نام نھاد اھلحدیث غیر مقلد وھابی در اصل شیعہ ھیں ( پارٹ 7 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غیر مقلد مولوی وحید الزمان غیر مقلد نے پانچ صحابہ کو فاسق لکھا ہے۔ (معاذاللہ)
چنانچہ وہ نزل الابرار کی جلد 3، کے حاشیہ صفحہ 94 پر لکھتا ہے۔
“ومنہ تعلم ان من الصحابۃ من ھو فاسق کالولید و مثلہ یقال فی حق معاویۃ و عمرو و مغیرو سمرۃ“۔
“یعنی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے جو فاسق تھے، جیسے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ ایسے ہی کہا جاتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ،عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ،مغیرہ بن شیبہ رضی اللہ عنہ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے متعلق“
تو یہ پانچوں اس کے نزدیک فاسق و فاجر ہیں۔(معاذاللہ)۔جبکہ اہل سنت کے ہاں “الصحابۃ کلھم عدول“ کا کلیہ مسلم ہے، یعنی تمام صحابہ عادل اور پرہیز گار ہیں۔ جیسا کہ آیت قرآنی گواہ ہے۔
“ ولکن اللہ حبب الیکم الایمان و زینہ فی قلوبکم و کرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولئک ھم الراشدون “
(سورۃ حجرات)
“لیکن اللہ تعالٰی نے (اے صحابہ رضی اللہ عنہ) تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے یہی لوگ راشدوں کی جماعت ہے۔“
یعنی یہی لوگ “صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمٰعین“ ہدایت یافتہ اور عادل و متقی ہیں۔
قارئین کو معلوم ہونا چاہئے ،کوئی بھی اہل سنت کسی بھی صحابی کے فسق کا قائل نہیں ، یہ غیر مقلد ہی ہیں جن کو شیعہ کی آب چڑھی ہوئی ہے کہ بے دھڑک ایسے عظیم القدر صحابہ کو فاسق کہہ دیتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ اگر صحابہ بھی فاسق ہوسکتے ہیں تو پھر ہم لوگوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ہمارے لئے پھر فسق کچھ بھی معیوب نہیں ہوگا۔
وحید الزمان غیر مقلد کی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے دشمنی۔
ترجمہ بخاری شریف میں صفحہ 90 جلد 5 پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتا ہے،
“صحابیت کا ادب ہم کو اس سے مانع ہے کہ ہم معاویہ کے حق میں کچھ کہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی الفت اور محبت نہ تھی۔ ان کا باپ ابوسفیان ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتا رہا، یہ خود حضرت علی سے لڑے، ان کے بیٹے ناخلف یزید پلید نے تو غضب ڈھایا امیر المومنین امام حسین علیہ السلام کو مع اکثر اہل بیت کے بڑے ظلم اور ستم کے ساتھ شہید کرادیا۔“
ایسے ہی ترجمہ بخاری جلد5،صفحہ 61 پر رقم طراز ہے،
“ابوسفیان زندگی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے رہے، ان کے فرزند ارجمند معاویہ بن ابی سفیان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق سے مقابلہ کیا، ہزاروں مسلمانوں کا خون گرایا، قیامت تک اسلام میں جو ضعف آگیا ،یہ انہیں (معاویہ) کا طفیل تھا۔“
نیز لکھتا ہے،
“ایک سچے مسلمان کا جس میں ایک ذرہ برابر بھی پیغمبر صاحب کی محبت ہو دل یہ گوارہ نہیں کرے گا کہ وہ صحابہ کی تعریف اور توصیف کرے، البتہ ہم اہل سنت کا طریقہ ہے کہ صحابہ سے سکوت کرتے ہیں، اسلئے معاویہ سے بھی سکوت کرنا ہمارا مزہب ہے اور یہی اسلم اور قرین احتیاط ہے، مگر ان کی نسبت کلمات تعظیم مثلاً حضرت و رضی اللہ عنہ کہنا سخت دلیری اور بے باکی ہے ،اللہ محفوظ رکھے،“
(لغات الحدیث مادہ عز)
ہم “اللہ محفوظ رکھے“ وحید الزمان غیر مقلد کی دعا پر آمین کہتے ہیں لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو رضی اللہ عنہ کہنے اور حضرت کہنے سے نہیں بلکہ غیر مقلدی سے اور اللہ تبارک و تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو غیر مقلدیت سے محفوظ رکھے کیونکہ غیر مقلد ہوکر آدمی صحابہ، آئمہ اور اسلاف کرام کا گستاخ اور بے ادب ہوجاتا ہے۔ وہ خود تو صحابہ کا ادب نہیں کرسکتا لیکن ادب کرنے والوں کو بھی روکتا ہے۔ کہ صحابہ کو حضرت اور رضی اللہ عنہ نہ کہنا۔ نعوذباللہ من العمٰی بعد الھدٰی۔
وحید الزمان ھرگز اہل سنت نہیں ہوسکتا
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو فاسق لکھ کر اور حضرت و رضی اللہ عنہ کے القاب سے محروم کرکے بھی یہ اپنے آپ کو اہل سنت سمجھتے ہیں۔ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر یہ بے لگام شخص اہل سنت نہیں ہوسکتا۔ جس کے دل میں اک عظیم صحابی ، کاتب وحی ، مسلمانوں کے خالو ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی کے متعلق اتنا بغض اور کینہ بھرا ہوا ہو کہ وہ اس کے لئے تعظیمی الفاظ تک کو ناجائز سمجھتا ہو۔ تفو بر تفو اے چرخ گردان تفو۔
غیر مقلدین کا مایہ ناز مصنف علامہ وحید الزمان ا قراری شیعہ ہے۔
وحید الزمان ، بخاری شریف کے ترجمہ جلد 2 صفحہ 193 پر سورت حجر کی آیت “صراط علی مستقیم“ کی تفسیر کے حاشیہ میں لکھتا ہے،
“اسی سے ہے شیعہ علی یعنی حضرت علی اور ان کے دوست اور ان سے محبت رکھنے والے۔ یا اللہ ! قیامت کے دن ہمارا حشر شیعہ علی میں کر اور زندگی بھر ہم کو حضرت علی رضٰ اللہ عنہ اور سب اہل بیت کی محبت پر قائم رکھ۔“
نیز “نزل الابرار،جلد1صفحہ7“ پر لکھتا ہے،
“اہل حدیث شیعہ علی “ یعنی کہ اہل حدیث علی رضی اللہ عنہ کے شیعہ ہیں۔
قارئین کرام ! اس قدر واضح بیان کے بعد بھی کیا موصوف کے شیعہ اور رافضی ہونے میں کوئی شبہ باقی رہ جاتا ہے؟ بعض تقیہ باز غیر مقلد ، سادہ لوح مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کہتے ہیں کہ ہم اسے (وحید الزمان) نہیں مانتے ، حالانکہ اسی وحید الزمان کی کتابیں، ان غیر مقلدوں کے ہر گھر اور مسجد کی لائبریریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ یقین نہ آئے تو جاکر دیکھ لیں۔
وحید الزمان غیر مقلد ، کے نزدیک متعہ حلال قطعی ہے۔
وہ کہتا ہے،
“وکذالک بعض اصحابنافی نکاح المتعۃ فجوزو ھا ونرٰی کان ثابتاً جائزاً
فی شریعۃ کما ذکرہ اللہ فی کتابہ فما استمتعتم بہ منھم الی اجل مسمی یدل
صراحۃ علی اباحتہ فالاباحتہ قطعیۃ لکونہ قد وقع الاجماع علیہ و تحریم ظنی۔“ (نزل الابرار جلد2صفحہ33)
“اور ایسے ہی ہمارے بعض اصحاب نے نکاح متعہ کو جائز قرار دیا ہے جبکہ وہ شریعت میں ثابت اور جائز تھا جیسے اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی کتاب میں اسکا تزکرہ یوں کیا ہے کہ، ان میں سے تم جس سے متعہ کرو گے تو اس سے اس کی مزدوری ہی دے دیا کرو۔ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود کی قراءت میں الی اجل مسمی کی زیادتی ہے، جو صراحتاً جواز کی دلیل ہے۔ یعنی جس سے تم مدت مقررہ تک کے لئے متعہ کرو۔ پس اباحت اور جواز قطعی ہے اسلئے کہ اباحت پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور جہاں تک حرمت کا تعلق ہے تو وہ ظنی ہے “
اس عبارت میں وحید الزمان غیر مقلد نے متعہ کو صرف جائز ہی نہیں کہا ہے ، بلکہ اس کے جواز کے لئے قرآنی اور اجماعی ٹھوس دلائل بھی مہیہ کردئے ہیں جو شاید شیعوں کو بھی نہ سوجھے ہوں۔
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
پتہ نہیں نام نہاد اہل حدیث اپنے اسی محبوب مصنف و محدث کے قطعی فتوے پر عمل کرکے اس کا ثواب عظیم حاصل کرتے اور اپنے علامہ کو اس کا ایصال ثواب پہنچاتے ہیں یا ظنی باتوں پر عمل کرکے اس ثواب عظیم سے محروم رہتے ہیں۔
غیر مقلدوں کی آبادی چونکہ بہت کم ہے اسلئے انہیں اس فتوے کی آڑ میں اپنی نفری بڑھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاھئے۔
وحید الزمان نے ہدیۃ المہدی کے صفحہ 112 پر بھی متعہ کو جائز قرار دیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں “ بااختیار قول اھل مکۃ فی المتعۃ “ یعنی متعہ کے بارے میں اہل مکہ کے قول جواز کے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
وحید الزمان اھل تقلید کی مخالفت اور اھل تشیع کی موافقت پر بڑا فخر کرتا ھے وہ لکھتا ہے،
“ولا یجوز تقلید المجتھد المیت و حکیٰ بعضھم الاجماع علیہ و قیل یجوز و رجحہ الشیخ ابن القیم لان القول لایموت و تقلید السلف الاقوال الصحابۃ و تابعین تدل علی و قال ابن مسعود رضی اللہ عنہ من کان متبعاً فلیستن بمن قدمات و خالفتنا فیہ المقل و افقنا فیہ امامیۃ“
(ہدیۃ المہدی جلد 1صفحہ 112)
“یعنی فوت شدہ مجتہد کی تقلید جائز نہیں اور بعض نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ جائز ہے، اور شیخ ابن قیم رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے کیونکہ قول تو نہیں مرتا اور سلف صالحین نے جو اقوال صحابہ و تابعین کی تقلید کی ہے وہ اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے جو کسی کی اتباع کرنا چاہتا ہو اسے چاھئے کہ فوت شدہ لوگوں کی اتباع کرے، اس بارے میں مقلدین نے ہماری مخالفت کی ہے اور فرقہ امامیہ ہمارے موافق ہے۔“
دیکھئیے ! حرمت تقلید میں فرقہ امامیہ کی موافقت پر وحید الزمان کتنا خوش ہوتا اور فخر کرتا ہے ،
یہ بیں کہ از کہ گستی وبا پیوستی
دیکھ تو لے کہ تونے کس سے توڑی اور کس سے جوڑی؟
وحید الزمان شیعوں کی طرح پاؤں کے مسح کا قائل تھا۔
وہ کہتا ہے،
“قال ابن جریر من اصحابنا یتخیر المتوضی ان یغسل رجلیہ او یمسح علیھا لان ظاھر
الکتاب ینطق بالمسح ولکن الصحابۃ اتفقوا علی الغسل الا ماروی عن ابن عباس رضی
اللہ عنہ و حکی عنہ الرجوع ویحکی من الشیخ ابن عربی جواز مسح الرجلین فی الوضوء
و ھو المنقول عن عکرمۃ ووجدنا فی کتب الزیدیۃ والامامیۃ الروایات المتواترۃ عن آئمۃ
اہل البیت رضی اللہ عنھم تشعر بجواز المسح۔“
(نزل الابرار،جلد1،صفحہ13)
“یعنی ہمارے اصحاب میں سے ابن جریر نے کہا ہے کہ وضو کرنے والے کو اختیار ہے چاہے وہ پاؤں دھوئے چاہے ان پر مسح کرلے۔ اس لئے کہ کتاب اللہ ظاہر مسح ہی کو بیان کرتی ہے، لیکن صحابہ کرام دھونے پر متفق ہیں، مگر جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے جس سے ان کا رجوع بھی منقول ہے ، شیخ ابن عربی سے بھی پاؤں کے مسح کا جواز نقل کیا گیا ہے، اور یہی حضرت عکرمہ رضٰ اللہ عنہ سے بھی۔ اور ہم نے زیدی اور امامی شیعوں کی کتابوں میں آئمہ اہل بیت کی متواتر روایات پائی ہیں جو مسح کے جواز کو ثابت کرتی ہیں۔“
اس اقتباس میں وحید الزمان غیر مقلد نے پاؤں کے مسح کا جواز ہی نقل نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف غسل رجلین پر صحابہ کا اجماع بھی نکل کیا ہے، تعجب ہے کہ پھر بھی مسح کے جواز کا قائل ہے اور اپنی تائید میں صحابہ اور اہل سنت کے آئمہ کو چھوڑ کر شیعوں کے اماموں سے متواتر روایات بیان کرتا ہے ، تو کیا یہ اس کے شیعہ ہونے کی اٹل دلیل نہیں ؟ کہ جن شیعی روایات کی تردید اسے کرنی چاھئیے تھی وہ بڑے فخر سے اپنی تائید میں نقل کرتا ہے۔
حی علی الفلاح کے بعد حی علی خیر العمل کہیں
-+وحید الزمان غیر مقلد کہتا ہے کہ اگر حی علی الفلاح کے بعد حی علی خیر العمل کہا جائےتو کوئی حرج نہیں۔
اسکے الفاظ یہ ہیں،
“ولو زاد بعد الحیعلتین حی علی خیر العمل فلا باس بہ۔“
(نزل الابرار ،جلد 1،صفحہ 59)
“یعنی اسمیں کوئی حرج نہیں کہ حی علی الفلاح کے بعد حی علی خیر العمل کہا جائے۔“
مہربان من ! حرج کیوں نہیں ؟ یہ حی علی خیر العمل شیعوں کی آزان کا شعار ہے پھر وہ اہل حدیث کی آذان میں کیوں ہے؟ اور اگر اسے بے کھٹک لانا ہی ہے تو پھر اہل حدیث کہلوانے کا تکلف کیوں؟ صاف صاف اہل تشیع کہلوائیں۔
تھوڑے پانی کے ناپاک نہ ہونے میں شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت
وحید الزمان نے لکھا ہے،
“لا یفسد ماء البئر ولو کان صغیراً والماء فیہ قلیلاً بوقوع النجاسۃ۔“
(نزل الابرار ، جلد 1،صفحہ31)
یعنی کنویں کا پانی نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا خواہ وہ کنواں چھوٹا ہو اور پانی بھی اس میں کم ہو۔
ادھر شیعہ کہتے ہیں،
“فان وقع فی البئر زمبیل من عذرۃ رطبۃ او یابس او زمبیل من سرقین فلا باس بالوضوء منھا ولا ینزح منھا شئی۔“
یعنی کنویں میں پاخانے کی بھری ہوئی زنبیل گرگئی خواہ نجاست تر ہو یا خشک،یا گوبر والی زنبیل گرگئی ،تو کوئی حرج نہیں،اس سے وضو کرسکتے ہیں اور اس میں سے پانی نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (من لا یحضرہ الفقیہ،صفحہ5)
دیکھئے کنواں دونوں کے ہاں پلید نہیں ہوا ، نہ شیعوں کے ہاں نہ غیر مقلدوں کے ہاں۔ نیز حدیث قلتین جو ہمارے نزدیک ضعیف قریب موضوع ہے۔ اس کی وجہ سے غیر مقلدین کہتے ہیں کہ جب پانی دومٹکوں کے برابر ہوتو کسی صورت پلید نہیں ہوسکتا اگر ایک گھڑا پانی کا ہو اور دوسرا پیشاب کا ، ان دونوں کو ملالیں تو قلتین ہونے کی وجہ سے ناپاک نہیں ہوگا۔
اور شیعہ کہتے ہیں ، ایک پرنالہ پانی کا ہو دوسرا پیشاب کا، ان کا پانی ملنے کے بعد کسی کپڑے کو لگ جائے تو کوئی حرج نہیں۔دیکھئے فروع کافی،جلد1،صفحہ7۔
ساس کے ساتھ زنا کی وجہ سے بیوی کے حرام نہ ہونے پر شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت : ۔
شیعہ کہتے ہیں ،
“عن ابی جعفر علیہ السلام وانہ فی رجل زنا بام امراتہ او بابنتھا او باختھا فقال لا یحرم ذالک علیہ امراتہ۔“ (فروع کافی،جلد2،صفحہ174)
یعنی“ حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی ساس یا اس کی پچھ لگ بیٹی یا اپنی سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی حرام نہیں ہوئی۔“
اور غیر مقلد کہتے ہیں،
“وکذالک لو جامع ام امراتہ لا تحرم علیہ امراتہ“
(نزل الابرار ،جلد2،صفحہ28)
یعنی “ اگر کسی نے اپنی بیوی کی ماں سے جماع کیا تو اس پر اسکی بیوی حرام نہیں ہوتی۔“
مشت زنی کے جواز میں شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت
شیعہ کہتے ہیں ،
“عن ابی عبداللہ علیہ السلام سالتہ عن الدلک قال ناکح نفسہ لا شئی علیہ ۔“ (فروع کافی،جلد 2،صفحہ 234)
یعنی “ امام جعفر علیہ السلام مشت زنی کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے وجود سے فعل کرتا ہے اس پر کوئی مواخزہ نہیں۔“
فرقہ نام نہاد اہل حدیث یعنی غیر مقلد کہتے ہیں
“وبالجملتہ استنزال المنی بکف یا چیزے از جمادات نزد دعائے حاجت مباح است لا سیما چوں فاعل ناشی از وقوع فتنہ یا معصیت کہ اقل احوالش نظر بازی است باشد کہ دریں حین مندوب است بلکہ گاہے گاہے واجب گرد“۔ “بعض اہل فہم نقل ایں استمناء از صحابہ نزد غیبت از اہل خود کردہ اند۔“ (عرف الجادی،صفحہ207)
یعنی“ہاتھ سے منی نکالنا یا جمادات میں سے کسی چیز کے ساتھ رگڑ کر جبکہ اس کا تقاضہ ہو بالکل مباح ہے، بالخصوص جبکہ فاعل کو فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو جس کی کم از کم حد نظر بازی ہے، تو ایسے وقت میں مستحب ہے بلکہ کبھی تو واجب ہوجاتی ہے۔جس وقت اس کے سوا گناہ سے بچنا نا ممکن ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض اہل فن نے اس کا ارتکاب صحابہ سے بھی نقل کیا ہے جبکہ وہ اپنے اہل سے دور ہوتے تھے۔“
ناظرین غور کریں کہ شیعوں نے اس فعل قبیح کو صرف مباح کہا تھا مگر غیر مقلدوں نے اسے ناصرف واجب کا درجہ دے دیا بلکہ اسے سنت صحابہ کے طور پر ثابت کرنے کی سعی نامشکور بھی کی ہے۔
خنزیر کے اجزاء کی ناپاکی میں شیعوں اور غیر مقلدوں کا توافق۔
شیعہ کہتے ہیں،
“عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال سالتہ من الحبل یکون من شعر الخنزیر یستسقٰی بہ الماء من البئر ھل یتوضاً من ذالک الماء قال لاباس بہ۔“ (فروع کافی،جلد2،صفحہ103،جز2)
یعنی““زرارہ کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ خنزیر کے بالوں کی رسی سے کنویں میں سے پانی نکالیں تو اس سے وضو کیا جاسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔ “قال العشر و الصوف کلہ ذکی۔“ آپ نے فرمایا اسکے بال اور اون سب پاک ہیں۔
اور فرقہ اہل حدیث والے غیر مقلد کہتے ہیں،
“وشعر المیتہ والخنزیر طاھر و کذا عظمھا و عصبھا و حافرھا و قرنھا“
(نزل الابرار ،جلد1،صفحہ 30)
یعنی“مردار کے بال اور خنزیر کے بال پاک ہیں اور ایسے ہی ان کی ہڈیاں اور ان کا پٹھا اور ان کے کھر اور ان کے سینگ پاک ہیں۔“
جمع بین الصلٰوتین میں شیعوں سے موافقت
قارئین کو معلوم ہونا چاھئے کہ عرفات میں ظہر اور عصر کی جمع تقلدین اور مزدلفہ میں مٍرب و عشاء کی جمع تاخیر بلاشبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں بھی بلاعزر شرعی جمع نہیں فرمائی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،
“عن عبداللہ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی الصلوٰۃ لوقتھا الا بجمع و عرفات۔“
(نسائی،جلد2،صفحہ36)
یعنی “ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نماز ہمیشہ اپنے وقت پر پڑھا کرتے تھے سوائے مزدلفہ اور عرفات کے۔“
نیز مسلم شریف میں یہی بات قدرے تفصیل کے ساتھ کہی گئی ہے کہ مزدلفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرکے پڑھا۔ اب دیکھئے غیر مقلد اور شیعہ دونوں اس کے برخلاف کیا کہتے ہیں ۔ کہ بغیر عزر کے گھر میں بھی جمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔ غیر مقلدوں کا علامہ وحید الزمان ہدیۃ المہدی میں فرماتا ہے۔
“ الجمع بین الصلوٰتین من غیر عزر ولا سفر ولا مطر جائز عند اہل حدیث
و التفریق افضل و اشترط بعضھم ان لا یتخذوہ عادۃ و رواہ امامیۃ کتبھم عن العترۃ الطاھرۃ۔ (ھدیۃ المھدی،جلد1،صفحہ109)
یعنی“ اہل حدیث کے نزدیک بغیر کسی عذر ، بغیر کسی سفر، بغیر کسی بارش کے بھی ، دونمازوں کو جمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔ اور تفریق افضل ہے، اور بعضوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ لوگ اسے عادت نہ بنالیں اور جمع بین الصلوٰتین کو امامیہ نے اپنی کتابوں میں آل پاک سے روایت کیا ہے۔“
ملاحظہ فرمائیے ! یہاں غیر مقلد مصنف شیعہ اماموں کو اپنی تائید میں پیش کررہا ہے تو پھر اہل سنت کی بجائے شیعوں کے زیادہ قریب نہیں تو اور کیا ہے۔؟
نماز جنازہ جہراً پڑھنے میں شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت
ناظرین کو معلوم ہونا چاھئے کہ جمہور اہل سنت کے نزدیک نماز جنازہ چونکہ دعا ہی کی اک صورت ہے، اور دعا کو آہستہ پڑھنے کا حکم قرآن پاک نے دیا ہے ، اسلئے بالاجماع جنازہ کی دعائیں آہستہ پڑھنی چاھئیں ۔ جیسا کہ قاضی شوکانی غیر مقلد نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے،
“مذھب الجمھور الی انہ لا یستحب الجھر فی صلوٰۃ الجنازۃ
تمسکوا بقول ابن عباس رضی اللہ عنہ المتقدم لم اقرا ای جھراً
الا لتعلموا انہ سنۃ و بقولہ فی حدیث ابی امامۃ سراً فی نفسہ۔“
(نیل الاوطار،جلد4،صفحہ 66)
یعنی جمہور علماء اس طرف ھئے ہیں کہ نماز جنازہ میں جہر متحب نہیں ، اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول سے جو پیچھے گزرا دلیل پکڑی ہے، یعنی آپ نے فرمایا کہ میں نے جہراً اسلئے پڑھا کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ پڑھنا سنت ہے، اور جمہور نے حضرت امامہ کے اس اس قول “سراً فی نفسہ“ سے بھی استدلال کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے اپنے جی میں پڑھو اور فقہ حنبلی کی مشہور کتاب مغنی ابن قدامہ میں ہے،
“ ویس القرات والدعا فی صلٰۃ الجنازۃ لا نعلم بین اہل العلم فیہ خلافھا۔“ (مغنی جلد2صفحہ486)
“نماز جمازہ میں قرات اور دعا آہستہ پڑھے اس سلسلہ میں ہم اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں جانتے۔“
مگر اس قول جمہور اور آئمہ اربعہ کے خلاف صرف شیعوں سے موافقت کرنے کے لئے غیر مقلد کہتے ہیں کہ جمازہ کی قرات اور دعائیں جہراً پڑھنی سنت ہے۔ دیکئے فتاوٰی علمائے حدیث (جلد5صفحہ152) نیز فتاوٰی ثنائیہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ اور اس کے بعد کی سورۃ بآواز بلند جہراً پڑھنا جائز بلکہ سنت ہے۔(فتاوٰی ثنائیہ جلد2،صفحہ56)
نماز میں ہاتھ اٹھاکر دعامانگنے میں غیر مقلدوں اور شیعوں کی موافقت
قارئین کو معلوم ہے کہ شیعہ حضرات نماز میں بار بار ہاتھ اٹھا کر دعامانگتے ہیں ۔ شیعوں کا یہ عمل غیر مقلدین کو اتنا پسند آیا کہ وتروں اور قنوت نازلہ میں بلکہ مطلق نماز میں انہوں نے بھی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو اپنا معمول بنالیا۔
وحید الزمان لکھتا ہے،
“ولاباس ان یدعو فی قنوتہ بما شاء فیرفع یدیہ الی صدرہ یبسطھما و بطو نھا نحو السماء۔“ (نزل الابرار)
“یعنی اس میں کوئی حرج نہیں کہ قنوت میں جو دعا پڑھے بس ہاتھوں کو اپنے سینے کے برابر تک اٹھا کر کھول لے ان کی ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہوں۔“
ہدیۃ المہدی میں وحید الزمان لکھتا ہے،
“و یجوزون الدعاء برفع الایدی فی الصلوٰۃ ای دعاء کان ولو من قبیل ما یسال عن الناس۔“
“یعنی اہل حدیث ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو جائز کہتے ہیں خواہ کوئی سی دعا ہو خواہ ایسی دعا ہو جو لوگوں سے بھی مانگی جاسکتی ہے۔“
حالانکہ یہ کسی حدیث میں نہیں آتا کہ یہاں یہ لوگ اپنے آپ کو شیعوں پر قیاس کرلیتے ہیں پھر ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے انہیں دعا پڑھ کر منہ پر بھی پھیر لیتے ہیں جو ہئیت نماز کے بلکل خلاف ہے۔ یہ اک قسم کا عمل کثیر ہے جس سے نماز ہی ٹوٹ جاتی ہے، جبکہ ہمارے پاس دعا میں ہاتھ اٹھانے کی مرفوع حدیث موجود ہے،
“عن محمد بن یحیٰی الاسلمی قال رایت عبداللہ بن زبیر و راءی رجل رافعا یدیہ یدعو قبل ان یفرغ من صلوتہ فلما فرغ منھا قال لہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلوٰتہ۔“
(رواہ ابن ابی شیبہ)
“یعنی محمد بن یحیٰی اسلمی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضٰ اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا وہ فراغت سے پہلے نماز میں ہاتھ اٹاکر دعا مانگ رہا تھا جب وہ فارغ ہوا تو آپ نے اسے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک نماز سے فارغ نہ ہوجاتے ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے۔“
( جاری ہے )
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment