Sunday 21 February 2021

عرس بزرگانِ دین کا جواز و شرعی حیثیت

0 comments

 عرس بزرگانِ دین کا جواز و شرعی حیثیت


محترم قارئینِ کرام : کسی بزرگ کی یاد منانے کے لئے اور ان کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے ان کے مُحبّین ومریدین وغیرہ کا ان کی یومِ وفات پر سالانہ اجتماع ’’عُرس‘‘کہلاتا ہے ۔ بزرگانِ دین اولیاءِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی کا عُرس منانے سے مقصود ان کی یاد منانا اور ان کو ایصالِ ثواب کرنا ہوتا ہے اس لئے ان کے عُرس کا انعقاد کرنا شرعاً جائز و مستحسن اور اجروثواب کا ذریعہ ہے ۔ بزرگانِ دین کے اعراس میں ذکرُاللّٰہ ، نعت خوانی اورقرآنِ پاک کی تلاوت اور اس کے علاوہ دیگر نیک کام کر کے ان کو ایصالِ ثواب کیا جاتاہے اور ایصالِ ثواب کے جائز اور مستحسن ہونے کے دلائل اوپر ذکر کئے جاچکے ہیں ۔ جو لوگ اپنے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں ارشاد پاک ہے : وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ۔
ترجمہ : اور وہ جو ان کے بعد آئے ، عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو ، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ۔ (سورۃ الحشر ،آیت 10)

اس آیت کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ صرف اپنے لیے دعا نہ کرے، سلف کے لیے بھی کرے ، دوسرے یہ کہ بزرگان دین خصوصاً صحابہ کرام و اہل بیت کے عرس، ختم، نیاز ، فاتحہ اعلی چیزیں ہیں کہ ان میں ان بزرگوں کے لیے دعا ہے ۔ (تفسیر نور العرفان)

بخاری شریف میں ہے : ان رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان أمی افتلتت نفسھا و أظنھا لو تکلمت تصدقت فھل لھا أجر ان تصدقت عنھا قال نعم ۔
ترجمہ : ایک شخص نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کی کہ میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ بات کر سکتیں ، تو صدقہ کرتیں ۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں ، تو کیا انہیں اجر ملے گا ؟ توآپ نے فرمایا : ہاں ملے گا ۔ (صحیح بخاری ، جلد1 ، صفحہ 186 مطبوعہ کراچی)

ردالمحتار میں ہے کہ : صرح علماء نا فی باب الحج عن الغیر بأن للانسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أوصوما أو صدقۃ أو غیرھا کذا فی الھدایۃ ۔
ترجمہ : ہمارے علماء نے باب الحج عن الغیر میں صراحت فرمائی ہے کہ انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے کے لیے کر سکتا ہے ۔ نماز ہو ،روزہ ہو ، صدقہ ہو یا کچھ اور ۔ ایسا ہی ہدایہ میں ہے ۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار ، جلد 3 ، صفحہ 180 ، مطبوعہ پشاور )

جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : بزرگانِ دین کے یومِ وِصال کو عرس اِس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ محبوب سے ملاقات کا دِن ہے دلیل حدیث نم کنومۃ العروس ہے ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 60 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی،چشتی)

عرس بزرگانِ دین اور سماع قوالی سننا جائز ہے بزرگانِ دین عرس مناتے اور سماع سنتے تھےاور اعراس کے دن کی تخصیص کا سبب یہ ہے کہ اُس دن اُن اللہ والوں کا وِصال ہوا۔(بوادر النوادر صفحہ 400 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)

اعراس بزرگانِ دین خلاف شرع نہیں ہیں جس طرح مدارسِ دینیہ میں اسباق کےلیئے گھنٹے مقرر کرنا مباح امر اور جائز ہے اسی طرح تعین یوم عرس بھی جائز ہے۔(بوادر النوادر صفحہ نمبر 401 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ شاہ عبد الرّحیم اور شاہ ولی اللہ علیہما الرّحمہ کے مزرارت پر جاتے اور فاتحہ پڑھتے لنگر تقسیم کرتے ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ 38 حکایت 29 حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق کراچی،چشتی)

جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوتے اور محفلِ سماع و قوالی ۔ (اشرف السوانح جلد اول ، دوم صفحہ نمبر 226)

مزارات پر حاضری دینا زمانہ قدیم سے مسلمانوں میں رائج ہے بلکہ خود رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر برکات لُٹانے کیلئے تشریف لاتے تھے ۔ علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضور سیّدِ دوعالَم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر ہر سال کے شروع میں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاة، مطلب فی زیارة القبور،3/177،چشتی)

اولیاء اللّٰہ رَحِمَھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی کے مزارات پر جانا باعثِ برکت اوررفعِ حاجات کا ذریعہ ہے ۔ اس لیے بزرگانِ دین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اولیاءِ کرام کی قبورپرجاتے اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی حاجات کیلئے دعا کرتے جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُ ﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس بارے میں مقدمۂ ردُّ المحتار میں امام شافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے نقل فرماتے ہیں :’’میں امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے برکت حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر آتا ہوں اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دورکعت پڑھتا ہوں اورانکی قبر کے پاس جاکراللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں تو جلد حاجت پوری ہوجاتی ہے ۔ (ردالمحتار ، مقدمة الکتاب، مطلب یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل،1/135)

جناب مودودی صاحب لکھتے ہیں : الاحقاف صحرائے عرب (الربع الخالی) کے جنوب مغربی حصہ کا نام ہے جہاں آج کوئی آبادی نہیں ہے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ عاد کا علاقہ عمان سے یمن تک پھیلا ہوا تھا۔ اور قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ان کا اصل وطن الاحقاف تھا۔ جہاں سے نکل کر وہ گردوپیش کے ممالک میں پھیلے اور کمزور قوموں پر چھا گئے۔ آج کے زمانہ تک بھی جنوبی عرب کے باشندوں میں یہی بات مشہور ہے کہ عاد اسی علاقہ میں آباد تھے۔ موجودہ شہر سے تقریبا 152 میل کے فاصہ پر شمال کی جانب میں حضرت موت میں ایک مقام ہے جہاں لوگوں نے حضرت ہود کا مزار بنا رکھا ہے اور وہ قبر ھود کے نام سے ہی مشہور ہے۔ ہر سال پندرہ شعبان کو وہاں عرس ہوتا ہے اور عرب کے مختلف حصوں سے ہزاروں آدمی وہاں جمع ہوتے ہیں۔ یہ قبر اگرچہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے لیکن اس کا وہاں بنایا جانا اور جنوبی عرب کے لوگوں کا کثرت سے اس کی طرف رجوع کرنا کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور ہے کہ مقامی روایات اسی علاقہ کو قوم عاد کا علاقہ قرار دیتی ہیں ۔
الاحقاف کی موجودہ حالت کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہیں کرسکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمند رکھنے والی طاقت ور قوم آباد ہوگی۔ اغلب یہ ہے کہ ہزاروں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہوگا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے ریگ زار بنادیا ہوگا۔ آج اس کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے جس کے اندرونی حصوں میں جانے کی بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا۔ 1843 ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارہ پر پہنچ گیا۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فیٹ نشیب میں نظر آتا ہے۔ اس میں جگہ جگہ ایسے سفید قطعے ہیں جن میں کوئی چیز گرجائے تو وہ ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہوجاتی ہے۔ عرب کے بدو اس علاقہ سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے کے لیے راضی نہیں ہوتے ۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل سفوف کی طرح ہے ۔ میں دور سے ایک شاقول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہوگیا اور اس رسی کا سرا جل گیا جس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا ۔
مفصل معلومات کے لیے ملاحظہ ہو : Arabia And The Isles Harold ingrams, London, 1946 ۔ (تفہیم القرآن، ج 4، ص 615، مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، مارچ 1983 ء)

سید ابوالاعلی مودودی کے اس اقتباس سے جہاں الاحقاف کی تاریخی حیثیت پر روشنی پڑتی ہے، وہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نبیوں اور مقدس اور برگزیدہ بندوں کا عرس منانا صرف اہل سنت بریلی مکتبہ فکر کی اختراع نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں مسلمان بزرگوں کا عرس کا عرس مناتے ہیں ۔ عرس کی معنوی اصل یہ ہے۔
امام محمد بن عمر الواقد متوفی 2074 ھ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال شہداء احد کی قبروں کی زیارت کرتے تھے، جب آپ گھاٹی میں داخل ہوتے تو بہ آواز بلند فرماتے : السلام علیکم، کیونکہ تم نے صبر کیا، پس آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے ! پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہر سال اسی طرح کرتے تھے ۔ پھر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما ہر سال اسی طرح کرتے تھے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۔ (کتاب المغازی، ج 1، ص 313، مطبوعہ عالم الکتب بیروت، 1404 ھ، دلائل النبوۃ، ج 3، ص 308، مطبوعہ بیروت، شرح الصدور، ص 210، دار الکتب العلمیہ، بیروت 404 ۔ در منثور، ج 4، ص 568، مصنف عبدالرزاق، 573 (قدیم) رقم الحدیث (جدید) 6745 ۔
اور عرس کی لفظی اصل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبر میں منکر نکیر آ کر سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم اس شخص کے متعلق کیا کہا کرتے تھے اور جب مردہ یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور کلمہ شہادت پڑھتا ہے تو اس کی قبر وسیع اور منور کردی جاتی ہے اور اس سے کہتے ہیں کہ اس عروس کی طرح سوجاؤ جس کو اس کے اہل میں سب سے زیادہ محبوب کے سوا کوئی بیدار نہیں کرتا۔ (الحدیث) (سنن الترمذی، رقم الحدیث : 1073، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
اس حدیث میں مومن کے لیے عروس کا لفظ وارد ہے اور عروس کا لفظ عرس سے ماخوذ ہے اور یہ عرس کی لفظی اصل ہے ۔ عرس کی حقیقت یہ ہے کہ سال کے سال صالحین اور بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کی جائے ۔ ان پر سلام پیش کیا جائے اور ان کی تعریف و توصیف کے کلمات کہے جائیں اور اتنی مقدار سنت ہے، اور قرآن شریف پڑھ کر اور صدقہ و خیرات کا انہیں ثواب پہنچانا یہ بھی دیگر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور ان کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے اپنی حاجات میں اللہ سے دعا کرنے اور شفاعت کرنے کی درخواست کرنا اس کا ثبوت امام طبرانی کی اس حدیث سے ہے جس میں عثمان بن حنیف نے ایک شخص کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ سے دعا کرنے اور آپ سے شفاعت کی درخواست کرنے کی ہدایت کی ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (المعجم الصغیر، ج 1، ص 1184 ۔ 183، مطبوعہ مکتبہ سلفیہ، مدینہ منورہ، 1388 ھ، حافظ منذری متوفی 656 ھ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (الترغیب والترہیب، ج 1، ص 474 ۔ 476، اور شیخ ابن تیمیہ متوفی 728 ھ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ فتاوی ابن تیمیہ، ج 1، ص 274 ۔ 273)

اسی طرح امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں ایک بار قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہورہے ہیں ۔ (الحدیث) (المصنف، ج 12، ص 32، مطبوعہ کراچی، حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے، فتح الباری، ج 2، ص 495 ۔ 496، مطبوعہ لاہور)

ہر سال صالحین کے مزارات کی زیارت کے لیے جانا ، ان کو سلام پیش کرنا اور ان کی تحسین کرنا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت ہے ۔ اور ان کے لیے ایصال ثواب کرنا اور ان کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے شفاعت کی درخواست کرنا بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ، اور ہمارے نزدیک عرس منانے کا یہی طریقہ ہے ۔ باقی اب جو لوگوں نے اس میں اپنی طرف سے اضافات کرلیے ہیں ، وہ بزرگان دین کی نذر اور منت مانتے ہیں اور ڈھول ، باجوں گا جوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں ناچتے گاتے ہوئے اوباش لڑکے چادر لے کر جاتے ہیں اور چادر چڑھانے کی بھی منت مانی جاتی ہے اور مزارات پر سجدے کرتے ہیں اور مزار کے قریب میلہ لگایا جاتا ہے اور مزامیر کے ساتھ گانا بجانا ہوتا ہے اور موسیقی کی ریکارڈنگ ہوتی ہے تو یہ تمام امور بدعت سیئہ قبیحہ ہیں۔ علماء اہل سنت و جماعت ان سے بری اور بیزار ہیں ۔ یہ صرف جہلاء کا عمل ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے ان کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں ۔ عُرس کا مسئلہ قرآن وحدیث ، صحابۂ کرام اور اولیاء صالحین کے عمل سے واضح ہوچکا ہے اور ہماری مُراد بھی وہی عُرس ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے مطابق منائے جاتے ہیں ۔ ہاں غیرشرعی اُمور تو وہ ہر جگہ ناجائز ہیں اور یہ ناجائز کام عُرس کے علاوہ بھی ہوں تو ناجائز ہیں اور شریعت کے احکام کی معمولی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان انہیں جائز نہیں کہہ سکتا،ان خُرافات سے دور رہنا چاہیے اور حتّی المقدور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس سے بچانا چاہیے ۔

کسی بزرگ کے نام کا جانور ذبح کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں جبکہ ذبح کرتے وقت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا نام لیکر ذبح کیا جائے ۔ کیونکہ اگر ذبح کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا تو وہ جانور حرام ہوجائے گا لیکن کوئی مسلمان اس طرح نہیں کرتا ، ہمارے یہاں لوگ عموماً جانور خریدتے یا پالتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ یہ گیارہویں شریف کا بکرا ہے یا فلاں بزرگ کا بکرا ہے یا گائے ہے جسے بعد میں اس موقع پر ذبح کردیاجاتا ہے، اورذبح کے وقت اس پر اللّٰہ تعالیٰ کا نام ہی لیا جاتا ہے اور اس ذبح سے مقصود اس بزرگ کے لئے ایصالِ ثواب ہی ہوتا ہے اس میں حرج نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)











0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔