Tuesday, 20 October 2015

جرات و شجاعت کی داستان حضرت سیدہ زینب کبریٰ رضی اللہ عنہا

جرات و شجاعت کی داستان حضرت سیدہ زینب کبریٰ رضی اللہ عنہا
محترم قارئینِ کرام : واقعہ کربلا کے بعد ۔ 11محرم الحرم کو شہداء کے بے گورو کفن لاشوں سے جدا ہو کر ۔ اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کا لُٹا ہوا ، اور غمزدہ قافلہ کوفہ کےلیے روانہ ہوا ، جو کہ اس صوبے کا دارالخلافہ تھا ۔ کربلا سے کوفہ تقریباً 70 کلو میٹر ہے ، یہ شہر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت 17 ہجری میں اس وقت بسایا گیا ، جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے مدائن فتح کیا ، آپ کو فوج کے قیام کےلیے ایک ایسی فوجی چھاٶنی کی ضرورت تھی ، جس کا صحرائی ماحول عرب کے مزاج سے موافق ہو ، یہ شہر بالعموم سیاسی انتشار اور معاشرتی خلفشار کی آماجگاہ رہا ، تاہم اس کی علمی مرکزیت بھی مسلم رہی ، اور حضرت عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ کے ’’دبستانِ حدیث‘‘ نے اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیے ۔ کوفے کی ’’مسجد حنانہ‘‘ میں اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے اس قافلے کو رات بسر کرنا تھی ، تاکہ دن کے اُجالے میں اس قافلے کو ’’دارالامارہ‘‘ یعنی گورنر ہاٶس میں ، ابن زیاد کے سامنے پیش کیا جا سکے ۔ یزیدی ہر کارے اور شاہی کارندے تختِ دمشق کی کامیابی کے نقّارے بجا رہے تھے ۔ اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی ان عظیم المرتبت شخصیات کو دربارِ کوفہ میں پیش کرنے کےلیے لے جایا جارہا تھا ، جن کی عظمت و سطوت کےلیے کبھی وحی نازل ہوتی تھی ، اس مظلوم قافلہ کی سالار حضرت سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا تھیں جن کی ولادت شعبان المعظم 5 ہجری بمطابق 626ء میں مدینہ المنورہ میں ہوئی ، آپ سیّدہ فاطمة الزہرہ سلام اللہ علیہا کی بڑی صاحبزادی تھی ، بوقتِ ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ سے باہر سفر پر تھے ، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واپس تشریف لائے تو حضرت علی المرتضیٰ نے بیٹی کانام تجویز کرنے کی درخواست کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے توقف فرمایا ۔ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے ، سلام کے بعد عرض کیا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، اس بچی کا نام’’ زینب‘‘ رکھ دیں ۔‘‘ اما م شعرانی نے مزید لکھا ہے کہ پھر حضرت جبرائیل نے مستقبل میں اس صاحبزادی کو پیش آنے والے مصائب سے آگاہ کیا ، جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آبدیدہ ہو گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری حج بمطابق 10ہجری ، جس وقت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی عمر مبارک 5 سال سے کچھ زیادہ تھی ، کو اپنے نانا جان کی رفاقت کی منفرد سعادت بھی حاصل ہوئی ۔ آپ سیّدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ الزہرہ سلام اللہ علیہا کی پاکیزہ اور اعلیٰ ترین آغوشِ تربیت کی پروردہ اور علم و حکمت ، دین و ادب ، شجاعت وسخاوت اور ایمان و ایقان کے پاکیزہ جواہر سے آراستہ تھیں ۔ مسجد حنانہ میں جہاں مخدرات اہل بیت نبوت سیّدہ کائنات کی سب سے بڑی اور جلیل القدر صاحبزادی کی سرکردگی میں ۔ اس مقام پر قیام فرما ہوئیں ، عالمِ تصورّات فقیر چودہ سو سال پیچھے چلا گیا کہ جب اسی کوفہ کو خلفیۃُ المسلمین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے دارالخلافہ بنایا اور یہاں مستقل قیام کا ارادہ فرمایا ، تو آپ رضی اللہ عنہ کی یہ بڑی صاحبزادی عقیلۂ بنی ہاشم سیّدہ زینب جب یہاں تشریف فرما ہورہی تھیں ، تو اُن کے استقبال کےلیے از خود حضرت علی المرتضیٰ شہر سے باہر استقبال کےلیے آئے تھے ، دنیا میں بیٹیوں کوعزت واکرام اور محبت و چاہت سے مشرف کرنے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ پیاری نواسی جس کو اپنے دونوں بھائیوں کی طرح اپنے نانا کی پشت پر سوار ہونے کا اعزاز میسر رہا اپنے والد کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کاقرار تھیں ۔ آپ کی اولو العزمی اوربلند ہمتی کے سبب ۔ ‘‘ام العزائم‘‘ کے لقب سے معروف اور اصابتِ رائے کے پیش نظر ’’شوریٰ‘‘ کا حصہ رہتی ، آپ کی امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ از حد محبت تھی ، کربلا کی خیمہ گاہوں میں بھی اس بہن کا خیمہ اپنے عظیم بھائی سے متصل تھا ، اور یوں باہمی مشاورت کا طویل سلسلے جاری رہتا ۔ بہر حال ۔ پھر ایسے حالات میں جبکہ بیٹی کی والدہ دنیا سے پردہ فرما گئی ہوں ۔ تو باپ اپنی بیٹیوں کےلیے لاڈ اور چاٶ کس طرح کرتے ہیں ؟ ہماری معاشرت بھی اس سے خوب آگاہ ہے ۔ فقیر کو کوفہ میں خلیفۃ المسلمین ، امیر المؤمنین کے اس مختصر سے گھر اور اس میں سیّدہ زینب رضی اللہ عنہما کے چھوٹے سے کمرے کی زیارت کا بھی شرف میسر آیا جس میں آپ نے 35 سے 40 ہجری کے دوران قیام فرمایا تھا ، یہ گھر مسجد کوفہ سے تقریباً 200 میٹر کے فاصلے پر ہے ، ’’بیتِ علی‘‘ اور مسجد کوفہ کے درمیان اسی ’’دارالامارہ‘‘ کوفہ کے کھنڈرات کے نشان اب بھی موجود ہیں ۔ جس کی وسیع و عریض عمارت تقریباً بیس ایکٹر پر محیط تھی ، اس عمارت کو حضرت سعد بن ابی وقاص نے عہد فاروقی میں بنوایا تھا ، یزیدی دورمیں یہ عمارت اہل بیت کرام کے خلاف ظلم و ستم کا مرکز رہی ۔ یہی پر امام عالی مقام کا سرِ اقدس ابن زیاد کے سامنے پیش ہوا ، پھر اسی مقام پر ابن زیاد کا سر ایک تھال میں رکھ کر مختار ثقفی کے سامنے پیش کیا گیا ، پھر مختار ثقفی کا سر اسی دارالامارہ میں مصعب بن عمیر کے سامنے پیش ہوا ، اسی جگہ مصعب بن عمیر ضی اللہ عنہ کا سر عبدالملک کے سامنے لایا گیا ۔ ابن عمیر لیثی نے سروں کی یہ داستانِ عبرت جب عبدالملک کو سنائی تو وہ خوف سے کانپ اُٹھا ، اس نے گورنر ہاٶس کو دوسری جگہ منتقل کرکے اس منحوس عمارت کو منہدم کرنے کا حکم دے دیا ۔ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی قدسی صفت ہستیاں قیدی بنا کر اسی گورنر ہاٶس میں ابن زیاد کے سامنے پیش ہوئیں ، اسی سفر میں مختلف مقامات پر ، سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے برجستہ ارشادات اور وقیع خطبات ، اس داستانِ عزیمت کا ایک مستقل باب ہیں ۔ آپ نے فرمایا : تم نے خلاصہ خانوادہ نبوت ، دین وشریعت کے منار اور نوجوانانِ جنت کے سردار کو قتل کیا…نامراد و! تم نے اپنے لیے کیسا راستہ منتخب کیا ، تم پر اللہ کا غضب اور عذاب ہو ۔ جانتے ہو تم نے جگر رسول کو پارہ پارہ کیا ، تم برے کام کے مرتکب ہوئے ہو، جس کی پاداش میں آسمان ٹوٹ پڑیں ، زمین پھٹ جائے ، پہاڑ پاش پاش ہو جائیں ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ آسمان تم پر خون کے آنسو روئے ؟ یقینا اُخروی عذاب سخت رسوا کرنے والا ہے اور وہاں تمہارا کوئی یارومدد گار نہ ہوگا ۔ اسی اندوہناک اور دلدوز واقعہ کے بعد جب اہل بیت کا یہ مظلوم قافلہ مدینہ منورہ پہنچا اور بار گاہِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوا تو ضبط کے بند ٹوٹ گئے ہوں گے ، لالہ و شیون سے مدینہ کے بام و در تھرا اُٹھے اور یقیناً سیّدہ زینب روضہ اقدس سے لپٹ گئی ہوں گی اور اپنی مظلومیت او ربے کسی کی فریاد پیش کی ہوگی ۔ ان حالات میں بھی سیّد ہ زینب کا مدینہ منورہ میں قیام تختِ دمشق اور شامی حکمرانوں کو گوارا نہ ہوا ۔ کیونکہ اس عظیم سانحہ اور دلدوز حادثہ پر پُرسہ دینے ، تعزیت کرنے والوں کا تانتا باندھا رہتا ، چنانچہ گورنر مدینہ نے پیغام بھیجا کہ آپ کا مدینہ میں مزید قیام حکمرانوں کو گوارا نہیں ۔ آپ مدینہ منورہ کے علاوہ کسی اور جگہ تشریف لے جائیں ۔ چنانچہ شعبان 61 ھجری کو آپ ایک بار پھر مدینہ سے روانہ ہوئیں ۔ لیکن اب کے بار آپ کا رُخ مصر کی طرف تھا اور تقریباً ایک سال کے مختصر قیام کے بعد ہی آپ 62 ھجری میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ، اقبال علیہ الرحمہ نے کہا تھا : ⬇

حدیثِ عشق دو باب است کربلا و دمشق
یک حسین رقم کرد دیگر زینب رضی اللہ عنہا

محترم قارٸینِ کرام : مختلف مسالک کی دنیا میں یہ ایک غلط مفروضہ قائم ہو چکا ہے کہ خانوادہ اہلبیت رضی اللہ عنہم اور خاص طور پر کربلا کے شہدا اور مقتدر شخصیات کے بارے میں سب سے زیادہ علم یا عشق و محبت کسی ایک مخصوص فرقے کو یا مسلک کو حاصل ہے ۔ فقیر چشتی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی اس میں کم ازکم میں نے اس فرق کو کبھی محسوس نہیں کیا ۔ محبت اور عشق دراصل ایک رویہ ہے لیکن اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ دنیا بھر میں عشق اور محبت کا ایک ہی رنگ اور ایک ہی ڈھنگ ہے ۔ انسانوں سے محبت سے قطع نظر اپنے رب سے بھی محبت کے کتنے ہی انداز ہیں اور فقیر کی نظر میں کوئی انداز بھی غلط نہیں ۔ یہی سوچ کر فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اپنی استطاعت اور علمی و دینی علوم کی کمی سے واقف ہونے کے باوجود کربلا کی اس شیر دل خاتون اور ثانیِ بنت رسول علیہم السلام پر قلم اٹھانے کی جرآت کی ہے جو صرف مسلم خواتین کےلیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی حْریت پسند خواتین کےلیے ایک مینارہ نور ہیں ۔

حضرت سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہما نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نواسی، مولا علی و حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالٰی عنہما کی شہزادی اور جنّتی نوجوانوں کے سردار حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما کی سگی بہن ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ ظاہری میں پیدا ہوئیں ، بڑی عقل مند ، دانا اور فراخ دِل تھیں ۔ (اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 146،چشتی)

زینبِ کبریٰ رضی اللہ عنہا آپ ہی کو کہا جاتا ہے ۔ (تاریخِ مدینہ دمشق جلد 69 صفحہ 174)

نکاح اور اولاد آپ کے والد حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بھتیجے حضرتِ سیّدنا عبدُاللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے آپ کا نِکاح کیا ، ان سے آپ کے ہاں چار  بیٹوں حضرت علی ، حضرت عون اکبر، حضرت عبّاس ، حضرت محمد اور ایک بیٹی حضرت اُمِّ کلثوم رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین کی وِلادت ہوئی ۔ (اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 146)

سیّدہ زینب بنتِ علی 5 جمادی الاوّل 5 ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوئیں ۔ آپ حضرت علی اور حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہم کی بیٹی اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نواسی تھیں ۔ زینب بنتِ علی تاریخِ اسلام کی اہم اور محترم شخصیت ہیں ۔ آپ کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رکھا تھا ۔ آپ کا نام دو الفاظ کا مجموعہ ہے زین کا مطلب زینت اور اب کا مطلب باپ یعنی زینب کے معنی باپ کی زینت ۔ آپ شکل و صورت میں حضرت علی رضی اللہ عنہم سے مشابہ تھیں ۔ آپ اسلام اور انسانیت کی تاریخ کا ایک روشن ستارہ ہیں ۔

القابات

تاریخی کتابوں میں آپ کے ذکر شدہ القابات کی تعداد 61 ہے ۔ ان میں سے کچھ مشہور القابات درج ذیل ہیں : ⬇

ثانی زہرا
صدیقہ صغریٰ
عقیلہ بنی ہاشم
محدثہ
نائبۃ الزہرا
فاضلہ
شریکتہ الحسین
نائبۃ الحسین
عالمہ غیر معلمہ

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا ایک فرد نہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے ہیں ۔ ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے دروبام کو روشن کئے ھوئے ہیں اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا ایسا پر چم لہراتا ہوا نظر آتا ہے کہ بی بی زینب کے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی وہ تمام عظمتیں اور پاکیز ہ رفعتیں سمٹ کر ایک مشعل راہ بن جاتیں ہیں ۔

عورتوں کی فطری ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور بنی آدم علیہ السلام کو حقیقت کی پاکیزہ راہ دکھانے میں جہاں مریم و آسیہ و ہاجرہ و خدیجہ و عاٸشہ اور طیبہ و طاہرہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہن جیسی عظیم شخصیات اپنے مقدس کردار کی روشنی میں ہمیشہ جبین تاریخ کی زینت بن کر نمونہ عمل ہیں وہاں جناب زینب سلام اللہ بھی اپنے عظیم باپ کی زینت بنکر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل ، سچ اور جھوٹ ، ایمان و کفر اور عدل و ظلم کے درمیان حد فاصل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں ۔

آغاز میں ہی ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں جو عام مسلمانوں نے شاید جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہ کی تینوں صاحبزادیوں کا نام زینب ہی تھا جو دراصل ‘‘زینِ اب‘‘ یعنی والد کی زینت اور فخر ہے ۔

کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبریٰ ہیں جو عقیلہ بنی ہاشم کہلاتی ہیں ۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا کی سرزمین پر وہ مقام حاصل کیا جس کی سرحدیں دائرہ امکان میں آنے والے ہر کمال سے آگے نکل گئیں اور حضرت زینب کی شخصیت تاریخ بشریت کی کردار ساز ہستیوں میں ایک عظیم اور منفرد مثال بن گئیں ۔

سیدہ زینب کی ولادت اور سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرشاری

حضرت زینب سلام اللہ علیہا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی بیٹی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نواسی تھیں۔ وہ 5 جمادی الاول 6 ھجری کو مدینہ میں پیدا ہوئیں ۔

سیدہ سلام اللہ علیہا کی پیدائش پر پورے مدینہ میں سرور و شادمانی کی لہر دوڑ گئی ۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں ان کی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی آغوش میں ایک چاند کا ٹکڑا اتر آیا تھا ۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر میں تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیٹی کو آغوش میں لیا ایک کان میں اذان اور ایک میں اقامت کہی اور دیر تک سینے سے لگائے ٹہلتے رہے ۔

حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے منتظر تھے تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی نواسی کا نام منتخب فرمائیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کا ہمیشہ سے یہ معمول تھا کہ جب بھی کہیں جاتے تو اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو سلام کرکے رخصت ہوتے تھے اور جب بھی کہیں سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے سیدہ سلام اللہ علیہا کو آکر سلام کرتے اور بیٹی سے ملاقات کے بعد کہیں اور جاتے تھے ۔ حسب معمول جیسے ہی سفر سے واپس تشریف لائے سب سے پہلے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر میں داخل ہوئے تو اہل خانہ نے نو مولود کی مبارک باد پیش کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھ کر سب تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا۔ روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا : خدا نے اس بچی کا نام " زینب " منتخب کیاہے ۔

زینب کے معنی ھیں باپ کی زینت جس طرح عربی زبان میں " زین " معنی زینت اور "اب"معنی باپ کے ہیں یعنی باپ کی زینت ہیں۔ حضور اقدس نے جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کو اپنے سینہ اقدس سے لگالیا اور اپنا رخسار مبارک زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کے رخسار مبارک پر رکھا تو آنکھوں میں آنسو آگئے کیونکہ آقا دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب سیدہ زینب پر آنے والے مصائب سے آگاہ تھے ۔

نشو و نماء

سیدہ زینب کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کاسایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں ۔

نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا ، عصمت کبریٰ فاطمہ زہراء نے انہیں ایسی فضیلتوں اور کمالات کے ساتھ پرورش فرمائی کہ جناب زینب تطہیر و تزکیہ نفس کی تصویر بن گئیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ حسنین کریمین نے انھیں بچپن ہی سے اپنی شفقت آمیز ہمّ عصری کا شرف بخشا جو زینب سلام اللہ علیہا کے پاکیزہ تربیت کی وہ پختہ بنیادیں بنیں جن سے اس مخدومہ اعلیٰ کا عہد طفولیت ایک روشن مثال بن گیا ۔

شعوری اور فکری تربیت

فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہ و حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا وجود تاریخ بشریت کا ایک غیرمعمولی کردار بن گیاہے کیونکہ اپنی بے مثل ذکاوت سے کام اور علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر وہ خود اخلاق و کمالات کی درخشاں قندیل بن گئیں ۔

جب بھی ہم جناب زینب سلام اللہ علیہا کی تاریخ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے معنوی کمالات کی تجلیاں، جو زندگی کے مختلف شعبوں پر محیط نظر آتی ہیں، آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہیں۔ چاہے وہ اپنی ماں کی آغوش میں ہنستی اور مسکراتی تین چار ماہ کی ایک معصوم بچی ہو۔ چاہے وہ کوفہ میں خلیفہ وقت کی بیٹی کی حیثیت سے خواتین اسلام کے درمیان اپنے علمی دروس کے ذریعہ علم و معرفت کے موتی نچھاور کرنے والی ہو یا کربلا کے خون آشام معرکے میں اپنے بھائی امام حسین کے ساتھ شریک و پشت پناہ ، فاتح کوفہ و شام ہو، ہرجگہ اور ہر منزل میں اپنے وجود اور اپنے زریں کردار و عمل کے لحاظ سے منفرد اور لاثانی نظر آتی ہے ۔

روایت کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا ابھی چار سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ ایک ضرورتمند کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے اپنے مہمان کے لئے کھانے کی فرمائش کی، انہوں نے عرض کی یا ابا الحسن ! اس وقت گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے صرف مختصر سی غذا ہے جو میں نے زینب سلام اللہ علیہا کے لئے رکھ چھوڑی ہے۔ یہ سن کر بیٹی زینب سلام اللہ علیہا نے مسکراتے ہوئے کہا : مادر گرامی، میرا کھانا بابا کے مہمان کو کھلا دیجئے، میں بعد میں کھالوں گی۔ یہ سن کر ماں نے بیٹی کو سینے سے لگالیا اور باپ کی آنکھوں میں مسرت و فرحت کی کرنیں بکھر گئیں اور فرمایا: ’’تم واقعتا زینب ہو‘‘۔

سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کو بھی بچپن میں ہی اپنے نانا محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سایہ رحمت اور پھر چند ہی ماہ بعد اپنی عظیم ماں کی مادرانہ شفقت سے محروم ہونا پڑا لیکن زمانے کے ان حادثوں نے مستقبل کے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لئے پانچ سالہ زینب کے حوصلوں کو اور زیادہ قوی و مستحکم کردیا ۔

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد تمام خانگی امور کے علاوہ خواتین اسلام کی تہذیب و تربیت کی ذمہ داریوں کو اس طرح اپنے کاندھوں پر سنبھال لیا کہ تاریخ آپ کو ’’ثانی زہراء‘‘ اور ’’عقیلہ بنی ہاشم‘‘ جیسے خطاب عطا کرنے پر مجبور ہوگئی ۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے نبوت و امامت کے بوستان علم و دانش سے معرفت و حکمت کے پھول اس طرح اپنے دامن میں سمیٹ لئے تھے کہ آپ نے احادیث کی روایت اور تفسیر قرآن کے لئے مدینہ اور اس کے بعد اپنے والد گرامی حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کے دور خلافت میں کوفہ کے اندر، با قاعدہ مدرسہ کھول رکھاتھا جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلامی علوم و معارف کی تعلیم حاصل کرتی تھی۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے زمانے کی عورتوں کے لئے تعلیم و تربیت کا ایک وسیع دسترخوان بچھا رکھا تھا جہاں بہت سی خواتین آئیں اور اعلی علمی و عملی مراتب پر فائز ہوئیں ۔

سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گزرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کا سایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں ۔
نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے انہیں علم و حکمت سے سیر کیا۔ عصمت کبریٰ سیّدۃ فاطمہ زہرا نے انہیں ایسی فضیلتوں اور کمالات کے ساتھ پرورش فرمائی کہ سیّدہ زینب تطہیر و تزکیہ نفس کی تصویر بن گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حسنین کریمین نے انہیں بچپن سے ہی اپنی شفقت آمیز ہم عصری کا شرف بخشا جو سیّدہ زینبؓ کی پاکیزہ تربیت کی وہ بنیادیں بنیں جن سے ان کا عہد ِ طفولیت ایک روشن مثال بن گیا ۔

حضرت علی کے بڑے بھائی حضرت جعفر طیار کے فرزند حضرت عبداللہ سے آپ کی شادی ہوئی ۔ حضرت عبداللہ بن جعفر طیار عرب کے مشہور جواد و کریم اورحضرت علی کے جان نثار تھے ۔ حضرت عبداللہ بن جعفر سے حضرت زینب رضی اللہ عنہم کی جو اولاد ہوئی ان کے نام یہ ہیں علی، عون، اکبر، عباس،اُمِ کلثوم، جعفر اکبر اور محمد ۔ جن میں سے عون اور محمد کربلا میں امام حسین کے ہمرا ہ شہید ہو گئے ۔

معرکۂ کربلا میں شرکت میدانِ کربلا میں آپ اپنے دو شہزادوں حضرت عون اور حضرت محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما کے ساتھ تشریف لائیں، دونوں شہزادوں نے دورانِ جنگ بہادری کے خوب جوہر دِکھائے، بالآخر ظالم یزیدیوں کو تہِ تیغ کرتے ہوئے شہادت کاجام نوش کر گئے ۔ (سوانح کربلا صفحہ نمبر 127،چشتی)

صبر و استقامت سے کام لیتے ہوئے رضائے الٰہی پر راضی رہنا انتہائی اعلیٰ صفات ہیں، صبر کرنے سے اللہ پاک کی خاص مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے، حضرت سیّدتنا بی بی زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کربلا کےقیامت نُما سانحہ میں اپنے بیٹے، بھتیجے حتّی کہ جان سے عزیز بھائی امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہم شہید ہوتے دیکھے لیکن اس کے باوجود ایک لمحے کےلیے بھی بےصبری کا مظاہرہ نہیں کیا اور آپ کے پائے استقامت میں ذرّہ برابر بھی لرزش نہیں آئی، گویا آپ صبر کا پہاڑ تھیں جنہیں درد و غم کا کوئی بھی طوفان ان کی جگہ سے ہٹا نہیں پایا ۔

گھر لُٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہلبیت
                                                                        (ذوقِ نعت صفحہ 73)

مشکل وقت میں ان پاک ہستیوں کے مصائب یاد کرنے سے بھی صبر کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک یزیدی نے کربلا کی ظاہری برتری کو اپنی فتح کی دلیل بناتے ہوئے طنز کا زہریلا تیر چلایا تو حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اسے منہ توڑ جواب دیا، پھر اللہ پاک کے انعامات پر یوں حمد بجا لائیں: تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے حضرت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے ہمیں عزّت بخشی اور ہمیں خوب ستھرا کیا۔(الکامل فی التاریخ،ج3،ص435،چشتی)

امامِ عالی مقام امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے دو روز بعد اسیرانِ کربلا کو کوفہ لے جایا گیا،کوفہ سے واپسی پر جب ان کا گزر میدانِ کربلا سے ہوا تو وہاں شہداء کے خون سے لَت پَت مبارک جسم دیکھ کر عزّت مآب خواتینِ اہلِ بیت کے دل بیتاب ہو گئے، دل کا درد ضبط نہ ہو سکا، حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اس موقع پر بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ پر آسمان کے فرشتوں کا درود ہو، دیکھئے! یہ حسین میدان میں لیٹے ہوئے ہیں، خون میں لَت پَت ہیں، ان کے اعضا ٹکڑے ٹکڑے ہیں، آپ کی بیٹیاں قید میں ہیں، آپ کی اولاد شہید کر دی گئی ہے اور ہوا ان پر خاک اُڑا رہی ہے۔(الکامل فی التاریخ،ج3،ص434)

اہلِ بیتِ اَطہار کی محبت کا دم بھرنے والو! مشکل گھڑی آن پڑے تو ان پاکیزہ نفوس کی پیروی میں آپ بھی بارگاہِ رسالت میں استغاثہ پیش کیا کیجئے، شرعاً  اس میں کوئی حرج نہیں  اور اللہ پاک چاہے تو اس کی برکت سے مشکلات بھی حل ہو جاتی ہیں۔

واللہ وہ سُن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے
اتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دِل سے
                                                                              (حدائقِ بخشش صفحہ 143)

واقعہ کربلا کے بعدحضرت زینب رضی اللہ عنہا دمشق میں اہلِ بیتؓ کے ساتھ رہیں۔ استقامت، جرأت،ایثار،جہاد اور حمایت ِ دین کا جو مظاہرہ آپؓ نے فرمایا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ان کا حضرت امام حسینؓ کے ساتھ مدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا تک کا سفر غیرمعمولی کارنامہ ہے ۔ دس (10) محرم الحرام کو امام حسینؓ کے شہید ہو جانے پر یتیموں، بیوائوں اور بچوں کی نگہبانی کی۔ جوانانِ اہل ِ بیتؓ کی دردناک شہادت پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ لٹے ہوئے قافلے کے اسیر ہو کر کوفہ جانے کے دوران سب کی حفاظت کرنا اور ہمت بندھانا، کوفہ میں ان کی لاجواب تقاریر، ابن ِ زیاد کی گستاخیوں کا جواب دینا، اس کے بعد شام کا سفر، شام کے بازار اور یزید ملعون کے دربار میں اپنی حقانیت کا اعلان کرنا، فصیح و بلیغ خطبے اور برجستہ جوابات، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت علیؓ خطبہ دے رہے ہیں، امام زین العابدین کو ابن ِ زیاد کے بے رحم ہاتھوں سے زندہ بچالانا آپ رضی اللہ عنہا کی زندگی کے اہم کارنامے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے حضرت حسین ابن علی کے مقصد میں بھر پور ساتھ دیا اور شریکتہ الحسین کہلائیں ۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا ایک بلند مقام سے جنگ دیکھ رہی تھیں جو آج بھی ’’ٹیلہ زینبیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو شہید کیا گیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے حضرت زین العابدینؓ کو اور باقی تمام عورتوں اور بچوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا۔ فوجِ یزید قتلِ عام کے بعد آگے بڑھی اور اہلِ بیت کے تمام خیموں کو آگ لگا دی۔ نواسیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تپتے ہوئے صحرا میں لٹے ہوئے قافلے کے ساتھ اکیلی رہ گئیں۔ تمام عورتوں اور بچوں کی ڈھارس بندھائی جبکہ اپنا سینہ دکھوں اور غموں سے نڈھال تھا ۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں : ⬇

حدیثِ عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسینؓ رقم کرد دیگرے زینب

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے شہادت پا کر کربلا میں تاریخ رقم کی اور پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کربلا سے دمشق تک کے سفر میں جابجا تقاریر کر کے اور تمام یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھ کر تاریخ رقم کی ۔

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلا کر شہید کرنے والوں کو حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بد دعا

شیعوں کا مشہور محقق ابو منصور احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی لکھتا ہے : ⬇

حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا عنہا کا خطبہ

حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اے کوفہ والو ! اے مکارو خیانت کارو ! اے بے غیرت لوگو ! خدا کرے تمھاری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب نہ رکے اور تمھارے نالوں کا سلسلہ ختم نہ ہو ۔ کیا تم میرے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کےلیے رو رہے ہو روؤ کہ تم اسی لائق ہو ، ہنسو کم روؤ زیادہ کہ تمہارے دامن پر ذلت کی گرد بیٹھ چکی ہے ، یہ بدنامی کا داغ تمہارے دامن پر ہمیشہ رہے گا اسے ہر گز نہ چھڑا سکو گے ۔ (احتجاج طبرسی جلد سوم و چہارم صفحہ نمبر 68 مترجم اردو مطبوعہ ادارہ تحفظِ حسینیت لاہور پاکستان،چشتی)،(صحیفہ کربلا صفحہ نمبر 388 علی نظر منفرد مترجم نثار احمد زین پوری)

حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا نے یہ بالکل صحیح نقشہ کھینچا ہے کوفہ والوں کا جن کا تعلق عبد ﷲ بن سبا سے تھا اور جو منافقت کر کے حضرت عثمان پھر حضرت علی رضی اللہ عنہما اور اب حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر گئے ۔ حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بد دعا کا آج بھی اثر دیکھا جا سکتا ہے ۔ ہر طرف آپ کو آج بھی وہ لوگ حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر روتے اور ماتم کرتے ہوئے نظر آئینگے ۔ دنیا میں انبیاء علیہم السّلام کو بھی شہید کیا گیا اور بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی جنگوں میں شہید ہوئے لیکن اسلام نے کسی کے لئے ماتم یا یا ہر سال نوحہ اور سینہ کوبیاں نہیں کیں ۔ بلکہ یہ سب کچھ حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کےلیے ان کوفی رافضیوں نے ایجاد کی جنہوں نے پہلے حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا بلایا اور پھربے وفائی اور غداری کر کے ان کو شہید کیا اور آخر میں اپنا جرم چھپانے کیلئے پہلے "توابین" بنے اور پھر بعد میں رونا پٹنا ایجاد کیا تاکہ کوئی ہم کو پہچان نہ لے ۔ رب کی قدرت دیکھئے کہ حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی زبان مبارکہ سے ہی ان منافقوں کی نشاندھی ہوگئی اور آج آپ پوری دنیا میں اِن حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو با آسانی پہچان سکتے ہیں ۔

آپ رضی اللہ عنہا کے دلیرانہ خطبات نے یزید کی ناپاک حکومت کے ستون ہلا کر رکھ دیے اور اس کو دین اور دنیا میں قیامت تک کےلیے ذلیل کر دیا ۔ یزید کی محفل میں جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی نظر اپنے بھائی امام عالی مقامؓ کے سر مبارک پر پڑی تو آپ رضی اللہ عنہا نے غمناک آواز میں فریاد کی جس سے تمام در باریوں کے دل دہل گئے۔ آپ ؓ نے فرمایا : ⬇

اے حسین ، اے محبوبِ خدا ، اے مکہ ومنیٰ کے بیٹے ، اے فاطمہ زہرا سیّدۃ النساء کے بیٹے ، اے محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی کے بیٹے !
راوی اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خدا کی قسم! بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی آواز سے تمام لوگ رونے لگے جو یزید ملعون کے دربار میں موجود تھے اور یزید اس طرح خاموش بیٹھا تھا گویا اسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔ یزید ملعون نے لکڑی لانے کا حکم دیا پھر یزید ملعون نے اس لکڑ ی کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے لبوں اور دندان مبارک پر لگایا ۔ ابو بردہ اسلمی (جو صحابیِ رسولؐ تھے) نے یزید ملعون کو مخاطب کر کے کہا ۔ اے یزید! کیا تو اس چھڑی کو فرزند ِفاطمہ رضی اللہ عنہا کے دندانِ مبارک پر مار رہا ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حسین رضی اللہ عنہٗ اور ان کے بھائی حسن رضی اللہ عنہٗ کے لبوں اور دندان مبارک کو بوسہ دیتے تھے اور فرماتے تھے تم دونوں جوانانِ جنت کے سردار ہو، جو تمہیں قتل کرے اسے خدا غارت کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لیے جہنم کو تیار کرے ۔ اور وہ بہت بُری جگہ ہے ۔ یزید ملعون غصے میں چیخنے لگا اور حکم دیا کہ ابو بردہ اسلمی رضی اللہ عنہ کو باہر نکال دو ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے رہا نہ گیا اور انہوں نے کھڑے ہو کر طویل خطبہ دیا اور فرمایا سب تعریفیں اس خدا کےلیے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ اہلِ بیت پر ۔ امابعد بلآخر ان لوگوں کا انجام بُرا ہے جنہوں نے اپنے دامنِ حیات کو بُرائیوں سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تخریب کی اور آیاتِ پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دیے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آل کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرخرو ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟ کیا ہم تیرے خیال میں مظلوم ہو کر ذلیل ہوگئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے ؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے ؟ آج اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سر مست ہے ۔ مسرت و شاد مانی سے سر شار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہاہے اور خلافت کے ہمارے مسلمہ حقوق کوغصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے، کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے ’’حق کا انکار کرنے والے یہ نہ سمجھیں کہ ہم جو انہیں مہلت دیتے ہیں یہ ان کے حق میں بھلائی ہے۔ ہم انہیں مہلت اس لیے دیتے ہیں کہ وہ گناہ میں زیادتی کریں اوران کے لیے خوار کرنے والا عذاب ہے ۔

آپ رضی اللہ عنہا نے مزید فرمایا :
اے یزید ! کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تونے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹھا رکھا ہے جبکہ رسولؐ زاد یوں کو سر برہنہ دربدر پھرا رہا ہے۔ تو نے عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہو اتیرے حکم پر رسولؐ زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا گیا۔
اے یزید یاد رکھ کہ خدا آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا اور خدا کافر مان ہے ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور انہیں ربّ کے ہاں سے رزق ملتا ہے ۔‘‘ افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہ تیغ کر ڈالا اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں اور صحرا کے بھیڑیے پاکبازشہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔ تو (یزید) جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ مگر تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تُو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔ تو یہ خیال اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہرسازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پالے گا۔ تو نے جس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بدنما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا۔ تیرا نظریہ نہایت کمزوراور گھٹیا ہے تیری حکومت کے گنتی کے چند دن باقی ہیں۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور تیرے پاس اس دن حسرت و پریشانی کے سوا کچھ نہیں بچے گا جب منادی ندا کرے گا کہ ظلم و ستم گر لوگوں کے لیے خدا کی لعنت ہے ۔ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کا خطبہ سن کر یزید سکتے میں آگیا اور اس کو خطرہ ہوا کہ کہیں لوگ خاندانِ رسالت کی حمایت میں میرے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس نے قافلے کو فوراً واپس مدینہ بھیجنا مناسب سمجھا اور حضرت نعمان بن بشیر انصاری کی زیرِ حفاظت قافلہ اہل ِ بیت کو مدینہ روانہ کیا ۔ واپس آ کر سیّدہ زینب رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبرمبارک پر تشریف لائیں تو یہ الفاظ زبان مبارک پر جاری ہو گئے : ⬇

اے میرے مقد س نانا جان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میں آپ کے فرزند اور اپنے بھائی حسین کی شہادت کی خبر لائی ہوں۔آپ کی اولاد کو رسیوں سے باندھ کر بے پردہ کوفہ اور دمشق کی گلیوں میں پھرایا گیا۔‘‘ پھر آپ اپنی والدہ محترمہ حضرت بی بی فاطمہ کی قبر پر تشریف لائیں اور کربلا کا تمام حال ایسے درد ناک الفاظ میں بیان کیا اوراتنی گریہ و زاری کی کہ پتھروں کا کلیجہ بھی چھلنی ہوجائے ۔

بے پناہ مصائب نے شہزادی زینب کے دل و جگرکے ٹکڑ ے کر دیئے تھے۔ مدینہ منورہ میں دل نہ لگا تو دمشق تشریف لے گئیں اور وہاں پہنچنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی 62 ھ میں انہوں نے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی اور یوں یتیمانِ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی سرپرست ، شہدائے کربلا کی یادگار اور دشمنوں کو عذابِ خدا سے ڈرانے والی بے مثال خطیبہ اپنے محبوب اور مظلوم بھائی سے جنت الفردوس میں جا ملیں ۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا جیسی جرأت ، حوصلہ اور عزم عطا فرمائے اور وہ تمام لوگ خاص کر خواتین جو مشکلات میں گھبرا کر گلہ گوئی شروع کر دیتی ہیں اور پریشانی کے عالم میں ناامید ہو کر توکل کا دامن چھوڑ دیتی ہیں ، ان سب کےلیے سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی شخصیت و کردار اور حیاتِ طیبہ میں رہنمائی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...