میدان کربلا کی شام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کربلا میں شام نے اپنے پر پھیلا دیئے۔ سور ج نے فرط خوف سے مغرب کی وادیوں میں اپنا منہ چھپالیا۔ آسمان کی آنکھیں خون کے آنسوؤں سے بھر گئیں۔ خاندان رسول ہاشمی کے ایک ایک فرد کو قتل کرنے کے بعد یزیدیوں کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا، انتقام کی آگ سرد نہ ہوئی، امام حسین اور ان کے جان نثار رفقا کے لاشوں پر گھوڑے دوڑنے لگے، گھوڑوں کی ٹاپ سے شہزادگان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نازک جسموں کو روند ڈالا۔ یہ نازک جسم پہلے ہی تیغ و تیر سے چھلنی ہوچکے تھے۔ پھر خانوادہ اہل بیت کے خیموں کو آگ لگا دی گئی۔ سکینہ طمانچے کھا چکی تو خیموں کا سامان بھی لوٹ لیا گیا۔ اپنے پیغمبر کے گھرانے کی برہنہ سر بیبیوں کو قیدی بنایا گیا۔ بیمار کربلا زین العابدین بھی قیدی بن گئے۔ شہیدان کربلا کے سروں کو کاٹ کر نیزوں پر چڑھا لیا گیا۔ اور اسیران کربلا کا قافلہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی قیادت میں شہیدوں کے سروں کے ساتھ کوفہ کی جانب روانہ ہوا۔ شام کے سائے کچھ اور بھی گہرے ہوگئے، بیبیوں کی برہنہ سروں کو رات نے اپنے سیاہ آنچل سے ڈھانپ دیا۔ ابھی اس قافلے کی قیادت بیمار کربلا حضرت زین العابدین کر رہے تھے۔ اس وقت ان کی عمر تیرہ چودہ برس کے قریب تھی۔ سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شہزادی زینب رضی اللہ عنہاخواتین کی دیکھ بھال کرتیں کہ کوئی بچہ قافلے سے بچھڑ نہ جائے، کسی بی بی کے سر سے دوپٹہ لڑھک نہ جائے ۔
( روضۃ الشھداء ، الصواعق المحرقہ ، اوراق غم ، سوانح کربلا وغیرہ )
ڈاکٹر فیض احمد چشتی
ہمارا فیس بک پیج
www.facebook.com/drfaizchishti
پوسٹ یا مضمون تلاش کریں
پڑھنے والوں کی تعداد
Followers
میرے باے میں
Dr Faiz Ahmad Chishti. Powered by Blogger.
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔