واقعہ شقِ صدر حصّہ سوم
محترم قارئینِ کرام : امید ہے اس موضوع کے حصّہ اوّل و دوم آپ پڑھ چکے ہونگے آئیے اب حصّہ سوم پڑھتے ہیں :
قلب مبارک کا دھویا جانا
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قلب اطہر کا زم زم سے دھویا جانا کسی آلائش کی وجہ سے نہ تھا کیونکہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سید الطیبین و الطاہرین ہیں ۔ ایسے طیب و طاہر کہ ولادتِ با سعادت کے بعد بھی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غسل نہیں دیا گیا ۔ لہٰذا قلب اقدس کا زم زم سے دھویا جانا محض اس حکمت پر مبنی تھا کہ زم زم کے پانی کو وہ شرف بخشا جائے جو دنیا کے کسی پانی کو حاصل نہیں بلکہ قلب اطہر کے ساتھ مائِ زم زم کو مس فرما کر وہ فضیلت عطا فرمائی گئی جو کوثر و تسنیم کے پانی کو بھی حاصل نہیں ۔
شق صدر کی حکمتیں
شب معراج حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینۂ اقدس کے شق کئے جانے میں بے شمار حکمتیں مضمر ہیں جن میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ بالفعل ہو جائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سمٰوٰت کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔
حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دلیل
علاوہ ازیں شق صدر مبارک میں ایک حکمت بلیغہ یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات بعد الموت پر دلیل قائم ہو گئی ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عادتاً بغیر روح کے جسم میں حیات نہیں ہوتی لیکن انبیاء علیہم السلام کے اجسام مقدسہ قبض روح کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں ۔ چونکہ روح حیات کا مستقر قلب انسانی ہے لہٰذا جب کسی انسان کا دل اس کے سینہ سے باہر نکال لیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قلب مبارک سینۂ اقدس سے باہر نکالا گیا پھر اسے شگاف دیا گیا اور وہ منجمد خون جو جسمانی اعتبار سے دل کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے صاف کر دیا گیا اس کے باوجود بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زندہ ہیں کیونکہ جس کا دل بدن سے باہر ہو اور وہ پھر بھی زندہ رہے اگر اس کی روح قبض ہو کر باہر ہو جائے تو وہ کب مردہ ہو سکتا ہے ۔
قلب مبارک میں آنکھیں اور کان
جبرائیل علیہ السلام نے شق صدر مبارک کے بعد قلب اطہر کو جب زم زم کے پانی سے دھویا تو فرمانے لگے ’’قَلْبٌ سَدِیْدٌ فِیْہِ عَیْنَانِ تُبْصِرَانِ وَاُذُ نَانِ تَسْمَعَانِ‘‘
ترجمہ : ’’قلب مبارک ہر قسم کی کجی سے پاک اور بے عیب ہے ۔ اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں ۔ (فتح الباری جلد ۱۳، صفحہ ۴۱۰،چشتی)
قلب مبارک کی یہ آنکھیں اور کان عالم محسوسات سے وراء الوراء حقائق کو دیکھنے اور سننے کے لئے ہیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’اِنِّیْ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَا لاَ تَسْمَعُوْنَ‘‘ میںوہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے ۔
دائمی ادراک
جب اللہ تعالیٰ نے بطور خرق عادات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قلب اطہر میں آنکھیں اور کان پیدا فرما دئیے ہیں تو اب یہ کہنا کہ ورائے عالم محسوسات کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دیکھنا اور سننا احیاناً ہے دائمی نہیں قطعاً باطل ہو گیا۔ جب ظاہری آنکھوں اور کانوں کا ادراک دائمی ہے تو قلب مبارک کے کانوں اور آنکھوں کا ادراک کیونکر عارضی اور احیاناً ہو سکتا ہے۔ البتہ حکمت الٰہیہ کی بناء پر کسی امر خاص کی طرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دھیان نہ رہنا اور عدم توجہ اور عدم التفات کا حال طاری ہو جانا امر آخر ہے، جس کا کوئی منکر نہیں اور وہ علم کے منافی نہیں ہے ۔ لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا باطنی سماع اور بصارت عارضی نہیں بلکہ دائمی ہے ۔
شق صدر مبارک اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نوری ہونا
علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ یہ وہم کرتے ہیں کہ شق صدر مبارک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نور سے مخلوق ہونے کے منافی ہے لیکن یہ وہم غلط اور باطل ہے ۔ ان کی عبارت یہ ہے ’’وَکَوْنُہٗ مَخْلُوْقًا مِّنَ النُّوْرِ لَا یُنَافِیْہِ کَمَا تُوُہِّمَ‘‘ ۔ (نسیم الریاض، شرح شفا قاضی عیاض جلد ۲، صفحہ ۲۳۸)
نورانیت اور احوال بشریہ کا ظہور
جو بشریت عیوب و نقائص بشریت سے پاک ہو اس کا بشر ہونا نورانیت کے منافی نہیں ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نور سے مخلوق فرما کر مقدس اور پاکیزہ بشریت کے لباس میں مبعوث فرمایا ۔ شق صدر ہونا بشریت مطہرہ کی دلیل ہے اور باوجود سینۂ اقدس چاک ہونے کے خون نہ نکلنا نورانیت کی دلیل ہے۔ فَلَمْ یَکُنِ الشَّقُّ بِاٰلۃٍ وَّلَمْ یَسِلِ الدَّمُّ ۔
ترجمہ : شق صدر کسی آلہ سے نہیں تھا۔ نہ اس شگاف سے خون بہا ۔ (تفسیر روح البیان جلد ۵، ص ۱۰۶،چشتی)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خلقت نور سے ہے اور بشریت ایک لباس ہے اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ جب چاہے اپنی حکمت کے مطابق بشری احوال کو نورانیت پر غالب کر دے اور جب چاہے نورانیت کو احوال بشریہ پر غلبہ دے دے اور بشریت نہ ہوتی تو ’شق‘ کیسے ہوتا اور نورانیت نہ ہوتی تو آلہ بھی درکار ہوتا اور خون بھی ضرور بہتا ۔
جب کبھی خون بہا (جیسے غزوئہ احد میں) تو وہاں احوال بشریہ کا غلبہ تھا اور جب خون نہ بہا (جیسے لیلۃ المعراج شق صدر میں) تو وہاں نورانیت غالب تھی ۔
شب معراج شق صدر مبارک
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ فرشتوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سینۂ اقدس اوپر سے نیچے تک چاک کیا اور قلب مبارک باہر نکالا پھر اسے شگاف دیا اور اس سے خون کا ایک لوتھڑا نکال باہر پھینکا اور کہا کہ آپ کے اندر شیطان کا ایک حصہ تھا ۔
خون کا لوتھڑا یا شیطان کا حصّہ
علامہ تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں خون کا لوتھڑا پیدا فرمایا ہے ۔ اس کا کام یہ ہے کہ انسان کے دل میں شیطان جو کچھ ڈالتا ہے یہ لوتھڑا اسے کو قبول کرتا ہے ۔ (جس طرح قوت سامعہ آواز کو اور قوت باصرہ مبصرات کی صورتوں کو اور قوت شامہ خوشبو اور بدبو کو اور قوتِ ذائقہ ترشی اور تلخی وغیرہ کو اور قوتِ لامسہ گرمی اور سردی وغیرہ کیفیات کو قبول کرتی ہے ، اسی طرح دل کے اندر یہ منجمد خون کا لوتھڑا شیطانی وسوسوں کو قبول کرتا ہے) یہ لوتھڑا جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قلب مبارک سے دور کر دیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ میں ایسی کوئی چیز باقی نہ رہی جو القائے شیطانی کو قبول کرنے والی ہو۔ علامہ تقی الدین فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے یہی مراد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ گرامی میں شیطان کا کوئی بھی حصہ کبھی نہیں تھا ۔
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ جب یہ بات تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ میں اس خون کے لوتھڑے کو کیوں پیدا فرمایا کیونکہ یہ ممکن تھا کہ پہلے ہی ذاتِ مقدسہ میں اسے پیدا نہ فرمایا جاتا ۔ تو جواب دیا جائے گا کہ اس کے پیدا فرمانے میں یہ حکمت ہے کہ وہ اجزائے انسانیہ میں سے ہے ۔ لہٰذا اس کا پیدا کیا جانا خلقت انسانی کی تکمیل کے لئے ضروری ہے اور اس کا نکال دینا ، یہ ایک امر آخر ہے جو تخلیق کے بعد طاری ہوا ۔ (انتہیٰ)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، اس کی نظیر بدن انسانی میں اشیاء زائدہ کی تخلیق ہے جیسے قلفہ کا ہونا اور ناخنوں اور مونچھوں کی درازی اور اسی طرح بعض دیگر زائد چیزیں (جن کا پیدا ہونا بدن انسانی کی تکمیل کا موجب ہے اور ان کا ازالہ طہارت و نظافت کے لئے ضروری ہے) مختصر یہ کہ ان اشیاء زائدہ کی تخلیق اجزائے بدن انسانی کا تکملہ ہے اور ان کا زائل کرنا کمال تطہیر و تنظیف کا مقتضیٰ ہے ۔ (شرح شفاء لملا علی قاری جلد ۱، صفحہ ۳۷۴)
چونکہ ذاتِ مقدسہ میں حظّ شیطانی باقی ہی نہ تھا اس لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہمزاد مسلمان ہو گیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ ’’وَلٰکِنْ اَسْلَمَ فَلَا یَأْمُرُنِیْ اِلَّا بِخَیْرٍ‘‘ میرا ہمزاد مسلمان ہو گیا ، لہٰذا سوائے خیر کے وہ مجھے کچھ نہیں کہتا ۔
علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ نسیم الریاض میں فرماتے ہیں کہ قلب بمنزلہ میوہ کے ہے جس کا دانہ اپنے اندر کے تخم اور گٹھلی پر قائم ہوتا ہے اور اسی سے پختگی اور رنگینی حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح وہ منجمد خون قلب انسانی کے لئے ایسا ہے جیسے چھوہارے کے لئے گٹھلی۔ اگر ابتداً اس میں گٹھلی نہ ہو تو وہ پختہ نہیں ہو سکتا لیکن پختہ ہو جانے بعد اس گٹھلی کو باقی نہیں رکھا جاتا بلکہ نکال کے پھینک دیا جاتا ہے ۔ چھوہارے کی گٹھلی یا دانہ انگور سے بیج نکال کر پھینکتے وقت کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ جو چیز پھینکنے کے قابل تھی وہ پہلے ہی کیوں پیدا کی گئی ؟ اگر اسی طرح یہ بات ذہن نشین کر لی جائے تو قلب اطہر میں خون کا وہ لوتھڑا اسی طرح تھا جیسے انگور کے دانہ میں بیج یا کھجور کے دانہ میں گٹھلی ہوتی ہے۔ اور قلب اطہر سے اس کو بالکل ایسے ہی نکال کر پھینک دیا گیا، جیسے کھجور اور انگور سے گٹھلی اور بیج کو نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو گا کہ اس لوتھڑے کو قلب اطہر میں ابتداً کیوں پیدا کیا گیا ۔ (نسیم الریاض، شرح شفاء قاضی عیاض صفحہ نمبر ۲۳۹،چشتی)
رہا یہ امر کہ فرشتوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یہ کیوں کہا کہ ہٰذِہٖ حَظُّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ (معاذ اللہ) آپ کی ذات پاک میں واقعی شیطان کا کوئی حصہ ہے۔ نہیں اور یقینا نہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ذات پاک ، شیطانی اثر سے پاک اور طیب و طاہر ہے بلکہ حدیث شریف کے معنی یہ ہیں کہ اگر آپ کی ذات پاک میں شیطان کے تعلق کی کوئی جگہ ہو سکتی ہے تو وہ یہی خون کا لوتھڑا تھا ۔ جب اس کو آپ کے قلب مبارک سے نکال کر باہر پھینک دیا گیا تو اس کے بعد آپ کی ذاتِ مقدسہ میں کوئی ایسی چیز باقی نہ رہی جس سے شیطان کا کوئی تعلق کسی طرح ہو سکے ۔
الفاظ حدیث کا واضح اور روشن مفہوم یہ ہے کہ آپ کی ذاتِ مقدسہ میں شیطان کا کوئی حصہ ہوتا تو یہی خون کا لوتھڑا ہو سکتا تھا مگر جب یہ بھی نہ رہا تو اب ممکن ہی نہیں کہ ذاتِ مقدسہ سے شیطان کا کوئی تعلق ممکن ہو ۔ آپ کی ذاتِ مقدسہ ان عیوب سے پاک ہے جو اس لوتھڑے کے ساتھ شیطان کے متعلق ہونے سے پیدا ہو سکتے ہیں ۔
واقعہ شقِ صدر کے متعلق دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ
متفرقات >> تاریخ و سوانح
سوال نمبر: 147739
عنوان:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کتنی بار چاک کیا گیا؟
سوال:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کتنی بار چاک کیا گیا؟
جواب نمبر: 147739
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 358-310/Sn=4/1438
شق صدر (سینہ چاک کرنے) کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں چار مرتبہ پیش آیا: (۱) زمانہٴ طفولیت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلیمہٴ سعدیہ (رض) کی پرورش میں تھے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چار سال کی تھی۔ (۲) دوسری بار شق صدر کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دس سال کی عمر میں پیش آیا۔ (۳) تیسری بار بعثت کے وقت۔ (۴) چوتھی بار معراج کے وقت شق صدر کا واقعہ پیش آیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں سیرة المصطفیٰ (۱/۷۳)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
https://darulifta-deoband.com/home/ur/History--Biography/147739
شق صدر مبارک کے بعد ایک نورانی طشت جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینۂ اقدس میں بھر دیا گیا ، ایمان و حکمت اگرچہ جسم و صورت سے متعلق نہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر قادر ہے کہ غیر جسمانی چیزوں کو صورت عطا فرمائے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایمان و حکمت کو جسمانی صورت میں متمثل فرما دیا اور یہ تمثل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حق میں انتہائی عظمت و رفعت شان کا موجب ہے ۔
جو بشریت عیوب و نقائص بشریت سے پاک ہو اس کا نور ہونا نورانیت کے منافی نہیں ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نور سے مخلوق فرما کر مقدس اور پاکیزہ بشریت کے لباس میں مبعوث فرمایا ۔ شق صدر ہونا بشریت مطہرہ کی دلیل ہے اور باوجود سینۂ اقدس چاک ہونے کے خون نہ نکلنا نورانیت کی دلیل ہے ۔ ’’فلم یکن الشق بالۃ ولم یسل الدم‘‘ ’’شق صدر کسی آلہ سے نہ تھا نہ اس شگاف سے خون بہا‘‘ ـ (روح البیان ج ۵ ص ۱۰۶)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خلقت نور سے ہے اور بشریت ایک لباس ہے ۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ جب چاہے اپنی حکمت کے مطابق بشری احوال کو نورانیت پر غالب کر دے اور جب چاہے نورانیت کو احوال بشریت پر غالب کر دے ۔ بشریت نہ ہوتی تو ’’شق‘‘ کیسے ہوتا اور نورانیت نہ ہوتی تو آلہ بھی درکار ہوتا اور خون بھی ضرور بہتا۔
جب کبھی خون بہا (جیسے غزوہ احد میں) تو وہاں احوال بشریہ کا غلبہ تھا اور جب خون نہ بہا (جیسے لیلۃ المعراج شق صدر میں) تو وہاں نورانیت غالب تھی ۔
جسمانی معراج کا بھی یہی حال ہے کہ تینوں میں سے کوئی چیز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتی لیکن کہیں بشریت کا ظہور، کہیں نورانیت کا اور کہیں حقیقت محمدیہ کا یعنی صورۃ حقیہ کا۔ ولٰـکن کثیرا من الناس عنہا غفلون ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment