Tuesday, 23 December 2025

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طرح ان بارہ مہینوں پر مشتمل سال کی بھی ایک اہمیت ہے ۔ قرآن کریم نے بارہ ماہ کے سال کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا ہے : یعنی یقینا (ایک سال کے) مہینوں کی تعداد بارہ‘ اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) میں ہے (اور یہ اس وقت سے مقرر ہے) جب اللہ نے آسمان و زمین کو بنایا ۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ (القرآن‘ سورۃ التوبہ‘آیت 36)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار (ذوالقعدہ‘ ذوالحجہ‘ محرم اور رجب) کی حرمت و عظمت بیان کرتے ہوئے حجتہ الوداع کے موقع پر یوم نحر کو اپنے ایک تاریخی خطاب میں ارشاد فرمایا تھا کہ : زمانہ لوٹ کر اپنی جگہ واپس آگیا اور اب مہینوں کی ترتیب وہی ہوگئی ہے‘ جو اللہ نے تخلیق ارض و سماء کے وقت مقرر کی تھی ۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر باب705‘ حدیث،1773،چشتی)

رجب کی عظمت و رحمت کے سارے عرب قائل تھے۔ مگر اسلام نے اس ماہ مبارک کی فضیلت یعض تاریخی واقعات کی بناء پر اور بڑھا دی۔
لغت کی کتابوں میں رجب کے معنی ’’عظمت و بزرگی‘‘ کے بیان ہوئے ہیں اور ترجیب بمعنی تعظیم آیا ہے ۔ (ابن منظور افریقی‘ لسان العرب‘ زیر مادہ ’’رجب‘‘)

زمانہ جاہلیت میں اس ماہ کی تعظیم کے پیش نظر اس میں جدال و قتال منع تھا۔ قبیلہ مضر کے لوگ بطور خاص اس ماہ کی تعظیم کرتے اور قتل و غارت گری کو اس ماہ میں انتہائی معیوب جانتے تھے۔ اس لئے لغت کی بعض کتابوں میں رجب کو رجب مضر بھی کہا گیا ہے (ابن منظور افریقی‘ لسان العرب‘ زیر مادہ ’’رجب‘‘)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے خطبہ یوم النحر حجتہ الوداع میں اسے رجب مضر ہی فرمایا ۔ (بخاری و مسلم)

رجب میں قربانی

رجب کے مہینے میں زمانہ جاہلیت میں قربانی کرنے کا رواج بھی تھا اور یہ قربانی عتیرہ اور رجبیہ کہلاتی تھی۔ اسلام میں اس قربانی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا۔ چنانچہ سنن ترمذی میں ایک روایت اس طرح ملتی ہے کہ حضرت ابو ذر بن لقیط بن عامر عقیلی کہتے ہیں میں نے دریافت کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم زمانہ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں قربانی کیا کرتے تھے‘ جسے ہم خود بھی کھاتے اور جو کوئی ہمارے پاس آتا اسے بھی کھلاتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں (سنن نسائی کتاب الاضحیتہ‘ حدیث 4556‘ نیز سنن ابی دائود‘ کتاب الاضحیہ، چشتی)

زمانہ جاہلیت میں لوگ رجب کی قربانی بتوں کے تقرب کے لئے کرتے تھے‘ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے ایک موقع پر منع بھی فرمایا مگر اس ممانعت کا مقصد دراصل بتوں کےلیے ذبح کرنے سے منع کرنا تھا‘ نہ کہ مطلقا رجب میں ذبیحہ سے منع کرنا ۔ (شرح صحیح مسلم‘ ج 3‘ ص 171‘ بحوالہ ملا علی قاری، چشتی)

اہل اسلام کےلیے ہر ماہ میں ﷲ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ذبح کرنے کی اجازت ہے ۔ بعض علماء نے اسے مباح کہا ہے بلکہ علامہ ابن سیرین تو رجب میں باقاعدگی سے ’’رجبی‘‘ کرتے تھے (علامہ بدر الدین عینی‘ عمدۃ القاری‘ ج 1ص 89‘ مطبوعہ مصر) جس کی صورت یہ ہوتی کہ جانور ذبح کیا جاتا اور دعوت عام ہوتی ۔

ملا علی قاری اور علامہ عینی نے رجب کی قربانی کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ (ملا علی قاری‘ مرقات‘ ج 3‘ ص 315‘ مطبوعہ ملتان)

رجب میں قتال

قریش کے ہاں ماہ رجب میں قتال کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا‘ اس لئے جب غزوہ بدر سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبدﷲ بن حجش اسدی رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں ماہ رجب میں ایک سریہ کےلیے صحابہ کو روانہ فرمایا اور انہوں نے بطن نخلہ میں قریش کے ایک قافلہ کو پایا جو عراق کی طرف جارہا تھا تو اس پر حملہ کرنے میں انہیں تردد ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اگر حملہ کرتے تو رجب کی تعظیم و حرمت کے پیش نظر یہ مناسب نہ تھا اور حملہ نہ کرتے تو اگلے ہی روز قافلہ حدود حرم میں داخل ہوجاتا پھر تو حملہ کرنا اور بھی نامناسب ہوتا۔ چنانچہ صحابہ نے کثرت رائے سے فیصلہ کرکے حملہ کردیا۔ مگر نتیجہ یہ ہوا کہ اگرچہ قافلہ کا سامان تو مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا لیکن کفار کو یہ شور مچانے کا موقع مل گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرمت والے مہینوں کی حرمت و وقار کا بھی خیال نہیں کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوا تو آپ بھی صحابہ کے اس عمل سے ناخوش ہوئے ( ضیاء النبی ج 3‘ ص 376)
مگر ﷲ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تسکین قلب اور صحابہ کی دلجوئی و عزت افزائی فرماتے ہوئے یہ آیات نازل فرمائیں ۔
ترجمہ: وہ پوچھتے ہیں آپ سے کہ ماہ حرام میں جنگ کرنے کا کیا حکم ہے‘ آپ فرمایئے کہ لڑائی کرنا اس میں بڑا گناہ ہے‘ لیکن روک دینا ﷲ کی راہ سے اور کفر کرنا اس کے ساتھ اور (روک دینا) مسجد حرام سے اور نکال دینا اس میں بسنے والوں کو اس سے بڑے گناہ ہیں ﷲ کے نزدیک اور فتنہ و فساد قتل سے بھی بڑا گناہ ہے ۔ (القرآن‘ البقرہ آیت 217) ۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشہر حرام اور رجب کی فضیلت کو اسلام نے خاص اہمیت دی ہے ۔

رجب میں عمرہ

ماہ رجب میں عمرہ کا رواج زمانہ جاہلیت میں پایا جاتا تھا اور پورا عرب ماہ رجب میں عمرہ کرنے کی کوشش کرتا۔ چنانچہ پورے جزیرہ عرب سے ماہ رجب میں وفود مکہ مکرمہ کا رخ کرتے تھے اور ان قافلوں کو راستے میں کسی قسم کی لوٹ مار یا قتل و غارت گرمی کا خوف نہ ہوتا جبکہ دیگر مہینوں (ماسوا اشہر حرام) میں یہ ضمانت نہیں ہوتی تھی۔ عربوںکے ہاں ایک رواج یہ بھی تھا کہ ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم میں کاروباری منڈیاں قائم کی جاتیں اور حرم کے اردگرد بڑے بڑے تجارتی میلے لگا کرتے۔ ان مہینوں میں عمرہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ عمرہ کے لئے رجب ہی کا مہینہ مقرر تھا۔ اور اشہر حج میں عمرہ کرنا عربوں کے ہاں افجر الفجور سمجھا جاتا (السید رزق الطویل‘ مقال فی مجلہ الحج‘ شمارہ 1/51‘ ص 31 ‘ مکہ مکرمہ 1995ء)

بعض مسلمانوں میں رجب کے مہینے میں عمرہ کو بہت افضل سمجھا جاتا ہے‘ حالانکہ عمرہ ادا کرنا سنت ہے اور یہ کسی بھی مہینے میں کیا جاسکتا ہے اور جب بھی کیا جائے گا اس کی فضیلت ایک سی ہوگی ماسوا ماہ رمضان کہ اس کے بارے میں ارشاد مصطفوی بڑا واضح ہے ۔ ’’رمضان المبارک میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے‘ یا میرے ساتھ حج کے برابر ہے ۔ (صحیح مسلم‘ باب فضل العمرہ فی رمضان‘ باب 375‘ حدیث 2934، چشتی)

ماہ رجب اور معراج شریف

اگرچہ اس بات میں اختلاف ہے کہ واقعہ معراج کب اور کس ماہ میں پیش آیا۔ اور اس سلسلہ میں علماء سلف کے متعدد اقوال ہیں ۔ کسی نے ربیع الاول‘ کسی نے ربیع الثانی اور کسی نے رمضان المبارک کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ تاہم اکابر علماء کی ایک جماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ رجب ہی کے مہینے میں پیش آیا ۔

واقعہ معراج کے حوالے سے 27 شب رجب اہل اسلام کے ہاں عبادات کی راتوں میں ایک رات شمار کی جاتی ہے۔ اسی رات لوگ بکثرت نوافل ادا کرتے اور ذکرواذکار کرتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں علماء حرم کے منع کرنے کے باوجود حرم شریف عمرہ کرنے والوں سے کھچا کھچ بھر جاتا ہے۔ میرے قیام مکہ مکرمہ 1983-1980ء کے دوران ایک بار امام حرم نے ماہ رجب کے ایک جمعہ کے خطاب میں کہا کہ لوگ خواہ مخواہ 27 ویں شب رجب میں عمرہ کو افضل سمجھ کر حرم میں رش (بھیڑ بھاڑ) کردیتے ہیں حالانکہ اس رات میں عمرہ کی کوئی فضیلت نہیں۔ اگلے ہی روز صبح حرم میں بعد نماز عصر جناب علامہ محمد علوی مالکی نے درس دیتے ہوئے اس کی پرزور تردید کی اور کہا ’’لوگوں کو اس رات میں عمرہ کرنے سے یہ کہہ کر روکنا کہ اس رات کی کوئی فضیلت نہیں‘ بہت بڑی غلطی ہے‘ سوال یہ ہے کہ عبادات کی کثرت عندﷲ پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ ؟ اگر ناپسندیدہ ہو تو بے شک منع کیجئے لیکن اگر مطلوب ہو تو کرنے دیجئے کہ اس بہانے کچھ لوگ عبادت کے لئے وقت نکال لیں گے ۔ نیز یہ کہ ہر وہ دن افضل ہے جس دن کی نسبت محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اور ہر وہ رات افضل ہے جس کو کسی بھی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہے ۔ لہذا یہ کہنا کہ اس رات کی نہ کوئی فضیلت ہے نہ افضلیت کسی طور بھی مناسب نہیں ۔

ماہ رجب میں پیش آنے والے چند اہم تاریخی واقعات : ⏬

تاریخ اسلام میں ماہ رجب میں متعدد تاریخی واقعات پیش آنے کا ذکر ہے ان میں سے ایک ہجرت حبشہ اولیٰ ہے‘ جب مسلمان اہل مکہ کی سختیاں برداشت کرنے سے عاجز آکر باذن رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عازم حبشہ ہوئے۔ اس قافلہ میں باختلاف روایات 12 مرد اور 4 عورتیں تھیں‘ سیدنا عثمان بن عفان رضی ﷲ عنہ قافلہ سالار مہاجرین تھے۔ یہ سن پانچ نبوی کا واقعہ ہے ۔

سریہ عبدﷲ بن حجش الاسدی اسی ماہ رجب میں ہجرت مدینہ سے کوئی 17 ماہ بعد پیش آیا جس کا ذکر ہم پہلے ہی کرچکے ہیں۔ یہ وہ سریہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں‘ مثلا اسلامی تاریخ کا پہلا مال غنیمت‘ پہلا خمس‘ پہلا شہید اور پہلا قیدی اس سریہ نے پیش کیا ۔

9 ہجری میں پیش آنے والا عظیم غزوہ‘ غزوہ تبوک بھی ماہ رجب ہی میں پیش آیا تھا جسے غزوہ ذات العسرہ کا نام دیا گیا۔ یہی وہ غزوہ ہے جس میں سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے اپناگھر بار خالی کرکے تن من دھن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف ایک بار پھر حاصل کیا اور حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ نے تہائی لشکر کا سازوسامان اپنی گرہ سے پیش کرکے جنت کا پروانہ اور یہ سند حاصل کی : (آج کے بعد عثمان کچھ بھی کریں انہیں کوئی نقصان نہ ہوگا) (مستدرک حاکم‘ ج 3‘ص 102‘ نیز ترمذی ابواب المناقب‘فی مناقب عثمان،چشتی)

حبشہ کے مسلمان بادشاہ نجاشی کا انتقال 9 ہجری ماہ رجب میں ہوا اور جناب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازخود اطلاع پاکر اپنے صحابہ کی معیت میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی ۔

دمشق کی تاریخی فتح 14 ہجری سن 635ء عیسوی میں ماہ رجب ہی میں ہوئی۔ حضرت خالد بن الولید رضی ﷲ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ جو ربیع الثانی 14 ہجرت سے دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے‘ فتح یاب ہوئے اور اہل دمشق نے صلح کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے 583ھ‘ 1187ء میں رجب ہی کے مہینے میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ داخل ہوکر عاجزانہ سجدہ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا ۔

اس طرح ماہ رجب کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے جو اس کی مذہبی فضیلت (شہر حرام) ہونے کے علاوہ ہے ۔

رجب اور رجال ﷲ : ⏬

اعلیٰ حضرت مجدد گولڑوی پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں ابدال و اقطاب کی تعریف میں حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’رحبیون‘‘ کو بھی ابدال کہا جاتا ہے اور وہ تعداد میں چالیس ہوتے ہیں اور ان کے ’’رجبیون‘‘ کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماہ رجب میں اپنے اپنے مقام پر ہوتے ہیں اور سال کے باقی مہینوں میں گشت کرتے ہیں ۔ ان پر رجب کے پورے مہینے میں کشف وارد ہوتا ہے جس کا اثر بعض پر پورا سال رہتا ہے ۔ (ملفوظات مہریہ صفحہ 56)

حضرت شیخ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 6 رجب 633 میں ہوا جن کے خلفاء و مریدین نے ہندوستان میں اسلام کی نشوونما کے سلسلہ میں تاریخ ساز کردار ادا کیا اور ظلمت کدہ ہند میں حضرت شیخ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ کی روشن کردہ شمع اسلام کی بھرپور حفاظت کا فریضہ انجام دیا ۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ کے تقریبا تمام مراکز میں رجب کے مہینے میں خواجہ بزرگ کی یاد منائی جاتی ہے۔ان کے علاوہ کئی بزرگان دین کے ایام وصال رجب المرجب کے مہینے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (تاریخ مشائخ چشت ، ہند کے راجہ)

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) “مکاشفۃ القلوب“ میں فرماتے ہیں “رجب دراصل “ترجیب“ سے مشتق (یعنی نکلا) ہے۔ اس کے معنٰی ہیں، “تعظیم کرنا“۔ اس کو “الاحسب“ (یعنی سب سے تیز بہاؤ) بھی کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ اس ماہِ مبارک میں توبہ کرنے والوں پر رحمت کا بہاؤ تیز ہو جاتا ہے۔ اور عبادت کرنے والوں پر قبولیت کے انوار کا فیضان ہوتا ہے ۔ اسے “الاصم“ (یعنی سب سے زیادہ بہرہ) بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں جنگ وجدل کی آواز بالکل سنائی نہیں دیتی ۔ اسے “رجب“ بھی کہا جاتا ہے کہ جنت کی ایک نہر کا نام “رجب“ ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ، شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے ۔ اس نہر سے وہی پانی پئے گا جو رجب کے مہینے میں روزے رکھے گا ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ 1، 3 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔چشتی)

غنیۃ الطالبین میں ہے کہ اس ماہ کو “شھر رجم“ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں شیطانوں کو رجم یعنی سنگ بار کیا جاتا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کو ایذاء نہ دیں۔ اس ماہ کو اصم (یعنی خوب بہرا) بھی کہتے ہیں کیونکہ اس ماہ میں کسی قوم پر اللہ تعالٰی کے عذاب کے نازل ہونے کے بارے میں نہیں سنا گیا کہ اللہ تعالٰی نے گزشتہ اُمتوں کو ہر مہینے میں عذاب دیا اور اس ماہ میں قوم کو عذاب نہ دیا۔ (غنیۃ الطالبین ص 229 مطبوعہ دار احیاء الثراث العربی بیروت ، چشتی)

مکاشفۃ القلوب میں ہے ، بزرگان دین (رحمہم اللہ) فرماتے ہیں، “رجب“ میں تین حروف ہیں۔ ر۔ ج۔ ب “ر“ سے مراد رحمتِ الٰہی (عزوجل)، “ج“ سے مراد بندے کا جرم۔ “ب“ سے مراد بر یعنی احسان و بھلائی۔ اللہ (عزوجل) فرماتا ہے، میرے بندے کے جرم کو میری رحمت اور بھلائی کے درمیان کردو ۔

حضرت علامہ صفوری (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) فرماتے ہیں، رجب المرجب بیج بونے کا، شعبان المعظم آبپاشی کا اور رمضان المبارک فصل کاٹنے کا مہینہ ہے۔ لٰہذا جو رجب المرجب میں عبادت کا بیج نہیں بوتا اور شعبان المعظم میں آنسوؤں سے سیراب نہیں کرتا وہ رمضان المبارک میں فصل رحمت کیونکر کاٹ سکے گا ؟ مذید فرماتے ہیں، رجب المرجب جسم کو، شعبان المعظم دل کو اور رمضان المبارک روح کو پاک کرتا ہے۔ (نزھۃ المجالس ج1 ص155)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے،نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :“بے شک جنت میں ایک نہر ہے جس کا نام رجب ہے۔ اُس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جو ماہ رجب میں ایک روزہ رکھے اللہ عزوجل اُسے اس نہر سے سیراب فرمائے گا۔ (شعب الایمان 368 رقم الحدیث 3800 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، چشتی)

تابعی بزرگ سیدنا ابو قلابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، “رجب کے روزے ایمان داروں کیلئے جنت میں ایک عظیم الشان محل ہے۔“ (لطائف المعارف ابن رجب حنبلی ص 228 مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)

حضرت سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہنبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : “پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دُعا رد نہیں کی جاتی۔ (1) رجب کی پہلی رات (2) پندرہ شعبان (3) جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات (4) عیدالفطر کی رات (5) عیدالاضحٰی کی رات۔“ (جامع صغیر ص 241، رقم الحدیث 3952 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ، چشتی)

حضرت سیدنا خالد بن معذان رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، “سال میں پانچ راتیں ایسی ہیں جو ان کی تصدیق کرتے ہوئے بہ نیت ثواب ان کو عبادت میں گزارے تو اللہ تعالٰی اُسے داخل جنت فرمائے گا۔ (1) رجب کی پہلی رات کہ اس رات میں عبادت کرے اور اس کے دن میں روزہ رکھے۔ (2،3) عیدین (یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحٰی) کی راتیں کہ ان راتوں میں عبادت کرے اور دن میں روزہ نہ رکھے (عیدین کے دن روزہ رکھنا ناجائز ہے۔) (4) شعبان المعظم کی پندرھویں رات کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے۔ (5) اور شب عاشوراء (یعنی محرم الحرام کی دسویں شب) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے۔ (غنیۃ الطالبین ص 236 مطبوعہ داراحیاء الثراث العربی بیروت)

حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے، اور دوسرے دن کا روزہ دو سالوں کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے، پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے۔(جامع صغیر رقم الحدیث 57، 5 صفحہ نمبر 311 مطبوعہ الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت سیدنا عثمان بن مطر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رجب بہت عظمت والا مہینہ ہے، اللہ تعالٰی اس ماہ میں نیکیاں دُگنی کر دیتا ہے، جس نے رجب کا ایک روزہ رکھا گویا اُس نے ایک سال کے روزے رکھے اور جس نے سات روزے رکھے دوزخ کے ساتوں دروازے اُس پر بند کر دئیے جائیں گے اور اگر کسی نے آٹھ روزے رکھے تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے اور جو دس روزے رکھ لے تو اللہ عزوجل سے جس چیز کو مانگے وہ اُسے عطا کرے گا اور جو پندرہ روزے رکھے تو آسمان سے ایک مُنادی ندا کرتا ہے، “تمہارے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے اب اپنے اعمال دوبارہ شروع کرو اور جو اس سے بھی زائد روزے رکھے تو اللہ تعالٰی اُس پر مذید کرم فرمائے گا اور ماہ رجب ہی میں اللہ تعالٰی نے نوح (علیہ السلام) کو کشتی میں سوار کروایا تو نوح (علیہ السلام) نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے ہم نشینوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔“ (طبرانی کبیر ج6 ص69 رقم الحدیث 5538 مطبوعہ داراحیاء الثراث العربی بیروت ، چشتی)

محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ القوی نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ماہ رجب حرمت والے مہیوں میں سے اور چھٹے آسمان کے دروازے پر اس مہینے کے دن لکھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص رجب میں ایک روزہ رکھے اور اُسے پرہیزگاری سے پورا کرے تو وہ دروازہ اور وہ دن (روزہ والا) اس بندے کےلیے اللہ عزوجل سے مغفرت طلب کریں گے اور عرض کریں گے، یااللہ عزوجل ! اس بندے کو بخش دے اور اگر وہ شخص بغیر پرہیزگاری کے روزہ گزارتا ہے تو پھر وہ دروازہ اور دن اُس کی بخشش کی درخواست نہیں کریں گے اور اُس شخص سے کہتے ہیں، اے بندے ! تیرے نفس نے تجھے دھوکا دیا۔ (ماثبت بالسنۃ صفحہ نمبر 342،چشتی)

معلوم ہوا کہ روزہ سے مقصود صرف بھوک پیاس نہیں، تمام اعضاء کو گناہوں سے بچانا بھی بہت ضروری ہے، اگر روزہ رکھنے کے باوجود بھی گناہوں کا سلسلہ جاری رہا تو سخت محرومی ہے ۔
امام اہلسنت، مجدد دین و ملت، پروانہ شمع رسالت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں کہ فوائد نہار میں حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “ستائیس رجب کو مجھے نبوت عطا ہوئی جو اس دن کا روزہ رکھے اور افطار کے وقت دُعا کرے دس برس کے گناہوں کا کفارہ ہو۔“ (فتاوٰی رضویہ ج4 ص285 مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی ، چشتی)

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو رجب کی ستائیسویں کا روزہ رکھے اللہ تعالٰی اُس کے لئے ساٹھ مہینوں (پانچ سال) کے روزوں کا ثواب لکھے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام محمد عربی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے پیغمبری لے کر نازل ہوئے۔ (تنزیہ الشریعہ ج2 ص 1061 مطبوعہ مکتبۃ القاہرہ مصر۔چشتی)

حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رجب میں ایک دن اور ایک رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات کو قیام (عبادت) کرے تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے اور یہ رجب کی ستائیسویں تاریخ ہے اور اسی دن محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اللہ عزوجل نے مبعوث فرمایا۔“ (شعب الایمان ج3 ص 374 رقم الحدیث 3811 )

حضرت سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، “جو ماہ رجب میں کسی مسلمان کی پریشانی دور کرے تو اللہ تعالٰی اُس کو جنت میں ایک ایسا محل عطا فرمائے گا جو حد نظر تک وسیع ہوگا۔ تم رجب کا اکرام کرو اللہ تعالٰی تمہارا ہزار کرامتوں کے ساتھ اکرام فرمائے گا۔“ (غنیۃ الطالبین ص 234 ، چشتی)

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے۔ جو اس ماہ میں بارہ رکعت پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور ایک سورت اور ہر دو رکعت پر التحیات اور آخر میں سلام پھیرنے کے بعد سو بار سبحان اللہ والحمدللہ ولاالٰہ الااللہ واللہ اکبر، سو بار استغفار اور سو بار درود پاک پڑھے اور اپنی دنیا و آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالٰی اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا سوائے اس دعا کے جو گناہ کیلئے ہو۔(شعب الایمان ج3 ص 374 رقم الحدیث 3812 )

اللہ عزوجل کے نزدیک چار مہینے خصوصیت کے ساتھ والے ہیں۔ چنانچہ سورۃ التوبہ میں ارشاد ہوتا ہے : ان عدۃ الشھور عنداللہ اثنا عشر شھرا فی کتب اللہ یوم خلق السموت والارض منھا اربعۃ حرم ط ذلک الذین القیم لا فلا تظلمو فیھن انفسکم وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ ط واعلموا ان اللہ مع المتقین ہ (پ10 ع 11)
ترجمہ : بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں، جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ عزوجل پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

آیت بالا میں قمری مہینوں کا ذکر ہے جن کا حساب چاند سے ہوتا ہے احکام شرع کی بنا بھی قمری مہینوں پر ہے۔ مثلاً رمضان المبارک کے روزے، زکوٰۃ مناسک حج شریف وغیرہ نیز اسلامی تہوار مثلاً عید میلادالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عید الفطر، عیدالاضحٰی، شب معراج، شب براءت، گیارہویں شریف،اعراس بزرگان دین رحمھم اللہ وغیرہ بھی قمری مہینوں کے حساب سے منائے جاتے ہیں۔ افسوس ! آج کل جہاں مسلمان بے شمار سنتوں سے دور جا پڑا ہے وہاں اسلامی تاریخوں سے بھی بالکل نا آشنا ہوتا جا رہا ہے۔ غالباً ایک لاکھ مسلمانوں کے اجتماع میں اگر یہ سُوال کیا جائے کہ “بتاؤ آج کس ہجری سن کے کون سے مہینے کی کتنی تاریخ ہے ؟“ تو شاید بمشکل سو مسلمان ایسے ہوں گے جو صحیح جواب دے سکیں گے۔ آیت گزشتہ کے تحت حضرت سیدنا صدر الافاضل مولیٰنا نعیم الدین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں، (چار حرمت والے مہینوں سے مراد) تین متصل (یعنی یک بعد دیگرے) ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور ایک جُدا رجب عرب لوگ زمانہ جاہلیت میں بھی ان میں قتال (یعنی جنگ) حرام جانتے تھے۔ اسلام میں مہینوں کی حرمت و عظمت اور زیادہ کی گئی ۔

سیدنا عیسٰی روح اللہ (علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) کے دور کا واقعہ ہے کہ ایک شخص مدت سے کسی عورت پر عاشق تھا۔ ایک بار اس نے اپنی معثوقہ پر قابو پالیا۔ لوگوں کی ہلچل سے اس نے اندازہ لگایا کہ لوگ چاند دیکھ رہے ہیں اس نے اُس عورت سے پوچھا، لوگ کس ماہ کا چاند دیکھ رہے ہیں ؟ اس نے کہا، “رجب کا“۔ یہ شخص حالانکہ کافر تھا مگر رجب شریف کا نا، سنتے ہی تعظیماً فوراً الگ ہو گیا اور زِنا سے باز رہا۔ حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ (علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) کو حکم ہوا کہ ہمارے فلاں بندے کی زیارت کو جاؤ۔ آپ (علیہ السلام) تشریف لے گئے اور اللہ (عزوجل) کا حکم اور اپنی تشریف آوری کا سبب ارشاد فرمایا۔ یہ سنتے ہی اس کا دل نورِ اسلام سے جگمگا اٹھا اور اُس نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ (انیس الواعظین ص 177 مطبوعہ مکتبہ عربیہ کوئٹہ ، چشتی)

رجب المرجب کی تعظیم کرکے ایک کافر کو ایمان کی دولت نصیب ہو گئی ۔ تو جو مسلمان ہوکر رجب المرجب کا احترام کرے گا اس کو نہ جانے کیا کیا انعام ملے گا۔ مسلمانوں کو چاہئیے کہ رجب شریف کا خوب احترام کیا کریں۔ قرآن پاک میں بھی حُرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔ “نور العرفان“ میں فلا تظلموا فیھن انفسکم : ترجمہ : تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔) کے ماتحت ہے، “یعنی خصوصیت سے ان چار مہینوں میں گناہ نہ کرو کہ ان میں گناہ کرنا اپنے اوپر ظلم ہے یا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو ۔

حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جس نے ماہ حرام میں تین دن جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ کا روزہ رکھا اس کےلیے دو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا ۔ (مجمع الزوئد ج3 ص 438 رقم الحدیث 5151 مطبوعہ دارالفکر بیروت)

یہاں ماہ حرام سے مُراد یہی چار ماہ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب ہیں۔ ان چاروں مہینوں میں سے جس ماہ میں بھی ان تین دنوں کا روزہ رکھ لیں گے تو انشاءاللہ عزوجل دو سال کی عبادت کا ثواب پائیں گے ۔

ایک بار حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ (علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) کا گزر ایک جگمگاتے نورانی پہاڑ پر ہوا ۔ آپ (علیہ السلام) نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی یااللہ (عزوجل) اس پہاڑ کو قوت گویائی عطا فرما۔ وہ پہاڑ بول پڑا، یاروح اللہ ! آپ (علیہ السلام) کیا چاہتے ہیں ؟ فرمایا، اپنا حال بیان کر۔ پہاڑ بولا، میرے اندر ایک آدمی رہتا ہے۔ سیدنا عیسٰی روح اللہ (علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی، یااللہ (عزوجل) ! اس کو مجھ پر ظاہر فرما دے۔ یکایک پہاڑ شق ہو گیا اور اس میں سے چاند سا چہرہ چمکاتے ہوئے ایک بزرگ برآمد ہوئے ۔ انہوں نے عرض کیا“میں حضرت سیدنا موسٰی کلیم اللہ (علیہ السلام) کا اُمتی ہوں ، میں نے اللہ (عزوجل) سے یہ دُعا کی ہوئی ہے کہ وہ مجھے اپنے پیارے محبوب نبی آخرالزماں (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت مبارکہ تک زندہ رکھے تاکہ میں ان کی زیارت بھی کروں اور ان کا اُمتی بننے کا شرف بھی حاصل کروں ۔ الحمدللہ (عزوجل) میں اس پہاڑ میں چھ سو سال سے اللہ (عزوجل) کی عبادت میں مشغول ہوں ۔“ حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ (علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا، یااللہ (عزوجل) ! کیا روئے زمین پر کوئی بندہ اس شخص سے بڑھ کر بھی تیرے یہاں مکرم ہے ؟ ارشاد ہوا، اے عیسٰی (علیہ السلام) ! امت محمدی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) میں سے جو ماہ رجب کا ایک روزہ رکھ لے وہ میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ مکرم ہے ۔ (نزہتہ المجالس جلد 1 صفحہ 155)

لفظ رجب کے تین حروف ہیں ۔ ر ، ج ، ب ، راء سے اللہ تعالیٰ کی رحمت ، جیم سے اس کا جود و سخا اور با سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی مراد ہے ۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے گناہوں کو اپنی رحمت اور مہربانیوں میں سمو لیتا ہے۔ اس میں توبہ کرنے والوں پر رحمت انڈیلی جاتی ہے اور نیک عمل کرنے والوں پر قبولیت کے انوار کا فیضان ہوتا ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سنو ! بے شک رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ جس نے حالت ایمان میں ثواب کی نیت سے رجب کا ایک روزہ رکھا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا واجب ہوگی اور فردوس اعلیٰ اس کا ٹھکانہ ہے اور جس نے دو روزے رکھے اس کےلیے دوگنا ثواب ہے اور ہر حصہ دنیا کے پہاڑوں جتنا ہے اور جس نے رجب کے تین روزے رکھے اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک خندق بنا دے گا جس کی لمبائی ایک سال کی مسافت ہوگی ۔ ( غنیۃ الطالبین صفحہ 424)


بیت المقدس میں ایک عورت رجب کے ہر دن میں بارہ ہزار مرتبہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ پڑھا کرتی تھی اور ماہ رجب المرجب میں ادنی لباس پہنتی تھی۔ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوگئی اور اس نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ اسے بکری کے پش میں لباس سمیت دفن کیا جائے۔ جب وہ مرگئی تو اس کے فرزند نے اسے عمدہ کپڑوں کا کفن پہنایا ۔ رات کو اس نے خواب میں ماں کو دیکھا وہ کہہ رہی تھی میں تجھ سے راضی نہیں ہوں کیونکہ تو نے میری وصیت کے خلاف کیا ہے ۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اپنی ماں کا وہ لباس اٹھایا تاکہ اسے بھی قبر میں دفن کر آئے ۔ اس نے جا کر ماں کی قبر کھو دی لیکن اسے قبر میں کچھ نہ ملا ۔ وہ بہت حیران ہوا تب اس نے یہ ندا سنی کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ جس نے رجب میں ہماری اطاعت کی ہم اسے تنہا اور اکیلا نہیں چھوڑتے ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ 637)


ایک بار حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا گزر ایک جگمگاتے نورانی پہاڑ پر ہوا۔ آپ علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا : یا اللہ تعالیٰ اس پہاڑ کو قوت گویائی عطا فرما۔ وہ پہاڑ بول پڑا، یا روح اللہ آپ علیہ السلام کیا چاہتے ہیں؟ فرمایا اپنا حال بیان کر۔ پہاڑ بولا۔ میرے اندر ایک آدمی رہتا ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الہٰی میں عرض کیا کہ یا اللہ! اس کو مجھ پر ظاہر فرمادے۔ یکا یک پہاڑ شق ہوگیا اور اس میں سے چاند سا چہرہ چمکاتے ہوئے ایک بزرگ باہر تشریف لائے انہوں نے عرض کیا : میں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا امتی ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ وہ مجھے اپنے پیارے محبوب نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارک تک زندہ رکھے تاکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کروں۔ الحمدللہ میں اس پہاڑ میں چھ سو سال سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوں ۔


سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الہٰی میں عرض کیا : کیا روئے زمین پر کوئی بندہ اس شخص سے بڑھ کر بھی تیرے یہاں مکرم ہے؟ ارشاد ہوا ۔ اے عیسیٰ علیہ السلام امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جو ماہ رجب کا ایک روزہ رکھ لے وہ میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ مکرم ہے ۔ (نزہۃ المجالس)


حضرت موسیٰ بن عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا آپ نے فرمایا : ’’جنت میں ایک نہر ہے جسے رجب کہتے ہیں اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جو شخص رجب کے مہینے میں ایک روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اسے اس نہر سے پانی پلائے گا ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ 428،چشتی)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے رجب کی ستائیسویں تاریخ کا روزہ رکھا اس کےلیے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جاتا ہے یہی وہ پہلا دن ہے جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسالت لے کر اترے ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ 434)


ماہ رجب میں صدقہ کرنے کا ثواب


حضرت عقبہ بن سلامہ بن قیس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص رجب کے مہینے میں صدقہ دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے اس قدر دور کر دیتا ہے جس طرح کّوا اپنے گھونسلے سے نکل کر اڑتا رہے یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مر جائے۔ کہا گیا ہے کہ کوا پانچ سو سال زندہ رہتا ہے ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ 427)


اس حدیث مبارکہ سے یہ اخذ ہوا کہ ماہ رجب میں صدقہ و خیرات کرنے سے عمر دراز ہوتی ہے اور جہنم کی آگ سے نجات ملتی ہے۔

ماہِ رجب کی نفلی نماز


حضرت سلمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رجب کا چاند چڑھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے سلمان! جو مومن مرد و عورت اس مہینے میں تیس رکعات نماز اس طرح اد اکرے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ تین بار سورۃ اخلاص اور تین بار سورہ الکافرون پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے، پورا مہینہ روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب عطا کرتا ہے ، آئندہ سال تک نماز پڑھنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہر دن اس کےلیے شہداء بدر میں سے ایک شہید کے عمل کا ثواب ملتا ہے، ہر روزے کے بدلے اس کے لئے ایک سال کا ثواب لکھا جاتا ہے اور ایک ہزار درجے بلند کئے جاتے ہیں ۔ اگر وہ پورا مہینہ روزہ رکھے اور یہ نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے نجات عطا فرمائے گا اور اس کےلیے جنت واجب کرے گا ۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے جوار رحمت میں ہوگا ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ تمہارے مسلمانوں کے درمیان اور مشرکین و منافقین کے درمیان علامت ہے کیونکہ منافق یہ نماز نہیں پڑھتے ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے اس کے پڑھنے کا طریقہ اور عمل بتایئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے سلمان! تو اس مہینے کے شروع میں دس رکعتیں ادا کر ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ایک بار، سورہ اخلاص تین بار اور سورہ الکافرون تین بار پڑھ جب سلام پھیرے تو ہاتھ اٹھا کر یہ کلمات پڑھ : لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَه لَا شَرِيْکَ لَه لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِیْ وَيُمِيْتُ وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ اَللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَيْتَ وَلاَ مُعْطِیْ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ 432،چشتی)

’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہی مالک اور تعریف کے لائق ہے۔ زندہ رکھتا اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! جس کو تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو نہ دے کوئی نہیں دے سکتا اور کسی کوشش کرنے والے کو تیری طرف سے کوشش نفع نہیں دے سکتی ۔


ماہ رجب میں قبولیتِ دعا


امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابی امام رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں کوئی دعا رد نہیں کی جاتی، رجب کی پہلی رات، پندرہ شعبان کی رات، جمعہ کی رات اور دو راتیں عیدین کی ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ 938)


حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو کوئی مغموم شخص یہ دعا مانگے اللہ تعالیٰ اس کے غم کو دور فرمائے گا اور جو مصیبت زدہ یہ دعا مانگے اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت زائل کردے گا۔ دعا کے الفاظ کچھ یوں ہیں : اَللَّهُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ يَا عَالِمَ الخفيّة وَ يَامَنِ السَّمَاءُ بِقُدْرَتِه مُبْينَّةٌ وَيَامَنِ الْاَرْضُ بِعِزَّتِه مَدْحِيَّةٌ وَ يامَنِ الشَّمْسُ وَالقَمَرُ بِنُوْرِ جَلَالِه مُشْرِقَةٌ وَيَا مُقْبِيْلًا عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ مُوْمِنَةِ زَکِيَّةٍ وَيَا مُسْکِنَ رُعْبَ الْخَائِفِيْنَ وَاَهْلِ التَّقِيَّةِ يَامَنْ حَوَائِجَ الْخَلْقِ عِنْدَه مُقْضِيَّةٌ يَامَنْ نَجَا يُوْسُفَ مِنْ رِّقِّ الْعُبُودِيَّةِ يَامَنْ لَيْسَ لَه بَوَّابٌ يَانٰارِیْ وَلَا صَاحِبٌ يُغْشٰی وَلَا وَزيْرٌ يُعْطٰی وَلَا غَيرُه يُدْعٰی وَلَا يَزْدَادُ عَلٰی کَثْرَةِ الْحَوَائج اِلَّا کَرَمًا رُجُوْدًا وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِه واعْطِنِیْ سُؤْالی اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ ۔

یا اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اے مخفی باتوں کے جاننے والے اے وہ ذات جس کی قدرت سے آسمان کی عمارت ہے، اے وہ ذات جس کی عزت سے زمین بچھی ہوئی ہے۔ اے وہ ذات جس کے نور جلال سے سورج اور چاند چمک رہے ہیں، ہر مومن پاک نفس پر (رحمت کے ساتھ) رجوع فرمانے والے خوفزدہ اور متقی لوگوں سے رعب کو دور کرنے والے، اے وہ ذات جس کے ہاں مخلوق کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ اے وہ ذات جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو غلامی سے نجات دی ہے ۔ اے وہ ذات جس کے ہاں دربان نہیں جس کو پکارا جائے ۔ نہ اس کا کوئی ساتھی ہے جس کے سامنے پیش ہوا جائے ، نہ کوئی وزیر ہے جو تیری نیابت کرے اور نہ اس کے سوا رب ہے جس کو پکارا جائے تو لوگوں کی کثرت حاجات پر کرم اور جود و سخا فرماتا ہے ۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت نازل فرما اور میرے سوال پر عطا فرما بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ ( غنیۃ الطالبین صفحہ 440)

قمری تقویم (ہجری کیلنڈر) اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے ۔ یہ حرمت والا مہینہ ہے اس مہینہ میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے “الاصم رجب” کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں ۔ اس مہینہ کو “اصب” بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے ۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ۔ دور جہالت میں مظلوم ، ظالم کےلیے رجب میں بددعا کرتا تھا ۔ (عجائب المخلوقات)


ماہِ رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے : اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اِثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تُظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسِکُمْ ۔ (پارہ ١٠، سورہ توبہ، آیت ٣٦)

ترجمہ : بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو ۔


رجب کا ایک نام مطھر ہے ۔ (غنیتہ الطالبین صفحہ ٣٥٣)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ (ما ثبت من السنۃ صفحہ ١٧٠)


ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا : رجب کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام ذکروں (صحیفوں) کتابوں پر ہے اور تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت باقی تمام انبیائے کرام پر ہے اور تمام مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام (مخلوق) بندوں پر ہے ۔ (ما ثبت من السنہ صفحہ نمبر ١٧٣،چشتی)


لفظ رجب کے تین حروف ہیں ۔ ر ، ج ، ب ، راء سے اللہ تعالیٰ کی رحمت ، جیم سے اس کا جود و سخا اور با سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی مراد ہے ۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے گناہوں کو اپنی رحمت اور مہربانیوں میں سمو لیتا ہے ۔ اس میں توبہ کرنے والوں پر رحمت انڈیلی جاتی ہے اور نیک عمل کرنے والوں پر قبولیت کے انوار کا فیضان ہوتا ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سنو ! بے شک رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ جس نے حالت ایمان میں ثواب کی نیت سے رجب کا ایک روزہ رکھا اس کےلیے اللہ تعالیٰ کی رضا واجب ہوگی اور فردوس اعلیٰ اس کا ٹھکانہ ہے اور جس نے دو روزے رکھے اس کےلیے دوگنا ثواب ہے اور ہر حصہ دنیا کے پہاڑوں جتنا ہے اور جس نے رجب کے تین روزے رکھے اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک خندق بنا دے گا جس کی لمبائی ایک سال کی مسافت ہوگی۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ 424)


بیت المقدس میں ایک عورت رجب کے ہر دن میں بارہ ہزار مرتبہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ پڑھا کرتی تھی اور ماہ رجب المرجب میں ادنی لباس پہنتی تھی۔ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوگئی اور اس نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ اسے بکری کے پش میں لباس سمیت دفن کیا جائے۔ جب وہ مرگئی تو اس کے فرزند نے اسے عمدہ کپڑوں کا کفن پہنایا۔ رات کو اس نے خواب میں ماں کو دیکھا وہ کہہ رہی تھی میں تجھ سے راضی نہیں ہوں کیونکہ تو نے میری وصیت کے خلاف کیا ہے۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اپنی ماں کا وہ لباس اٹھایا تاکہ اسے بھی قبر میں دفن کر آئے ۔ اس نے جا کر ماں کی قبر کھو دی لیکن اسے قبر میں کچھ نہ ملا ۔ وہ بہت حیران ہوا تب اس نے یہ ندا سنی کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ جس نے رجب میں ہماری اطاعت کی ہم اسے تنہا اور اکیلا نہیں چھوڑتے ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ 637)


ایک بار حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا گزر ایک جگمگاتے نورانی پہاڑ پر ہوا ۔ آپ علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا : یا اللہ تعالیٰ اس پہاڑ کو قوت گویائی عطا فرما ۔ وہ پہاڑ بول پڑا، یا روح اللہ آپ علیہ السلام کیا چاہتے ہیں؟ فرمایا اپنا حال بیان کر ۔ پہاڑ بولا میرے اندر ایک آدمی رہتا ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الہٰی میں عرض کیا کہ یا اللہ! اس کو مجھ پر ظاہر فرمادے ۔ یکا یک پہاڑ شق ہوگیا اور اس میں سے چاند سا چہرہ چمکاتے ہوئے ایک بزرگ باہر تشریف لائے انہوں نے عرض کیا : میں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا امتی ہوں ۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ وہ مجھے اپنے پیارے محبوب نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارک تک زندہ رکھے تاکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کروں ۔ الحمدللہ میں اس پہاڑ میں چھ سو سال سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوں ۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الہٰی میں عرض کیا : کیا روئے زمین پر کوئی بندہ اس شخص سے بڑھ کر بھی تیرے یہاں مکرم ہے؟ ارشاد ہوا۔ اے عیسیٰ علیہ السلام امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جو ماہ رجب کا ایک روزہ رکھ لے وہ میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ مکرم ہے ۔ (نزہۃ المجالس)


حضرت موسیٰ بن عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا آپ نے فرمایا : جنت میں ایک نہر ہے جسے رجب کہتے ہیں اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جو شخص رجب کے مہینے میں ایک روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اسے اس نہر سے پانی پلائے گا ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ 428،چشتی)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے رجب کی ستائیسویں تاریخ کا روزہ رکھا اس کےلیے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جاتا ہے یہی وہ پہلا دن ہے جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسالت لے کر اترے ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ 434)


ماہ رجب میں صدقہ کرنے کا ثواب


حضرت عقبہ بن سلامہ بن قیس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص رجب کے مہینے میں صدقہ دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے اس قدر دور کر دیتا ہے جس طرح کّوا اپنے گھونسلے سے نکل کر اڑتا رہے یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مر جائے۔ کہا گیا ہے کہ کوا پانچ سو سال زندہ رہتا ہے ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ 427)


اس حدیث مبارکہ سے یہ اخذ ہوا کہ ماہ رجب میں صدقہ و خیرات کرنے سے عمر دراز ہوتی ہے اور جہنم کی آگ سے نجات ملتی ہے ۔


ماہِ رجب کی نفلی نماز


حضرت سلمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رجب کا چاند چڑھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے سلمان! جو مومن مرد و عورت اس مہینے میں تیس رکعات نماز اس طرح اد اکرے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ تین بار سورۃ اخلاص اور تین بار سورہ الکافرون پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے، پورا مہینہ روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب عطا کرتا ہے ، آئندہ سال تک نماز پڑھنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہر دن اس کےلیے شہداء بدر میں سے ایک شہید کے عمل کا ثواب ملتا ہے، ہر روزے کے بدلے اس کے لئے ایک سال کا ثواب لکھا جاتا ہے اور ایک ہزار درجے بلند کئے جاتے ہیں ۔ اگر وہ پورا مہینہ روزہ رکھے اور یہ نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے نجات عطا فرمائے گا اور اس کےلیے جنت واجب کرے گا ۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے جوار رحمت میں ہوگا ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ تمہارے مسلمانوں کے درمیان اور مشرکین و منافقین کے درمیان علامت ہے کیونکہ منافق یہ نماز نہیں پڑھتے ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے اس کے پڑھنے کا طریقہ اور عمل بتایئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے سلمان! تو اس مہینے کے شروع میں دس رکعتیں ادا کر ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ایک بار، سورہ اخلاص تین بار اور سورہ الکافرون تین بار پڑھ جب سلام پھیرے تو ہاتھ اٹھا کر یہ کلمات پڑھ : لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَه لَا شَرِيْکَ لَه لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِیْ وَيُمِيْتُ وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ اَللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَيْتَ وَلاَ مُعْطِیْ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ 432،چشتی)

ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہی مالک اور تعریف کے لائق ہے۔ زندہ رکھتا اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! جس کو تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو نہ دے کوئی نہیں دے سکتا اور کسی کوشش کرنے والے کو تیری طرف سے کوشش نفع نہیں دے سکتی ۔


ماہ رجب میں قبولیتِ دعا


امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابی امام رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں کوئی دعا رد نہیں کی جاتی، رجب کی پہلی رات، پندرہ شعبان کی رات، جمعہ کی رات اور دو راتیں عیدین کی ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ 938)


حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو کوئی مغموم شخص یہ دعا مانگے اللہ تعالیٰ اس کے غم کو دور فرمائے گا اور جو مصیبت زدہ یہ دعا مانگے اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت زائل کردے گا۔ دعا کے الفاظ کچھ یوں ہیں : اَللَّهُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ يَا عَالِمَ الخفيّة وَ يَامَنِ السَّمَاءُ بِقُدْرَتِه مُبْينَّةٌ وَيَامَنِ الْاَرْضُ بِعِزَّتِه مَدْحِيَّةٌ وَ يامَنِ الشَّمْسُ وَالقَمَرُ بِنُوْرِ جَلَالِه مُشْرِقَةٌ وَيَا مُقْبِيْلًا عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ مُوْمِنَةِ زَکِيَّةٍ وَيَا مُسْکِنَ رُعْبَ الْخَائِفِيْنَ وَاَهْلِ التَّقِيَّةِ يَامَنْ حَوَائِجَ الْخَلْقِ عِنْدَه مُقْضِيَّةٌ يَامَنْ نَجَا يُوْسُفَ مِنْ رِّقِّ الْعُبُودِيَّةِ يَامَنْ لَيْسَ لَه بَوَّابٌ يَانٰارِیْ وَلَا صَاحِبٌ يُغْشٰی وَلَا وَزيْرٌ يُعْطٰی وَلَا غَيرُه يُدْعٰی وَلَا يَزْدَادُ عَلٰی کَثْرَةِ الْحَوَائج اِلَّا کَرَمًا رُجُوْدًا وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِه واعْطِنِیْ سُؤْالی اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ ۔

یا اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اے مخفی باتوں کے جاننے والے اے وہ ذات جس کی قدرت سے آسمان کی عمارت ہے، اے وہ ذات جس کی عزت سے زمین بچھی ہوئی ہے۔ اے وہ ذات جس کے نور جلال سے سورج اور چاند چمک رہے ہیں، ہر مومن پاک نفس پر (رحمت کے ساتھ) رجوع فرمانے والے خوفزدہ اور متقی لوگوں سے رعب کو دور کرنے والے، اے وہ ذات جس کے ہاں مخلوق کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ اے وہ ذات جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو غلامی سے نجات دی ہے ۔ اے وہ ذات جس کے ہاں دربان نہیں جس کو پکارا جائے ۔ نہ اس کا کوئی ساتھی ہے جس کے سامنے پیش ہوا جائے ، نہ کوئی وزیر ہے جو تیری نیابت کرے اور نہ اس کے سوا رب ہے جس کو پکارا جائے تو لوگوں کی کثرت حاجات پر کرم اور جود و سخا فرماتا ہے ۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت نازل فرما اور میرے سوال پر عطا فرما بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ ( غنیۃ الطالبین صفحہ 440)


رجب کی خصوصی فضیلت اور واقعہ معراج شریف


حدیث شریف کے مطابق “رجب المرجب” اللہ کا مہینہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے محبوب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں ستائیس (٢٧) رجب کی شب بلوا کر “معراج شریف” سے مشرف فرمایا۔ ستائیسویں شب میں آقائے دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان (واقع بیت اللہ شریف کی دیواروں موسوم مستجار اور مستجاب کے کارنر رکن یمانی کے سامنے) میں تشریف فرما تھے اور یہیں حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ستر یا اسی ہزار ملائکہ کی رفاقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ، اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام سونپے کہ میرے محبوب کو براق پر سوار کرانے کےلیے اے جبرئیل تمہارے ذمہ رکاب تھامنا اور اے میکائیل تمہارے ذمہ لگام تھامنا ہے ۔ سند المفسرین امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، ” حضرت جبرئیل علیہ السلام کا براق کی رکاب تھامنے کا عمل ، فرشتوں کے سجدہ کرنے سے بھی افضل ہے ۔ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر ٣٠١ مطبوعہ مصر)

دیوبندی مکتبہ حقانیہ پشاور کی بددیانتی : امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی متذکرہ تفسیر کبیر کا حوالہ مصری نسخہ سے پیش کیا گیا ہے ، جب کہ مکتبہ حقانیہ پشاور (جسے علمائے دیوبند کی سرپرستی حاصل ہے) نے تفسیر کبیر شائع کی ہے ۔ اس کی جلد دوم صفحہ ٤٤٥ میں عبارت میں تحریف کر کے یوں چھاپا ہے ۔

“ان جبرئیل علیہ السلام اخذ برکاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتی ارکبہ علی البراق لیلۃ المعراج و ھذا یدل علی ان محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل منہ” ۔

پہلی عبارت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی خدمت کو “سجود ملائکہ سے افضل” قرار دیا ہے ، جب کہ تحریف و بددیانتی کے بعد ، “ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت جبرئیل سے افضل” قرار دیا گیا ہے ۔ حالانکہ یہ تو حقیقت ہے اس لیے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام “سید المرسلین” ہیں لہٰذا “سید الملائکہ” بھی ہیں حضرت جبرئیل سے افضل ہیں ۔ اس میں کوئی کلام ہے ہی نہیں ۔


جشن معراج النبی اور ہماری ذمہ داریاں


اے اہلِ اسلام جس طرح ہم ماہ ربیع الاول شریف میں جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے ہیں ایسے ہی رجب شریف میں جشن معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کریں مساجد و مدارس ہی نہیں بلکہ اپنے گھروں میں بھی چراغاں کریں ، اجتماعات منعقد کریں، علمائے اہلسنّت کے مواعظ حسنہ (تقاریر) سننے کا اہتمام کریں ، اپنے گھر میں اہل خانہ خصوصاً بچوں کو لے کر ادب کے ساتھ بیٹھ کر محفل منعقد کریں ، بچوں کو بتائیں کہ آج کی شب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا مکاں کی اس منزل تک پہنچے جہاں مخلوق میں سے کسی کی رسائی نہیں اور بلا حجاب اللہ تعالیٰ کا دیدار عطا ہوا ، اللہ تعالیٰ کی بے شمار نشانیوں کو ملاحظہ فرمایا ، اللہ تعالیٰ جل شانہ کے اسماۓ صفات کی تجلیات کے ظہور کے مقامات و طبقات سے گذر کر ان ہی صفات سے متصف ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مظہر ہوئے، جنت و دوزخ کو ملاحظہ فرمایا، بعد از قیامت اور بعد از جزا سزا جو کچھ ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا اور یہ کمال اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ کے لیے عطا فرمایا، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ عزوجل نے ماضی و مستقبل (جو کچھ ہو چکا اور جو ہونے والا ہے ) کا علم عطا فرمایا جسے شرعی اصطلاح میں علم ما کان و ما یکون کہتے ہیں ۔ امت کے لیے شفاعت کا حق حاصل کیا، شب معراج میں انبیائ و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السلام اجمعین سے نہ صرف ملاقا ت کی بلکہ ان سب پر آپ اکی فضیلت واضح کرنے کےلیے امامت عظمیٰ و کبریٰ کا منصب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو عطا ہوا۔ نماز کی فرضیت کا حکم اللہ تعالیٰ عزاسمہ نے خاص اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں عطا کیا، اول پچاس نمازیں فرض ہوئیں پھر بتدریج کم ہوتے ہوتے پانچ باقی رہیں۔ نماز کی فرضیت و اہمیت سے بچوں کو آگاہ کریں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ معراج شریف کے سفر مقدس کے تین مرحلے ہیں ۔

اول ۔ اسریٰ ، یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔

دوم ۔ معراج ۔

حصہ اول ۔ یعنی مسجد اقصیٰ سے کہکشاؤں کا سفر آسمان اول تک ۔

حصہ دوم ۔ یعنی آسمان اول سے آسمان ہفتم اور سدرۃ المنتہیٰ تک ۔

سوم ۔ اعراج ، یعنی سدرۃ المنتہیٰ (حضرت جبریل امین علیہ السلام کا مقام آخر) سے لے کر عرش و کرسی اور لامکاں ، اللہ تعالیٰ جل شانہ کی حسن الوہیت ، جمال ربوبیت اور جلال تقدس و تجرد کی جلوہ گاہ تک ۔

خود بھی تلاوت قرآن کریں اور بچوں کو بھی ترجمہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کنز الایمان کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا عادی بنائیں ۔ معراج شریف سے متعلق مضامین والی آیات مقدسہ ، سورہ الاسرا (بنی اسرائیل) اور سورہ النجم کی تلاوت ضرور کریں ۔ واقعہ معراج شریف سے متعلق بچوں کو بتائیں کہ یہ عقلوں کو دنگ کرنے والا سفر ایک لمحے میں ہوا ۔

چلے جب عرش کی جانب محمد تو ساکت ہوگئی تھی زندگی تک

نہ تھی دریا کی موجوں میں روانی تھا ساکت ہر سمندر ہر ندی تک

زمیں نے چھوڑ دی تھی اپنی گردش خلا میں انتظار روشنی تک

رہا کس طرح بستر گرم ان کا محقق محو حیرت ہیں ابھی تک

عناصر زندگی کے منجمد تھے شب اسریٰ میں ان کی واپسی تک

نہیں سائنس میں ایسی مثالیں ازل کے روز سے پندرہ صدی تک (خالد عرفان)


ماہ رجب کے نوافل لیلۃ الرغائب کی فضیلت : شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے جامع الاصول کے حوالہ سے یہ حدیث نقل کی ہے ” حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے “لیلۃ الرغائب” کا تذکرہ فرمایا وہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات ہے (یعنی جمعرات کا دن گزرنے کے بعد)

اس رات میں مغرب کے بعد بارہ رکعات نفل چھ سلام سے ادا کی جاتی ہے ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد سورئہ القدر تین دفعہ اور سورئہ اخلاص بارہ بارہ دفعہ پڑھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ درود شریف ستر (٧٠) مرتبہ پڑھے ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُ مِّیِّ وَعَلٰی اٰلِہ وَاَصْحَابِہ وَسَلِّمْ ۔

ترجمہ : اے اللہ ! رحمت فرما حضرت محمد بنی امی پر اور ان کی آل و اصحاب پر اور بھی اور سلامتی کا نزول فرما) ۔

پھر سجدہ میں جا کر ستر (٧٠) مرتبہ یہ پڑھے :  سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَ رَبُّ الْمَلٰئِکَۃِ وَالرُّوْحِ ۔ یعنی پاک و مقدس ہے ہمارا رب اور فرشتوں اور حضرت جبرئیل کا رب ۔

پھر سجدے سے سر اٹھا کر ستر بار یہ پڑھے : رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمْ ۔ یعنی اے اللہ! بخش دے اور رحم فرما اور تجاوز فرما اس بات سے جسے تو جانتا ہے بے شک تو بلند و برتر اور عظیم ہے ۔

پھر دوسرا سجدہ کرے اور اس میں وہی دعا پڑھے اور پھر سجدے میں جو دعا مانگے گا قبول ہوگی ۔ (ما ثبت من السنۃ صفحہ ١٨١،چشتی)


حضرت سلطان المشائخ سے منقول ہے کہ جو شخص لیلۃ الرغائب کی نماز ادا کرے اس سال اسے موت نہ آئے گی ۔ (لطائف اشرفی جلد دوم صفحہ ٣٤٣)


حافظ عراقی علیہ الرحمہ اپنی تالیف” امالی” میں بحوالہ حافظ ابو الفضل محمد بن ناصر سلامی علیہ الرحمہ سے ناقل ہیں ” حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً یہ حدیث مروی ہے کہ “جس نے رجب کی پہلی رات بعد مغرب بیس رکعات پڑھیں تو وہ ” پل صراط” سے بجلی کی مانند بغیر حساب و عذاب کے گزر جائے گا ۔ (ما ثبت من السنۃ صفحہ ١٨٣)


محبوب یزدانی حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس السرہ النورانی لکھتے ہیں : ماہ رجب کی پہلی شب میں نماز مغرب کے بعد بیس رکعت نماز ادا کریں، اس کے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص پڑھیں ۔ بیس رکعات مکمل ہونے کے بعد یہ کلمہ شریف پڑھیں، “لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَاشَرِیْکَ لَہ ، مُحَمَّدٌ الرَّسُوْلُ اللّٰہِ اس کی بہت فضیلت ہے ۔ (لطائف اشرفی جلد دوم صفحہ ٣٤٢)


رجب کی پندرہ تاریخ میں مدد چاہنے کےلیے ، اشراق کے بعددو دو رکعت سے (پچیس دفعہ میں) پچاس رکعات نماز ادا کریں ۔ اس کی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد ، سورۃ الاخلاص اورمعوذ تین پڑھیں اور پھر دعا کریں ۔ یہ نماز ١٥ رجب کے علاوہ ١٥ رمضان میں بھی ادا کی جاتی ہے ۔ (لطائف اشرفی جلد دوم صفحہ ٣٤٤)


رجب کی پندرہ تاریخ میں مشائخ کا معمول رہا ہے کہ دس رکعات نماز ادا کیجیے ۔ ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد تین بار اور دوسرے قول کے مطابق دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھیے ، جب نماز سے فارغ ہوں تو سو (١٠٠) مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں : سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر (اللہ پاک ہے اور تعریف اسی کے لئے ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے)

تیرہ ، چودہ اور پندرہ (یعنی ایام بیض) رجب کی راتوں میں بیدار ہوں اور ان تینوں راتوں میں ہر شب سو سو رکعات نماز ادا کریں (یعنی تینوں راتوں میں مجموعی طور پر تین سو (٣٠٠) رکعات ادا کریں) ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ایک مرتبہ اور سورہ اخلاص دس مرتبہ پڑھیں جب نماز سے فارغ ہوں تو ایک ہزار مرتبہ استغفار پڑھیں ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ عزوجل زمانے کی جملہ بلاؤں اور آسمان کی آفتوں سے محفوظ رہیں گے اور فلکی شر اور زمینی خرابیوں سے سلامت رہیں گے اور اگر ان راتوں میں موت واقع ہو جائے تو شہید کا درجہ پائیں گے ۔ (لطائف اشرفی جلد دوم صفحہ ٣٤٤)


ستاٸیسویں شب کی خصوصی عبادات : حافظ ابن حجر مکی علیہ الرحمہ کہتے ہیں ہمیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً حدیث پہنچی کہ ” رجب میں ایک رات ہے جس میں عمل کرنے والے کے لیے سو برس کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور یہ رجب کی ٢٧ ستاٸیسویں شب ہے اس میں بارہ رکعات دو دو کر کے ادا کریں پھر آخر میں سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ سو مرتبہ ، پھر استغفار سو مرتبہ ، پھر درود شریف سو مرتبہ پڑھ کر اپنے امور کی دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام دعائیں قبول فرمائے گا دوسری روایت میں ہے کہ” اللہ تعالیٰ ساٹھ سال کے گناہ مٹا دے گا ۔ (ما ثبت من السنۃ صفحہ ١٨٤،چشتی)


ستائیسویں رجب کی عبادات : ٢٦ رجب کا روزہ رکھیں مغرب سے قبل غسل کریں ، اذان مغرب پر افطار کریں مغرب کی نماز ادا کریں پھر ستائیسویں شب میں بیدار رہیں ۔ عشا کے بعد دو رکعت نماز نفل ادا کریں اور ہر رکعت میں الحمد شریف یعنی سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص اکیس مرتبہ پڑھیں ۔ نماز سے فارغ ہو کر مدینۃ المنورہ کی جانب رخ کر کے گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھیں، پھر اس کے بعد یہ دعا پڑھیں۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِمُشَاھِدَۃِ اَسْرَارِ الْمُحِبِّیْنَ وَبِالْخِلْوَۃِ الَّتِیْ خَصَّصْتَ بِھَا سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْنَ حِیْنَ اَسْرَیْتَ بِہ لَیْلَۃِ السَّابِعِ وَالْعِشْرِیْنَ اَنْ تَرْحَمَ قَلْبِیْ الْحَزِیْنَ وَ تُجِیْبُ دَعْوَتِیْ یَا اَکْرَمَ الْاَکْرَمِیْنَ ۔

تو اللہ تعالیٰ شب معراج کے وسیلہ سے دعا قبول فرمائے گا، اور رجب دوسروں کے دل مردہ ہو جائیں گے تو ان کا دل زندہ رکھے گا جو یہ دعا پڑھیں گے ۔ (نزہۃ المجالس جلد اول صفحہ ١٣٠ فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٠٣،چشتی)


قطب الاقطاب، غوث الاغواث، سرکار فرد الافراد، سید الاوتاد، شہنشاہ بغداد، غوث اعظم الشیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی تحریر فرماتے ہیں، “رجب المرجب کی ستائیسویں رات بڑی بابرکت ہے کیوں کہ اسی شب میں سید الانبیائ والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے معراج شریف کا معجزہ عطا فرمایا ۔ (غنیتہ الطالبین صفحہ ٣٦٣)


حضرت مولا علی مشکل کشا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کی تعلیم کردہ دعا : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ یَا عَالِمُ الْخَفِیَّۃِ وَ یَا مَنِ السَّمَائُ بِقُدْرَتِہ مَبْنِیَّۃٌ وَّیَا مَنِ الْاَرْضُ بِعِزَّتِہ مَدْحِیُّۃٌ وَّ یَا مَنِ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِنُوْرِ جَلَالَہ، مُشْرِقَۃٌ مُّضِیَّۃٌ وَ یَا مُقْبِلًا عَلٰی عُلِّ نَفْسٍ مُّؤْمِنَۃٍ ذَکِیَّۃٍ وَّ یَا مَسْکَنُ رُعْبَ اَخَائِفِیْنَ وَاَھْلُ التَّقِیَّۃٌ وَّ یَامَنْ حَوَائِجُ الْخَلْقِ عِنْدَہ، مَقْضِیَّۃٌ وَّ یَامَنْ نَجٰی یُوْسَفَ مِنْ رِّقَ الْعُبُوْدِیَّۃٍ وَّ یَامَنْ لَّیْسَ لَہ، بَوَّابٌ یُّنَادِیْ وَلَا صَاحِبٌ یَّغْشٰی وَلَا وَزِیْرٌ یُّغْطٰی وَلَا غَیْرَہ، رَبٌ یُّدْعٰی وَلَا یَزَادَ عَلٰی کَثْرَۃِ الْحَوَائِجِ اِلَّا کَرَمًا وَّجُوْدًا وَّصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ اَعْطِنِیْ سُوْئَ الِیْ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ۔

ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اے پوشیدہ چیزوں کے جاننے والے، اے وہ ذات! جس نے اپنی قدرت سے آسمان بنائے، اے وہ ذات! جس کی قدرت سے زمین بچھائی گئی۔ اے وہ ذات! جس کے نور جلال سے سورج اور چاند روشن اور پرنور ہیں، اے وہ ذات! جس کی توجہ ہر پاک نفس کی طرف ہوتی ہے، اے وہ ذات جو ،ہراساں اور ترساں لوگوں کو خوف سے تسکین دینے والی ہے، اے وہ ذات! جس کے یہاں مخلوق کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں اے وہ ذات! جس نے نجات بخشی یوسف (علیہ السلام) کو غلامی کی ذلت سے، اے وہ ذات! جس کا کوئی دربان نہیں جس کو پکارا جائے اور نہ کوئی مصاحب ہے جس کے پاس حاضری دی جائے اور نہ کوئی وزیر ہے کہ جس کو نذر پیش کی جائے اور نہ اس کے علاوہ کوئی رب ہے کہ اس سے دعا کی جائے، اے! وہ کہ جس کا کرم اور جود، حاجتوں کی کثرت کے باوجود بڑھتا ہی جاتا ہے، میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے میری مراد عطا کر، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٦٩)


رجب میں شب بیداری اور قیام

ماہ رجب کی پہلی، پندرہویں اور ستائیسویں شب میں بیدار ہونا اور عبادات میں مشغول ہونا چاہئے ۔ نیز رجب کی پہلی جمعرات (نوچندی) کا روزہ رکھیں اور پہلی شب جمعہ میں قیام کریں ۔ حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، پہلی شب جمعہ کو فرشتے “لیلۃ الرغائب” (مقاصد کی رات) کہتے ہیں، جب اس رات کی اول تہائی گزر جاتی ہے تو تمام آسمانوں اور زمینوں میں کوئی فرشتہ ایسا باقی نہیں رہتا جو کعبہ یا اطراف کعبہ میں جمع نہ ہو جائے، اس وقت اللہ تعالیٰ تمام ملائکہ کو اپنے دیدار سے نوازتا ہے اور فرماتا ہے مجھ سے مانگو جو چاہو، فرشتے عرض کرتے ہیں اے رب! عرض یہ ہے کہ تو رجب کے روزہ داروں کو بخش دے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں انھیں بخش دیا ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٦٢)


ماہ رجب کی راتوں میں بالخصوص پہلی رات کی دعائیں : اِلٰھِیْ تَعَرَّضَ لَکَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃَ الْمُتَعَرِّضُوْنَ وَ قَصْدَکَ الْقَاصِدُوْنَ وَاَھْلُ فَضْلِکَ وَ مَعْرُوْفِکَ الطَّالِبُوْنَ وَلَکَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃِ نَفَحَاتُ وَ جَوَائِزُ وَ عَطَایَا وَ مَوَاھِبَ تَمُنُّ بِھَا عَلٰی مَنْ تَشَائُ مِنْ عِبَادِکَ وَتَمْنَعُھَا مِمَّنْ لَّمْ تَسْبِقُ لَہ، الْعِنَایَۃُ مِنْکَ وَھَا اَنَا عَبْدُکَ الْفَقِیْرِ اِلَیْکَ الْمُوَمِّلُ فَضْلُ وَ مَعْرُوْفِکَ فَاِنَّ کُنْتَ یَا مَوْلَایَ تَفْضَلْتَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃِ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِکَ وَجَدْتُ عَلَیْہِ بِعَائِدَۃٍ مِّنْ عَطْفِکَ فَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَجُدْ عَلَیَّ بِفَضْلِکَ وَ مَعْرُوْفِکَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ۔

یا الٰہی ! اس رات میں بڑھنے والے تیرے حضور میں بڑھے اور تیری طرف قصد کرنے والوں نے قصد کیا، اور طالبوں نے تیری بخشش اور تیرے احسان کی امید رکھی، اس رات میں تیری طرف سے مہربانیاں، عطیے اور بخششیں ہیں تو ہی ان پر احسان کرتا ہے جن کو چاہتا ہے اور جن پر تیری عنایت نہ ہوگی ان سے روک لے گا (میں تیرا محتاج بندہ ہوں ، تیرے فضل و کرم کا امیدوار ہوں، میرے مولا! اس رات اگر تو کسی مخلوق پر فضل کرے اور اپنی عنایت سے کسی کو نوازے تو سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت نازل فرما اور اپنے فضل و احسان سے مجھ پر نوازش فرما! یا رب العالمین) روایت ہے کہ حضرت علی حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دستور تھا کہ آپ سال میں چار راتیں ہر کام سے خالی کر کے عبادت کے لئے مخصوص فرمایا کرتے تھے۔ رجب کی پہلی رات، عیدالفطر کی رات، عیدالاضحی کی رات اور شعبان کی پندرہویں شب۔ پھر ان راتوں میں یہ دعا پڑھتے تھے : اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ مَصَابِیْحَ الْحِکْمَۃِ وَمَوَالِیَ النِّعْمَۃِ وَ مَعَادِنِ الْعِصْمَۃِ وَاعْصِمْنِیْ بِھِمْ مِّنْ کُلِّ سُوْئٍ وَّلَا تَاْخُذْنِیْ عَلٰی غَرَّۃٍ وَّلَا عَلٰی غَفْلَۃٍ وَّلَا تَجْعَدْ عَوَاقِبَ اَمْرِیْ حَسْرَۃً وَّ نَدَامَۃً وَّارْضَ عَنِّیْ فَاِنَّ مَغْفِرَتِکَ لِلظَّالِمِیْنَ وَاَنَا مِنَ الظَّالِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَالَا یَضُرُّکَ واَعْطِنِیْ مَالَا یَنْفَعْنِیْ فَاِنَّکَ الْوَسِیْعَۃُ رَحْمَۃَ الْبَدِیْعَۃُ حِکْمَۃُ فَاعْطِنِیْ السَّعَۃَ وَالدَّعَۃَ وَالْاَمِنُ وَالصِّحَۃُ وَالشُّکْرُ وَالْمُعَافَاۃِ وَالتَّقْوٰی وَالصَّبْرَ وَ الصِّدْقَ وَعَلَیْکَ وَعَلٰی اَوْلِیَائِکَ اَعْطِنِیْ الْیُسْرَ مَعَ الْعُسْرِ وَالْاَمْنَ بِذَالِکَ اَھْلِیْ وَوَلَدِیْ وَاِخْوَانِیْ فِیْکَ وَمِنْ وِّالْدَانِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۔

ترجمہ : یا اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر درود اور رحمت بھیج، یہ لوگ حکمت و دانائی کے چراغ ہیں، نعمتوں کے مالک ہیں، عصمت و پاکی کی کانیں ہیں، مجھے بھی ان کے ساتھ ہر بدی سے محفوظ رکھ، غرور اور تکبر کے سبب مجھے نہ پکڑ، میرے انجام کو حسرت و ندامت والا نہ بنا۔ تو مجھ سے راضی ہوجا، بے شک تیری مغفرت ظالموں کے لئے ہے اور میں ظالموں میں سے ہوں۔ الہٰی مجھے وہ چیز عطا فرما جو تجھے ایذا نہیں دیتی، اور مجھے وہ چیز بخش دے جو مجھے فائدہ دینے والی ہے، تیری رحمت وسیع ہے، تیری حکمت نادر ہے اور عجیب ہے، مجھے راحت اور کشادگی عطا فرما، امن و تندرستی دے، نعمت پر شکر کی توفیق دے، عافیت اور پرہیز گاری اور صبر عطا فرما ، اپنے اور اپنے دوستوں کے نزدیک مجھے راست اور لطف و عنایت فرما، سختی کے بعد آسانی دے، میرے اہل میرے فرزندوں اور میرے بھائیوں پر جو تیری راہ پر چلنے والے ہیں اور مسلمانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں پر مسلمان مرد اور عورتوں پر اپنی رحمت عام فرما دے اور سب کو اپنی رحمت میں شامل فرما۔ آمین

رجب کے نفلی روزے اور جنت کے آٹھوں دروازے ۔

حضرت نوح علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کفر و طاغوتی طاقتوں کی تباہی کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کا عذاب بصورت طوفان نازل ہونا شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو کشتی میں اہل ایمان کے ساتھ سوار ہونے کا حکم فرمایا تو وہ رجب کا مہینہ تھا جب حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے تو آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا اور آپ کی ہدایت پر آپ کے ساتھیوں نے بھی روزہ رکھا تھا، اس کی برکت سے کشتی چھ ماہ چلتی رہی اور دس محرم (یوم عاشورہ) کو ” جودی پہاڑ” پر ٹھہری۔ اور جب کشتی سے اترے تو آپ اور آپ کے رفقائ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور شکرانہ کا روزہ یوم عاشورا رکھا ۔ (ماثبت من السنۃ صفحہ ١٧٣،چشتی)

سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کردہ طویل حدیث نقل کرتے ہیں، کہ رجب کے روزوں کا ثواب اس طرح ہوگا۔

ایک روزے کا ثواب : اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور فردوس اعلیٰ۔

دو روزوں کا ثواب: دو گنا اجر۔ ہر اجر کا وزن دنیا کے پہاڑوں کے برابر۔

تین روزوں کا ثواب: گہری خندق کے ذریعے جہنم ایک سال مسافت جتنی دور ہوگی۔

چار روزوں کا ثواب: امراض جذام، برص اور جنون سے محفوظ اور فتنہ دجال سے محفوظ۔

پانچ روزوں کا ثواب: عذاب قبر سے محفوظ۔

چھ روزوں کا ثواب: حشر میں چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند۔

سات روزوں کا ثواب: دوزخ کے سات دروازے بند۔

آٹھ روزوں کا ثواب: جنت کے آٹھوں دروازے کھلیں گے۔

نو روزوں کا ثواب: کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے قبر سے اٹھنا اور منہ جنت کی طرف۔

دس روزوں کا ثواب: پل صراط کے ہر میل پر آرام دہ بستر فراہم ہوگا۔

گیارہ روزوں کا ثواب: حشر کے دن عام لوگوں میں سب سے افضل ہوگا۔

بارہ روزوں کا ثواب: اللہ تعالیٰ روز حشر دو جوڑے پہنائے گا جس کا ایک جوڑا ہی کل متاع دنیا سے افضل اور قیمتی ہوگا۔

تیرہ روزوں کا ثواب: روز حشر سایہ عرش میں خوان نعمت (انواع و اقسام) تناول کرے گا۔

چودہ روزوں کا ثواب: روز حشر اللہ تعالیٰ کی خاص عطا، جو بصارت، سماعت، وہم و خیال سے ورائ ہوگی۔

پندرہ روزوں کا ثواب: روز حشر موقف امان میں، مقرب فرشتے یا نبی یارسول مبارک باد دیں گے۔

سولہ روزوں کا ثواب : دیدار الہٰی اور ہمکلام ہونے والوں کی پہلی صف میں شمولیت

سترہ روزوں کا ثواب: اللہ تعالیٰ پل صراط کے ہر میل پر آرامگاہ فراہم فرمائے گا۔

اٹھارہ رزوں کا ثواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قبہ میں قیام نصیب ہوگا۔

انیس روزوں کا ثواب: حضرت آدم اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے محلات کے روبرو ایسے محل میں قیام، جہاں اس کے سلام نیاز و عقیدت کا جواب دونوں نبی علیہما السلام دیں گے۔

بیس روزوں کا ثواب: آسمان سے ند،ا مغفرت کا مژدہ ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ و ان شاء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٢)


رجب میں کار خیر اور صدقہ و خیرات


حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے فرمایا “جس نے اپنے مسلمان بھائی سے رجب کے مہینے میں (جو اللہ کا ماہ “اصم” ہے) غم دور کیا تو اللہ اس کو فردوس میں نگاہ کی رسائی کے بقدر (حد نظر تک) وسیع محل مرحمت فرمائے گا، خوب سن لو! تم ماہ رجب کی عزت کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں ہزار درجہ بزرگی عطا فرمائے گا ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٥)


حضرت عقبہ رحمۃ اللہ علیہ بن سلامہ بن قیس نے مرفوعا روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ماہ رجب میں صدقہ دیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا کوا ہوا میں پرواز کر کے اپنے آشیانہ سے اس قدر دور ہو جائے کہ اڑتے اڑتے بوڑھا ہو کر مر جائے (بیان کیا جاتا ہے کہ کوے کی عمر پانچ سو سال ہوتی ہے) ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٥)


حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا حضور علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں، جس نے رجب میں کچھ بھی خیرات کی اس نے گویا ہزار دینار خیرات کئے اللہ تعالیٰ اس کے بدن کے ہر بال کے برابر نیکی لکھے گا اور ہزار درجہ بلند فرما کر ہزار گناہ مٹا دے گا ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ نمبر ٣٥٧)

رجب ظلم چھوڑ دینے کا مہینہ ہے۔

رجب توبہ کا مہینہ ہے۔

رجب عبادت کا مہینہ ہے۔

رجب نیکیوں میں اضافہ کا مہینہ ہے۔

رجب کھیتی (فصل) بونے کا مہینہ ہے۔

رجب معجزات کا مہینہ ہے۔

روزہ افطار کرنے کے بعد یہ دعا پڑھیں : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ اَنْ تَغْفِرَلِیْ ۔

الہٰی میں تجھ سے تیری رحمت کے صدقے میں جو تمام چیزوں پر محیط ہے ، تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں۔

حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک مرسل روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے فرمایا ” بے شک رجب عظمت کا مہینہ ہے اس میں نیکیاں دگنی کی جاتی ہیں جس نے اس کے ایک دن کا روزہ رکھا وہ سال بھر کے روزے کے برابر ہے ۔ (جامع الاصول)

امام بیہقی علیہ الرحمہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا اور کہا کہ اس کا مرفوع ہونا منکر ہے ” رجب بڑا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ اس میں نیکیاں دوچند کر دیتا ہے پس جس نے رجب میں ایک دن کا روزہ رکھا گویا اس نے سال بھر روزہ رکھا اور جس نے اس میں سات دن روزے رکھے تو اس سے جہنم کے ساتوں دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور جس نے اس کے آٹھ دن روزے رکھے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے اور جس نے اس کے دس دن روزے رکھے تو وہ اللہ تعالیٰ سے جو مانگے گا ضرور عطا فرمائے گا اور جس نے اس کے پندرہ دن کے روزے رکھے تو آسمان سے منادی پکارے گا تیرے گذشتہ تمام گناہ بخش دیئے گئے اب ازسر نو عمل کر، جس نے زیادہ عمل کیے اسے زیادہ ثواب دیا جائے گا ۔ (ما ثبت من السنۃ صفحہ ١٧١۔١٧٠،چشتی)

فاتحہ دیجیے (٤، ٦، ٢١،٢٢ اور ٢٧ رجب کی اہمیت) : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ ٤ رجب کی تاریخ عرس خواجگان کے حوالہ سے معروف ہے ۔ حضرت خواجہ عبد الرحیم مشرقی ، حضرت خواجہ عبد الکریم مغربی، حضرت خواجہ عبد الرشید شمالی، حضرت خواجہ عبد الجلیل جنوبی رحمہم اللہ تعالیٰ اوتاد ہیں۔٤رجب ان کی تاریخ وصال ہے۔ ٤ رجب کو ان کی فاتحہ دلائی جائے نیز حضرت امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ اور حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی علیہ الرحمہ کو بھی فاتحہ میں شامل کیا جائے اور ان کے وسیلے سے دعا کی جائے یہ تاریخ اوراد و وظائف اور نقوش و تعویذات کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔

٦ رجب، حضرت سلطان الھند خواجہ غریب نواز قدس سرہ کی چھٹی شریف کے حوالہ سے دنیا بھر میں معروف ہے، اس تاریخ کو خصوصیت کے ساتھ خواجہ صاحب علیہ الرحمہ کی فاتحہ کا اہتمام کیا جائے اور اس میں ان کے سلسلہ کے تمام مشائخ (ماقبل اور ما بعد) کو شامل کرنا چاہیے خصوصاً حضرت خواجہ حسن بصری، حضرت عمر بن عبد العزیز (مجدد اول) ، حضرت مالک بن دینار، حضرت ابراہیم بن ادھم، حضرت امام مسلم اور حضرت امام نووی (شارح مسلم) رحمھم اللہ کو شامل کیجئے۔

٢١، ٢٢ اور ٢٧ رجب کو بھی شیرینی وغیرہ پر فاتحہ کا اہتمام کریں، خصوصاً ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمر فاروق، حضرت عباس، ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش، ام المومنین سیدہ میمونہ، حضرت زید بن ثابت (جامع قرآن، حضرت عبد اللہ بن سلام، حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ، حضرت امیر معاویہ، حضرت خواجہ اویس قرنی، حضرت امام جعفر صادق، حضرت امام موسیٰ کاظم، حضرت سلطان محمود غزنوی، حضرت امام قدوری، حضرت سید الطائفہ ابو القاسم جنید بغدادی، حضرت امام ابو عیسیٰ محمد ترمذی،حضرت امام علی برہان الدین حنفی قادری، حضرت حافظ موسیٰ پاک شہید چشتی، حضرت شاہ رکن عالم سہروردی ملتانی، حضرت شیخ المشائخ ابو الحسین احمد نوری، حضرت مفتی محمد تقدس علی خان، حضرت فقیہہ ملت مفتی محمد نور اللہ نعیمی، محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ محمد سردار احمد صاحب لائلپوری، حضرت علامہ سید محمد دیدار علی شاہ الوری (خلیفہئ اعلیٰ حضرت) ، حضرت پیر عبد الرحیم بھرچونڈوی، حضرت پیر سید امین الحسنات مانکی ، اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی جیلانی (شبیہہ غوث الاعظم)، حضرت سید سالار مسعود غازی، حضرت محدث اعظم سید محمد کچھوچھوی، حضرت پیر محمد حسن جان مجددی سرہندی، حضرت مفتی شاہ محمد مسعود (جد بزرگوار ڈاکٹر محمد مسعود احمد) ، شیخ ابو الحسن شازلی، علامہ عبد الحکیم سیالکوٹی (جد اعلیٰ قطب مدینہ)، قاضی ثنائ اللہ پانی پتی (صاحب تفسیر مظہری)، شاہ عبد القادر دہلوی اور خطیب پاکستان حضرت علامہ محمد شفیع اوکاڑویعلیہم الرضوان اجمعین

ماہ رجب کی تاریخی اہمیت (تاریخ اسلام اور عالمی اہم واقعات)

یکم رجب کو حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے رفقائ طوفان کے موقع پر کشتی میں سوار ہوئے۔ اس مہینہ کی تمام تاریخیں انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام، اولیاء، علمائ و مشائخ کی ولادت اور وصال سے منسوب ہیں اور بعض اہم واقعات (سیرت طیبہ اور تاریخ اسلام سے متعلق) بھی رونما ہوئے ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و صحبہ وسلم کے اخص خصائص معجزات میں سے واقعہئ معراج شریف رجب کی ستائیسویں شب کو پیش آیا اس تاریخ پر اکثر سیرت نگاروں اور محدثین و مؤرخین کا اتفاق ہے ۔ آیت درود شریف اور حکم نازل ہوا۔۔۔۔۔۔ ٥ھ،٭بادشاہ مقوقس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں تحائف بھیجے ۔۔۔۔۔۔٧ھ،٭١٠ھ میں بنو عطفان رجب ہی میں اسلام لائے۔ ٭حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا وصال ۔۔۔۔۔۔١٥ھ٭،شہر کوفہ کی تعمیر دور فاروقی ۔۔۔۔۔۔١٦ھ، ٭وصال حضرت اُسید بن حفیر انصاری رضی اللہ عنہ۔۔۔۔۔۔٢٠ ھ، ٭وصال حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (عم رسول اللہ)۔۔۔۔۔۔٣٢ ھ٭جنگ صفین ٤ رجب ۔۔۔۔۔۔٣٦ھ/دسمبر ٦٥٦ء، ٭وفات مالک بن اشتر ۔۔۔۔۔۔٣٨ھ، ٭وصال ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٣٩ھ،٭وصال ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا۔۔۔۔۔۔ ٤١ھ، ٭وصال حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٣ھ، ٭وفات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٥ھ، ٭وصال عبدالرحمن بن خالد ۔۔۔۔۔۔٤٦ھ،٭وفات حضرت عبد الرحمن بن سمرہ ۔۔۔۔۔۔٥٠ھ، ٭وفات معاویہ بن خدیج ۔۔۔۔۔۔٥٢ھ ،٭وفات حضرت اسامہ بن زید ۔۔۔۔۔۔٥٤ھ، ٭تاریخ اسلام کے خوفناک ترین ایام کا آغاز یعنی یزید کی حکمرانی کا آغاز ۔۔۔۔۔۔٦٠ھ، ٭وفات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ۔۔۔۔۔۔ ٦٠ھ، ٭وصال حضرت عبیدۃ السلمانی ۔۔۔۔۔۔٧٢ھ،٭ عبدالملک بن مروان کی فتوحات ۔۔۔۔۔۔٧٧ھ، ٭خارجی فتنہ پرداز راس الخوارج قطری کا قتل ۔۔۔۔۔۔٧٩ھ، ٭فتح مصیصہ ۔۔۔۔۔۔٨٤ھ، ٭تعمیر جامع دمشق ۔۔۔۔۔۔٨٧ھ/جون ٧٠٥ء، ٭وفات خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیزعلیہ الرحمہ(اول مجدد) ۔۔۔۔۔۔١٠١ھ،٭وفات حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔١١٠ ھ، ٭مراکش میں بغاوت ۔۔۔۔۔۔١٢٢ھ/جون ٧٤٠ء، ٭وفات ربیعہ دمشقی ۔۔۔۔۔۔١٢٣ھ، ٭وفات حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧ھ، ٭رومیوں کا ملطیہ پر قبضہ ۔۔۔۔۔۔١٣٣ھ، ٭شہر بغداد کی بنیاد ۔۔۔۔۔۔١٤١ھ، ٭شہادت حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔١٤٨ھ، ٭مقنع (فتنہ پرور)نے آگ میں کود کر خودکشی کر لی ۔۔۔۔۔۔١٥٩ھ ٭،وفات حضرت ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔١٦٢ ھ، ٭وصال امام ابو خیثمیہ زہیر الجعفی ۔۔۔۔۔۔١٧٣ھ، ٭وفات حضرت حماد بن امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔١٧٦ ھ، ٭وفات ہشام الاموی در اندلس ۔۔۔۔۔۔١٨٠ھ، ٭وصال حضرت امام موسی کاظم بن امام جعفر صادق (ائمہ اہلبیت، ساتویں امام) ۔۔۔۔۔۔١٨٣ھ، ٭ابو العمیطر کا دعوی خلافت ۔۔۔۔۔۔١٩٥ھ، ٭کوفہ میں قتل و غارت گری ۔۔۔۔۔۔١٩٩ھ، ٭وفات حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔٢٠٤ ھ ، ٭وفات عباسی خلیفہ مامون الرشید ۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ، ٭وصال حافظ الحدیث امام ابو محمد یحیی بن یحیی بن کثیر مصمودی اللیثی اندلسی تلمیذ امام مالک ۔۔۔۔۔۔٢٣٤ھ، ٭وفات امیر خراسان طاہر دوم ۔۔۔۔۔۔٢٤٨ھ، ٭حافظ الحدیث صاحب المسند امام عبد بن حمید ۔۔۔۔۔۔٢٤٩ھ ٭قتل خلیفہ المعتز ۔۔۔۔۔۔٢٥٥ ھ، ٭قتل خلیفہ المہتدی ۔۔۔۔۔۔٢٥٦ ھ، ٭وصال امام مسلم ۔۔۔۔۔۔٢٦١ھ، ٭وفات المعتمد العباسی و خلافت المعتضد ۔۔۔۔۔۔٢٧٩ھ، ٭فتنہ ابو سعید قرامطی ۔۔۔۔۔۔٢٨٦ ھ، ٭عبیدیوں کے مابین فساد ۔۔۔۔۔۔٢٩٨ھ، ٭چیچک و خسرہ کا علاج دریافت کرنے والے معروف حکیم و طبیب محمد بن زکریا رازی کی وفات کا واقعہ ۔۔۔۔۔۔٣١١ ھ،٭ تخت نشینی امیر نوح سامانی ۔۔۔۔۔۔٣٣١ھ، ٭وصال محدث اندلس محمد بن مفرح ۔۔۔۔۔۔٣٨٠ھ، ٭وصال ابو نصر السراج الصوفی ۔۔۔۔۔۔٣٧٨ھ، ٭سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ کا پہلا حملہ ملتان پر رجب کے مہینے میں ۔۔۔۔۔۔٣٩٦ ھ میں ہوا، ٭وصال عظیم فقیہ حنفی امام قدوری ۔۔۔۔۔۔٤٢٨ھ، ٭وصال سلطان محمود غزنوی ۔۔۔۔۔۔٤٤٠ھ ٭وصال سلطان مودود غزنوی ۔۔۔۔۔۔٤٤١ھ، ٭اسلامی سائنسی دنیا کی پہلی رصد گاہ (خلائی تحقیق کا ادارہ) کی تعمیر ملک شاہ نے کی۔۔۔۔۔۔ ٤٦٧ھ/فروری ١٠٧٥ء، ٭وصال امام علی بن محمد بزودی ۔۔۔۔۔۔٤٨٢ھ، ٭وصال ابوالحجاج النحوی ۔۔۔۔۔۔٤٩٥ھ، ٭وصال تمیم بن المعز والی افریقہ ۔۔۔۔۔۔٥٠١ھ/فروری ١١٠٨ء، ٭فرنگیوں کو شکست والی اندلس مودود کے ہاتھوں ۔۔۔۔۔۔٥٠٧ھ/دسمبر ١١١٣ء،٭ولادت صاحب ہدایہ امام ابوالحسن علی برہان الدین بن ابی بکر حنفی ۔۔۔۔۔۔٨ رجب ٥١١ھ، ٭حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے مقابر شریف کے نشانات معدوم ہو جانے کے بعد پھر ظاہر ہوئے اور مزارات شریف کی تعمیر شروع ہوئی، الخلیل فلسطین ۔۔۔۔۔۔٥١٣ھ اکتوبر ١١١٩ء، ٭وفات القاسم الحریری (مصنف مقامات حریری) ۔۔۔۔۔۔٥١٦ھ، ٭وصال امام ابوالبرکات ہبۃ البخاری (محدث بغداد) ۔۔۔۔۔۔٥١٩ھ، ٭وصال محدث قرطبہ ابو بحر سفیان ۔۔۔۔۔۔٥٢٠ھ، ٭وفات علی بن تاشقین سلطان الہند ۔۔۔۔۔۔٥٣٧ھ/ جنوری ١١٤٣ء، ٭وصال محدث عراق محمد بن ناصر ۔۔۔۔۔۔٥٥٠ھ/١١٥٥ء، ٭سلطان صلاح الدین ایوبی نے فلسطین بیت المقدس فتح کیا ۔۔۔۔۔۔٢٩ رجب ٥٨٣ھ/٥ اکتوبر ١١٨٧ء، ٭چنگیز خان نے چین پر تسلط حاصل کیا ۔۔۔۔۔۔٦١٢ھ/اکتوبر ١٢١٥ء، ٭خلافت المستنصر العباسی ۔۔۔۔۔۔٦٢٣ھ، ٭سلطان الہند خواجہئ خواجگاں غریب نواز چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کا وصال بھی ۔۔۔۔۔۔رجب ٦٣٣ھ میں ہوا، ٭وصال شارح مسلم حافظ الحدیث امام نووی ۔۔۔۔۔۔١٤ رجب ٦٧٧ھ، ٭وصال عظیم مؤرخ ابوالعباس شمس الدین احمد بن محمد بن خلکان البر مکی الاربلی شافعی ۔۔۔۔۔۔١٦ رجب ٦٨١ھ، ٭ولادت امام سیوطی ۔۔۔۔۔۔٨٤٩ھ، ٭جنگ پانی پت ۔۔۔۔۔۔٩٣٢ھ، ٭وصال ابن حجر الہیتمی ۔۔۔۔۔۔٩٧٣ھ، ٭احمد نگر (انڈیا میں) کی حکومت کا خاتمہ مغل حکمراں اکبر کے ہاتھوں ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ/١٥٩١ء، ٭خلافت احمد الاول العثمانی ۔۔۔۔۔۔١٠١٢ھ، ٭خلافت مصطفی اول (دوبارہ) سلطنت عثمانی ۔۔۔۔۔۔١٠٣١ھ، ٭وصال علامہ محب اللہ الہ آبادی ۔۔۔۔۔۔١٠٥٠ھ، ٭وصال علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی (مورث اعلی قطب مدینہ شاہ ضیائ الدین قادری مدنی) ۔۔۔۔۔۔١٠٦٦ھ، ٭حکومت رفیع الدولہ شاہجہاں دوم ۔۔۔۔۔۔١١٣١ھ، ٭خلافت مصطفی الرابع ۔۔۔۔۔۔١٢٢٢ھ، ٭وصال قاضی ثنائ اللہ پانی پتی۔۔۔۔۔۔ ١٢٢٥ھ، ٭وصال شاہ عبدالقادر دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٢٤٣ھ/١٨٢٨ء، ٭دہلی پرمکمل انگریزوں کا قبضہ اور معزولی حضرت بہادر شاہ ظفر۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٤ھ/فروری ١٨٥٨ء، ٭فیصل بن ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود نجدی اندھا ہو کر ہیضے سے مر گیا ۔۔۔۔۔۔١٢٨٢ھ/٢ دسمبر ١٨٦٥ء، ٭ولادت مفتی تقدس علی خاں بریلوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٥ھ، ٭ولادت مخدوم ابن محمد ثانی ہالائی ۔۔۔۔۔۔١٣٥٦ھ، ٭دوسری جنگ عظیم۔۔۔۔۔۔١٣٥٨ھ/١٩٣٩ء، ٭وفات نواب بہادر یار جنگ ۔۔۔۔۔۔١٣٦٣ھ/١٩٤٣ء، ٭فلسطین پر یہودیوں کا غاصبانہ قبضہ (روسیوں اور امریکیوں کی ہدایات پر) ۔۔۔۔۔۔١٣٦٧ھ/مئی ١٩٤٨ء، ٭مولانا عبدالستار نیازی پر قتل اور بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے دوران تحریک ختم نبوت ۔۔۔۔۔۔١٥ رجب ١٣٧٢ھ/٣١ مارچ ١٩٥٣ء ، ٭کیمرون ملک آزاد ہوا ۔۔۔۔۔۔١٣٧٩ھ/١٩٥٩ء، ٭نواز شریف کی حکومت کا آخری دن جنرل پرویز مشرف کا ٹیک اور ۔۔۔۔۔۔١٤٢٠ھ/١٩٩٩ء،

ماہ رجب میں وصال فرمانے والے صحابہ و اولیاء وعلماء رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین

یکم رجب المرجب:۔

٭ حضرت احمد حوارے ۔۔۔۔۔۔٢٣٢ھ ٭حضرت ناصح الدین ابو محمد چشتی زاہد مقبول ۔۔۔۔۔۔٤٢١ھ ٭ حضرت شیخ اخی فرخ زنجانی ۔۔۔۔۔۔٤٥٧ھ ٭حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی شہنشاہ الارواح ۔۔۔۔۔۔٥٣٧ھ٭حضرت شیخ علاؤالحق پنڈوی ۔۔۔۔۔۔٨٠٠ھ ٭حضرت شیخ عبدالجلیل قطب عالم چوہڑ بندگی قریشی ۔۔۔۔۔۔٩١٠ھ ٭حضرت شاہ پیرا ۔۔۔۔۔۔١٠٨٩ھ ٭حضرت شاہ بہولن چشتی ۔۔۔۔۔۔١١٠٤ھ ٭ حضرت علم الہدیٰ قاضی محمد ثنا اللہ پانی پتی ۔۔۔۔۔۔١٢٢٥ھ ٭خواجہ محمد الدین سیالوی

٢رجب المرجب:۔

٭حضرت مولانا نظام الدین گنجوی ۔۔۔۔۔۔٥٩٦ھ ٭ حضرت خواجہ علاؤالدین عطار ۔۔۔۔۔۔٨٠٢ھ ٭حضرت شیخ حبیب اللہ کافی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٠ھ ٭حضرت مولوی عصمت اللہ لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١١١٣ھ ٭حضرت حافظ عبدالشکور خالصپوری۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٩ھ ٭حضرت قادر بخش بن حسن علی حنفی،سہسرامی۔۔۔۔۔۔١٣٣٧ھ ٭حضرت پیر محمد حسن جان سرہندی مجددی۔۔۔۔۔۔١٣٦٥ھ/٦جون١٩٤٦ئ ٭حضرت علامہ عین القضاۃ بن محمد وزیر بن محمد جعفر حسینی، حنفی، نقشبندی، حیدرآبادی ثم لکھنوی۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٣ھ ٭ مفتی نور اللہ نعیمی ۔۔۔۔۔۔١٤٠٣ھ٭حضرت سید ابو الحسنات محمد احمد قادری (خلیفہ اعلیٰ حضرت)

٣رجب المرجب:۔

٭حضرت خواجہ اویس قرنی علیہ الرحمہ٭ حضرت تاج العارفین ابو الوفا کاکیش۔۔۔۔۔۔ ٣٠٥ھ ٭حضرت ابو علی محمد ثقفی۔۔۔۔۔۔ ٣٢٨ھ ٭حضرت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی سرمدی ۔۔۔۔۔۔٤٥٥ھ ٭ حضرت خواجہ گرگ اللہ ولی ۔۔۔۔۔۔٧٠٥ھ ٭حضرت سید محی الدین سمنانی ۔۔۔۔۔۔٨٤٢ھ ٭حضرت اخون پنجوبابا افغان۔۔۔۔۔۔٩١٧ھ ٭ حضرت سید درویش احمد ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ ٭ حضرت شیخ محمدی عرف شاہ فیاض چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔١١٠٧ھ ٭حضرت شاہ سلامت اللہ کانپوری ۔۔۔۔۔۔١٢٨١ھ ٭ حضرت عبداللہ شاہ کشمیری آفاقی ۔۔۔۔۔۔١٣١٠ھ ٭حضرت سید عبدالفتاح بخاری (مجذوب) اولاد سید سخی مرتضی بخاری مزار ٹنڈو سائیں داد محمد ۔۔۔۔۔۔١٣٩٨ھ/١٠ جون ١٩٧٨ئ

٤رجب المرجب:۔

٭ حضرت ابو محمد ابو عمرو زجاجی۔۔۔۔۔۔ ٣٤٨ھ ٭ حضرت محمد فرخ شاد وحدت ۔۔۔۔۔۔١١٢٣ھ ٭ مولانا عبدالباری بن عبدالوہاب بن عبدالرزاق انصاری فرنگی محل لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١٣٤٤ھ/١٩ جنوری ١٩٢٦ء٭حضرت امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ۔۔۔۔۔۔٢٠٤؁ھ

٥رجب المرجب:۔

٭حضرت امام موسیٰ کاظم ٭ حضرت امام الاولیائ خواجہ حسن بصری ۔۔۔۔۔۔١١٠ھ ٭حضرت ابو القاسم اسحٰق بغدادی ۔۔۔۔۔۔٣٤٢ھ ٭حضرت امام ابوالحسن احمد قدوری ۔۔۔۔۔۔٤٢٨ھ ٭ شیخ ابوالحسن فخر الاسلام علی بن محمد البزوری الحنفی علی بن محمد ۔۔۔۔۔۔٤٨٢ھ/١٠٨٩ئ ٭حضرت عبداللہ مسافر صحرانی قادری شطاری خلیفہ حبیب اللہ شاہ۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٩ھ/١٦ مارچ ١٩٢١ئ

٦رجب المرجب:۔

٭ حضرت قاسم علی بن محمد حریری صاحب مقامات حریری ۔۔۔۔۔۔٥١٦ھ ٭حضرت خواجہ نیر الدین حاجی شریف زندنی نفی القضا ۔۔۔۔۔۔٥٥٤ھ ٭ حضرت خواجہ خواجگان سلطان الہند غریب نواز شیخ۔۔۔۔۔۔ ٦٣٢ھ/٦٣٣ھ ٭حضرت قطب الدین ابو لغیث جمیل یمنی سمرقندی۔۔۔۔۔۔٧٦٧ھ ٭ حضرت سید موسیٰ قطب الا عظم ۔۔۔۔۔۔٨٩٦ھ ٭ حضرت قطب اعظم شیخ عیسیٰ برھانپوری ۔۔۔۔۔۔٨٩٩ھ ٭ حضرت شاہ فتح اللہ سنبھلی ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ ٭حضرت شیخ حبیب اللہ کافی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٠ھ ٭ حضرت شیخ عبداللہ عرف حاجی بہادر ۔۔۔۔۔۔١٠٩٥ھ ٭حضرت سید عبدالرحمن شاہ شہید (مدفون احاطہ عالم شاہ بخاری) ۔۔۔۔۔۔١٣٧٥ھ/١٩ فروری ١٩٥٦ء٭حضرت صغار احمد خاں المعروف احمد بھیا حضور چشتی ۔۔۔۔۔۔١٣٩٤ھ/٢٦ جولائی ١٩٧٤ئ

٧رجب المرجب:۔

٭ حضرت عین الدین شامی ۔۔۔۔۔۔٢٠٣ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد بن سلیمان رودباری ۔۔۔۔۔۔٣٢٩ھ ٭ حضرت شاہ محمد تہاک بغدادی ۔۔۔۔۔۔٧١٧ھ ٭حضرت شیخ جلال الدین تبریزی ۔۔۔۔۔۔٧٦٢ھ ٭ حضرت دیوان محمد بہاؤ الدین ۔۔۔۔۔۔٨٤٢ھ ٭حضرت میر طاہر تیزرو بدخشی جونپوری ۔۔۔۔۔۔١٠٤٧ھ ٭حضرت شاہ عمر بہاری ٭حضرت حاجی عبدالکریم چشتی(مصنف شرح خصوص الحکم)۔۔۔۔۔۔١٠٤٥ھ ٭حضرت غلام دستگیر نامی

٨رجب المرجب:۔

٭امام دار قطنی محدث٭ حضرت شیخ زین العابدین ابن نجیم حنفی مصری(صاحب الاشباہ والنظائر) ۔۔۔۔۔۔٩٧٠ھ ٭حضرت خواجہ نظام الدین صابری تھانیسری بلخی ۔۔۔۔۔۔١٠٢٤ھ٭ حضرت علامہ جلال تھانیسری ۔۔۔۔۔۔١٠٣٦ھ ٭ حضرت سید محمود بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٠٧٧ھ ٭حضرت قاضی محمدعاقل چشتی ۔۔۔۔۔۔١٢٢٩ھ ٭حضرت مولوی عبدالصمد خالصپوری۔۔۔۔۔۔١٢٨٩ھ ٭حضرت شاہ عبد الرب

٩رجب المرجب:۔

٭حضرت ابو جعفر احمد بن وہب بصری ۔۔۔۔۔۔٢٧٠ھ ٭حضرت ابو عبداللہ علی ماکور ۔۔۔۔۔۔٤٤٢ھ ٭محدث ابو شجاع حافظ شیرویہ بن شہردار بن شیرویہ ہمدانی (اولاد صحابی رسول و قاتل اسود عنسی فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ) مصنف فردوس، تاریخ ہمدان، ولادت ۔۔۔۔۔۔٤٤٥ھ وفات ٥٠٩ھ ٭ شہردار دیلمی کا انتقال ۔۔۔۔۔۔٥٥٨ھ٭ حضرت خواجہ شمس الدین محمد تبریزی ۔۔۔۔۔۔٦٤٥ھ ٭حضرت عبدالجلیل چوہڑ بندگی سہروردی لاہوری ۔۔۔۔۔۔٩١٠ھ ٭حضرت شیخ برکیہ بن شاہوکاتیار (مجذوب سندھ) ۔۔۔۔۔۔٩٩٧ھ ٭حضرت سالار سرمست ۔۔۔۔۔۔١٠٨٧ھ ٭ حضرت سید جعفر گیلانی ۔۔۔۔۔۔١١٠٧ھ ٭حضرت شیخ فیض بخش لاہوری چشتی (صاحب حال و قال)۔۔۔۔۔۔١٢٨٦ھ ٭حضرت علامہ محمد حسین بن تفضل حسین، عمری الہ آبادی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٣ھ ٭حضرت مولانا مفتی نور محمد بن شیخ احمد حنفی فتحپوری تلمیذ مفتی عبداللہ ٹونکی ۔۔۔۔۔۔١٣٤٢ھ ٭حضرت شاہ گدا رحمن٭حضرت حافظ موسیٰ پاک چشتی

١٠رجب المرجب:۔

٭حضرت ابو محمد عبدالرحیم مغربی ۔۔۔۔۔۔٥٩٢ھ ٭ حضرت سلطان ولد بن مولانا روم ۔۔۔۔۔۔٧١٢ھ ٭ولادت امام تقی علیہ الرحمہ٭ وصال علامہ مفتی شاہ محمد مسعود ۔۔۔۔۔۔١٣٠٩ھ/١٨٩٢ئ

١١رجب المرجب:۔

٭حضرت شیخ علی عجمی ۔۔۔۔۔۔٣٤٦ھ ٭ حضرت رکن الاسلام ابو محمد عبداللہ جوینی کوفی ۔۔۔۔۔۔٤٣٢ھ ٭ حضرت سید محمد مدنی ۔۔۔۔۔۔٤٩٤ھ ٭حضرت شیخ منصور زاہد طایحیٰ ۔۔۔۔۔۔٥٥٠ھ ٭ حضرت قصیب البان موصلی ۔۔۔۔۔۔٥٧٩ھ ٭ حضرت شیخ ابی عبداللہ محمد بغدادی ۔۔۔۔۔۔٨٩٧ھ ٭ حضرت شاہ فضل اللہ مداری ۔۔۔۔۔۔٩٧٩ھ ٭ حضرت شاہ شمس الدین قادری لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠٢١ھ ٭حضرت شاہ شکور اللہ قلندری ۔۔۔۔۔۔١١٠٩ھ ٭حضرت شاہ محمد حامد صابری امروھوی ۔۔۔۔۔۔١١٥٠ھ ٭حضرت شیخ حبیب مصری ۔۔۔۔۔۔١٢٢١ھ ٭حضرت شاہ علی حسین اشرفی٭شیخ المشائخ حضرت امام ابو الحسین احمد نوری مارہروی ٭حضرت شاہ نصر اللہ لکھنوی٭شاہ مخدوم محمد منعم (پٹنہ)

١٢رجب المرجب:۔

٭ حضرت شیخ ابو الحسن فراری ۔۔۔۔۔۔٢٩٧ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد بن فضیل سمر قندی ۔۔۔۔۔۔٣١٩ھ ٭شیخ نجم الدین بن امام ظاہر کوفی ۔۔۔۔۔۔٣٣٦ھ ٭حضرت شیخ محمد فیاض ۔۔۔۔۔۔٧٤٧ھ٭حضرت سید الیاس بصری۔۔۔۔۔۔٩١٩ھ ٭حضرت سید محمد مقبول عالم ۔۔۔۔۔۔١٠٤٥ھ ٭ حضرت شیخ عبدالخالق چشتی ۔۔۔۔۔۔١٠٥٩ھ ٭ حضرت شیخ ارزانی قادری ۔۔۔۔۔۔١٠٧٢ھ ٭ حضرت شیخ عصمت اللہ نوشاہی ۔۔۔۔۔۔١١٣٧ھ ٭ حضرت مولانا ابو العباس عبدالحی محمد بحر العلوم لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١٢٢٥ھ ٭حضرت پیر محمد حسن جان سرہندی (راہنما تحریک پاکستان) ۔۔۔۔۔۔١٣٦٥ھ/١٩٤٦ئ

١٣رجب المرجب:۔

٭ حضرت ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی ۔۔۔۔۔۔٢٧٩ھ٭حضرت خواجہ عبداللہ محمد مغربی۔۔۔۔۔۔ ٣٣٥ھ ٭حضرت ابو القاسم جعفر رازی ۔۔۔۔۔۔٣٧٨ھ ٭ حضرت ظہیر الدین بخاری ۔۔۔۔۔۔٦٩٥ھ ٭ حضرت شیخ ابی الحسن محمد ۔۔۔۔۔۔٧٩٧ھ ٭ حضرت محمد علی نور بخش ۔۔۔۔۔۔٨٥٧ھ٭حضرت محمد ابراہیم ابرجی ۔۔۔۔۔۔٩٨٧ھ ٭حضرت محمود درّانی ۔۔۔۔۔۔٩٩٨ھ ٭حضرت سید عبدالقادر لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠٧٧ھ ٭ حضرت شاہ نعیم گامی ۔۔۔۔۔۔١١٢١ھ٭ حضرت سید عبداللطیف عرف محی الدین دیلوروی ۔۔۔۔۔۔١١٩٤ھ ٭حضرت خواجہ محمد زبیر کشف الغیب ۔۔۔۔۔۔١١٩٩ھ ٭حضرت شہ محمد خادم صفی چشتی ۔۔۔۔۔۔١٢٨٧ھ ٭حضرت خواجہ نیر الدین عرف حاجی شریف قنوجی

١٤رجب المرجب:۔

٭حضرت ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٢١ھ٭حضرت طاؤس الحرمین ابو الخیر اقبال حبشی مکی۔۔۔۔۔۔٣٨٣ھ ٭ حضرت ابو المسعود بن اشبیل ۔۔۔۔۔۔٥٦٥ھ ٭امام ابوزکریا محی الدین یحیی بن شرف النواوی ۔۔۔۔۔۔٦٧٧ھ/یکم دسمبر ١٢٧٨ئ ٭حضرت شیخ محمود اسفراری المدنی ۔۔۔۔۔۔٦٩٨ھ٭مخدوم ساہر بن مخدوم معز الدین (خلیفہ مخدوم بلال و مخدوم نوح ہالائی)۔۔۔۔۔۔٩٨٠ھ ٭سید نتھے شاہ۔۔۔۔۔۔ ١١١١ھ٭حضرت سید سالار مسعود غازی٭حضرت سید سمن شاہ بخاری سرکار مجذوب تحصیل ٹنڈو باگوبدین ۔۔۔۔۔۔١٣٤٩ھ/دسمبر ١٩٢٩ئ

١٥رجب المرجب:۔

٭حضرت امام المسلمین سیدنا محمد جعفر صادق ص ۔۔۔۔۔۔١٤٨ھ ٭ حضرت امام المسلمین سیدنا موسی کاظم ص ۔۔۔۔۔۔١٨٣٭حضرت ابو الحسن علی صائغ دینوری ۔۔۔۔۔۔٣٣٠ھ ٭ حضرت قطب الدین محمود فروضنی ۔۔۔۔۔۔٣٩٢ھ٭حضرت شاہ بدر علی لکھنوی ٭شیخ محمد حضرت ابو عبداللہ محمد بن یوسف بن محمد بن احمد بن ابراہیم سورتی ١٣٦١ھ

١٦رجب المرجب:۔

٭حضرت سید یعقوب زنجانی ۔۔۔۔۔۔٦٤ھ ٭ حضرت ابو حمزہ خراسانی۔۔۔۔۔۔٢٩٠ھ ٭ حضرت ابو الفضل محمد۔۔۔۔۔۔ ٣٩٧ھ ٭ حضرت سید محمد عبداللہ اویسی غزنوی۔۔۔۔۔۔٥٠٥ھ ٭ابوالعباس احمد بن محمد بن خلکان (مؤرخ) ۔۔۔۔۔۔٦٨١ھ ٭حضرت ابو الفتح رکن الدین سہروردی بن صدر الدین بن بہاؤ الدین زکریا۔۔۔۔۔۔٧٣٥ھ ٭ حضرت محمد شیریں المتخلص مرغابی۔۔۔۔۔۔٨٠٩ھ ٭حضرت شاہ بندہ نوازی الدین۔۔۔۔۔۔٨٥٣ھ ٭ حضرت شاہ مجتبیٰ رومی۔۔۔۔۔۔ ٨٩٩ھ ٭ حضرت خواجہ عبدالحق عرف محی الدین۔۔۔۔۔۔ ٩٥٧ھ ٭حضرت خواجہ جمال الدین چشتی قندھاری۔۔۔۔۔۔٩٩٧ھ ٭ حضرت عبداللہ وحدت پوش بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٠٧٣ھ ٭حضرت محدث اعظم کچھوچھوی۔۔۔۔۔۔١٣٨١ھ ٭حضرت حافظ محمد شعیب مردانی

١٧ رجب المرجب:۔

٭ حضرت ابوالفضل عباس عم رسول اللہ ا۔۔۔۔۔۔ ٣٢ھ ٭خواجہ ابو یوسف ہمدنی ٭ حضرت امام حسن مثنی۔۔۔۔۔۔ ٦٣ھ ٭ حضرت عمر اشبکی بن داؤد قرشی ۔۔۔۔۔۔١٨٧ھ ٭حضرت ابو العباس قاسم سیاری ۔۔۔۔۔۔٣٤٢ھ ٭ حضرت ابوعبداللہ محمد بن خفیف شیرازی ۔۔۔۔۔۔٣٧١ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد داستانی ۔۔۔۔۔۔٤١٧ھ ٭ حضرت سید حسین خنک سوار ۔۔۔۔۔۔٦١٠ھ ٭ حضرت شیخ ابو الحسن علی شاذلی مغربی ۔۔۔۔۔۔٦٥٤ھ ٭حضرت محمد رہبر سندہی ۔۔۔۔۔۔١١٩٩ھ ٭ حضرت شیخ محمد مراد کشمیری ۔۔۔۔۔۔١١٣١ھ ٭حضرت وجھن شاہ نواب گنجی٭ حضرت شاہ تقی علی قلندر ۔۔۔۔۔۔١٢٩٠ھ

١٨رجب المرجب:۔

٭شیخ طریقت علامہ علی اکبر بن حیدر علی بن تراب علی علوی، حنفی کاکوروی قلندری ۔۔۔۔۔۔١٣١٤ھ ٭ حضرت ابو محمد عبداللہ مرغابی تونسی ۔۔۔۔۔۔٦٩٩ھ ٭ حضرت شیخ حسن سرمدی ۔۔۔۔۔۔٧٩٩ھ ٭حضرت بدلی شاہ

١٩رجب المرجب:۔

٭حضرت میر سید محمد اودھی ۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭ حضرت شاہ محمد انبیا دل خراسانی ۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭ حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٢٣٠ھ ٭ حضرت سید ابوالحسین احمد نوری بن ظہور حسن بن حضرت سید آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔١٣٢٤ھ

٢٠رجب المرجب:۔

٭حضرت علاؤالدین عامل بادشاہ عامل حزب۔۔۔۔۔۔٨٢٠ھ ٭حضرت شاہ اویس بلگرامی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٧ھ ٭ حضرت امام محی الدین نووی علیہ الرحمہ

٢١رجب المرجب:۔

٭حضرت دیوان محمد ابراہیم کلان ۔۔۔۔۔۔٩٥٩ھ ٭حضرت علامہ مفتی مسیح الدین بن مفتی جمال الدین حنفی حیدرآباد ۔۔۔۔۔۔١٣٢١ھ٭حضرت شیخ نظام الدین بلخی ٭خطیب اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی

٢٢رجب المرجب:۔

٭حضرت ابو عبداللہ محمد اسماعیل مغربی۔۔۔۔۔۔ ٢٧٩ھ ٭حضرت ابو اسمٰعیل احمد عموہروی ۔۔۔۔۔۔٤٤١ھ ٭حضرت سید موسیٰ بن داؤد ۔۔۔۔۔۔٦٨٧ھ ٭ حضرت شیخ مخدوم حسن۔۔۔۔۔۔ ٧٩٨ھ ٭ حضرت قاضی ضیائ الدین عرف خیا ۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭حضرت قاضی عبدالکریم نگرامی۔۔۔۔۔۔١٢٤٩ھ ٭حضرت علامہ سید دیدار علی شاہ الوری (خلیفہ اعلیٰ حضرت)۔۔۔۔۔۔١٣٥٤ھ ٭ حضرت سید علی احمد بن سید عبدالعلی شاہ کچھلی قادری (ڈیرہ غازی خان)۔۔۔۔۔۔١٣٨٢ھ ٭حضرت شمس الدین صحرائی

٢٣رجب المرجب:۔

٭ حضرت شیخ زکریا ہروی ۔۔۔۔۔۔٢٥٥ھ ٭حضرت خواجہ احمد معروف بہ رکن الدین علائ الدولہ سمنائی ۔۔۔۔۔۔٧٣٦ھ ٭ حضرت شاہ فرہاد صفات جمالی ۔۔۔۔۔۔١١٩٩ھ ٭حضرت مولانا سیف الدین کشمیری ۔۔۔۔۔۔١٢٢٧ھ

٢٤رجب المرجب:۔

٭ حضرت سید مسلم بن حجاج نیشا پوری (صاحب صحیح مسلم شریف) ۔۔۔۔۔۔٢٦١ھ ٭حضرت امام محی الدین یحییٰ نووی ۔۔۔۔۔۔٦٧٦ھ ٭حضرت بندگی مبارک چشتی۔۔۔۔۔۔ ٩٧٦ھ

٢٥رجب المرجب:۔

٭ حضرت امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز ص ۔۔۔۔۔۔١٠١ھ٭ حضرت شیخ ابو محمد حریری ۔۔۔۔۔۔٣١١ھ ٭حضرت شیخ ابو اسحق گرم دیوان ۔۔۔۔۔۔١١٧٨ھ ٭حضرت شاہ عبدالرحمن قلندر خراسانی ۔۔۔۔۔۔١١٨٣ھ ٭ حضرت محمد دمشقی ۔۔۔۔۔۔١٢٣١ھ ٭حافظ محمد عبداللہ بھرچونڈوی بن قاضی اللہ بخش (خلیفہ حافظ محمد صدیق بھرچونڈی) ۔۔۔۔۔۔١٣٤٦ھ٭حضرت امام مسلم٭قطب الاقطاب شیح رحمکارکاکا (نوشہرہ)

٢٦رجب المرجب:۔

٭ حضرت حسن شاہ پیر غازی (برادر اصغر حضرت عبداللہ شاہ غازی) جوڑیا بازار، کراچی۔

٢٧رجب المرجب:۔

٭حضرت ابو صالح نصر٭حضرت ابو یعقوب سوسی ۔۔۔۔۔۔١٧٩ھ ٭حضرت قاضی القضاۃ امام المسلمین سیدنا ابو یوسف یعقوب بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٨٢ھ٭ حضرت سیدی ابو عیسیٰ محمد ترمذی (صاحب سنن) ۔۔۔۔۔۔٢٧٩ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ عمرو مکی ۔۔۔۔۔۔٢٩١ھ ٭ حضرت سید الطائفہ ابو القاسم جنید بغدادی ۔۔۔۔۔۔٢٩٧ھ ٭ حضرت عبدالواحد سیاری ۔۔۔۔۔۔٣٣٧ھ ٭حضرت امام ابو یعقوب ہمدانی مروزی ۔۔۔۔۔۔٥٣٥ھ٭ حضرت ابو الحسن علی بن حرازم ۔۔۔۔۔۔٥٤٨ھ ٭ حضرت سراج الدین عبدالجبار بن غوث اعظم ۔۔۔۔۔۔٦٠٥ھ ٭عماد الدین ابو صالح نصر نبیرئہ غوث اعظم ۔۔۔۔۔۔٦٣٢ھ٭ حضرت سید عبدالعزیز بغدادی ۔۔۔۔۔۔٦٩٥ھ ٭ حضرت شیخ علاؤالدین لاہوری ۔۔۔۔۔۔٧٩٧ھ ٭حضرت شاہ عبد القدوس قلندر بصری ۔۔۔۔۔۔٩١٢ھ ٭ حضرت شیخ محمد حسن عرف شاہ خیالی جونپوری ۔۔۔۔۔۔٩٤٤ھ ٭حضرت شیخ داؤد چونیاں ۔۔۔۔۔۔٩٩٢ھ ٭ حضرت عبدالرحمن بدخشی ۔۔۔۔۔۔١٠٢٩ھ ٭حضرت شاہ اسکندر ۔۔۔۔۔۔١٠٣٣ھ ٭حضرت شیخ حاجی عبدالکریم چشتی ۔۔۔۔۔۔١٠٤٥ھ ٭ حضرت شیخ عبدالرشید دہلوی ۔۔۔۔۔۔١١٥٥ھ ٭حضرت شیخ احمد تحلی پہاڑی۔۔۔۔۔۔١١٩٠ھ ٭ حضرت رکن الدین آثار الوحدت ٭ حضرت پیر سید امین الحسنات (مانکی شریف راہنما تحریک پاکستان)

٢٨رجب المرجب:۔

٭ حضرت میر تراب لکھنوی ٭حضرت شاہ عفد الدین صابری امروہی ۔۔۔۔۔۔١٢٧٤ھ٭ حضرت پیر امین الحسنات مانکی شریف

٢٩رجب المرجب:۔

حضرت حافظ احمد علی خاں لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١٢٧٥ھ ٭ حضرت قطب علی شاہ ۔۔۔۔۔۔١٣١٩ھ ٭ حضرت خواجہ کمال الدین کشمیری ۔۔۔۔۔۔١١٨٧ھ٭ حضرت شاہ لطف علی۔۔۔۔۔۔١٢٧٥ھ ٭حضرت دیوان محمد فضیل۔۔۔۔۔۔٧٥٦ھ٭میر نجف علی شاہ ۔۔۔۔۔۔١٢٧٥ھ ٭حضرت شاہ نوازش علی کابلی ۔۔۔۔۔۔١٢٨٩ھ٭محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد خان لائل پوری٭حضرت علامہ امیر الدین جیلانی

٣٠رجب المرجب:۔

٭ حضرت امام المسلمین سید نا محمد بن ادریس الشافعی ۔۔۔۔۔۔٢٠٤ھ٭ حضرت شیخ غلام نقشبند لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١١٢٦ھ ٭حضرت پیر عبد الرحیم بھرچونڈی۔۔۔۔۔۔ ١٣٩١ھ

نوٹ : خیال رہے کہ بعض بزرگوں کے وصال کی تاریخ ، تدفین کی تاریخ اور عرس کی تاریخ الگ الگ معروف ہیں لہٰذا ایسے بزرگوں کا تذکرہ دو یا تین مقامات پر نظر آئے تو اسے صحیح یا غلطی پر محمول نہ فرمائیں ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...