بسنت کا آغاز سزائے موت پانے والے گستاخ ہندو کی یادگار سے ہوا
محترم قارئینِ کرام : پتنگ اڑانے کے ساتھ مخصوص تہوار بسنت کا آغاز سزائے موت پانے والے ہندو کی یادگار سے ہوا ۔ تاریخی حقائق کے مطابق سنہ 1707ء تا 1759 کے دوران پنجاب کے گورنر ، زکریا خان کے دور میں سیالکوٹ کے ایک ہندو کے بیٹے ، حقیقت رائے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدہ طیبہ فاطمة الزہر رضی اللہ عنہا کی شان میں نازیبا الفاظ کہے ، اس جرم کی تحقیق ہوئی ، اور جرم ثابت ہو گیا ، چنانچہ سزا کے طور پر اس گستاخ رسول کو پہلے کوڑے لگائے گئے ، اور بعد میں ایک ستون سے باندھ کر گردن اڑادی گئی ۔ تاریخی کتب میں ذکر ہے کہ جس دن اس کو سزاۓ موت سنائی گئی وہ بسنت پنجمی کا دن تھا ، اس گستاخ رسول کی یاد میں ہندوؤں نے لاہور کے علاقے کوٹ خواجہ سعید میں ایک سمادھی تعمیر کی ۔ مؤرخین کے مطابق ایک ہندو رئیس کالو رام نے ، اس جگہ حقیقت رائے ، کی یاد میں مندر تعمیر کرایا ، باقاعدہ بسنت میلے کا آغاز کیا ۔
ہندوانہ تہوار بسنت کے متعلق قدیم ترین مستند حوالہ معروف مسلمان ریاضی دان اور مؤرخ ابوریحان البیرونی کے ہاں ملتا ہے ۔ البیرونی نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل ہندوستان کاسفر کیا تھا، کلر کہار ضلع چکوال کے نزدیک کٹاس کے مقام پر اس زمانے میں معروف یونیورسٹی جہاں انہوں نے ہندو فضلا و حکما اور پنڈتوں سے ہندوستانی علوم سیکھے ، انہوں نے اسی مقام پر کتاب الہند تحریر کی جس میں یہاں کے باشندگان ، ہندوستانی کلچر ، ہندوؤں کے رسوم و رواج ، علوم وفنون اور مذہب و فلسفہ کے متعلق بیش بہا معلومات فراہم کی ہیں ۔ اس کتاب میں بسنت کے بارے میں ان کی یہ عبارت آج بھی سند مانی جاتی ہے ۔
عید بسنت : اسی مہینے (یعنی بیساکھ) میں استواء ربیعی ہوتا ہے جس کا نام بسنت ہے ۔ ہندو لوگ حساب سے اس وقت کا پتہ لگاکر اس دن عید کرتے ہیں اور برہمنوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ جیٹھ کے پہلے دن جو اجتماع یعنی اماؤس کادن ہے ، عیدکرتے ہیں اور نیا غلہ تبرکاً پانی میں ڈالتے ہیں ۔ (کتاب الہند از البیرونی ترجمہ سید اصغر علی الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب اردو بازار لاہور صفحہ 238)
استواء ربیعی جو البیرونی کی عبارت میں 'عید بسنت' کے دن کے تعین کے طور پر استعمال ہوا ہے، کسے کہتے ہیں ؟ سورج سال میں دو مرتبہ خط استواء پر آتا ہے۔ ایک مرتبہ سردیوں کے اختتام اور بہار کے آغاز پر، اس کو 'استواء ربیعی' کہتے ہیں ۔ ربیع کا مطلب ہے بہار، دوسری مرتبہ گرمیوں کے اختتام اور خزاں کے آغاز پر، اسے استواء خریفی کہتے ہیں ۔ خریف بمعنی خزاں ۔ (بسنت کیا ہے ؟ از مولوی احمد حسن صفحہ 23،چشتی)
ہندو تیوہاروں کی اصلیت اور ان کی جغرافیائی کیفیت : ⏬
یہ منشی رام پرشادماتھر بی ۔ اے کی کتاب کا عنوان ہے ۔ اس کتاب کے سرورق پریہ الفاظ تحریر ہیں : اس میں منطقہ حارہ، ریگستان کی صورت، بکری فصل، ہجری، اور عیسوی سنوں کی ضرورت، دعا کی قوت، اور خدا کی عجیب حکمت کا اظہار کرکے ہندؤوں کا زبردست اخلاقی اور تمدنی انتظام بیان کیا گیاہے اور ہندو تیوہاروں کی ضرورت کو ثابت کیا گیا ہے'' یہ کتاب علامہ اقبال کی زندگی میں شائع ہوئی کیونکہ اس کے متعلق تعارف میں یہ لکھا گیا ہے کہ مصنف نے اس کتاب کا ایک نسخہ علامہ اقبال کو بھی بھجوایا تھا جو انہوں نے پسند فرمایا، اس کتاب پرمصنف کو بھارت مہامنڈل خطاب بھی عطا کیا گیا اور یہ کتاب ہندوستان کے پرائمری سکولوں کے نصاب میں بھی شامل رہی ہے۔ اس کتاب میں رام پرشاد لکھتے ہیں :
''بسنت پنچمی: اب فصل کے بارآور ہونے کا اطمینان ہوچلا۔ اور کچھ عرصہ میں کلیاں کھل کر تمام کھیت کی سبزی زردی میں تبدیل ہونے لگی۔ اس لئے کاشتکار کے دل میں قدرتی امنگ اور خوشی پیدا ہوئی ہے۔ وہ زرد پھولوں کو خوش خوش لا کر بیوی بچوں کو دکھاتاہے اور پھر سب مل کر بسنت کا تیوہار مناتے ہیں اور زرد پھول اپنے اپنے کانوں میں بطور زیور لگاتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے پرتما ! ہماری محنت کا پھل عطاکر اور پھولے ہوئے درختوں میں پھل پیدا کر ۔ (صفحہ 102)
ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت : ⏬
یہ بھی منشی رام پرشاد ماتھر کی ایک دوسری کتاب کا عنوان ہے۔ اس کتاب میں بھی بسنت پنچمی کا ذکر وہ کئی جگہ کرتے ہیں ۔ مثلاً
(i) ''صفحہ نمبر 126 پر بسنت پنچمی کی تقریباً مندرجہ بالا تفصیلات درج کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں : ''بسنت پنچمی کو وشنو بھگوان کا پوجن ہوتا ہے'' (صفحہ :126)
(ii) اسی کتاب کے ایک باب ''ہماری ضروریات کے لحاظ سے تیوہاروں کی تقسیم'' میں علوم وفنون کے تیوہاروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ'جاڑوں میں بسنت پنچمی' ہوتا ہے ۔ (صفحہ 195) ۔ (صفحہ 191)
(iii) اس کتاب کے باب''تیوہاروں کے انتظامی حالات و وجوہ'' میں مختلف تہواروں کا ذکر کرتے ہوئے سیریل نمبر 36 پر بسنت پنچمی کے متعلق لکھا ہے : فصل میں پھول پیدا ہونے اور کلیاں کھلنے کی خوشی اور قدرتی نظارے کے لطف کا دن (iv) مذکورہ کتاب کے باب'مختلف صوبہ جات کی مختلف رسمیات' کے نام سے شامل باب میں بسنت پنچمی کا تذکرہ یوں ملتا ہے : بسنت پنچمی : یہ تیوہار گجرات، پنجاب، ممالک متحدہ اور راجپوتانہ وغیرہ میں زیادہ منایا جاتا ہے۔ دکھن میں بہت کم ہوتا ہے، وہاں اس روز امیر لوگ گاتے بجاتے ہیں اور مندروں میں اوتسو ہوتا ہے۔ راجپوتانہ میں بسنتی کپڑے پہنے جاتے ہیں ، بنگالہ میں اس کوسری پنچمی کہتے ہیں اور سرستی کی پوجا کرتے ہیں ۔ قلم دوات نہیں چھوتے۔ اگر لکھنے کا ضروری کام آجاتا ہے تو تختی پرکھریا سے لکھتے ہیں ۔شام کو بچے قسم قسم کے کھیل کھیلتے ہیں اور دوسرے دن سرستی کی مورتی کسی تالاب میں ڈال دیتے ہیں ۔ اس روز کہیں کہیں 'کامدیو' اور اس کی بی بی 'رتی' کی پوجا ہوتی ہے۔ اضلاع اودھ اور قرب و جوار میں اس روز نوا کی رسم ہوتی ہے، یعنی لوگ نیا اناج استعمال کرتے ہیں ۔ اوکھلا اور بندک پور (جی آئی پی ریلوے) میں بسنت کا میلہ تین دن تک ہوتا ہے۔ ممالک ِپورب وغیرہ میں بھی موسم بہار کا اسی قسم کا ابتدائی تیوہار ہوتاہے۔''
(v) اس کتاب میں مختلف ہندو تہواروں کا جدول اور فہرست شامل کی گئی ہے جس سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ ہندومت میں مختلف تہواروں کو کس طرح اہمیت دی گئی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس جدول کا ایک صفحہ یہاں ہوبہو نقل کیا جاتا ہے :
نمبر
نام تیوہار
مہینہ وتتھ
کس نے کس کو بتایا
کتاب
کیفیت
49
بسنت پنچمی
ماگھ سدی پنچمی
اس روز کا مدیون اور رتی کی پوجا ہوتی ہے کامدیو کو شیو جی نے بھشم کر دیا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکلا اور پرومن ہوا، اس کی جھنڈی پر مچھلی کی شکل تھی۔
50
سیتلا گھشٹی
ماگھ سدی چھٹہ
کھشٹی دیوی نے بڈھی برہمنی کو
بنگالہ اور مشرقی ہند میں یہ تیوہار ہوتا ہے۔
51
چلا ستمی یا سوریہ ستمی
ماگھ سدی سمی
بشٹ جی نے اندومتی رنڈی کو اور سری کرشن نے جدھشٹر کو
بھوشرترپران
یہ برت مہاراشٹر میں ہوتا ہے اور سخت بیمار اچھے ہو جاتے ہیں ۔اندومتی مہاراجہ سمر کی رنڈی تھی اس نے بشٹ جی سے اپنی نجات کی ترکیب پوچھی انہوں نے یہ برت بتایا۔
52
بھشما اشٹمی
ماگھ سدی اشٹمی
پدم پران
اس روز بھیشم پتامہ کا انتقال ہوا تھا،یہ ان کے شرادھ کا دن ہے یہ شرادھ باپ کی زندگی میں ہر لڑکا بھی کر سکتا ہے۔
53
آسمانی کا پوجن
بیساکھ ، اساڑھ
یہ برت لڑکے کی ماں کرتی ہے۔ نمک نہیں کھاتی ، یہ امید کی دیوی کیس
نمب کس نے کس کو بتایا
حوالہ کتاب
کیفیت
54
ماگھ اتوار کے روز
پوجا ہے۔ ایک راجہ نے اپنے شریر لڑکے کو ملک سے نکال دیا۔امید کی دیوی نے اسے چار کوڑیاں دیں جن کے اثر سے وہ دوسرے شہر کے راجہ سے جوئے میں جیت گیا اور اس کی لڑکی بیاہ لی اور اپنے والدین کے پاس آیا۔ اس کی کامیابی پر اس پرت کا رواج ہوا۔
55
شیور اتری
پھاگن بدی تردوشی دیا چودس
شیو جی نے پاربتی جی کو اور مندر کے برہمنوں کے ذریعے سے ایک شکاری کو
لنگ پر ان اسکندھ پران اور ایشان سنگھتا
یہ تیوہار نیپال اور تمام ہندوستان میں ہوتا ہے ایک شکاری نے ہرنی اور ہرن پر رحم کھا کر شکار نہیں کیا دو ہرنی اور اس کے پیچھے ہرن ان تین ستاروں سے مرگشر نکشتر بنا ہے جو آسمان میں موجود ہے۔
56
ہولی
پھاگن پرنماشی
بشٹ جی نے راجہ پرتھو کو ناروحی نے راجہ جدھڑ کو
بھوشرترپران
منجملہ 14 منو کے اس روز ایک منو کا جنم ہوا ہے۔ہولی جلا ناکئی شاستر کاروں نے بسنے آنے کا گیہ یہ بتایا ہے، بعض اس کو سمت کے شروع میں اگن سروپ
(4) 'فرہنگ ِآصفیہ'
یہ معروف لغت مولوی سید احمد دہلوی کی تالیف کردہ ہے۔ اسے 'اردو سائنس بورڈ' لاہور نے چھاپا ہے۔ اس میں ''بسنت'' کے لفظ کے نیچے اس کے مطالب دیئے گئے ہیں اور اس کی تاریخی حیثیت کی وضاحت بھی کی گئی ہے، وہ بسنت کا ایک مطلب یوں بیان کرتے ہیں : ''وہ میلہ جو موسم بہار میں بزرگوں کے مزار اور دیوی دیوتاؤں کے استھانوں پر سرسوں کے پھول چڑھا کر کرتے ہیں '' اس کے بعد اس کی مزید تفصیل یوں درج ہے:
''اگرچہ اصل رت بیساکھ کے مہینے میں آئی ہے، مگر اس کا میلہ سرسوں کے پھولتے ہی ماگھ کے مہینے میں شروع ہوجاتا ہے۔چونکہ موسم سرما میں سردی کے باعث طبیعت کو انقباض ہوتا ہے اور آمد بہار میں سیلان خون کے باعث طبیعت میں شگفتگی، امنگ اور ولولہ اور ایک قسم کی خاص خوشی اور صفراتی پیدائش پائی جاتی ہے۔ اس سبب سے اہل ہند اس موسم کو مبارک اور اچھا سمجھ کر نیک شگون کے واسطے اپنے اپنے دیوی دیوتاؤں اور اوتاروں کے استھانوں میں مندروں پر ان کے رجھانے کے لئے یہ مقتضائے موسم سرسوں کے پھول کے گڑوے بنا کر گاتے بجاتے لے جاتے ہیں اور اس میلے کو بسنت کہتے ہیں ۔ بلکہ یہی وجہ ہے کہ وہ رنگ کو اس سے مناسبت دینے لگے... پہلے اس میلہ کا مسلمانوں میں دستور نہ تھا'' ... ہندو کالی دیوی یا کالکا دیوی کے مندر پر گڑوے بنا بنا کر خوشی خوشی گاتے بجاتے چلے جاتے ہیں ۔ (صفحہ 394 ، 395)
(5) ابوالفضل
مغل شہنشاہ اکبر کے نورتن ابوالفضل نے لکھا ہے کہ ہندو ماگھ کے مہینے میں تیسری، چوتھی، پانچویں اور ساتویں تاریخ کو چار تہوار مناتے ہیں ۔ پانچویں تاریخ کو بسنت کابڑا جشن ہوتاہے اس روز رنگ اورعنبر ایک دوسرے پر چھڑکے جاتے ہیں ، نغمہ و سرود کی مجلس منعقد کرتے ہیں ۔ (مغل شنہشاہوں کے شب و روز ۔ مصنف سید صباح الدین عبدالرحمن صفحہ 347 نگارشات میاں چیمبرز 3 ٹیمپل روڈ لاہور،چشتی)
(6) 'بہار دیوی'
ہندو دیو مالا میں موسم بہار کو بھی دیوی کا درجہ حاصل ہے اور ا س کی پوجا کی جاتی ہے۔ دیگر قدیم مذاہب اور تہذیبوں کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ وہاں بھی اسے مختلف ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ بہار دیوں کے مصر میں آئسس، شام و عراق میں عشار ، یونان میں وینس، ایران میں ناہید، روم میں رسیرس، چین میں شیس، ہند میں درگا دیوی اور قدیم عرب میں زہرہ کہا جاتاتھا ۔ (نوائے وقت 9 فروری 2003ء)
(7) بال ٹھاکرے
بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا کے سربراہ لاہو رمیں بسنت تہوار منانے پر ہر سال خوشی کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ بسنت 2002ء کے موقع پر انہوں نے بیان دیا:
''لاہور میں بسنت ہندو مذہب کی عظیم کامیابی ہے۔ مسلمان تقسیم ہند سے پہلے بھارتی ثقافت اپنا لیتے تو لاکھوں افراد کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ انہوں نے چھتوں سے گر کر ہلاک ہونیوالے نوجوانوں کو اپنا شہید کہا ۔ (ضربِ مؤمن جلد 5 شمارہ 9 ، روزنامہ جنگ 20 فروری2001ء،چشتی)
(8) کلدیپ نیئر
کلدیپ نیئر نامور بھارتی صحافی ہیں ۔ ان کے مضامین روزنامہ نوائے وقت اور 'ڈان' میں تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ 1998ء میں وہ بسنت کے موقع پر لاہو رمیں موجود تھے۔ پاکستانیوں کا جوش و خروش دیکھ کر انہوں نے اخباری بیان دیا:
''پاکستان میں بسنت کا تہوار بھارت سے بھی زیادہ جوش سے منایا جاتا ہے۔ یہاں پر بسنت منانے کا انداز بھارت سے دیوالی کے میلے سے ملتا جلتا ہے۔ میں اس جشن سے بہت متاثر ہوا ہوں اور اہل لاہور کا جوش و خروش دیکھ کر حیران ہوں ۔ یہاں سے اور بھارت کے ماحول میں کافی مماثلت پائی گئی ہے ۔ (روزنامہ جنگ 23 فروری 1998ء)
(9) وجے کمار
وجے کمار بمبئی کا ایک ہندو نوجوان ہے جو 2000ء میں بسنت کے موقع پر لاہور آیا تھا، بعد میں اس نے ایک مضمون میں اپنے تاثرات بھی بیان کئے تھے۔ اس نے کہا:
''زندہ دلان لاہور کے بسنت منانے کے انداز کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ہمارا نہیں بلکہ تمہارا مذہبی تہوار ہے ۔ (خبریں کتابچہ ، واہ رے مسلمان ، از سلیم رؤوف)
(10) اندرجیت سنگھ
یہ بھی ایک ہندوستانی نوجوان تھا جو 2001ء میں بسنت کے موقع پر لاہور آیا تھا۔ اس نے بیان دیا : جس قدر لاہور میں بسنت کی دھوم دھام دیکھنے میں آئی ہے، اس سے تو یوں لگتا ہے کہ لاہور ہندوستان کا ہی حصہ ہے۔ ہمیں تو یہاں بسنت منا کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم ہندوستان میں ہیں یا پاکستان میں ۔ (روزنامہ جنگ 21 فروری 2001ء)
(11) سونیا گاندھی
کانگریسی لیڈر سونیا گاندھی جو پاکستان کو ثقافتی طور پر فتح کرنے کا اظہار کرتی رہتی ہیں ۔ 1998ء میں بسنت کے موقع پر ان کا بیان شائع ہوا : ہم سیاسی طور پر نفرت کی بنیادیں ہلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور یہی ہمارا سب سے بڑا مقصد تھا ۔ (روزنامہ جنگ 22 فروری 1998ء)
مذکورہ تاریخی حوالہ جات اور ہندوؤں کے بیانات پڑھنے کے بعد کیا کوئی ایسا صحیح الفکر انسان ہے جو اس بات میں شک کا اظہار کرے کہ بسنت ہندوانہ تہوار ہے ۔ بال ٹھاکرے اور دیگر ہندوستانی شہریوں کے بیانات ہماری دینی غیرت اور قومی حمیت کےلیے عبرت ناک تازیانہ نہیں ہیں ؟ یہ ہم سب پاکستانیوں کےلیے لمحہ فکریہ ہے جو آج بھی نہایت خلوص سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا تاکہ یہاں اسلام کے روشن اُصولوں کو نافذ کیا جا سکے اور جو پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر دیکھنے کے تصور سے اب تک دست بردار نہیں ہوتے ہیں ۔
تو معلوم ہوا کہ یہ میلہ ہندوانہ ہے ، اور پتنگ بازی تو ایسی قبیح حرکت ہے ، جو ایک گستاخ رسول کی یا د میں شروع کی گئی تھی ۔ لہذا بسنت کی تہوار میں شریک ہونا ، پتنگ اڑانا ، کھانا کھانا ، وغیرہ کام جائز نہیں ، ان امور سے اجتناب لازم ہے ۔
ہر گزرتا سال اس کی گندگیوں ، ناپاکیوں میں اضافہ ہی کرتا چلا گیا ، پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ موٹرسائیکل پر بیٹھے ننھے بچوں کے گلوں پر دھاتی ڈور پھرنے لگی ، بجلی کے کرنٹ سے نوجوان کوئلہ بنے ، والدین کے بڑھاپے کا سہارا چِھنا ، کسی کا سہاگ اُجڑا ،کسی کے سر سے کفالت کرنے والے بڑے بھائی کا سایہ اُٹھا ، گلی گلی میوزک ہال بنی اور بڑے بڑے گھروں ہوٹلوں کی چھتیں ناچنے والیوں کے ٹھکانے ، بدکاریوں نے ریکارڈ توڑ دئیے تو زبردستی بھی عصمتیں برباد کی گئیں ، شرابیں پی کر ہوائی فائرنگ کرنے والوں کی گولیاں صحن میں سونے والوں کے جسم میں انگارہ بن کر اُتریں اور انہیں قیدِ حیات سے آزاد کر گئیں ، چھتوں سے گرنے والے پہلے اسپتال پھر قبرستان پہنچے تو کچھ لوگوں کو ہوش آیا اور اس خونی تہوار ’’بسنت‘‘ پر قانونی پابندی لگ گئی ، پتنگ بنانا ، بیچنا ، اُڑانا جرم قرار پایا تو کچھ سکون ہوا ۔ اس پابندی کو آٹھ نوسال ہونے کو آئے اب دوبارہ اس کی اجازت دی جا رہی ہے ۔ اپنی ذہنی آوارگی کو تسکین دینے والے ہر مرتبہ بسنت پر پابندی ختم ہونے کا شوشا چھوڑتے ہیں ، کبھی ثقافتی تہوار ، کبھی خوشیاں بکھیرنے اور کبھی محرومیوں کا مداوا کرنے کے نام پر بے سروپا دلائل کا شور مچا دیتے ہیں ، خیرکے مقابلے میں شر تیزی سے پھیلتا ہے ، کے مصداق من چلے اور ناسمجھ کم عمر نوجوان خوشیوں کے نام پر پتنگ بازی شروع کردیتے ہیں ، اب ڈور سے اپنا ہاتھ کٹے یا کسی کا ننھا گلا ،پولیس پکڑے یا چھت سے گر کر ٹانگ ٹوٹے ، بجلی کے ٹرانسفارمر دھماکے سے اُڑیں یا بے ہنگم گانوں کے شور سے کسی کی نیند خراب ہو، پڑھائی برباد ہو یا صحت ! ان پر ایسا شیطانی جنون سوار ہوتا ہے کہ بسنت منانے کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنالیتے ہیں ۔
الحَمْدُ ِلله ہم مسلمان ہیں ، ہماری زندگی شریعت کے احکام کے مطابق گزرے اسی میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی ہے ۔ ہماری خوشیاں بھی شریعت کے دائرے میں ہوں اور غم کے لمحات بھی نورِ شریعت میں گزریں۔ بسنت منانے سے جُڑے ہر فرد سے خیرخواہی کے جذبے کے تحت گزارش ہے کہ بسنت کے اجزائے ترکیبی میں سے کوئی شے بتا دیں جس کی اجازت ہمارا اسلام دیتا ہو، پتنگ بازی ناجائز، ڈور لُوٹنا جائز نہیں، ساز وآواز پر مشتمل موسیقی سننا ناجائز، پتلی دیواروں پر کھڑے ہونا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی اسلام میں اجازت نہیں، بلند چھتوں پر چڑھ کر دوسروں کے گھر میں جھانکنے کی اجازت نہیں، عورتوں لڑکیوں کا بے پردہ اونچی چھتوں پر چڑھنا، بوکاٹا کے نعرے لگانا ، لڈیاں ڈالنا کہاں جائز لکھا ہے، دھاتی اور تیز دھار ڈور جب کسی کے گلے پر پھرتی ہے تو اس کے دوسرے سرے پر موجود شخص دنیا میں چاہے نہ پکڑا جاسکے ، کیا آخرت میں بچ سکےگا ، شراب نوشی ، بدکاری کے حرام ہونے سے کون واقف نہیں ! پھر یہ بتائیے کہ کیا یہ سب کچھ ایک دن کےلیے ہوتا ہے ، کئی ہفتے پہلے سے اس بسنت کی تیاری شروع ہوجاتی ہے ، اور کئی دن بعد تک بچا ہوا سامانِ گناہ کام آتا رہتا ہے ، ایک دن کم دکھائی دیا تو آوارہ ذہن کے لوگوں نے بسنت نائٹ بھی منانا شروع کردی ، قانون اگر اس کی اجازت دے بھی دے تو کیا شرعاً یہ سب کچھ جائز ہوجائے گا ، ذرا سوچیے ! کہ پہلے نمازیں چھوڑنے ، روزے نہ رکھنے اور دیگر گناہوں کا انبار سرپر ہوتے ہوئے گناہوں کا پلندہ بسنت کے نام پر اپنے کندھوں پر رکھ لینا آپ کے خسارے میں اضافہ کرے گایا کمی ! یاد رکھیے ! دنیا اسی کی کامیاب ہے جو اپنے اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے اور آخرت میں بھی وہی کامیاب ہے جس نے اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرلیا ۔ ایک راستہ جنت کی طرف جاتا ہے اور دوسرا جہنم کو ، فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ کس راہ پر چلنا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:
Post a Comment