شب معراج منانا اور اس میں ذکر معراج کا اہتمام کرنا بدعت ہے کا جواب
محترم قارئینِ کرام : منکرین کا اعتراض ہے کہ علماء نے لکھا ہے لیلۃ الاسراء میں کسی عمل کی ارجحیت کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ۔ اسی واسطے نہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کے لئے اسی رات کو مقرر فرمایا۔ نہ صحابہ کرام نے اسے کسی عبادت کے لئے معین کیا۔ لہٰذا شب معراج منانا اور اس میں ذکر معراج کا اہتمام کرنا بدعت ہے ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر صحابہ کرام یا ان کے بعد کسی زمانہ میں اس رات میں ذکر معراج کے اہتمام کا رواج ہوتا تو اس مہینہ اور تاریخ میں اتنا شدید اختلاف نہ ہوتا ۔ اختلافِ اقوال اس امر کی روشن دلیل ہے کہ بزرگان سلف کے نزدیک شب معراج کی کوئی اہمیت نہ تھی ۔
اس اعتراض کا جواب
اس کے جواب میں عرض ہے کہ اگر معترض کی مراد یہ ہے کہ شب معراج میں خصوصیت کے ساتھ نیکی اور عبادت کا مشروع ہونا کسی حدیث میں مشروع نہیں ہوا تو ہمیں اس سے اختلاف نہیں لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ شب معراج میں معراج کا اہتمام بھی ناجائز اور بدعت ہے۔ ارشادِ خداوندی ’’وَذَکِّرْہُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ‘‘ اور ’’وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث‘‘ اس امر کی روشن دلیل ہے کہ جن دنوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے خاص اور اہم واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان کو یاد دلانا عین منشاء قرآن کے مطابق ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر ارشادِ خداوندی کی تکمیل ہے۔ واقعہ معراج سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی شان قدرت کے ظہور کا اور کون سا واقعہ ہو گا؟ اور شب معراج اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کو عطا فرمائیں ان کا انکار کون کر سکتا ہے؟ پھر اس رات کی یاد دہانی، اس کا ذکر اور بیان ہماری پیش کردہ آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں کیونکر بدعت قرار پا سکتا ہے؟ رہا یہ امر کہ سلف میں اس کا رواج نہ تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عدم نقل عدم وجود کو مستلزم نہیں۔ اس لئے محض منقول نہ ہونے سے اس کا عدم ثابت نہیں ہوتا اور ہمارے لئے اتنا کافی ہے کہ اس کی ممانعت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں اور اس میں ایسا کوئی کام شامل نہیں جس پر شرع مطہرہ میں نہی وارد ہوئی ہو۔ اس کی دلیل خلافت صدیقی میں قرآن مجید کا جمع کیا جانا ہے جس کے متعلق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا ’’کیف تفعل شیئا لم یفعلہ‘‘ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم پھر حضرت زید بن ثابت نے صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما دونوں سے عرض کیا ’’کیف تفعلون شیئا لم یفعلہُ رسول اللّٰہ ‘‘ (آپ وہ کام کیسے کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے نہیں کیا ؟) فاروقِ اعظم نے صدیق اکبر کو پھر صدیق اکبر نے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو یہی جواب دیا ’’ہو واللّٰہ خیر‘‘ (بے شک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے نہیں کیا لیکن) خدا کی قسم وہ خیر ہے۔ (بخاری شریف ج ۲ ص ،،۷۴۵،چشتی)
معلوم ہوا کہ جس کام سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے منع نہ فرمایا ہو اور اس میں خیر کا پہلو پایا جائے تو وہ بظاہر بدعت معلوم ہوتا ہے لیکن بباطن حسن اور خیر ہے۔ لہٰذا اگر بفرض محال یہ ثابت بھی ہو جائے کہ سلف صالحین میں شب معراج کے اہتمام کا رواج نہ تھا تب بھی اس اہتمام اور ذکر معراج کو بدعت اور ناجائز نہیں کہہ سکتے تاوقتیکہ اس اہتمام میں کوئی ایسا عمل نہ کیا جائے جو شرعاً ممنوع ہو۔ اور ہم آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں واضح کر چکے ہیں کہ ایام اللہ کا یاد دلانا اور نعمائے الٰہیہ کا بیان منشاء قرآن کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا شب معراج منانا اور اس میں واقعاتِ معراج بیان کرنا جائز، مستحب اور باعث رحمت و برکت ہے۔ اس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جس کے دل میں صاحب معراج صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی دشمنی اور عداوت ہو۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک ۔
رہا یہ امر کہ شب معراج کے بارے میں اختلافِ اقوال اس امر کی دلیل ہے کہ سلف کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہ تھی ورنہ اختلاف نہ ہوتا ۔
تو اس کے متعلق عرض کروں گا کہ اگر دن، تاریخ اور مہینہ کے اختلاف کو اس بات کی دلیل مان لیا جائے کہ سلف کے نزدیک اس رات کی کوئی اہمیت نہ تھی، نہ ان کے زمانے میں اس کے منانے کا کوئی رواج تھا تو سنہ معراج کا اختلاف اس بات کی دلیل بن جائے گا کہ معراج سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی۔ اگر ہوتی تو اس کے سنہ میں اختلاف نہ ہوتا۔ ہمارے نزدیک سنہ معراج کا اختلاف اس بات کی روشن دلیل ہے کہ معراج کے دن، تاریخ اور مہینہ کے بارے میں اختلافِ اقوال محض اختلافِ روایات پر مبنی ہے۔ بیانِ معراج کے اہتمام اور شب معراج کی اہمیت سے اس کو متعلق کرنا درست نہیں۔ کیونکہ دن، تاریخ اور مہینہ کو شب معراج منانے اور بیانِ معراج کے اہتمام میں دخل ہو سکتا ہے لیکن سنہ معراج اس اہتمام سے بالکل غیر متعلق ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس میں اختلافِ شدید موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ اختلافِ اقوال کو شب معراج منانے اور اس کے اہتمام سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر بقول معترض ہم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ اختلافِ اقوال اسی وجہ سے ہے کہ سلف کے زمانے میں شب معراج منانے کا کوئی رواج نہ تھا اور ان کے نزدیک شب معراج کی کوئی اہمیت نہیں تھی تو میں دریافت کروں گا کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ و دیگر عبادات و اکثر و بیشتر معاملات میں سلف کے درمیان شدید اختلافات واقع ہوئے۔ مثلاً نماز میں رفع یدین، اٰمین بالجہر، قرأت خلف الامام، رکعت وتر، تعداد تراویح، تعین یوم عاشورہ، تکبیراتِ عیدین وغیرہ بے شمار مسائل میں صحابہ کرام، تابعین مجتہدین کے درمیان اختلاف اقوال کسی سے مخفی نہیں تو کیا اس اختلاف اقوال کی بنا پر یہ کہنا صحیح ہو گا کہ سلف صالحین کے زمانہ میں روزہ نماز وغیرہ کا کوئی رواج نہ تھا اور ان کے نزدیک ان فرائض و واجبات اور امورِ مسنونہ و اعمال حسنہ کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ کوئی ذی ہوش ایسی بات کی جرأت نہ کر سکے گا۔ معلوم ہوا کہ اختلافِ اقوال عدم رواج یا عدم اہتمام کی وجہ سے نہیں بلکہ اختلافِ روایات کی وجہ سے ہے ۔
دیارِ عرب میں رجبی شریف
روح البیان اور ماثبت بالسنۃ کی عبارت سے واضح ہے کہ لوگوں میں شب معراج منانے کا دستور تھا۔ بالخصوص دیارِ عرب کے باشندے اس مبارک رات کی عظمت و اہمیت کے قائل تھے۔ دیکھئے روح البیان میں ہے : وہی لیلۃ سبع وعشرین من رجب لیلۃ الاثنین وعلیہ عمل الناس ۔ (روح البیان ج ۵ ص ۱۰۳،چشتی)
ترجمہ : شب معراج رجب کی ۲۷ تاریخ ہے اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے ۔
معلوم ہوا کہ لوگ اس رات کچھ نہ کچھ کرتے تھے اور ماثبت بالسنۃ میں ہے : ’’اعلم انہٗ قد اشتہر بدیار العرب فیما بین الناس ان معراجہٗ ا بسبع وعشرین من رجب وموسم الرجبیۃ فیہ متعارف بینہم ۔ الخ .
ترجمہ : جاننا چاہئے کہ دیارِ عرب میں لوگوں کے درمیان مشہور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی معراج شریف ۲۷؍ رجب کو ہوئی اور رجبی کا موسم عرب میں اہل عرب کے درمیان مشہور و متعارف ہے۔(ماثبت بالسنۃ ص ، ۱۹۱،چشتی)
الحمد للّٰہ : رجبی شریف کے منانے کو بدعت کہنے والوں کا قول باطل ہو گیا اور حق کی وضاحت ہو گئی ۔ (طالب< دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment