Sunday, 28 February 2021

واقعہ شقِ صدر حصّہ اوّل

 واقعہ شقِ صدر حصّہ اوّل


محترم قارئینِ کرام : معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انسانی عقول کو دنگ کردینے والا واقعہ ہے ، واقعاتِ معراج میں سے مِن جُملہ ایک واقعہ شقِّ صدر کا ہے ، اس کے معنی ہیں : ”سینے کا چاک کردینا ‘‘۔ جو لوگ معجزات کے قائل نہیں یا انہیں عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ، سرِدست ہمیں اُن سے سروکار نہیں ہے ۔

تو معنیٔ والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مدّوجزر ابھی چاند کا محتاج

آج بہت سے سائنسی حقائق ایسے ہیں کہ چند سو سال پہلے کوئی اُن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،لیکن آج انسان اُن سے مستفید ہورہے ہیں ،انہیں برت رہے ہیں اور کائناتِ بسیط کی وسعتوں کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں ۔

دیگر خارقِ عادت معجزات کی طرح سینے کا شق ہوجانا بھی عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ناقابلِ یقین معجزہ تھا ۔ کوئی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ سینہ چاک کیا جائے ،دل کو سینے سے باہر نکالا جائے ، زم زم سے دھوکردوبارہ سینے میں رکھ دیا جائے ، پھربھی انسان زندہ رہے ، خون بھی نہ بہے ،یہ طبّی اصولوں کے خلاف ہے ، مگر سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیاتِ مبارکہ میں اس کے بارے میں روایات موجود ہیں ،ان میں سے بعض صحیحین اوردیگر کتب احادیث میں موجود ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینے مبارک کو چاک کر کے آپ کے دل کو دھویا گیا یہ واقعہ روایات کی روشنی میں چار مرتبہ ہوا ہے ۔

(1) جب عمر مبارک دو سال کچھ ماہ تهى ۔

(2) جب عمر مبارک دس سال کچھ ماہ تهى ۔

(3) اظہارِ نبوت سے کچھ پہلے ۔

(4) واقعہ معراج پر جانے سے قبل حطیم میں ۔

دو سال کی عمر میں شق صدر

اس روایت کو صحیح مسلم نے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس وقت اپنی رضاعی والدہ کے ہاں مقیم تھے :
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً فَقَالَ هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْکَ ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَائِ زَمْزَمَ ثُمَّ لَأَمَهُ ثُمَّ أَعَادَهُ فِي مَکَانِهِ وَجَائَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَی أُمِّهِ يَعْنِي ظِئْرَهُ فَقَالُوا إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ قَالَ أَنَسٌ وَقَدْ کُنْتُ أَرْئِي أَثَرَ ذَلِکَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ ۔ (صحيح مسلم: ج1/ص147 ح162)(صحيح ابن حبان: ج14/ص249 ح6336)(صحيح ابن حبان: ج14/ص242 ح6334)(مسند أحمد: ج3/ص288 ح14101)(المستدرك على الصحيحين: ج2/ص575 ح3949)(مسند أبي يعلى: ج6/ص224 ح3507)(مسند أبي يعلى: ج6/ص108 ح3374)(مسند أحمد: ج3/ص149 ح12528)(مصنف ابن أبي شيبة: ج7/ص330 ح36557،چشتی)(مسند عبد بن حميد: ج1/ص:390، ح1308)

دس سال کی عمر میں شق صدر

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنه فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا کہ سب سے پہلے امور نبوت میں سے کیا امر ظاہر ہوا ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ میں دس سال کی عمر میں صحراء میں تھا کہ میں نے اوپر کی جانب سے ایک آواز سنی ، جب میں نے اوپر دیکھا تو دو لوگ تهے ۔۔۔۔۔۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شق صدر کا واقعہ بیان فرمایا : أنَّ أبا هريرَةَ كان حَرِيصًا على أنْ يسأَلَ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عن أشياءَ لَا يسْأَلُهُ عنها غيرُهُ فقال يا رسولَ اللهِ ما أوَّلُ ما رأيتَ من أمرِ النبوةِ فاستوى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم جالسًا وقال لقدْ سأَلْتُ أبا هريرَةَ إِنِّي لَفِي صَحْرَاءَ ابنُ عَشرِ سِنِينَ وَأَشهُرٍ وإذا بكلامٍ فوقَ رأْسِي وإذا برجلٍ يقولُ لرجلٍ أهوَ هوَ؟ قال نعمْ، فاستقْبَلاني بوجوهٍ لمْ أرَها لخلْقٍ قطُّ وأرواحٍ لم أجدْها مِنْ خَلْقٍ قَطُّ وثيابٍ لم أرَها علَى أحَدٍ قَطُّ فأقبَلَا إلَيَّ يَمْشِيانِ حتى أخذَ كُلُّ واحدٍ منهما بعضدُي لا أجِدُ لأخذِهِما مسًّا فقال أحدُهما لصاحبِه أضجَعَهُ فأضجَعَانِي بلا قَصْرٍ ولا هَصْرٍ فقالَ أحدُهما لصاحبِهِ افْلَقْ صدْرَهُ فهَوَى أحدُهما إلى صدْرِي فَفَلَقَها فيما أرى بلا دَمٍ ولَا وجَعٍ فقال له أخرجِ الغِلَّ والحسَدَ فأخرجَ شيئًا كهيئَةِ العلَقَةِ ثم نبذَها فطَرَحَها فقال له أدخِلِ الرحْمَةَ والرأْفَةَ فإذا مثْلُ الذي أخرجَ شبيهُ الفضةِ ثم هَزَّ إبهامَ رجْلِي اليُمْنَى فقالَ اغْدُ واسْلَمْ فرجِعْتُ بها أغدو بها رِقَّةَ على الصغيرِ ورحمةً علَى الكبيرِ ۔ (الراوي: أبي بن كعب. المحدث: الهيثمي. المصدر: مجمع الزوائد . خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات وثقهم ابن حبان . الراوي: أبي بن كعب . المحدث: البوصيري ۔ المصدر: إتحاف الخيرة المهرة . الصفحة أو الرقم: 7/15 ، خلاصة حكم المحدث : حسن)

نبوت کے وقت شق صدر

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غار حرا میں عبادت کی غرض سے تشریف لے جاتے تھے اور وہیں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سلام کے الفاظ سنے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ خیال ہوا کہ شاید یہ جنات کی آواز ہے ، لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ سلام تو خیر کیلئے ہوتا ہے ۔ اگلی مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جبرئیل علیہ السّلام کو اس حال میں دیکھا کہ ان کا ایک پر مشرق میں تھا اور دوسرا مغرب میں تیسری مرتبہ فرشتوں کی آمد ہوئی اور شق صدر کا واقعہ ہوا ۔
عن عائشة رضی اللہ عنھا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نذر ان یعتکف شھرا ہو وخدیجة بحراء فوافق ذلک شھر رمضان، فخرج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ذات لیلة، فسمع السلام علیک فظننتھا فجاءة الجن، فجئت مسرعا حتی دخلت علی خدیجة سجتنی ثوبا وقالت: ما شانک یا ابن عبداللہ؟ فقلت: سمعت السلام علیک فظننتھا فجاءة الجن، فقالت: ابشر یا ابن عبداللہ فان السلام خیر، قال: ثم خرجت مرة اخری فاذا بجبرئیل علی الشمس جناح له بالمشرق وجناح له بالمغرب، قال فھبت منه فجئت مسرعا فاذا ہو بینی وبین الباب فکلمنی حتی انست به ثم وعدنی موعدا، فجئت له فابطا علی فاردت ان ارجع فاذا انا به ومیکائیل قد سد الافق فهبط جبرئیل وبقی میکائیل بین السماء والارض، فاخذنی جبرئیل فاستلقانی لحلاوة القفاء ثم شق عن قلبی فاستخرجه ثم استخرج منه ماشاء اللہ ان یخرج، ثم غسله بطست من ذھب بماء زمزم ثم اعادہ بمکانه ثم لأمه ثم اکفانی کما یکفا الادیم ثم ختم فی ظهري حتی وجدت مس الخاتم فی قلبی ، وھذا الحدیث فیه مقال ظاھر، لان الحارث وشیخه ضعیفان، لکن رواہ الطیالسی ص : ٢١٦) عن حماد بن سلمة عن ابی عمران الجونی عن رجل عن عائشة رضی اللہ عنھا، وله شاھد من حدیث ابی ذر…اخرجه الدارمی (ص: ٦) الی قوله “من کفة المیزان”.وابن جریر الطبری فی تاریخه (٢٠٩/٤(والبزار فی مسندہ.والعقیلی فی الضعفاء (اسنادہ فی “المیزان” فی ترجمة جعفر بن عبداللہ(.وابونعیم (ص: ٧١، ص: ١٧٦ جدید)

يا أبا ذرٍّ! أتاني ملَكانِ و أنا ببعضِ بَطْحَاءَ مكةَ، فوقع أحدُهما على الأرضِ و كان الآخَرُ بين السماءِ و الأرضِ، فقال أحدُهما لصاحبِه: أهُوَ هو؟ قال: نعم، قال: فَزِنْه برجلٍ فوُزِنتُ به، فوزَنتُه، ثم قال: فزِنْه بعشرةٍ، فوُزِنتُ بهم، فرجَحتُهم، ثم قال: زِنْه بمائةٍ فوُزِنتُ بهم، فرجَحتُهم، ثم قال: زِنْه بألفٍ فوُزِنتُ بهم، فرجحتُهم كأني أنظرُ إليهم ينتَثِرون عليَّ من خِفَّةِ الميزانِ، قال: فقال أحدُهما لصاحبِه: لو وَزَنتَه بأُمَّةٍ لرجَحها . (الراوي: أبو ذر الغفاري.المحدث: الألباني. المصدر: السلسلة الصحيحة.الصفحة أو الرقم: 2529 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد، رجاله ثقات،چشتی)

معراج کے موقعہ پر شق صدر

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گھر سے حطیم لایا گیا اور وہاں پر آپ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے زم زم کے پانی سے دہویا گیا ۔

بينا أنا عند البيتِ بين النائمِ واليقظانِ -وذكر: يعني رجلاً بين الرجلين- فأُتيتُ بطستٍ من ذهبٍ، مُلِئَ حكمةً وإيمانًا، فشُقَّ من النحرِ إلى مَراقِّ البطنِ، ثم غُسِلَ البطنُ بماءِ زمزمَ، ثم مُلِئَ حكمةً وإيمانًا، وأُتيتُ بدابَّةٍ أبيضَ دون البغلِ وفوقَ الحمارِ: البُراقُ . (الراوي: مالك بن صعصعة الأنصاري . المحدث: البخاري . المصدر: صحيح البخاري . الصفحة أو الرقم: 3207
– خلاصة حكم المحدث: صحيح)

صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ایک طول حدیث مبارکہ جس میں واقعہ معراج کے احوال بیان کیے گئے ہیں ، اسی حدیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے شق صدر کا بیان ہے ۔ اختصار کی خاطر ہم اس حدیث مبارکہ سے اس موضوع سے متعلقہ حصہ پیش کر رہے ہیں : لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم مِنْ مَسْجِدِ الكَعْبَةِ، أَنَّهُ جَاءَهُ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي المَسْجِدِ الحَرَامِ، فَقَالَ أَوَّلُهُمْ: أَيُّهُمْ هُوَ؟ فَقَالَ أَوْسَطُهُمْ: هُوَ خَيْرُهُمْ، فَقَالَ آخِرُهُمْ: خُذُوا خَيْرَهُمْ، فَكَانَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَى، فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ، وَتَنَامُ عَيْنُهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ، وَكَذَلِكَ الأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلاَ تَنَامُ قُلُوبُهُمْ، فَلَمْ يُكَلِّمُوهُ حَتَّى احْتَمَلُوهُ، فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَمَ، فَتَوَلَّاهُ مِنْهُمْ جِبْرِيلُ، فَشَقَّ جِبْرِيلُ مَا بَيْنَ نَحْرِهِ إِلَى لَبَّتِهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَدْرِهِ وَجَوْفِهِ، فَغَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ بِيَدِهِ، حَتَّى أَنْقَى جَوْفَهُ، ثُمَّ أُتِيَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ تَوْرٌ مِنْ ذَهَبٍ، مَحْشُوًّا إِيمَانًا وَحِكْمَةً، فَحَشَا بِهِ صَدْرَهُ وَلَغَادِيدَهُ يَعْنِي عُرُوقَ حَلْقِهِ، ثُمَّ أَطْبَقَهُ ۔
ترجمہ : جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو خانہ کعبہ سے معراج کروائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی طرف وحی آنے سے پہلے تین افراد حاضر بارگاہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مسجد حرام میں اآرام فرما تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ کون سے ہیں ؟ درمیان والے نے کہا کہ وہ ان میں سب سے بہتر ہیں۔ آخری نے کہا کہ ان کے بہترين فرد کو لے لو۔ اس رات یہی کچھ ہوا، یہاں تک کہ وہ دوسری رات آئے ، کیفیت یہ تھی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا) دل ان کو دیکھ رہا تھا اور آنکھیں سو رہی تھیں اور آپ کا دل نہیں سو رہا تھا اور اسی طرح تمام انبیائے کرام کی آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل نہیں سوتا تھا۔ ان فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے کوئی بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ آپ کو اٹھا کر چاہ زمزم کے پاس لے گئے اور آپ کو وہاں رکھ دیا۔ ان میں سے جبرئیل علیہ السلام نے یہ کام سنبھالا کہ گلے سے دل کے نیچے تک سینہ مبارک کو چاک کر دیا، یہاں تک کہ سینہ مبارک اور شکم اطہر کو خالی کر دیا، پھر اپنے ہاتھ سے آب زمزم کے ساتھ اسے دھویا، یہاں تک کہ شکم مبارک کو صاف کر دیا، پھر سونے کا ایک طشت لایا گیا اس میں سنہری نور تھا جو ایمان و حکمت سے بھر اہوا تھا اور اس کے ساتھ سینہ مبارک اور حلق کی رگوں کو بھر دیا ار پھر برابر کر دیا اور پھر آپ کو حسب سابق کر دیا ۔ (بخاري، الصحيح، كتاب التوحيد، باب قوله (وكلم الله موسى تكليما)، 6: 2730، رقم: 7079، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة،چشتی)

مشکواۃ شریف میں روایت ہے : عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أتاه جبريل وهو يلعب مع الغلمان فأخذه فصرعه فشق عن قلبه فاستخرج منه علقة . فقال : هذا حظ الشيطان منك ثم غسله في طست من ذهب بماء زمزم ثم لأمه وأعاده في مكانه وجاء الغلمان يسعون إلى أمه يعني ظئره . فقالوا : إن محمدا قد قتل فاستقبلوه وهو منتقع اللون قال أنس : فكنت أرى أثر المخيط في صدره . رواه مسلم ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم (اپنے بچپن میں جب دایہ حلیمہ کے پاس تھے تو اس کا واقعہ ہے کہ (ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو پکڑ کر چت لٹا دیا، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے (سینہ کو ) دل کے قریب سے چاک کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے دل میں سے بستہ خون کا ایک سیاہ ٹکڑا نکال لیا کہ یہ تمہارے جسم کے اندر شیطان کا حصہ ہے (اگر یہ ٹکڑا تمہارے جسم میں یوں ہی رہنے دیا جاتا تو شیطان کو اس کے ذریعہ تم پر قابو پانے کا موقع ملتا رہتا ) اس کے بعد انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے دل کو ایک سونے کی لگن میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر دل کو اس کی جگہ میں رکھ کرسینہ مبارک کو اوپر سے برابر کردیا ۔ (وہ) بچے (جو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ تھے یہ پورا منظر دیکھ کر گھبرا گئے اور ) بھاگے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّمکی دایہ (حلیمہ ) کے پاس آئے اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو مار ڈالا گیا ہے (دایہ حلیمہ کے گھر اور پڑوس کے ) لوگ (یہ سنتے ہی) اس جگہ پہنچے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم موجود تھے ، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح سالم دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو اس حال میں پایا کہ خوف ودہشت سے ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم (کے چہرہ ) کا رنگ بدلا ہوا تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یہ روایت بیان کرکے ) کہتے ہیں کہ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سینہ مبارک پر سلائی کا نشان دیکھا کرتا تھا ۔ (مسلم) ۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبوت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 434)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ علیہ مدارج النبوت میں لکھتے ہیں : ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم چراگاہ میں تھے کہ ایک دم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک فرزند “ضمرہ” دوڑتے اور ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے گھر پر آئے اور اپنی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اماں جان! بڑا غضب ہو گیا، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو تین آدمیوں نے جو بہت ہی سفید لباس پہنے ہوئے تھے، چت لٹا کر ان کا شکم پھاڑ ڈالا ہے اور میں اسی حال میں ان کو چھوڑ کر بھاگا ہوا آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے شوہر دونوں بدحواس ہو کر گھبرائے ہوئے دوڑ کر جنگل میں پہنچے تو یہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مگر خوف و ہراس سے چہرہ زرد اور اداس ہے، حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پیار سے چمکار کر پوچھا کہ بیٹا ! کیا بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ تین شخص جن کے کپڑے بہت ہی سفیداور صاف ستھرے تھے میرے پاس آئے اور مجھ کو چت لٹا کر میرا شکم چاک کرکے اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور پھر کوئی چیز میرے شکم میں ڈال کر شگاف کو سی دیا لیکن مجھے ذرہ برابر بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی ۔ (مدارج النبوة جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 21،چشتی)

یہ واقعہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے شوہر دونوں بے حد گھبرائے اور شوہر نے کہا کہ حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے ڈر ہے کہ ان کے اوپر شاید کچھ آسیب کا اثر ہے لہٰذا بہت جلد تم ان کو ان کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ۔ اس کے بعد حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں کیونکہ انہیں اس واقعہ سے یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اب ہم کماحقہ ان کی حفاظت نہ کر سکیں گے ۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب مکہ معظمہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ حلیمہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم تو بڑی خواہش اور چاہ کے ساتھ میرے بچے کو اپنے گھر لے گئی تھیں پھر اس قدر جلد واپس لے آنے کی وجہ کیا ہے ؟ جب حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شکم چاک کرنے کا واقعہ بیان کیا اور آسیب کا شبہ ظاہر کیا تو حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہر گز نہیں ، خدا کی قسم ! میرے نور نظر پر ہرگز ہرگز کبھی بھی کسی جن یا شیطان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا ۔ میرے بیٹے کی بڑی شان ہے ۔ پھر ایام حمل اور وقت ولادت کے حیرت انگیز واقعات سنا کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مطمئن کر دیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو آپ کی والدہ ماجدہ کے سپرد کر کے اپنے گاؤں میں واپس چلی آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی والدہ ماجدہ کی آغوشِ تربیت میں پرورش پانے لگے ۔ (مزید حصّہ دوم میں پڑھیں ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...