Sunday 28 February 2021

واقعہ شقِ صدر حصّہ دوم

0 comments

 واقعہ شقِ صدر حصّہ دوم

محترم قارئینِ کرام : امید ہے اس موضوع کا حصّہ اوّل آپ پڑھ چکے ہونگے آئیے اب حصّہ دوم پڑھتے ہیں :


 علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے معراج کی بابت کہا :


سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالَمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں


یعنی معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان بلندیوں کو تسخیر کرسکتا ہے ۔ معجزاتِ نبوی میں سے قرآنِ کریم ایسا معجزہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا کلام اور اُس کی صفت ہے ، اس جیسا کلام بنانا بندوں کے لیے ممکن نہیں ہے ،قرآن کا چیلنج اس کا واضح ثبوت ہے ،لیکن دوسرے معجزاتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی نفسہٖ ممکن ہیں اگرچہ ہر ممکن کا صدور لازمی نہیں ہوتا ۔ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا معراج کی شب بلندیوں کی طرف سفر کرنامادّی اسباب کے بغیر تھا ،اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا ،لیکن یہ سفر اس امکان کو ظاہر کر رہا تھا ، اب انسان مادّی طاقت کے سبب بہت سی ایسی بلندیوں کی جانب پرواز کر رہا ہے جو پہلے ناقابلِ تصور تھیں ۔


صحیح بخاری شریف میں ہے : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ عَنْ شَرِيکِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ يَقُولُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الْکَعْبَةِ أَنَّهُ جَائَهُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَی إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ أَوَّلُهُمْ أَيُّهُمْ هُوَ فَقَالَ أَوْسَطُهُمْ هُوَ خَيْرُهُمْ فَقَالَ آخِرُهُمْ خُذُوا خَيْرَهُمْ فَکَانَتْ تِلْکَ اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّی أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَی فِيمَا يَرَی قَلْبُهُ وَتَنَامُ عَيْنُهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ وَکَذَلِکَ الْأَنْبِيَائُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ فَلَمْ يُکَلِّمُوهُ حَتَّی احْتَمَلُوهُ فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَمَ فَتَوَلَّاهُ مِنْهُمْ جِبْرِيلُ فَشَقَّ جِبْرِيلُ مَا بَيْنَ نَحْرِهِ إِلَی لَبَّتِهِ حَتَّی فَرَغَ مِنْ صَدْرِهِ وَجَوْفِهِ فَغَسَلَهُ مِنْ مَائِ زَمْزَمَ بِيَدِهِ حَتَّی أَنْقَی جَوْفَهُ ثُمَّ أُتِيَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ تَوْرٌ مِنْ ذَهَبٍ مَحْشُوًّا إِيمَانًا وَحِکْمَةً فَحَشَا بِهِ صَدْرَهُ وَلَغَادِيدَهُ يَعْنِي عُرُوقَ حَلْقِهِ ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْيَا فَضَرَبَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِهَا فَنَادَاهُ أَهْلُ السَّمَائِ مَنْ هَذَا فَقَالَ جِبْرِيلُ قَالُوا وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مَعِيَ مُحَمَّدٌ قَالَ وَقَدْ بُعِثَ قَالَ نَعَمْ قَالُوا فَمَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا فَيَسْتَبْشِرُ بِهِ أَهْلُ السَّمَائِ لَا يَعْلَمُ أَهْلُ السَّمَائِ بِمَا يُرِيدُ اللَّهُ بِهِ فِي الْأَرْضِ حَتَّی يُعْلِمَهُمْ فَوَجَدَ فِي السَّمَائِ الدُّنْيَا آدَمَ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ هَذَا أَبُوکَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَرَدَّ عَلَيْهِ آدَمُ وَقَالَ مَرْحَبًا وَأَهْلًا بِابْنِي نِعْمَ الِابْنُ أَنْتَ فَإِذَا هُوَ فِي السَّمَائِ الدُّنْيَا بِنَهَرَيْنِ يَطَّرِدَانِ فَقَالَ مَا هَذَانِ النَّهَرَانِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا النِّيلُ وَالْفُرَاتُ عُنْصُرُهُمَا ثُمَّ مَضَی بِهِ فِي السَّمَائِ فَإِذَا هُوَ بِنَهَرٍ آخَرَ عَلَيْهِ قَصْرٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ فَضَرَبَ يَدَهُ فَإِذَا هُوَ مِسْکٌ أَذْفَرُ قَالَ مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا الْکَوْثَرُ الَّذِي خَبَأَ لَکَ رَبُّکَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ الثَّانِيَةِ فَقَالَتْ الْمَلَائِکَةُ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَتْ لَهُ الْأُولَی مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قَالُوا وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالُوا مَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ الثَّالِثَةِ وَقَالُوا لَهُ مِثْلَ مَا قَالَتْ الْأُولَی وَالثَّانِيَةُ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی الرَّابِعَةِ فَقَالُوا لَهُ مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ الْخَامِسَةِ فَقَالُوا مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ السَّادِسَةِ فَقَالُوا لَهُ مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَةِ فَقَالُوا لَهُ مِثْلَ ذَلِکَ کُلُّ سَمَائٍ فِيهَا أَنْبِيَائُ قَدْ سَمَّاهُمْ فَأَوْعَيْتُ مِنْهُمْ إِدْرِيسَ فِي الثَّانِيَةِ وَهَارُونَ فِي الرَّابِعَةِ وَآخَرَ فِي الْخَامِسَةِ لَمْ أَحْفَظْ اسْمَهُ وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ وَمُوسَی فِي السَّابِعَةِ بِتَفْضِيلِ کَلَامِ اللَّهِ فَقَالَ مُوسَی رَبِّ لَمْ أَظُنَّ أَنْ يُرْفَعَ عَلَيَّ أَحَدٌ ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِکَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ حَتَّی جَائَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَی وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ فَتَدَلَّی حَتَّی کَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَی فَأَوْحَی اللَّهُ فِيمَا أَوْحَی إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَی أُمَّتِکَ کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثُمَّ هَبَطَ حَتَّی بَلَغَ مُوسَی فَاحْتَبَسَهُ مُوسَی فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ مَاذَا عَهِدَ إِلَيْکَ رَبُّکَ قَالَ عَهِدَ إِلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِکَ فَارْجِعْ فَلْيُخَفِّفْ عَنْکَ رَبُّکَ وَعَنْهُمْ فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی جِبْرِيلَ کَأَنَّهُ يَسْتَشِيرُهُ فِي ذَلِکَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ جِبْرِيلُ أَنْ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَعَلَا بِهِ إِلَی الْجَبَّارِ فَقَالَ وَهُوَ مَکَانَهُ يَا رَبِّ خَفِّفْ عَنَّا فَإِنَّ أُمَّتِي لَا تَسْتَطِيعُ هَذَا فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرَ صَلَوَاتٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی مُوسَی فَاحْتَبَسَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُرَدِّدُهُ مُوسَی إِلَی رَبِّهِ حَتَّی صَارَتْ إِلَی خَمْسِ صَلَوَاتٍ ثُمَّ احْتَبَسَهُ مُوسَی عِنْدَ الْخَمْسِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ لَقَدْ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَوْمِي عَلَی أَدْنَی مِنْ هَذَا فَضَعُفُوا فَتَرَکُوهُ فَأُمَّتُکَ أَضْعَفُ أَجْسَادًا وَقُلُوبًا وَأَبْدَانًا وَأَبْصَارًا وَأَسْمَاعًا فَارْجِعْ فَلْيُخَفِّفْ عَنْکَ رَبُّکَ کُلَّ ذَلِکَ يَلْتَفِتُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی جِبْرِيلَ لِيُشِيرَ عَلَيْهِ وَلَا يَکْرَهُ ذَلِکَ جِبْرِيلُ فَرَفَعَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ فَقَالَ يَا رَبِّ إِنَّ أُمَّتِي ضُعَفَائُ أَجْسَادُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ وَأَسْمَاعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَأَبْدَانُهُمْ فَخَفِّفْ عَنَّا فَقَالَ الْجَبَّارُ يَا مُحَمَّدُ قَالَ لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ قَالَ إِنَّهُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ کَمَا فَرَضْتُهُ عَلَيْکَ فِي أُمِّ الْکِتَابِ قَالَ فَکُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا فَهِيَ خَمْسُونَ فِي أُمِّ الْکِتَابِ وَهِيَ خَمْسٌ عَلَيْکَ فَرَجَعَ إِلَی مُوسَی فَقَالَ کَيْفَ فَعَلْتَ فَقَالَ خَفَّفَ عَنَّا أَعْطَانَا بِکُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا قَالَ مُوسَی قَدْ وَاللَّهِ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَی أَدْنَی مِنْ ذَلِکَ فَتَرَکُوهُ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَلْيُخَفِّفْ عَنْکَ أَيْضًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مُوسَی قَدْ وَاللَّهِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي مِمَّا اخْتَلَفْتُ إِلَيْهِ قَالَ فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللَّهِ قَالَ وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔

ترجمہ : عبد العزیز بن عبداللہ ، سلیمان ، شریک بن عبداللہ ، حضرت ابن مالک سے روایت کرتے ہیں ، ان کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جس رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مسجد کعبہ سے معراج ہوئی تو وحی کے پہنچنے سے قبل آپ کے پاس تین فرشتے آئے اس وقت آدمی خانہ کعبہ میں سوئے ہوئے تھے، ایک نے کہا ان میں وہ کون ہیں جن کی تلاش میں ہم ہیں، بیچ والے نے اشارہ سے بتایا کہ ان میں سب سے اچھے ہیں پچھلے فرشتے نے کہا کہ ان میں جو بہتر ہے ان کو لے لو، اس رات کو یہی ہوا، پھر دوسری رات آنے تک ان فرشتوں کو نہیں دیکھا۔ دوسری رات کو وہ فرشتے آئے، آپ کا دل ان کو دیکھ رہا تھا اور آ نکھیں سوئی ہوئی تھیں، انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتے، ان فرشتوں نے آپ سے کوئی بات کی اور اٹھا کر چاہ زمزم کے پاس لے جا کر رکھ دیا، جبرائیل نے اس کام کو سنبھالا، انہوں کے گلے سے لے کر دل کے نیچے تک سینہ کو چاک کیا اور سینہ اور پیٹ کو (خواہشات سے) خالی کیا اپنے ہاتھ سے زمزم کے پانی سے دھویا، آپ کے پیٹ کو خوب صاف کیا پھر سونا کا ایک طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک برتن ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا تھا اس سے آپ کے سینہ اور حلق کو بھرا پھر اس کو برابر کر دیا، پھر آپ کو آسمان دنیا تک لے چڑھے اور اس کے ایک دروازے کو کھٹکھٹایا، آسمان والوں نے پوچھا کون؟ انہوں نے جواب دیا جبریل، انہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہیں، کہا میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ان لوگوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں، کہا ہاں! انہوں نے کہا، خوب اچھے آئے (خوش آمدید) آسمان والے اس سے خوش ہو رہے تھے، آسمان والے فرشتوں کو اس کی خبر نہیں ہوتی کہ اللہ زمین میں کیا کرنا چاہتا ہے جب تک کہ ان کو بتلا نہ دے آپ نے آسمان دنیا میں حضرت آ دم علیہ السلام کو پایا، آپ سے جبرائیل نے فرمایا کہ آپ کے باپ ہیں ان کو سلام کیجئے آپ نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور کہا کہ تمہارا آنا مبارک ہو اے میرے بیٹے، تم اچھے بیٹے ہو، اس وقت آپ کی نظر دو نہروں پر پڑی جو بہہ رہی تھیں، آپ نے فرمایا اے جبریل! یہ دو نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ نیل اور فرات کا منبع ہے، پھر اسی آسمان میں آپ کو لے کر پھرانے لگے، آپ ایک نہر کے پاس سے گزرے جس پر موتی اور زمرد کے محل بنے ہوئے تھے آپ نے ہاتھ مارا تو معلوم ہوا کہ وہ مشک ہے، آپ نے پوچھا اے جبرائیل یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ کوثر ہے جو آپ کے لئے آپ کے رب نے رکھ چھوڑی ہے پھر دوسرے آسمان پر لے گئے تو فرشتوں نے یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے فرشتوں نے کیا تھا کہ کون؟ تو انہوں نے کہا کہ جبریل، انہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) انہوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا ہاں، انہوں نے کہا تمہارا آنا مبارک ہو، پھر تیسرے آسمان پر لے گئے اور ان فرشتوں نے بھی وہی پوچھا جو پہلے اور دوسرے آسمان والوں نے پوچھا تھا، پھر چوتھے آسمان پر لے گئے تو وہاں پر بھی فرشتوں نے وہی گفتگو کی، پھر پانچویں آسمان پر لے گئے تو وہاں بھی فرشتوں نے اسی طرح گفتگو کی، پھر چھٹے آسمان پر لے گئے تو وہاں بھی فرشتوں نے اسی طرح گفتگو کی، پھر ساتویں آسمان پر لے گئے تو وہاں بھی فرشتوں نے اسی طرح گفتگو کی، ہر آسمان پر انبیاء سے ملاقات ہوئی، انہوں نے ان کا نام لیا جن میں ادریس علیہ السلام کا دوسرے آسمان پر اور ہارون علیہ السلام کا چوتھے آسمان پر اور پا نچویں آسمان پر جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا، اور ابراہیم علیہ السلام کا چٹھے آسمان پر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ساتویں آسمان پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلام ہونے کی فضیلت کی بنا پر ملنا مجھے یاد نہیں رہا، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! مجھ کو یہ گمان نہ تھا کہ مجھ سے زیادہ بلندی پر کوئی شخص جائے گا، پھر آپ کو اس سے بھی اوپر لے گئے جس کا علم اللہ تعالی ٰ کے سوا کسی کو نہیں، یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی ٰ کے پاس پہنچے، پھر اللہ رب العزت سے نزدیک ہوئے اور اس قدر نزدیک ہوئے جیسے کمان کے دو کونے، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی بھیجی جو وحی بھیجی، اس میں یہ تھا کہ آپ کی امت پر دن رات پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر نیچے اترے، حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو روک لیا اور کہا اے محمد! تمہارے رب نے تم سے کیا عہد لیا، آپ نے فرمایا کہ مجھ سے دن رات پچاس نمازیں پڑھنے کا عہد لیا ہے، انہوں نے کہا کہ تمہاری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی اس لئے لوٹ جاؤ اپنے رب سے اپنے لئے اور اپنی امت کے واسطے تخفیف کراؤ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل کی طرف رخ کیا گویا آپ ان سے مشورہ لینا چاہتے تھے، جبرائیل نے مشورہ دیا کہ ہاں اگر آپ کی خواہش ہو چنانچہ جبرائیل آپ کو اللہ تعالیٰ کے پاس لے گئے، آپ نے اپنی پہلی جگہ پر کھڑے ہو کر عرض کیا کہ اے رب! نمازوں میں ہم پر کمی فرما، میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں، پھر حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے پاس آئے انہوں نے روک لیا، حضرت موسی ٰ علیہ السلام آپ کو اسی طرح اپنے رب کے پاس بھیجتے رہے حتی ٰ کہ پانچ نمازیں رہ گیئں، پھر پانچ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روکا اور کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو اس سے بھی کم نمازیں پڑھوانا چاہیں لیکن وہ ضعیف ہو گئے اور اس کو چھوڑ دیا، تمہاری امت تو جسم، بدن، آنکھ اور کان، کے اعتبار سے بہت ضعیف ہے لہذا واپس جاؤ تمہارا رب تمہاری نمازوں میں کمی کر دے گا، ہر بار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جبرائیل کی طرف دیکھتے تھے تاکہ ان سے مشورہ لیں اور جبرائیل علیہ السلام اس کو ناپسند نہیں کرتے تھے چنانچہ پانچویں بار بھی آپ کو لے گئے آپ نے عرض کیا اے میرے رب! میری امت کے جسم نا تو اں ہیں اور ان کے دل اور کان اور ان کے بدن کمزور ہیں اس لئے ہم پر تخفیف فرما، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے( محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) آپ نے فرمایا " لبیک و سعد یک" اللہ تعالی ٰ نے فرمایا کہ میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی جو میں نے تم پر فرض کیا تھا وہ ام الکتاب (لوح محفوظ) میں ہے، اللہ نے فرمایا ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے اس لئے پانچ نمازیں جو تم پر فرض ہوئیں لوح محفوظ میں پچاس ہی رہیں، آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا آپ نے کیا کہا؟ آپ نے کہا ہمارے رب نے ہماری نماز میں بہت کمی فرما دی ہر نیکی کا دس گنا ثواب عطا کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے بنی اسرائیل سے اس سے بھی کم کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہوں نے اس کو چھوڑ دیا لہذا لوٹ کر اپنے رب کے پاس جاؤ اور اس میں کمی کراؤ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اے موسی ! اللہ کی قسم مجھے اپنے سے شرم آتی ہے اس لئے کہ میں بار بار اس کے پاس جا چکا ہوں۔ حضرت موسی ٰ علیہ السلام نے کہا پھر اللہ کا نام لے کر اترو ۔ راوی کا بیان کہ آپ بیدار ہوئے تو اس وقت آپ مسجد حرام میں تھے ۔ (صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ توحید کا بیان ۔ حدیث 2410،چشتی)


حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جبریلِ امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ اس وقت نوعمر لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ،انہوں نے آپ کو پکڑکر لٹایا ، پھر آپ کے سینے کو چیر کر اس میں سے دل کو نکالا، پھر دل سے ایک جمے ہوئے خون کو نکالا اور کہا:یہ آپ کے قلب میں شیطان کا حصہ تھا ،پھر آپ کے دل کو سونے کے طشت میں رکھ کر زم زم کے پانی سے دھوکرسینے میں اپنے مقام پر رکھ کر سی دیا ۔اس اثنا میں لڑکے دوڑتے ہوئے اُن کی رضاعی ماں کے پاس آئے اور کہا : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو قتل کردیا گیا ہے ، وہ (گھبرا کر) آپ کی طرف آئیں اور دیکھا کہ آپ کا رنگ بدلا ہوا ہے، حضرت انس بیان کرتے ہیں: میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینے پرٹانکوں کے نشانات دیکھتا تھا ۔ (صحیح مسلم:162)


بچپن میں یہ شقِ صدر کس عمر میں ہوا ،اس کے بارے میں کئی اقوال ہیں ، ایک روایت میںہے کہ آپ کے قلبِ انور کو کینے اور حسد سے پاک کرکے رحم ومروّت سے بھر دیا اور رحمۃ للعالمین کے منصب پر فائز ہونے کے لیے یہ حکمت قابلِ فہم ہے اور ایک یہ بتائی گئی ہے کہ شیطانی ترغیبات کا آپ کے قلبِ انور کے پاس سے گزر بھی نہ ہو ، حدیثِ پاک میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک پر ایک ہمزاد جن (شیطان) مسلّط ہوتا ہے ،صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا آپ پر بھی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میرے ساتھ بھی ہمزادپیدا ہوا ، مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ مسلمان ہوگیا ، اب وہ مجھے خیر کے سوا کوئی بات نہیں کہتا ۔ (صحیح مسلم:2814)


حضرتِ حَنّہ نے اپنی صاحبزادی حضرت مریم کی پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی : (اے اللہ!) میں اِسے اور اِس کی اولاد کو شیطانِ مردودکے شر سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔ (سورہ آل عمران:36) ، مفسرینِ کرام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کے قلوب کوشیطانی تحریکات سے محفوظ فرمادیا ۔

حدیثِ پاک میں ہے : ہر بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کے انگلی چبھوتا ہے تو وہ شیطان کے (انگلی چبھونے سے) چیخ مار کر روتا ہے سوا مریم اور ان کے بیٹے کے ، پھر حضرت ابوہریرہ نے آل عمران:36 پڑھی ۔ (صحیح البخاری:3431،چشتی)


اس پر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت مریم و عیسیٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اس جہت سے فضیلت حاصل ہوگئی ، ہم کہتے ہیں : یہ ان کی خصوصیت ہے ، لیکن سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر فضیلت نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تخلیقِ انسانی کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کامل پیدا فرمائے ، پھر آپ کو اپنے ہمزاد پر غلبہ عطا فرمادے ، جیسا کہ انسان اپنے ناخن اورجسم کے بعض حصوں کے بال تراشتاہے ، لیکن اگرکسی کے بدن میں ناخن یا بال نہ ہوں تو اسے ناخن یا بال رکھنے والوں پر فضیلت نہیں سمجھا جاتا ۔ ایک بار آپ کا شقِ صدرمعراج کے موقع پر ہوا ۔


حضرت مالک بن انس بروایتِ ابوذر بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جب میں مکے میں تھا ، (ایک شب ) میرے گھر کی چھت پھٹی ، حضرت جبریل علیہ السلام اترے ،انہوں نے میرے سینے کو چاک کیا ، میرے دل کو نکال کرآبِ زمزم سے دھویا ، پھر ایمان وحکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اُسے میرے قلب میں ڈال دیا ،پھر میرے سینے کو سی دیا، پھر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمانِ دنیا کی طرف لے کر چڑھے ۔ (صحیح البخاری:349،صحیح مسلم:163) ۔ سنن ترمذی کی روایت میں ان کلمات کا اضافہ ہے : میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کی کیفیت میں تھا اور یہ کہ میرے سینے کو نیچے تک شق کیا گیا ، (سنن ترمذی:3346)


انسان کو جب اپنے روایتی ماحول سے مختلف ماحول میں جانا پڑے تو وہ اس کے لیے تیاری کرتا ہے ، وہاں کے گرم یا سردموسم کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے ، اس کے مطابق لباس تیار کرتا ہے ،وہاں کی اشیائے خوراک اور آدابِ زندگی سے آگہی حاصل کرتا ہے ۔میں نے امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں خلائی مرکز ناسا کو دیکھا ،وہاں چاند پر اور خلا میں جانے والے خلابازوں کے لیے تربیت گاہ ہے ،کیونکہ زمین کی کشش ثقل کے دائرے سے نکلنے کے بعد بے وزنی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ،کھلی فضا میں انسان چل پھر سکتا ہے ، جس کا اسے زمین پر رہتے ہوئے تجربہ نہیں ہوتا ،اسی طرح بقائے حیات کے لیے مصنوعی آکسیجن ،پانی اور حسبِ حال خوراک کا انتظام کرنا پڑتا ہے ۔ ہماری نظر میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے شقِ صدر کے واقعات اسی سے مشابہت رکھتے ہیں ، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے حکمتوں کو بیان کیا ہے اور ہم اپنی تشریحات کے ساتھ انہیں لکھ رہے ہیں : پہلی بار آپ کاشقِ صدر دل میں جمے ہوئے خون کو نکالنے کے لیے ہوا تاکہ شیطان کی کسی منفی تحریک وترغیب کا آپ کی ذات سے کوئی تعلق ہی نہ رہے ، دوسری بار اعلانِ نبوت سے پہلے نزولِ وحی کے وقت شقِ صدر اس لیے ہوا تاکہ آپ کے قلبِ انور میں وحیِ ربانی کو جذب کرنے کی روحانی استعداد اور ملکہ پیدا ہوجائے ۔قرآن کی جلالت کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحشر میں بیان فرمایا ہے ۔ احادیث میں نزولِ وحی کی شدت کا بھی بیان ہوا ہے کہ کبھی شدید گرمی میں آپ پر کپکپی طاری ہوجاتی ، کبھی شدید سردی میں آپ کی جبینِ اطہر پر پسینے کے قطرے نمودار ہوجاتے ، آپ سواری پر ہوتے تو اونٹنی وحیِ ربانی کی ہیبت سے بیٹھ جاتی ۔ تیسری بارشبِ معراج کو ہوا تاکہ آپ کے قلبِ انور کو حکمت کے موتیوں سے بھر دیا جائے اور اس میں ایسی روحانی قوت پیدا کردی جائے کہ آپ کائنات کے اسرار اور اس میں قدرت کی نشانیوں کو جاگتی آنکھوں سے دیکھ سکیں ، ان کی حکمتوں کو سمجھ سکیں اورتجلیاتِ باری تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوسکیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا : اسی موقع پر میرے دو شانوں کے درمیان مہرِ نبوت رکھ دی گئی ،ایک اور موقع پر فرمایا: یہ مہر مسہری کی گھنڈی کی مانند ہے اور اس پر بال ہیں ۔ آج کل بائی پاس آپریشن یا اوپن ہارٹ سرجری کے وقت مریض کو بے ہوش کردیا جاتا ہے اور جب تک آپریشن مکمل نہیں ہوجاتا ،اس کے لیے تنفّس اور دورانِ خون کوجاری رکھنے کے لیے مصنوعی انتظام کیا جاتا ہے ،مریض بے ہوشی کے سبب آپریشن کے مراحل کو خود نہیں دیکھ پاتا ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان تمام مراحل میں ہوش وحواس میں رہے ، آپ نے تمام احوال خود بیان فرمائے ، شیخ الحدیث مفسرِ قرآن علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی حیات قلب کی محتاج نہیں ہے ،عام انسان کے جسم میں ایک معمولی کٹ بھی لگ جائے تو خون بہہ نکلتا ہے، لیکن شق صدر کے تمام مراحل میں آپ کے جسم سے نہ خون نکلا ،نہ آپ کو درد محسوس ہوا ۔ (شرح صحیح مسلم)


بعض علماء نے کہا : پہلی بار شقِ صدر اس لیے ہوا کہ آپ کو عالمِ غیب کے بارے میں علم الیقین حاصل ہو ،دوسری بار اس لیے ہوا کہ آپ کو عین الیقین حاصل ہو اور تیسری بار شقِ صدر اس لیے ہوا تاکہ آپ کو حق الیقین حاصل ہو۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : شفا میں ہے جب جبریل علیہ السلام نے آپ کے دل کو دھویا تو کہا یہ قلبِ سلیم ہے ، اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں ۔ اہلِ ذوق کا اپنا اپنا زاویہ نظر ہوتا ہے ، علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بعض اہلِ علم نے کہا آپ کے قلبِ انور کو زمزم سے اس لیے دھویا گیا تاکہ اُسے زمزم کی برکت نصیب ہوجائے اور میں کہتا ہوں قلبِ پاکِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو زمزم میں اس لیے دھویا گیا تاکہ آبِ زمزم آپ کے قلبِ انور کے لَمس سے مشرّف ومتبرّک ہوجائے ۔شرح صحیح مسلم)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے شق صدر کے متعلق جو روایات ہیں ان میں سے بچپن یعنی دو سال کی عمر میں شق صدر کا واقعہ اور معراج کے موقع پر شق صدر کا واقعہ تو صحیحین کی روایات سے ثابت ہے، البتہ بقیہ دو مواقع کی روایات میں علماء کا  کلام اور اقوال موجود ہیں.بعض نے دس سال کی عمر کے واقعہ کو وہم قرار دیا ہے اور بعض نے اس کو خواب پر محمول کیا ہے . لیکن ہمارے علم کے مطابق یہ چاروں واقعات سند کے اعتبار سے اس قابل ہیں کہ ان کو ثابت  مانا  جائے ۔


 ایام طفولیت مبارکہ میں شق صدر کے بعد سینۂ اقدس کو ٹانکے لگائے گئے


صحیح مسلم جلد اول صفحہ نمبر ۹۲ پر حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بچوں کے ساتھ (اپنی شان کے لائق) کھیل رہے تھے ۔ جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو زمین پر لٹا کر سینہ اقدس چاک کیا ۔ قلب مبارک کو باہر نکال کر اس سے منجمد خون نکالا اور زمزم کے پانی سے دھو کر سینہ اقدس میں رکھ کر سینہ مبارک بند کر دیا ۔ وہ بچے جن کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کھیل رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رضاعی ماں (حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ’’اِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ‘‘ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قتل کر دئیے گئے تو لوگ دوڑتے ہوئے آئے تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا رنگ مبارک بدلا ہوا تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینہ اقدس میں سوئی (سے سیئے جانے) کا نشان دیکھا تھا ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شق صدر مبارک کے متعلق روحانی ، منامی ، کشفی ، معنوی وغیرہ کی تمام تاویلات قطعاً باطل ہیں بلکہ یہ ’’شق‘‘ اور چاک کیا جانا حسی حقیقی اور امر واقعی ہے کیونکہ سینہ اقدس میں سوئی سے سیئے جانے کا نشان چمکتا ہوا نظر آتا تھا ۔ پھر حدیث پاک میں صاف الفاظ موجود ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سینہ مبارک چاک کیا گیاتو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ کھیلنے والے لڑکے دوڑتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رضاعی ماں (حلیمہ سعدیہ) کے پاس آئے اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قتل کر دئیے گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سینہ پاک کے چاک ہونے اور قلب اطہر کے نکالے جانے اور اس سے منجمد خون کے باہر نکالے جانے کا واضح ذکر اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے متغیر اللون ہونے کا بیان اس حقیقت کو بے نقاب کر رہا ہے کہ یہ واقعہ بالکل حسی ہے ۔ اس کو معنوی کہنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا ۔


اس تفصیل کو ذہن نشین کر لینے کے بعد بیان سابق میں ہمارا یہ قول بالکل بے غبار ہو جاتا ہے کہ شق صدر مبارک بچپن میں ہو یا جوانی میں ۔ قبل البعثت ہو یا بوقت معراج ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد وفات حیات حقیقی کے ساتھ زندہ رہنے کی قوی دلیل ہے ۔ کیونکہ انسان کا دل اس کی روح حیات کا مستقر ہوتا ہے ۔ اس کا سینہ سے باہر آ جانا روح حیات کا بدن سے نکل جانا ہے ۔ گویا اس واقعہ میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح قلب مبارکہ کے سینۂ اقدس سے باہر ہو جانے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زندہ ہیں ، اسی طرح روح مقدس کے قبض ہو جانے کے بعد زندہ رہیں گے ۔ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عظیم ترین معجزات میں سے ہے ۔


فضیلت شقِ صدر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طفیل باقی انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی عطا ہوئی ۔ جیسا کہ تابوت بنی اسرائیل کے قصہ میں طبرانی کی طویل روایت میں یہ الفاظ ہیں ’’کَانَ فِیْہِ الطَّشْتُ الَّتِیْ یُغْسَلُ فِیْہَا قُلُوْبُ الْاَنْبِیَائِ‘‘ ۔ (فتح الملہم شرح صحیح مسلم جلد اول صفحہ ۱۰۰) ، یعنی تابوت سکینہ میں وہ طشت بھی تھا جس میں انبیاء علیہم السلام کے دلوں کو دھویا جاتا ہے چونکہ دیگر انبیاء علیہم السلام کو بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تبعیت میں حیات حقیقی عطا کی گئی لہٰذا شق صدر اور قلب مبارک کا دھویا جانا بھی ان کو عطا کیا گیا تھا تاکہ ان کی حیات بعد الوفات پر بھی اسی طرح دلیل قائم ہو جائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات بعد الممات پر دلیل قائم کی گئی اور اس طرح بلا تخصیص و تقیید مطلقاً حیاتِ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ثابت ہو جائے ۔ (مزید حصّہ سوم میں پڑھیں) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔