Tuesday, 2 March 2021

حضرت معاویہ اور اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کی آپس میں محبت و تعلقات

 حضرت معاویہ اور اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کی آپس میں محبت و تعلقات


محترم قارئینِ کرام : دشمنان اسلام راویوں کی پوری کوشش رہی ہے کہ حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کو معاذ اللہ ایک دوسرے کا دشمن ثابت کیا جائے۔ کبھی وہ ان کی زبان سے ایک دوسرے پر لعنت کہلواتے ہیں، کبھی ایک دوسرے کو برا بھلا کہلواتے ہیں اور ان کے اسلام میں شک کرواتے ہیں۔ درحقیقت یہ ان کے اپنے جذبات ہیں جنہیں وہ زبردستی حضرت علی یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی زبان سے کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی تمام روایات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی سند میں کوئی نہ کوئی جھوٹا راوی جیسے ابو مخنف، ہشام کلبی، سیف بن عمر یا واقدی ضرور موجود ہو گا۔ یہاں ہم چند روایات اور کچھ نکات پیش کر رہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کی ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے تھی ؟

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ ایک بار حضرت عقیل رضی اللہ عنہ ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جی کھول کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا : ’’اے ابو یزید (عقیل) ! میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں ۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا : ’’امیر المومنین ! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی ۔ (ابن عساکر۔ 42/416،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے بعد جو خط شہروں میں بھیجا، اس میں فرمایا: ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم میں اور اہل شام میں مقابلہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اس معاملے میں نہ وہ ہم سے زیادہ تھے اور نہ ہم ان سے۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے۔( سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58)

ایک شخص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : اس بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھ لیجیے، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’امیر المومنین! آپ کی رائے، میرے نزدیک علی کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے۔ کیا آپ ان صاحب (علی) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم سے عزت بخشی ہے؟ آپ نے انہیں فرمایا تھا:’علی! آپ میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسیٰ کے نزدیک ہارون (علیہما الصلوۃ والسلام) کی تھی۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔( ابن عساکر۔ 42/170)

خوارج نے حضرت علی ، معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا: “میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا۔ ” آپ نے فرمایا: “بیان کرو۔” کہنے لگا: “آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا۔” آپ نے فرمایا: “کاش! تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے۔( طبری۔ 3/2-357)

جنگ صفین کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “لوگو! آپ لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کی گورنری کو ناپسند مت کریں۔ اگر آپ نے انہیں کھو دیا تو آپ دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے۔( ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ 14/38850)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : لَمَّا رَجَعَ عَلِيٌّ مِنْ صِفِّينَ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يَمْلِكُ أَبَدًا , فَتَكَلَّمَ بِأَشْيَاءَ كَانَ لَا يَتَكَلَّمُ بِهَا , وَحَدَّثَ بِأَحَادِيثَ كَانَ لَا يَتَحَدَّثُ بِهَا , فَقَالَ : فِيمَا يَقُولُ : " أَيُّهَا النَّاسُ , لَا تَكْرَهُوا إِمَارَةَ مُعَاوِيَةَ , وَاللَّهِ لَوْ قَدْ فَقَدْتُمُوهُ ! لَقَدْ رَأَيْتُمُ الرُّءُوسَ تَنْزُو مِنْ كَوَاهِلِهَا كَالْحَنْظَلِ ! " ۔(مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الْجَمَلِ » بَابُ مَا ذُكِرَ فِي صِفِّينَ ... رقم الحديث: 37151،چشتی)

یزید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صلح ہو گئی تو علی اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا: ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے۔‘‘ پھر معاویہ کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا: ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ کو معاف کر دیا جائے گا۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا۔( ابن عساکر۔ 59/139)

ان واقعات کو پڑھنے کے بعد کوئی ذی شعور بے سند اور لا یعنی بات نہیں کر سکتا ایک اور بات امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما ہم سے زیادہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ہیں جب انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ان سے سالانہ وظائف بهی قبول کرتے رہے تو ہمیں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کا کوئی حق نہیں. کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کسی کافر یا فاسق کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے. اب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید درپردہ سرداران نوجوانان جنت رضی اللہ عنہما پر تنقید ہے ۔

امیر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مقابلہ میں جنگ آزما ہونے کے بعد بھی ان کے تمام فضائل کے معترف تھے اورانہوں نے بارہا اوربرملا ان کا اعتراف کیا،جنگ صفین کی تیاریوں کے وقت جب ابو مسلم خولانی ان کو سمجھانے کے لئے گئے اور کہا معاویہ میں نے سنا ہے کہ تم علی سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہو، تم کو سبقت اسلام کا شرف حاصل نہیں ہے،پھر کس برتے پر اٹھو گے تو انہوں نے صاف صاف اعتراف کیا کہ مجھے اس کا دعویٰ نہیں ہے کہ میں فضل میں ان کے مثل ہوں، میں تو صرف قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو مانگتا ہوں، اپنی وفات کے کچھ دنوں پہلے انہوں نے مجمع عام میں جو تقریر کی تھی، اس کے الفاظ یہ تھے کہ میرے بعد آنے والا مجھ سے بہتر نہیں ہوگا، جیسا کہ میں اپنے پیش رو سے بہتر نہیں ہوں۔(ابن الاثیر:۴/۲،مطبوعہ یورپ)

وہ نہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ؛بلکہ خاندانی بنی ہاشم کے شرف و فضیلت کے معترف تھے،ایک مرتبہ ان سے پوچھا گیا کہ بنی امیہ اشرف ہیں یا بنی ہاشم، انہوں نے زمانہ جاہلیت کی پوری تاریخ دہرا کر دونوں کی فضیلت کا اعتراف کیا اورآخر میں کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی بعثت کے بعد بنی ہاشم کی فضیلت کو کون پہنچ سکتا ہے ۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۳۸)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی نظر میں

حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وفات (death) سے پہلے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ بیٹا معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت سے نفرت نہ کرنا- کیونکہ اگر تم نے ان کو ضائع کر دیا تو آپس میں کشت و خون دیکھو گے ۔ (تاریخ ابن کثیر ، جلد : 8 ص: 131، شرح نہج البلاغہ ابن ابی لحدید شیعی جلد: 3 ص: 836)
جب سبائیوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرکے خلافت ان کے سپرد کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ آپ نیزہ کے زخم کی تکلیف سے کراہ رہے تھے اور فرما رہے تھے : اللہ کی قسم میں معاویہ کو اپنے لیئے ان لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو اپنے آپ کو میرا پیروکار کہتے ہیں ________ انہوں نے میرے قتل (katal) کا ارادہ کیا ، میرا خیمہ لوٹا ، میرے مال پر قبضہ کیا ۔ (شیعہ کتب ، جلاء العیون، احتجاج طبرسی، ص:148، چشتی)
زخم مندمل ہوجانے کے فوراً بعد امیر المومنین حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مشورہ (advice) کے بعد فیصلہ کیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلینا ہی بہتر ہے - چنانچہ آپ نے ربیع الاول 41 ؁ھ کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر کے خلافت (khilafat) ان کے سپرد کر دی - اور یہ صلح ڈر کر یا دب کر نہیں کی _______ بلکہ آپ چاہتے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑ سکتے تھے ۔ آپ کے پاس چالیس ہزار فوج مرنے کو تیار تھی - مگر آپ نے مسلمانوں کو خونریزی سے بچانے کے لیے اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت (khilafat) کا صحیح اہل سمجھ کر صلح کی تھی ۔ (الاستیعاب لابن عبد البر جلد: 3ص: 298)

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے صلح کرنے سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی یہ پیشینگوئی پوری ہو گئی جو آپ نے اس وقت فرمائی تھی جب حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بچے تھے - کہ میرا یہ بیٹا سردار بیٹا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کروائے گا ۔ (بخاری، جلد:1ص: 530،چشتی)
انصاف آپ خود فرمائیں کہ نصف سلطنت خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے دی تھی اور باقی نصف بھی حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے صلح کر کے سپرد کردی ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خلافت (khilafat) کے اہل ، صحابی رسول ، صاحبِ سیادت و فراست اور مدبر تھے اور اس وقت ان سے بڑھ کر اور کوئی بھی اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی نظر میں

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو سبائیوں نے جو صلح کے مخالف تھے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو آمادہ کرنا چاہا کہ وہ بیعت ختم کر کے مقابلہ کریں - لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا اور فرمایا : ہم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی ، عہد کر لیا ہے ، اب ہمارا بیعت توڑنا ممکن نہیں ۔ (شیعہ کتب : اخبار الطوال، ص: 234، رجال کشی، ص: 102)
کتب تاریخ و سیر اس پر گواہ ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دونوں بھائی اکثر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جایا کرتے تھے - وہ دونوں کی بہت عزت و تکریم کرتے ، محبت و شفقت سے پیش آتے _ اور اپنے برابر تخت پر بٹھاتے - اور ایک ایک دن میں ان کو دو ، دو لاکھ درہم عطا کرتے ۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بدستور ان کی مجلس میں تشریف لے جایا کرتے اور وظائف اور عطایا حاصل کرتے ۔(البدایہ والنہایہ ، جلد: 8ص: 150)
آپ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حقیقی بھانجی آمنہ بنت میمونہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ اولیٰ تھیں _ اس لحاظ سے حضرت امام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے داماد تھے ۔ (طبری، جلد: 13ص: 19، چشتی)
اسی طرح حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ (sister) ام المومنین سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ محترمہ ہیں ___ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں ____ اس لحاظ سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تمام مومنوں کے ماموں (uncle) ہوئے ۔

شیعہ مولوی ملا باقر مجلسی کتاب جلاء العیون میں لکھتا ہے : حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ وصال کے وقت یزید کو یہ وصیت فرماگئے کہ امام حسین رضی ﷲ عنہ پس ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے ۔ تجھے معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بدن کے ٹکڑے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گوشت و خون سے انہوں نے پرورش پائی ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ عراق والے ان کو اپنی طرف بلائیں گے اور ان کی مدد نہ کریں گے ۔ تنہا چھوڑ دیں گے اگر ان پر قابو پالے تو ان کے حقوق کو پہچاننا ‘ ان کا مرتبہ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے اس کو یاد رکھنا ‘ خبردار ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا ۔ (جلاء العیون جلد دوم صفحہ نمبر 421,422)

ایک اور شیعہ عالم ناسخ التواریخ لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے مزید کو یہ وصیت فرمائی : کہ اے بیٹا! ہوس نہ کرنا اور خبردار جب ﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو تیری گردن میں حسین بن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کا خون نہ ہو ۔ ورنہ کبھی آسائش نہ دیکھے گا اور ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا ۔

محترم قارئینِ کرام : غور کیجئے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ ‘ یزید کو یہ وصیت کر رہے ہیں کہ ان کی تعظیم کرنا بوقت مصیبت ان کی مدد کرنا ۔ اب اگر یزید پلید اپنے والد کی وصیت پر عمل نہ کرے تو اس میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کا کیا قصور ؟

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے یزید پلید کو کافر لکھا ہے اور اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید پلید ‘ شرابی ‘ ظالم اور امام حسین رضی ﷲ عنہ کے خون کا ذمہ دار ہے ‘ لیکن اس کے بدلے میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بدنام کرنا یہ کون سی دیانت ہے ؟

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں

ایک شخص نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس بارے میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن حضرت ابی طالب سے پوچھ لیجیئے ، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں ۔ اس نے کہا : امیر المومنین آپ کی رائے ، میرے نزدیک علی (رضی اللہ عنہ) کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے ۔ کیا آپ ان صاحب (حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے علم سے عزت بخشی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا تھا : علی (رضی اللہ عنہ) آپ میرے لیئے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسی کے نزدیک ہارون (علیہما الصّلوۃ والسّلام) کی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ابن عساکر۔ 42/170،چشتی)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ ایک بار حضرت عقیل رضی اللہ عنہ ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جی کھول کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا : ’’اے ابو یزید (عقیل) ! میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں ۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا : ’’امیر المومنین ! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی ۔ (ابن عساکر۔ 42/416)

جب خارجیوں نے حضرت علی و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے قتل کا منصوبہ بنایا

خارج نے حضرت مولا علی ، حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا : "میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے ۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا ۔ " حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "بیان کرو ۔" کہنے لگا : " آج میرے بھائی نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا ہو گا ۔" حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "کاش تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے ۔ (تاریخ طبری ۔ 3/2-357،چشتی)

جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193،چشتی)

اہل تشیع کے بڑے عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید لکھتے ہیں : معاویہ دنیا میں پہلے شخص تھے جنہوں نے دس دس لاکھ درہم بطور عطیہ دیئے ۔ ان کا بیٹا یزید پہلا آدمی تھا جس نے ان عطیات کو دوگنا کیا ۔ حضرت علی کے دونوں بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو ہر سال دس دس لاکھ درہم دیئے جاتے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کو بھی دیئے جاتے ۔ (ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ)

جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھرپور عزت کرتے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو تحفے بھیجنا اتنی معروف بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس سے انکار نہیں ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں : معاویہ ہر سال حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے ۔ ( ابو مخنف۔ مقتل الحسین علیہ السلام۔ قم: مطبعہ امیر)

محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار

مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اہلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توہین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاہلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔

جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی ہے یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاوی رضویہ جلد 10 صفحہ 201 قدیم ایڈیشن)،(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ اور امام خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ یہ دونوں امام فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا (köpek) ہے - اور بد تر خبیث تبرائی روفضی ہے - ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121۔چشتی) (سنیوں کا لبادہ اوڑھے جہنمی کتوں کو پہچانیئے)
علامہ شہاب الدین خفا جی رحمہ ﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفا امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا : ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔
ترجمہ : جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم (cehennem) کے کتّوں سے ایک کُتا (köpek) ہے ۔
(نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)
جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا (köpek) ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کو خلافتِ راشدہ فرماتے ہیں ۔ (المفوظ ، جلد:3ص:71)

حضرت پیر نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اختلافی اُمور کے باوجود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دائرہ صحابیت سے خارج کرنا ، کافر ، مشرک ثابت کرنا نہ صرف گناہ عظیم بلکہ توہینِ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم ہے اور موجب کفر (küfr) ہے ۔ (نام و نسب باب نہم صفحہ نمبر 519 حضرت پیر نصیر الدین نصیر رحمۃُ اللہ علیہ)

محترم قارئینِ کرام : دشمنانِ صحابہ سبائی ٹولہ نے سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہمہ گیر پروپییگنڈہ کیا ہے کہ حقائق خرافات کے انبار میں دب کر رہ گئے ہیں اور مسلمان نسلاً بعد نسل اس شر انگیز پروپیگنڈے سے اس حد تک متاثر ہوتے چلے گئے ہیں کہ مدت سے نہ صرف عامۃ المسلمین بلکہ بہت سے خواص کے احساسات بھی حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے عظیم و جلیل القدر اور کاتبِ وحی صحابی کے بارے میں ویسے باقی نہیں رہ گئے جیسے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں عموماً پائے جاتے ہیں ۔
شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہی ایسا جذبات انگیز تھا کہ خانوادہ علی رضی اللہ عنہم سے گہری محبت رکھنے والی امتِ مسلمہ کو اس کی آڑ میں بہت آسانی سے غلط خیالات و آراء میں مبتلا کیا جا سکتا ہے اور کیا گیا ہے ، حالانکہ جذباتی و خیا لی بلند پروازیوں سے الگ ہو کر ٹھوس حقیقی بنیادوں پر علمی و عقلی گفتگو کی جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دامن مقدس اسی طرح داغِ طغیان و معصیت سے پاک ہے جس طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ۔

محترم قارئینِ کرام : چلیے ! بقول کسے ایک منٹ کے لیئے تسلیم کرلیتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے سیاسی طور پر اجتہادی خطا ہوئی مگر کیا ایک جلیلُ القدر صحابی کو چند سیاسی اجتہادی خطائیں اتنا پست و حقیر بنا سکتی ہیں کہ ہم جیسے حقیر و بے بضاعت اور گھٹیا لوگ بھی ان کی بے ادبی پر اُتر آئیں ۔ اُن کا احترام ہمارے دلوں سے اٹھ جائے اور ہم بلا تکلف انہیں جنگ و تفرقہ کا بانی ، باغی اور منافق (Münafık) کہہ گزریں ۔ کیا ستارہ سیاہ بدلی میں آجائے تو اتنا بے نور ہو جاتا ہے کہ تیل کے چراغ اس پر زبانِ طعن دراز کریں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آسمان دنیا پر چمکنے والے روشن ستارے ہیں صراط مستقیم پر چلنے والوں کے لئے ہدایت کا چرغ ہیں ۔
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اگر صحابی ہیں اور یقیناً ہیں اور آخر سانس تک دین اسلام پر ثابت قدم رہے تو ''اصحاب" کے دائرے سے انہیں کون نکال سکتا ہے ؟
ویسے بھی ہمارا اور آپ کا جج بن بیٹھنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عدالتِ خیال میں فریقین بنا کر لانا ایسی ناروا جسارت ہے کہ دُرّوں سے ہماری پیٹھ کُھرچ دینی چاہیے ۔ ہمیں کیا حق ہے کہ تقریباً چودہ سو برس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعض محترم اصحاب میں سے ایک کو بر سرِ حق اور ایک کو مجرم اور غلط ثابت کرنے بیٹھیں ۔ اور تاریخی واقعات کو صحیفۂ آسمانی تصور کرلیں ۔ چاہے ان کی بعض تفصیلات سے قرآن کا توثیق فرمودہ کردارِ صحابہ رضی اللہ عنہم مجروح ہوتا ہے ۔ ہمیں کچھ بھی حق نہیں سوائے اس کے کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے لیئے دلوں میں عقیدت او رحسنِ ظن پر ورش کریں اور ان کے ہر فعل و عمل کی اچھی توجہیہ نکالنے میں کوشاں رہیں ۔
محترم قارئینِ کرام : یقین کیجیے کہ ہماری اس تحریر کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ حضرت سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دامنِ صحابیّت سے ان چھینٹوں کو دھویا جائے جو دنیا (dünya) ناحق ان پر ڈالتی ہے ۔ ہماری نظر میں صحابیت عظمتِ پیغمبر کے حِصار کا درجہ رکھتی ہے ۔ نبوت کے قصر کی فصیلیں صحابیّت ہی کے رنگ و روغن سے زینت پاتی ہیں ۔ اکرامِ صحابیت کا طلائی حِصار اگر ٹوٹ جائے تو پیغمبر (peygamber) کی آبرو تک ہاتھ پہنچنا آسان ہوجاتا ہے ۔ پس جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرتے ہیں وہ در اصل امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آبرو اور ختم نبوت کے دشمن (düşman) ہیں - اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر بددیانتی اور خیانت کا الزام لگا کر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...