معاویہ اور ہمارا اللہ عز و جل ایک ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک ، قرآن ایک
امیر المؤمنین حضرت سیّدُنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب ہم شام کے لشکر کے ساتھ جمع ہوئے ان کا ہمارا اللہ عز و جل ایک ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک ، قرآن ایک اور نہ ہم ایمان میں تصدیق و اضافہ کے طلب گار تھے اور نہ وہ (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ) اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے ہمارا صرف ختلاف قصاص خون عثمان رضی اللہ عنہ میں تھا ۔ (نہج البلاغہ جلد نمبر 1 ، 4 صفحہ نمبر 114 ، مترجم شیعہ اردو صفحہ نمبر 600 ، 601،چشتی)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والو ان کے اور اپنے ایمان کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ایک قرار دے رہے ہیں اگر کہیں کسی بازار میں شرم و حیاء بکتی ہو تو خرید لو اور باز آجاؤ توہین امیر معاویہ رضی عنہ سے اور شرم کرو حیاء کرو وہ صحابی رسول ہیں ۔
نیچے ہم مکمل خطبہ بمعہ ترجمہ اہل تشیع پیش کر رہے ہیں پڑھیئے :
وإِنْ كُنْتُ مُسِيئاً اسْتَعْتَبَنِي
(۵۸)
ومن كتاب لهعليهالسلام
كتبه إلى أهل الأمصار ۔ يقص فيه ما جرى بينه وبين أهل صفين
وكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا والْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ - والظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ ونَبِيَّنَا وَاحِدٌ - ودَعْوَتَنَا فِي الإِسْلَامِ وَاحِدَةٌ - ولَا نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الإِيمَانِ بِاللَّه والتَّصْدِيقِ بِرَسُولِه - ولَا يَسْتَزِيدُونَنَا - الأَمْرُ وَاحِدٌ إِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِيه مِنْ دَمِ عُثْمَانَ - ونَحْنُ مِنْه بَرَاءٌ - فَقُلْنَا تَعَالَوْا نُدَاوِ مَا لَا يُدْرَكُ الْيَوْمَ - بِإِطْفَاءِ النَّائِرَةِ وتَسْكِينِ الْعَامَّةِ - حَتَّى يَشْتَدَّ الأَمْرُ ويَسْتَجْمِعَ - فَنَقْوَى عَلَى وَضْعِ الْحَقِّ مَوَاضِعَه - فَقَالُوا بَلْ نُدَاوِيه بِالْمُكَابَرَةِ - فَأَبَوْا حَتَّى جَنَحَتِ الْحَرْبُ ورَكَدَتْ - ووَقَدَتْ نِيرَانُهَا وحَمِشَتْ ۔
اورغلطی پر دیکھو تو مجھے رضا کے راستہ پر لگا دو (۶۳)
(۵۸)
آپ کامکتوب گرامی
تمام شہروں کے نام۔جس میں صفین کی حقیقت کااظہار کیا گیا ہے
ہمارے معاملہ کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب بظاہر(۱) دونو ں کاخدا ایک تھا۔رسول ایک تھا۔پیغام ایک تھا۔نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلب گار تھے ۔ نہ وہ اپنے ایمان کوبڑھانا چاہتے تھے۔معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان کے بارے میں تھا جس سے ہم بالکل بری تھے اورہم نے یہ حل پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہوسکتا ہے ' اس کاوقتی علاج یہ کیا جائے ہ آتش جنگ کو خاموش کردیاجائے اور لوگوں کے جذبات کوپرسکون بنادیا جائے۔اس کے بعد جب حکومت کو استحکام ہوجائے گا اورحالات ساز گار ہوجائیںگے تو ہم حق کو اس کی منزل تک لانے کی طاقت پیدا کرلیں گے ۔ لیکن قوم کا اصرار (۲) تھا ۔ کہ اس کا علاج صرف جنگ و جدال ہے۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ جنگ نے اپنے پائوںپھیلادئیے اورجم کر کھڑی ہوگئی ۔ شعلے بھڑک اٹھے اورٹھہرگئے اور قوم نے دیکھاکہ : فَلَمَّا ضَرَّسَتْنَا وإِيَّاهُمْ - ووَضَعَتْ مَخَالِبَهَا فِينَا وفِيهِمْ - أَجَابُوا عِنْدَ ذَلِكَ إِلَى الَّذِي دَعَوْنَاهُمْ إِلَيْه - فَأَجَبْنَاهُمْ إِلَى مَا دَعَوْا وسَارَعْنَاهُمْ إِلَى مَا طَلَبُوا - حَتَّى اسْتَبَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحُجَّةُ - وانْقَطَعَتْ مِنْهُمُ الْمَعْذِرَةُ - فَمَنْ تَمَّ عَلَى ذَلِكَ مِنْهُمْ - فَهُوَ الَّذِي أَنْقَذَه اللَّه مِنَ الْهَلَكَةِ - ومَنْ لَجَّ وتَمَادَى فَهُوَ الرَّاكِسُ - الَّذِي رَانَ اللَّه عَلَى قَلْبِه - وصَارَتْ دَائِرَةُ السَّوْءِ عَلَى رَأْسِه ۔(چشتی)
جنگ نے دونوں کودانت کاٹنا شروع کردیا اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پرآمادہ ہوگئے اورمیں نے بھی ان کیبات کو مان لیا اورتیزی سے بڑھ کران کے مطالبہ صلح کو قبول کرلیا یہاں تک کہ ان پرحجت واضح ہوگئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہوگیا۔اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا توگویا اپنے نفس کو ہلاکت سے نکال لیا ورنہ اس گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہوگا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے اور زمانہ کے حوادث اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment