Monday 26 October 2015

وہ جن سے کچھ بھی نہیں چھپا ان مقدس آنکھوں کا دلربا تذکرہ

0 comments
وہ جن سے کچھ بھی نہیں چھپا ان مقدس آنکھوں کا دلربا تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انتہائی وجیہ، خوبصورت اورروشن چہرۂ اقدس عطا فرمایا تھا۔ اس چہرۂ انور کی رعنائی و زیبائی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت اور فراخ آنکھیں چار چاند لگا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھیں پُرکشش جاذبِ نظر اورحسن و زیبائی کا بے مثال مرقع تھیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم بیان کرتے ہیں کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھیں خوب سیاہ، کشادہ، خوب صورت اور پُرکشش تھیں۔
--------------------------------------------------------------------------
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

کان أدعج العينين.

’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں کشادہ اور سیاہ تھیں۔‘‘

1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 213
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 410
3. بيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 272
--------------------------------------------------------------------------
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی پلکیں گہری سیاہ، دراز اور گھنی تھیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

کان أهدب أشفار العينين.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی پلکیں نہایت دراز تھیں۔‘‘

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 414
2. مناوي، فيض القدير، 5 : 74
--------------------------------------------------------------------------
قافلۂ ہجرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پڑاؤ پر پہنچا تو وہ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر تصویرِ حیرت بن گئیں، حسنِ مصطفی کی منظر کشی کرتے ہوئے وہ فرماتی ہیں :

فی أشفاره وطف.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پلکیں دراز ہیں۔‘‘

1. حسان بن ثابت، ديوان : 58
2. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
4. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 279
5. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 179
6. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 279
7. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 23
--------------------------------------------------------------------------
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کے اندر پتلی مبارک نہایت سیاہ تھی، اُن میں کسی اور رنگ کی جھلک نہ تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

وکان أسود الحدقة.

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی پتلی نہایت ہی سیاہ تھی

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 412
2. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 16
3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 32
4. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125
--------------------------------------------------------------------------
پتلی کے علاوہ آنکھوں کا بقیہ حصہ سفید تھا مگر اُس میں سرخی ہم آمیز یعنی گھلی ہوئی نظر آتی تھی، یوں لگتا تھا کہ اس میں ہلکا سا سرخ رنگ کسی نے گھول کر ملا دیا ہے اور دیکھنے والے کو وہ سرخ ڈورے دکھائی دیتے تھے۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أشکل العينين.

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کے سفید حصے میں سرخ رنگ کے ڈورے دکھائی دیتے تھے

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 603، ابواب المناقب، رقم : 3647
2. مسلم، الصحيح، 2 : 258، کتاب الفضائل، رقم : 2339
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 199، رقم : 6288
--------------------------------------------------------------------------
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں قدرتی طور پرسرمگیں تھیں اور جو ان چشمانِ مقدسہ کو دیکھتا وہ یہ سمجھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی ابھی سرمے کی سلائی ڈال کر آئے ہیں۔

حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

کنتُ إذا نظرتُ إليه، قلتُ : أکحل العينين وليس بأکحل.

’’میں جب بھی آقا اکی چشمانِ مقدسہ کا نظارہ کرتا تو اُن میں سرمہ لگا ہونے کا گمان ہوتا حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت سرمہ نہ لگایا ہوتا۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 603، ابواب المناقب، رقم : 3645
2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 186
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 97
4. ابن جوزي، الوفا : 393
--------------------------------------------------------------------------
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن میں بھی جب نیند سے بیدار ہوتے تو سر کے بال اُلجھے ہوئے ہوتے نہ آنکھیں بوجھل ہوتیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خندہ بہ لب اور شگفتہ گلاب کی طرح تروتازہ ہوتے اور قدرتی طور پر آنکھیں سرمگیں ہوتیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہماسے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب نے فرمایا :

کان الصبيان يصبحون رُمصاً شعثا، و يصبح رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، دهيناً کحيلاً.

’’عام طور پر بچے جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو ان کی آنکھیں بوجھل اور سر کے بال الجھے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا۔‘‘

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 120
2. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 2 : 283
3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 141
4. حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 189
5. ملا علی قاری، جمع الوسائل، 1 : 31
--------------------------------------------------------------------------
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت آنکھیں بڑی حیادار تھیں۔ صحابہ رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی کی طرف آنکھ بھر کر تکتے ہوئے نہ دیکھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھیں غایت درجہ شرم و حیاء کی وجہ سے زمین کی طرف جھکی رہتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اکثر گوشۂ چشم سے دیکھنے کی عادت تھی، جب کبھی کسی طرف دیکھتے تو تھوڑی اوپر آنکھ اٹھاتے اور اسی سے دیکھ لیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ادائے محبوبانہ کا ذکر روایات میں یوں مذکور ہے :

خافض الطرف، نظره إلي الآرض آکثر من نظره إلي السماء.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی۔‘‘

1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 38، رقم : 8
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
3. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 32
4. سيوطی، الخصائص الکبريٰ، 1 : 130
--------------------------------------------------------------------------
گوشۂ چشم سے دیکھنا کمال شفقت و الفت کا انداز لئے ہوئے تھا جبکہ جھکی ہوئی نظریں بغایت درجہ شرم و حیاء پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کون عفت مآب اور حیا دار ہوسکتا تھا مگر جب کبھی اللہ رب العزت کا پیغام آتا اور نزولِ وحی کا وقت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک نظریں آسمان کی طرف اُٹھتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پلٹ پلٹ کر آسمان کی طرف نگاہ کرتے جیسے تبدیلیء قبلہ کا حکم نازل ہوا تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چہرۂ انور کو بار بار اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس کیفیت کو قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا :

قَدْ نَريٰ تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِي السَّمَآءِ.

القرآن، البقره، 2 : 144

’’ (اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
بصارتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیر معمولی کمال

اللہ رب العزت نے انسان کو کائناتِ خارجی کے مشاہدے کے لئے بصارت اور کائناتِ داخلی کے مشاہدے کے لئے بصیرت عطا فرمائی۔ مؤخر الذکر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کی بصیرت کہہ کر نورِ خدا قرار دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :

إتقوا فراسة المؤمن فإنه ينظر بنور اﷲ.

’’مردِ مومن کی فراست (اور بصیرت) سے ڈرا کرو کیونکہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 298، ابواب التفسير، رقم : 3127
2. بخاري، التاريخ الکبير، 7 : 354، رقم : 1529
3. قضاعي، مسند الشهاب، 1 : 387، رقم : 663
4. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 312، رقم : 3254
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 10 : 268
6. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 14 : 46
7. قرطبي، الجامع الاحکام القرآن، 10 : 43
8. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 326
9. ابونعيم، حلية الأولياء، 6 : 118
10. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 233

جب ایک مردِ مومن کی بصیرت کا یہ عالم ہے تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ رب العزت کے محبوب و مقرب بندے اور رسول ہیں ان کی بصیرت کی ہمہ گیر وسعتوں اور رفعتوں کا عالم کیا ہو گا اس کا اندازہ کرنا کسی بھی فردِ بشر کے بس کی بات نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باطنی بصیرت اور ظاہری بصارت دونوں خوبیاں بڑی فیاضی اور فراخدلی سے عطا کی گئیں۔ عام انسانوں کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پیچھے بھی دیکھنے پر قدرت رکھتے تھے اور رات کی تاریکی میں دیکھنا بھی آپ کے لئے ممکن تھا۔
--------------------------------------------------------------------------
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

هل ترون قبلتي هاهنا؟ فو اﷲ! ما يخفي عليّ خشو عکم و لا رکوعکم، إني لأرا کم من وراء ظهري.

’’تم میرا چہرہ قبلہ کی طرف دیکھتے ہو؟ خدا کی قسم! تمہارے خشوع (وخضوع) اور رکوع مجھ سے پوشیدہ نہیں، میں تم کو اپنے پیٹھ پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 1 : 161، کتاب المساجد، رقم : 408
2. مسلم، الصحيح، 1 : 319، کتاب الصلوة، رقم : 424
3. بيهقي، دلائل النبوه، 6 : 73
4. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 386
5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 104
6. ابن جوزي، الوفاء : 349، رقم : 508
--------------------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

أيها الناس! إني إمامکم فلا تسبقوني بالرکوع و لا بالسجود، ولا بالقيام ولا بالا نصراف فإني أراکم أمامي و من خلفي.

’’اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں، تم رکوع، سجود، قیام اور نماز ختم کرنے میں مجھ سے سبقت نہ کیا کرو، میں تمہیں اپنے سا منے اور پچھلی طرف (یکساں) دیکھتا ہوں۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 1 : 180، کتاب الصلوة، رقم : 426
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 125
3. ابن خزيمة، الصحيح، 3 : 107، رقم : 1716
--------------------------------------------------------------------------
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما بیان کرتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يري باليل في الظلمة کما يري بالنهار من الضوء.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کی تاریکی میں بھی اسی طرح دیکھتے تھے جیسے دن کی روشنی میں

1. بيهقي، دلائل النبوه، 6 : 75
2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 4 : 272
3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 104
4. حلبي، انسان العيون، 3 : 386
5. ابن جوزي، الوفا : 349، رقم : 510
--------------------------------------------------------------------------
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أني أرَي ما لا ترون.

میں وہ سب کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 556، ابواب الزهد، رقم : 2312
2. حاکم، المستدرک، 2 : 510
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 173
4. بزار، المسند، 9 : 358
5. طبراني، المعجم الاوسط، 9 : 58
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 52، رقم : 13115
7. شعب الايمان، 1 : 484، رقم : 783
8. ابن کثير، البدايه والنهايه 9، 1 : 42
9. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 113
--------------------------------------------------------------------------
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

إن اﷲ زوي لِيَ الأرض، فرأيتُ مشارقها و مغاربها.

بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے اس کے شرق و غرب کو دیکھا

1. مسلم، الصحيح، 4 : 2215، کتاب الفتن و اشراط الساعة، رقم : 2889
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 472، ابواب الفتن، رقم : 2176
3. ابوداؤد، السنن، 4 : 97، کتاب الفتن والملاحم، رقم : 4252
4. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 278، رقم : 22448
5. ابن حبان، الصحيح، 16 : 221، رقم : 7238
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 11 : 458، رقم : 11740
--------------------------------------------------------------------------
حضرت عمر صسے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

إن اﷲ قد رفع لي الدنيا، فأنا أنظر إليها و إلي ما هو کائن فيها إلي يوم القيامة، کأنما آنظر إلي کفي هذه.

بیشک اللہ نے میرے لئے دنیا اٹھا کر میرے سامنے کردی۔ پس میں دنیا میں جو واقع ہو رہا ہے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اُسے یوں دیکھ رہا ہوں جیسے میں اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں

1. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 287
2. نعيم بن حماد، السنن، 1 : 27
3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 2 : 185
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 7 : 204
--------------------------------------------------------------------------
حضرت عقبہ بن عامر صسے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

إن موعدکم الحوض، و إني لأنظر إليه من مقامي هذا.

بیشک (میرے ساتھ) تمہاری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اُسے یہاں اِس مقام سے دیکھ رہا ہوں

1. بخاري، الصحيح، 4 : 1486، کتاب المغازي، رقم : 3816
2. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 154
3. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 679
--------------------------------------------------------------------------
حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا

ما من شئي کنت لم آره إلا قد رأيته في مقامي هذا، حتي الجنة والنار.

کوئی ایسی شے نہیں جو میں نے نہیں دیکھی مگر اس مقام پر دیکھ لی یہاں تک کہ جنت و دوزخ (کو بھی)

1. بخاري، الصحيح، 1 : 79، کتاب الوضوء، رقم : 182
2. مسلم، الصحيح، 2 : 624، کتاب الکسوف، رقم : 905
3. ابن حبان، الصحيح، 7 : 383، رقم : 3114
4. ابوعوانه، المسند، 1 : 151
5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 338، رقم : 6153
--------------------------------------------------------------------------
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی بصارت کی گہرائی اور گیرائی کا یہ عالم تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو عرشِ معلٰی سے تحت الثریٰ تک ساری کائنات بے حجاب ہو کر نظر کے سامنے آجاتی۔ قرآن اس بات پر شاہد عادل ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کے لئے عرض کی کہ ’’رَبِّ آرِنِی (اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا)‘‘ تو باری تعالیٰ نے اپنی صفاتی تجلی کوہِ طور پر پھینکی جس کے نتیجے میں کوہِ طور جل کر خاکستر ہوگیا اور آپ علیہ السلام غش کھا کر گرگئے۔ یہ بے ہوشی کا عالم سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر 40 دن تک طاری رہا اور جب چالیس دن کی بیہوشی سے افاقہ ہوا تو اُس صفاتی تجلی کے انعکاس کی وجہ سے اُن کی بصارت کی دور بینی کا عالم یہ تھا کہ آپ تیس تیس میل کے فاصلے پر سے کالے رنگ کے پتھر میں سیاہ رات کے اندر چیونٹی کو آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھ لیتے تھے۔

قاضي عياض، الشفاء، 1 : 43
--------------------------------------------------------------------------
جب حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو اللہ تعالی کی صفاتی تجلی کے اِنعکاس سے اتنی بصارت مل سکتی ہے تو وہ ہستی جس نے تجلیاتِ الٰہیہ کا براہِ راست مشاہدہ کیا اُن کی چشمانِ مقدس کی بصارت کا کیا عالم ہوگا! شبِ معراج چشمانِ مصطفوی اللہ کی تجلیات کو نہ صرف دیکھتی رہیں بلکہ انہیں اپنے اندر جذب بھی کرتی رہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغيٰO

نہ نگاہ جھپکی نہ حد سے بڑھیo

القرآن، النجم، 53 : 17
--------------------------------------------------------------------------
حضور علیہ السلام نے خود فرمایا

رأيتُ ربي في آحسن صورة . . . فوضع يده بين کتفي فوجدتُ بردها بين يدي، فتجلّي لي کل شيء، و عَرَفْتُ.

میں نے اللہ رب العزت کو (اس کی شان کے مطابق) خوبصورت شکل میں دیکھا، اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا تو میں نے (اللہ کے دستِ قدرت کا فیض) ٹھنڈک (کی صورت میں) اپنے سینے کے اندر محسوس کیا جس کے بعد ہر شے میرے سامنے عیاں ہو گئی

ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 367، ابواب التفسير، رقم : 3234
--------------------------------------------------------------------------
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں

فعلمت مَا في السمٰوٰت والارضِ.

پس میں نے آسمانوں اور زمین کی ہر شے کو جان لیا

1. جامع الترمذي، 5 : 366، رقم : 3233
2. دارمي، السنن، 2 : 51، رقم : 2155
3. ابويعلي، المسند، 4 : 475، رقم : 2608
4. ابن عبدالبر، التمهيد، 24 : 323، رقم : 918
5. خطيب بغدادي، مشکوة المصابيح، 69 - 70

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔