم رکھا اور سنہ ۳۰ ھجری میں طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ طور پر شریک ہوئے۔ پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت برپا ہوئی اور باغیوں نے قصر خلافت کا محاصرہ کرلیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں بھائیوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت پر مامور کیا کہ باغی اندر گھسنے نہ پائیں۔ چنانچہ حفاظت کرنے والوں کے ساتھ ان دونوں نے بھی نہایت بہادری کے ساتھ باغیوں کو اندر گھسنے سے روکے رکھا۔ جب باغی کوٹھے پر چڑھ کر اندر اتر گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر ڈالا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر ہوئی تو انہوں نے دونوں بھائیوں سے سخت باز پرس کی۔
حضرت علی کی شہادت: اس کے بعد سنہ ۴۰ ھجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ زخم بہت بھاری تھا، تو اس وقت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلا کر نصیحت کی۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے امام حسین رضی اللہ عنہ نے علم میں کمال حاصل کیا تھا اور تفسیر و حدیث کا علم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے حاصل کیا تھا ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قضا و افتا میں بڑا مقام تھا۔

فقہ و فتویٰ: چونکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو موروثی دولت سے وافر حصہ ملا تھا چنانچہ آپ کے ہمعصر آپ سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ عبداللہ  بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قیدی کی رہائی کے بارے میں استفادہ کی ضرورت ہوئی تو انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا اور ان سے پوچھا ”ابوعبداﷲ قیدی کی رہائی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے اس کی رہائی کا فرض کس پر عائد ہوتا ہے۔“ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”ان لوگوں پر جن کی حمایت میں لڑا ہو۔“

ایک مرتبہ شیر خوار بچہ کے وظیفہ کے بارے میں استفسار کی ضرورت ہوئی تو پھر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا ”پیدائش کے بعد ہی جب سے بچہ آواز دیتا ہے، وظیفہ واجب ہوجاتا ہے۔“

آپ کے تفقہ کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ فقیہ اعظم حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے اور حدیث و فقہ میں ان سے بہت کچھ استفادہ کیا تھا اور دینی علوم میں امام باقر کو سلسلہ بہ سلسلہ اپنے اسلاف کرام سے بڑا فیض پہنچا تھا۔

خطابت: ان مذہبی کمالات کے علاوہ اس زمانہ کے عرب کے مروجہ علوم میں بھی پوری دسترس رکھتے تھے۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اپنے عہد کے سب سے بڑے خطیب تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی اس موروثی دولت سے بڑا حصہ حاصل ہوا تھا۔ آپ کا شمار اس زمانے کے ممتاز خطیبوں میں ہوتا تھا۔ بہت سے خطبات کو تاریخ نے محفوظ کیا ہے، یہاں مختصرا ایک بیان کیا جاتا ہے۔ جب آپ مکہ سے کربلا آرہے تھے تو راستہ میں ابن سعد آپ سے ملنے کے لیے آئے تھے۔ آپ نے اس سے ملنے کا ارادہ کیا لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے منع کیا اور خود ابن سعد کے پاس گئے۔ ان سے ملنے کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کا مقصد بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: ”آج اس آخری رات میں نماز پڑھیں، تلاوت کریں، دعائیں مانگیں، استغفار کریں۔“ پھر اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے اس طرح خطبہ دیا:

”میں خدا کا بہترین ثنا خوان ہوں اور مصیبت اور راحت ہر حال میں اس کا شکر گذار ہوں۔ خدایا! میں تیری ثنا کرتا ہوں، میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تونے ہم کو قرآن سکھایا اور دین میں فہم عطا کی۔ اب ہمیں اپنے شکر گذار بندوں میں شامل کر۔ امابعد مجھے کسی کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور کسی کے اہل بیت اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکوکار اور صلہ رحمی کرنے والا اور کوئی دوسرا گھرانا نظر نہیں آتا۔ خدا تم لوگوں کو ہماری جانب سے جزائے خیر دے۔ میں ان دشمنوں کی وجہ سے آج کا دن کل ہی کا دن سمجھ رہا ہوں اس لیے میں تم لوگوں کو بخوشی واپس جانے کی اجازت دیتا ہوں، میری طرف سے کوئی ملامت نہ ہوگی۔ رات ہوچکی ہے ایک ایک اونٹ لے لو اور ایک ایک آدمی میرے ایک ایک اہل بیت کا ہاتھ پکڑکے چلا جائے۔ خدا تم سب کو جزائے خیر دے تم لوگ اپنے اپنے شہروں اور دیہاتوں میں چلے جاؤ یہاں تک کہ خدا یہ مصیبت آسان کردے۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ لوگ مجھی کو ڈھونڈیں گے، میرے بعد کسی کی تلاش نہ ہوگی۔“

آپ کے کلمات طیبات: آپ کے کلمات طیبات اور حکیمانہ مقولے اخلاق و حکمت کا سبق ہیں۔ آپ فرماتے تھے سچائی عزت ہے، جھوٹ عجز ہے، رازداری امانت ہے، حق جوار قرابت ہے، امداد وستی ہے، عمل تجربہ ہے، حسن خلق عبادت ہے، خاموشی زینت ہے، بخل فقر ہے، سخاوت دولتمندی ہے، نرمی عقلمندی ہے۔

مذکورہ اقوال کو اگر دل سے پڑھا جائے اور عمل کیا جائے تو زندگی کے کامیاب گذرنے میں کوئی شبہ نہیں۔

فضائل اخلاق: آپ کی ذات گرامی فضائل اخلاق کا مجموعہ تھی۔ ارباب سیر لکھتے ہیں کہ: ”کان الحسین رضی اللہ عنہ کثیر الصلوٰۃ والصوم والحج والصدقۃ افعال الخیر جمیعا۔“ یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ بڑے نمازی، روزہ دار، بہت حج کرنے والے بڑے صدقہ دینے والے اور تمام اعمال حسنہ کو کثرت سے کرنے والے تھے۔

عبادت: فضائل اخلاق میں راس الاخلاق عبادت الٰہی ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کو تمام عبادات خصوصا نماز سے بڑا ذوق تھا۔ آپ نے تعلیم بچپن میں خود صاحب شریعت علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل کی تھی۔ اس تعلیم کا یہ اثر تھا کہ آپ بکثرت نماز پڑھتے تھے۔ آپ کے متعلق امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے کسی کے سوال کے جواب میں فرمایا آپ رات کو بہت زیادہ نفل پڑھتے تھے۔ آپ رمضان کے علاوہ بھی کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ تمام ارباب سیر کثرت صیام پر متفق ہیں آپ نے حج بھی کثرت سے کئے تھے اور اکثر پیادہ کئے تھے۔

صدقات و خیرات: مالی اعتبار سے آپ کو خدا نے جیسی فارغ البالی عطا فرمائی تھی اسی فیاضی سے آپ خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ ابن عساکر کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ خدا کی راہ میں کثرت سے خیرات کرتے تھے۔ کوئی سائل کبھی آپ کے دروازہ سے ناکام نہ لوٹتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک سائل مدینہ کی گلیوں سے پھرتا پھراتا ہوا آپ کے دروازہ پر پہنچا۔ اس وقت آپ نماز میں مشغول تھے، سائل کی صدا سن کر جلدی جلدی نماز ختم کرکے باہر نکلے۔ سائل پر فقر و فاقہ کے آثار نظر آئے، اسی وقت اپنے خادم قنبر کو آواز دی۔ قنبر حاضر ہوا، آپ نے پوچھا ہمارے اخراجات میں کچھ باقی رہ گیا ہے؟ قنبر نے جواب دیا آپ نے دو سو درہم اہل بیت میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے وہ ابھی تک تقسیم نہیں کیے گئے ہیں۔ فرمایا اس کو لے آؤ، اہل بیت سے زیادہ ایک مستحق آگیا ہے۔ چنانچہ اسی وقت دو سو درہم کی تھیلی منگوا کر سائل کے حوالے کردی اور معذرت کی کہ اس وقت ہمارے ہاتھ خالی ہیں اس لیے اس سے زیادہ خدمت نہیں کرسکتے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے خلافت کے زمانہ میں جب آپ کے پاس بصرہ سے آپ کا ذاتی مال لاتا تھا تو اسی مجلس میں اس کو تقسیم کرتے تھے۔

تواضع و انکسار: آپ حد درجہ خاکسار اور متواضع تھے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ شخص سے بھی بے تکلفی سے ملتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی طرف جارہے تھے، راستہ میں کچھ فقراء کھانا کھارہے تھے، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر انہیں بھی مدعو کیا۔ ان کی درخواست پر آپ فوراً سواری سے اتر پڑے اور کھانے میں شرکت کرکے فرمایا: ”تکبر کرنے والوں کو خدا دوست نہیں رکھتا“، اور ان فقراء سے فرمایا کہ ”میں نے تمہاری دعوت قبول کی ہے اس لیے تم بھی میری دعوت قبول کرو“ اور ان کو گھر لے جاکر کھانا کھلایا۔

ایثار و حق پرستی: حق پرستی کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے کہ حق کی راہ میں اپنا سارا کنبہ تہہ تیغ کرادیا لیکن ظالم حکومت کے سامنے سپر نہ ڈالی۔

حلیہ مبارک: حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں بھائی شکل و صورت میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔ آپ اتنے حسین تھے کہ آپ کے رخساروں سے نورانیت چمکتی تھی۔

ازواج و اولاد: آپ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں۔ آپ کی ازواج مطہرات میں حضرت بیبی لیلیٰ، حضرت بیبی حباب، حضرت بیبی حرار، حضرت بیبی غزالہ اور حضرت شہربانو رضی اللہ عنہن کے نام روایات میں درج ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو ان سے متعدد اولادیں ہوئیں جن میں حضرت علی اکبر، حضرت علی اصغر معصوم جو کربلا میں شہید ہوا تھا، حضرت عبداﷲ، حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہم۔ صاحبزادیوں میں حضرت سکینہ، حضرت فاطمہ، حضرت زینب، رضی اللہ عنہن شامل ہیں۔

شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ: حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں وہ حدیثیں پیش کی جاتیں ہیں جن میں آقائے نامدار صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے متعلق پہلے ہی بیان فرمادیا تھا۔

حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ”ایک مرتبہ امام حسین رضی اللہ عنہ میرے گھر میں کھیل رہے تھے اور ان کے سامنے حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی ذات جلوہ افروز تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یارسول اﷲ صلّی اللہ علیہ وسلم بے شک آپ کی امت میں سے ایک جماعت آپ کے اس بیٹے کو آپ کے بعد شہید کردے گی، اور آپ کو اس مقام کی تھوڑی سی مٹی دی۔ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اسی مٹی کو اپنے سینے مبارک سے لگایا اور روئے، پھر فرمایا ”اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا شہید ہوگیا ہے۔“ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا اور وہ ہر روز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا۔

مقام شہادت: حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ کو جبرئیل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے بعد زمین طف (جس کو اب کربلا کہتے ہیں) میں قتل کیا جائے گا اور جبرئیل علیہ السلام میرے پاس اس زمین کی یہ مٹی لائے ہیں اور انہوں نے مجھے یہ بتایا کہ یہی مٹی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن ہے۔“

حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کی کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کی جگہ ہے۔ آل محمد علیہ الصلواۃ والسلام کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے۔ (الخصائص الکبریٰ)

مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی بتادی تھی، اور ان کا مقام بھی بتادیا تھا اور سن ھجری بھی بتادیا تھا۔

بالاٰخرحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ۱۰ محرم الحرام بروز جمع بعد زوال سن ۶۱ ھجری میں ۵۸ برس کی عمر میں مقام کربلا میں شہید کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مرقد مبارک پر ہزارہا رحمتیں نازل فرمائے۔

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔