میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے چاند کو دو ٹکڑے کیا
محترم قارئینِ کرام : "شق القمر" نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا بڑا معجزہ ھونے کا دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار قریش کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس "شق القمر"کی تجویز پیش کرنے کی علت یہ تھی کہ، وہ کہتے تھے کہ جادو زمین کے امور میں موثر ہوتا ہے، اور ہم اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات جادو نہیں ہیں ۔
تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے انگلی سے چاند کو اشارہ فرمایا ، اور چاند آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی فرمانبرداری میں 2 ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا ، یہ واقعہ قران اور احادیث میں کچھ اس طرح موجود ہے ۔
قران کریم کی آیات : اِ قْتَرَ بَتِ السَّا عَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ 0 وَ اِنْ یَّرَ وْ ا اٰ یَةً یُّعْرِ ضُوْ ا وَ یَقُوْ لُوْ ا سِحْرُ مُّسْتَمِرُّ 0 وَ کَذَّ بُوْا وَ اتَّبَعُوْا اَھْوَآ ءَ ھُمْ وَ کُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرُّ 0)قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا .یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے۔” ( القمر، 1-3)
اس معجزہ کا انکار ابوجہل سمیت مشرکین مکہ کے ساتھ ساتھ دور حاضر کے فتنۂ قادیانی نے جہاں کیا ، وہاں اسی جگہ شان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے بیزار (فتنہ غیر مقلدین نجدی کے پیروکار) بھی کچھ پیچھے نہ رہے ، جو میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی نورانیت ، اور علم غیب، اور سماعت نزدیک و بعید پر سوالات کی بوچھاڑ کر کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی شخصیت مطہرہ پر ہی اعتراضات اٹھانے والے ہیں، انہوں نے ان آیات کے بھی تراجم اور تفاسیر میں ایسے حیلے بہانوں سے کام لیا، کہ کہیں سے بھی "معجزہ کا سارا تقدس اور حسن ہی ختم ہو جاۓ" اور نہایت چالاکی کے ساتھ بے بہا تفاسیر کے ذریعے ایت کی اصل صورت اور اس کا حسن مکمل ہی مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی گئ، اور لکھا کہ آیہ شریفہ میں جو "اشارہ" ہے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا، وہ اصل میں قیا مت کے دن طبیعی عالم کے تباہ ہونے کے وقت رونما ہونے کی خبر ہے، نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ذریعہ چاند کے دوٹکڑے ہونے کے بارے میں ۔
سو قران پاک جہاں جہاں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ، اور اپنے قاری سے فرماتا ہے ، کہ عقل والوں کیلیۓ اس میں نشانیاں ہے ، تو ہم پورے ہوش و حواس کے ساتھ جب ان آیات کریمہ پر غور کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے، کہ: مذکورہ آیت کے بعد والی ایت میں ذکر ہے کہ:(وان یروا آیة یعرضوا ویقولوا سحر مستمر)(قمر٢) یعنی : '' اور یہ کوئی بھی نشان دیکھتے ہیں تومنہ پھیر تے ہیں اور کہتے ہیں یہ مسلسل جادو ہے ''واضح رہے کہ اگر آیہ شریفہ سے مراد وہی قیامت کے دن کی بربادی ہوتی تو مشرکین کے اعتراض اور اس معجزہ کو سحر کی طرف نسبت دینا معنی ہی نہیں رکھتا۔ خیر اس کا تعلق عقل سے ہے ، جس سے منکرین بالکل فارغ ہے، بلکہ اگر یہ کہوں تو بالکل بھی کچھ غلط نہ ہو گا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عداوت میں اندھے ہو چکے ہیں، جنہیں کچھ اور کیا نظر آنا ، قران بھی نظر نہیں آتا ۔
احادیث میں بھی اس واقعے کا کچھ یوں بیان ملتا ہے
حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے چاند کے دو ٹکڑے کر کے دیکھائے اور فرمایا گواہ رہنا۔(صحیح بخاری مترجم اردو جلد دوم صفحہ 593 ، 594،چشتی)
مسند احمد ، اور بخاری، مسلم، ترمذی ، اور تفسیر ابن کثیر میں کچھ تھوڑے مختلف الفاظ کے ساتھ متواتر روایتوں سے یہ واقعہ ثابت ہے کہ : شعب ابی طالب میں محصوری کے دن گذر رہے تھے ، اور محصورین صرف ایام حج میں ہی شعب سے باہر نکل سکتے تھے، مقاطعہ کا دوسرا سال تھا اور حج کے دن تھے، پیارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مِنیٰ میں تھے ، آسمان پر چاند بھی پورا تھا، جب ابوجہل ، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل وغیرہ کفار نے جمع ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں یہ سوال اٹھایا کہ اگر تم سچے ہو تو چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھاؤ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ اگر میں ایسا کردوں تو کیا تم ایمان لاؤگے، سب نے کہا ہاں، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی اور چاند کی طرف انگلی سے اشارہ کیا تو چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے، ایک کوہِ حرا کے اوپر اور دوسرا اس کے دامن میں تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : گواہ رہو، گواہ رہو ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کافر کو نام لے لے کر پکارا اور کہا اے فلاں گواہ رہنا اے فلاں گواہ رہنا، سب لوگوں نے چاند کے ٹکڑے اچھی طرح دیکھ لیے دو ٹکڑے ایک دوسرے سے اتنی دوری پر ہوگئے تھے، کہ بیچ میں ہرا پہاڑ نظر آرہا تھا، لیکن کافروں نے اس پر کہا کہ یہ تو جادو ہے، ابوجہل نے کہا ہم اس معاملہ کی مزید تحقیق کریں گے اگر یہ جادو ہوگا تو صرف ہم لوگوں پر ہی ہوسکتا ہے جو لوگ یہاں موجود نہیں ہیں دوسرے شہروں اور ملکوں میں ہیں ان پر تو جادو نہیں ہوسکتا ،اس لیے باہر سے جولوگ آئیں ا ن سےمعاملہ کی تحقیق کرنی چاہیے؛چنانچہ دور دراز کےلوگ جب آۓ، اور ان سے جب چاند کے دو ٹکرے ہونے کا حال پوچھا جاتا تو وہ سب اقرار کرتے کہ ہاں ہم نے بھی چاند کے دوٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہ میں حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود ، حضرت حُذیفہ،اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہما اس کے عینی شاہد ہیں، جو موقعہ پر موجود تھے، اور یہ معجزہ آآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتنا بڑا ہے کہ اس کے بارے میں قرآن کی یہ آیات نازل ہوئیں:اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ، وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ معجزۂ شق القمر ۸ نبوت میں ہوا، (یعنی ہجرت سے 5 سال پہلے) ، اور یہ معجزہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی اور پیغمبر کو نہیں عطا کیا گیا ۔
علاوہ ازیں انڈیا کے جنوب مغرب میں واقع مالا بار کے لوگوں میں یہ با ت مشہور ہے کہ مالابار کے ایک بادشاہ چکراوتی فارمس نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا ۔ا س نے سوچاکہ ضرور زمین پر کچھ ایساہو اہے کہ جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا ۔چناچہ اس نے اس واقعے کی تحقیق کے لیے اپنے کارندے دوڑائے تو اسے خبر ملی کہ یہ معجزہ مکہ میں کسی نبی کے ہاتھوں رونما ہوا ہے ۔اس نبی کی آمد کی پیشین گوئی عرب میں پہلے سے ہی پائی جاتی تھی ۔چناچہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا پروگرام بنایا اوراپنے بیٹے کو اپنا قائم مقام بنا کرعرب کی طرف سفر پر روانہ ہوا۔وہاں اس نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دی اور مشرف بااسلام ہوا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق جب و ہ واپسی سفر پر گامزن ہوا تو یمن کے ظفر ساحل پراس نے وفات پائی ۔یمن میں اب بھی اس کا مقبر ہ موجودہے۔جس کو ”ہندوستانی راجہ کا مقبرہ”کہا جاتاہے اور لوگ اس کودیکھنے کے لیے وہاں کا سفر بھی کرتے ہیں۔اسی معجزے کے رونما ہونے کی وجہ سے اورراجہ کے مسلمان ہونے کے سبب مالابار کے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔اس طرح انڈیا میں سب سے پہلے اسی علاقے کے لوگ مسلمان ہوئے ۔بعدازاں انہوں نے عربوں کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھایا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب کے لوگ اسی علاقے کے ساحلوں سے گزر کر تجارت کی غرض سے چین جاتے تھے ۔یہ تمام واقعہ اور مزید تفصیلات لندن میں واقع”انڈین آفس لائبیریری”کے پرانے مخطوطوں میں ملتاہے۔جس کاحوالہ نمبرہے۔(Arabic ,2807,152-173) ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان زندہ معجزات میں سے ایک ہے ، جس کی گواہی خود اللہ سبحانہ وتعالی نے دی، اور پھر احادیث ، اور تاریخی اوراق، میں بھی رقم ہوئی۔ اور اب تو خلق خدا بھی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے ، لیکن منکرین ہے، کہ اپنی ضد چھوڑنے پر آج بھی تیار نہیں ، جن کیلیۓ افسوس ہی کیا سکتا ہے ، ورنہ تو اور کوئی چارہ نہیں ۔ بیشک اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا وعدہ پورا فرمایا ، اور " بلند تر کر دیا آپ کے ذکر کو" نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا ذکر دن بہ دن ہوتا جا رہا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment