درسِ قرآن موضوع آیت : سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ، حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ۔
ترجمہ : پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصا تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے ۔
سبحان کا معنی
سُبْحٰنَ کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے ۔ حضرت طلحہ بن عبیداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ’’سُبْحَانَ اللّٰہ ‘‘ کی تفسیر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہر بری چیز سے اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا ۔ (تفسیر مستدرک، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل والتسبیح والذکر، تفسیر سبحان اللّٰہ، ۲/۱۷۷، الحدیث: ۱۸۹۱)
سبح کا معنی ہے پانی میں سرعت سے تیرنا، مجازا سیاروں کے اپنے مدار میں گردش کرنے کو بھی کہتے ہیں، قرآن مجید میں ہے : وکل فی فلک یسبحون : (سورہ یسین : 40) اور ہر ایک اپنے مدار میں تیر رہا ہے ۔ (یعنی گردش کر رہا ہے)
اور تسبیح کا معنی ہے ان اوصاف سے اللہ تعالیٰ کے پاک ہونے کو بیان کرنا جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں، اور اس کا اصل معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو بہت تیزی اور سرعت کے ساتھ انجام دینا اور تسبیح کا لفظ تمام عبادات کے لیے عام ہے خواہ اس عبادت کا تعلق ول سے ہو فعل سے ہو یا نیت سے ہو ۔ (المفردات ج 1، ص 292، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 1418 ھ،چشتی)
سبحان کا لفظ ہر عیب اور نقص سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس کے لیے ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے غیر کو اس صفت سے موصوف کرنا ممتنع ہے، اس آیت میں بھی یہ لفظ تنزیہ کے لیے ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس نقص سے پاک ہے کہ وہ رات کے ایک لمحہ میں اتنی عظیم سیر نہ کراسکے، تسبیح کا لفظ قرآن مجید میں تسبیح پڑھنے یعنی اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس کرنے اور نماز پڑھنے کے معنی میں بھی ہے : فسبح و اطراف النھار لعلک ترضٰ ۔ (سورہ طہ : 130)
اور دن کے کناروں میں آپ نماز پڑھیے اور تسبیح کیجیے تاکہ آپ راضی ہوجائیں ۔
حدیث میں یہ لفظ نور کے معنی میں بھی آیا ہے : لا حرقت سبحات وجھہ ما ادرک بصرہ ۔ اللہ تعالیٰ کے چہرے کے انوار منتہاء بصر تک کو جلا ڈالتے ۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث : 179، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 195، 196، مسند احمد ج 4، ص 401، 405)
نیز احادیث میں سبحان کا معنی اللہ تعالیٰ کی تنزیہ ہے ۔ حضرت طلحۃ بن عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سبحان اللہ کی تفسیر پوچھی آپ نے فرمایا، ہر بری چیز سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنا۔ (المستدرک ج 1، ص 502، قدیم المستدرک، رقم الحدیث 189، کتاب الدعا للطبرانی رقم الحدیث : 1751، 1752، مجمع الزوائد ج 10، ص ،94،چشتی)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے ایک دن میں سو مرتبہ ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ پڑھا ،تو اس کے گناہ مٹا دئیے جائیں گے اگرچہ اس کے گناہ سمندر کی جھاگ کی مثل ہوں ۔ (بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۴/۲۱۹، الحدیث: ۶۴۰۵)
حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ کہا تو اس کے لئے جنت میں ایک درخت اُگا دیا جاتا ہے ۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۵۹-باب، ۵/۲۸۶، الحدیث: ۳۴۷۵)
حضرت ابوذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، کون سا کلام اللّٰہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’وہ کلام جسے اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کے لئے پسند فرما ہے (اور وہ یہ ہے) ’’سُبْحَانَ رَبِّیْ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیْ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ ۔ (مستدرک، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل ۔۔۔ الخ، احبّ الکلام الی اللّٰہ سبحان ربّی وبحمدہ،۲/۱۷۶، الحدیث:۱۸۸۹)
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایک دن میں سو مرتبہ پڑھا سبحان اللہ وبحمدہ تو اس کے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں خواہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ ہوں۔ ( صحیح البخاری، رقم الحدیث : 1405، صحیح مسلم، رقم الحدیث، 2691، سنن الترمذی، رقم الحدیث : 3468، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 5091، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3798)
حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، اللہ تعالیٰ کو کونسا کلام سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ فرمایا وہ کلام جس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے لیے پسند فرما لیا ہے ۔ سبحان ربی وبحمدہ سبحان ربی وبحمدہ ۔ (المستدرک ج 1، ص 501، قدیم المستدرک رقم الحدیث : 1889، جدید صحیح مسلم رقم الحدیث : 2731، سنن الترمذی، رقم الحدیث : 3587، مسند احمد ج 5 ص 148، شرح السنہ، ج 5، ص 41)
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس شخص نے سبحان اللہ العظیم کہا اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت اگا دیا جاتا ہے ۔ (المستدرک ج 1 ص 501، قدیم المستدرک رقم الحدیث : 1890)
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : دو کلمے زبان پر ہلکے ہیں میزان میں بھاری ہیں اللہ کے نزدیک محبوب ہیں ۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 7563، صحیح مسلم رقم الحدیث : 1694، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3806، سنن الترمذی، رقم الحدیث : 3467، مسند احمد رقم الحدیث : 7167 م عالم الکتب)
حضرت سمرہ بن جندب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے محبوب کلام چار ہیں : سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ۔ تم ان میں سے جس کلام سے ابتدا کرو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ (الحدیث) (صحیح مسلم، رقم الحدیث : 2137،چشتی)
علاّمہ حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : سبحان اللہ کہنے کا معنی ہے اللہ تعالیٰ ہر نقص سے اور ہر ایسی چیز سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق ہیں ہے اور اس کو یہ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ شریک سے، بیوی سے، بچوں سے، اور تمام رذائل سے پاک ہے، تسبیح کا لفظ بولا ا جاتا ہے اور اس سے ذکر کے تمام الفاظ مراد ہوتے ہیں وار کھی اس سے نفلی نماز مراد ہوتی ہے، صلوۃ التسبیح اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں بکثرت تسبیحات ہیں، سبحان کا لفظ بالعموم اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ۔ (فتح الباری ج 11، ص 207، مطبوعہ لاہور، 1401 ھ)
یاد رہے کہ ہر اسمِ الٰہی کی تجلی عامل پر پڑتی ہے یعنی جو جس اسمِ الٰہی کا وظیفہ کرتا ہے اُس میں اُسی کا اثر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ جو ’’یَا سُبْحَانُ‘‘کا وظیفہ کرے تواللّٰہ تعالیٰ اسے گناہوں سے پاک فرمائے گا ۔ جو’’یَا غَنِیُّ ‘‘ کا وظیفہ پڑھے تو وہ خود غنی اور مالدار ہوجائے گا، اسی طرح جو یَاعَفُوُّ ، یَا حَلِیْمُ کا وظیفہ کرے تو اس میں یہی صفات پیدا ہونا شروع ہوجائیں گی۔ اسی مناسبت سے یہاں ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو بکر بن زیَّات رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ ایک شخص حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :حضور! آج صبح ہمارے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے اور میں سب سے پہلے آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے پاس یہ خبر لے کر آیا ہوں تاکہ آپ کی برکت سے ہمارے گھرمیں خیر نازل ہو ۔ حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ تمہیں اپنے حفظ واَمان میں رکھے ۔یہاں بیٹھ جاؤ اورسو مرتبہ یہ الفاظ کہو ’’مَا شَاءَ اللّٰہُ کَانَ‘‘یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے جو چاہا وہی ہوا۔ اس نے سو مرتبہ یہ الفاظ دہرا لئے توآپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا’’ دوبارہ یہی الفاظ کہو ۔ اس نے سو مرتبہ پھر وہی الفاظ دہرائے۔ آپ نے فرمایا ’’پھر وہی الفاظ دہراؤ۔ اس طرح پانچ مرتبہ اسے (وہ الفاظ دہرانے کا ) حکم دیا ۔ اتنے میں ایک وزیر کی والدہ کا خادم ایک خط اور تھیلی لے کر حاضر ہوا اور کہا :’ ’اے معروف کرخی ! رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ،اُمِّ جعفر آپ کو سلام کہتی ہے ، اس نے یہ تھیلی آپ کی خدمت میں بھجوائی ہے اورکہا ہے کہ آپ غُرباء و مساکین میں یہ رقم تقسیم فرما دیں ۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قاصد سے فرمایا ’’ رقم کی تھیلی اس شخص کو دے دو، اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے۔ قاصد نے کہا: یہ 500 درہم ہیں، کیا سب اسے دے دوں ؟ آپ نے فرمایا ’’ہاں !ساری رقم اسے دے دو، اس نے پانچ سو مرتبہ ’’مَا شَاءَ اللّٰہُ کَانَ‘‘ کہا تھا۔ پھر اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’ یہ پانچ سو درہم تمہیں مبارک ہوں، اگر اس سے زیادہ مرتبہ کہتے تو ہم بھی اتنی ہی مقدار مزید بڑھا دیتے ۔ ( جاؤ !یہ رقم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو) ۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ التاسعۃ بعد الثلاث مائۃ، ص۲۷۷،چشتی)
سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ : پاک ہے وہ ذات ۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر کمزوری، عیب اور نقص سے خداوند ِ قدوس کی عظیم ذات پاک ہے جس نے اپنے خاص بندے یعنی مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شبِ معراج رات کے کچھ حصے میں مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرائی حالانکہ مسجد ِ اقصیٰ مکۂ مکرمہ سے تیس دن سے زیادہ کی مسافت پر ہے ، وہ مسجد ِاقصیٰ جس کے اردگرد ہم نے دینی و دُنْیَوی برکتیں رکھی ہیں اور سیر کرانے کی حکمت یہ تھی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اپنی عظمت اور قدرت کی عظیم نشانیاں دکھانا چاہتا تھا ۔ روایت ہے کہ جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شب ِمعراج درجاتِ عالیہ اور مَراتبِ رفیعہ پر فائز ہوئے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے خطاب فرمایا ، اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) یہ فضیلت و شرف میں نے تمہیں کیوں عطا فرمایا ؟ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرض کی :اس لئے کہ تو نے مجھے عَبْدِیَّت کے ساتھ اپنی طرف منسوب فرمایا۔ اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن، الاسرائ، تحت الآیۃ: ۱، ۳/۱۵۳-۱۵۴)
اسریٰ کا معنی
اسری کا لفظی سری سے بنا ہے، اس کا معنی ہے رات کو جانا، اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط سے فرمایا : فاسر باھلک ۔ (سورہ ھود : 81)
آپ رات میں اپنے اہل کو لے جائیں ۔
نیز فرمایا : سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا ۔ (سورہ بنی اسرائیل : 1)
سبحان ہے وہ جو اپنے بندے کو رات کے ایک لمحۃ میں لے گیا ۔ (المفردات : ج 2، ص 305، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 1418 ھ)
اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ : اپنے بندے کو سیر کرائی ۔ آیت کے اس حصے میں نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معراج شریف کا تذکرہ ہے ۔ معراج شریف نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک جلیل معجزہ اور اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور اس سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وہ کمالِ قرب ظاہر ہوتا ہے جو مخلوقِ الٰہی میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا کسی کو مُیَسَّر نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment