ماہِ محرّم الحرام یا کسی بھی مہینے میں نکاح کرنا
محترم قارٸینِ کرام : آج کل رافضیوں اور بعض ان کے ہمنوا لوگوں نے اس مسلہ کو لے کر اہلِ اسلام کو ایموشنل بلیک میل کرتے ہوئے مسلمانانِ اہلسنّت کے خلاف ہفوات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے گذشتہ سال فقیر نے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا تھا اب اس میں مزید کچھ اضافہ جات پیشِ خدمت ہیں اہلِ علم کہیں غلط پائیں تو فقیر کو ضرور آگاہ فرمائیں تاکہ درستگی کی جا سکے جزاکم اللہ خیرا آمین ۔
یہ ایک شرعی مسلہ ہے شرعی مسلے کو شرعیت کی روشنی میں دیکھیں اسے کسی تعصب کی نظر نہ کریں باقی احترام دس محرم الحرام مدِّ نظر رہے کیونکہ اس دن اہلبیت اطہار اور سیّدنا امام حسین علیہم السّلام اور آپ کے رفقاء رضی اللہ عنہم کی عظیم شہادتیں ہوئی ہیں ۔ جس چیز کے بارے میں کوئی مخصوص حکم نہ ہو تو وہ کام اصل کے اعتبار سے مباح ہوتا ہے ، اور علمائے کرام کے مابین یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ عادات میں جب تک حرمت کی دلیل نہیں ملتی تو اصل جواز ہی ہے ، چنانچہ کتاب وسنت ، اجماع ، یا قیاس ، اور آثار وغیرہ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جو ماہِ محرم میں نکاح وغیرہ سے مانع ہو ، اس لئے اباحتِ اصلیہ کی بنا پر ماہِ محرم یا کسی بھی ماہ میں نکاح جائز ہے ۔
اس بارے میں علمائے کرام کا کم از کم اجماعِ سکوتی ہے ، کہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، ائمہ کرام علیہم الرّحمہ اور ان کے علاوہ دیگر متقدمین یا متاخرین میں سے کوئی بھی ایسا عالم نہیں ملا جو اس ماہ میں شادی ، بیاہ ، اور منگنی کو حرام یا کم از کم مکروہ ہی سمجھتا ہو ۔
لہٰذا اگر کوئی منع کرتا ہے تو اسکی تردید کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ، اور علمائے کرام میں سے کوئی بھی اس کے موقف کا قائل نہیں ہے ہاں احترام دس محرم الحرام مد نظر رہنا چاہیئے ۔
امیر الموٴمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی ، اگرچہ اس قول کے علاوہ دیگر اقوال بھی ملتے ہیں ۔ (تاریخ مدینة الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاة والسلام وأزواجہ: ۳/۱۲۸، دار الفکر۔ تاریخ الرسل والملوک للطبري، ذکر ما کان من الأمور في السنة الثانیة، غزوة ذات العشیرة، ۲/۴۱۰، دار المعارف بمصر،چشتی)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح سنہ ۲/ ہجری میں ہوا؛ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مہینہ کون سا تھا، توا س میں تین طرح کے اقوال ملتے ہیں، محرم الحرام، صفر المطفر اور ذوالحجہ۔ ابن عساکر اور طبری رحمہما اللہ نے محرم الحرام کے مہینے میں نکاح ہونے کی روایت کو ترجیح دی ہے ۔
ماہِ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں ، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے ، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں ، حرام ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : لا یحل لامرأة توٴمن باللہ والیوم الآخر إن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال إلا علٰی زوج أربعة أشھر وعشراً
ترجمہ : جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے؛ مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے“۔ (بخاري، باب: تحد المتوفی عنھا أربعة أشھر وعشراً إلخ، ص: ۸۰۳، ج:۲، پ:۲۲)، ( صحیح مسلم، باب: وجوب الإحداد في عدة الوفات، إلخ، ص: ۴۹۶، ج:۱)، (مشکوٰة، باب العدة، الفصل الأول، ص: ۲۸۸)
ماہ محرم الحرام میں شادی وغیرہ کرنے کو نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت و جماعت کے عقیدے کے خلاف ہے ، اسلام میں جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا گیا ہو ، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے ، مسلمانوں کو چاہیئے کہ روافض اور شیعہ سے پوری احتیاط برتیں ، ان کی رسومات سے علیحدہ رہیں ، ان میں شرکت حرام ہے ۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مسلم ر اتشبہ بہ کفار وفساق حرام است۔“ یعنی: مسلمانوں کو کفار وفساق کی مشابہت اختیار کرنی حرام ہے ۔ (مالا بد منہ صفحہ نمبر 131،چشتی)
فتویٰ منہاج القرآن محرم الحرام میں نکاحِ مسنون کرنا یا کسی بھی دن کرنا منع نہیں مگر محرم میں دھوم دھام سے شادی کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ (منہاج الفتاویٰ جلد اوّل صفحہ نمبر 480)
امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا سوال اور جواب پڑھیئے :
فتاویٰ رضویہ میں یہ مسئلہ مجھے دو مقام پر ملا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں
مسئلہ ۹۰ تا ۹۱ : ماہ محرم الحرام وصفر المظفر میں نکاح کرنا منع ہے یا نہیں ؟
الجواب : نکاح کسی مہینے میں منع نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلدنمبر 11صفحہ نمبر 265)
مسئلہ ۱۷۵ تا ۱۷۸:
۱۱محرالحرام ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسائل ذیل میں :
(۱) بعض (لوگ) عشرہ ۱۰محرم الحرام کونہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی
(۲) ان دس دن میں کپڑے نہیں اُتارتے ہیں۔
(۳) ماہ محرم میں بیاہ شادی نہیں کرتے ہیں۔
(۴) ان ایّام میں سوائے امام حسن وامام حسین رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے کسی کی نیاز فاتحہ نہیں دلاتے ہیں،آیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب : پہلی تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے ،اور چوتھی بات جہالت ہے ہر مہینہ ہر تاریخ میں ہر ولی کی نیاز اور ہر مسلمان کی فاتحہ ہوسکتی ہے . (فتاویٰ رضویہ جلد 24صفحہ488،چشتی)
سوال : (1) بعض سنی جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر میں روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی ۔ (2) ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے ۔ (3) ماہِ محرم میں کوئی بیاہ شادی نہیں کرتے ، اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے ۔ ۔ (احکام شریعت، صفحہ نمبر 90 جلد نمبر 1)
مفتی اہلسنّت فقیہ ملّت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ ماہِ محرّم میں شادی بیاہ کرنا کیسا ہے ؟ ۔ تو آپ نے جواب دیا جائز ہے شرعاََ کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ (فتاویٰ فیض الرّسُول جلد اوّل صفحہ 562،چشتی)
اعتراض : نیم رافضی کہتا ہے کہ گھر میں بیٹے کی لاش پڑی ہو تو کوٸی شادی کرے گا ؟
جواب : اس کا الزامی جواب یہ ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا کاوصال ہوا تو تم خوشی کیوں مناتے ہو ؟ ماھوجوابکم فھو جوابنا ۔
دوسرے نمبر پر عرض ہے کہ چودہ سو سال بعد کونسی لاش گھر میں پڑی ہے ؟
ہاں اگر شیعوں کی طرح لاشوں کے مصنوعی پتلے بنا کر آپ نے گھر میں رکھ لیٸے ہوں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ چاہے تم اس پر ماتم بھی کر لیا کرو ۔
تیسری بات یہ کہ علمائے اہلسنّت ترغیب نہیں دلاتے بلکہ حکمِ شرعی بیان فرماتے ہیں ۔
اعتراض : طبیعت نہیں مانتی کہ محرم الحرام میں شادی کی جاٸے ۔
جواب : طبیعت کو شریعت کے تابع کرو ، شریعت کو طبیعت کے تابع نہ کرو ۔ اگر یونہی عوام میں طبیعت طبیعت کی رٹ لگاٸی رکھی تو کل کو لوگ آپ سے اس طرح سوال کیا کریں گے ۔ اس مسٸلے پر حکمِ طبیعت بیان کر کے اجر کماٸیں ۔ طبیعت کے نہ ماننے پر حکمِ شرعی بدل نہیں جاتا ۔ دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ کھانے کی چیز میں مکھی گر جاٸے تو اسکو غوطہ دے کر نکال دو اور کھانا کھا لو (مفہوم حدیث) ، اب اگر کسی کی طبیعت نہیں مانتی تو کیا حکمِ شرع بدل دیا جاٸے گا ؟
طبیعت نہیں نہیں مانتی تو نہ کھاٸے لیکن اعتقادِ حلت تورکھے ۔
اعتراض : تم کہتے ہو کہ شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ منانا جاٸز نہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت خدیجہ اور ابوطالب کی وفات کے پورے سال کا نام ہی عامُ الحزن رکھ دیا ۔
جواب : جناب نے اعتراض تو کر جڑ دیا مگر یہ نہیں سوچا کہ خود ہی پھنس جائیں گے ۔
جنابِ من آپ لوگوں کے قاعدے کے مطابق اگر محرم الحرام میں اس لٸے نکاح جاٸز نہیں کہ اس مہینے نواسٸہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شہادت ہوٸی ۔ پھر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات والے سال کو عامُ الحزن (غم کا سال) کہا تو اس طرح 12 مہینوں میں ہی نکاح نہیں کرنا چاہیٸے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بارہ مہینوں کو ہی غم قرار دے دیا ۔ بر سبیل تسلیم اگر ہم مان بھی لیں کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا جس میں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوطالب کی وفات ہوئی ، تو اس قاعدے کے مطابق پھر شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے اسی سال کو عام الحزن کہا جاۓ گا جس سال میں ان کی شہادت ہوئی نہ کہ آج 1400 سال بعد پورے سال کو عام الحزن قرار دے دیا جاۓ ، دوسرے نمبر پر یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے میت پر مرد کو تین دن کا سوگ منانے کو کہا ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس پورے سال کو غم کا سال قرار دے دیا تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تخصیص ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو چاہیں کریں ۔ کل کو کوٸی اٹھ کر یہ کہہ دے گا کہ دیکھو شریعت نے چار شادیوں کی رخصت دی ہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمة الزھرہ علی ابیھا وعلیھا السلام کی موجودگی میں مولا علی رضی اللہ عنہ پر دوسرا نکاح حرام کر دیا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جس کے لٸے چاہیں شرع کے حکم کی تخصیص کر دیں ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس سال کو غم کا سال کہہ کر اسی سال کی غم سے تخصیص کر دی ۔(چشتی)
حضرت سیّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ نہ صرف شہید بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی اور نواسے بھی ہیں ان کے درجات کا بلند ہونا یقینی ہے ان کی شہادت جدائی کے احساس کی وجہ سے عارضی صدمے کا سبب ضرور بنی مگر ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کےلیے یہ بات قطعاً مناسب نہیں کہ وہ ان کی شہادت کی یاد میں ہر سال سوگ منائیں یہ سوگ صرف اور صرف وہی لوگ ہی منا سکتے ہیں جن کو اہل بیت رضی اللہ عنہم سے حسد کی وجہ سے یہ تکلیف ہے کہ حضرت امام حسین اور ان کے رفقائے کرام رضی اللہ عنہم کو شہادت کا بلند رتبہ کیوں ملا ؟ جس کا اندازہ سینہ کوبی کرنے والے اور ماتمی قوم کےالفاظ سے لگایا جا سکتا ہے ۔
اگر محرم الحرام میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم کی وجہ سے نکاح کرنا جائز نہیں تو پھر صرف اس مہینے نہیں بلکہ پورے سال میں کسی دن بھی نکاح کی گنجائش نہیں ہے ۔ کیونکہ پورے سال میں ایک دن بھی ایسا نہ ہوگا جس میں کسی نہ کسی نبی علیہ السلام ، کسی نہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ یا کسی نہ کسی ولی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات یا شہادت نہ ہوئی ہو ۔
محرم الحرام میں صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نہیں بلکہ اس مہینے میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بہنوئی ، حضرت علی و حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے داماد ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سسر اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہوئی ہے ۔ پھر یہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس میں نکاح کرنا کیوں معیوب نہیں قرار پایا بلکہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے کیوں معیوب ہے ؟
ماہ صفر میں حضرت عاصم بن ثابت اور ان کے سات ساتھیوں رضی اللہ عنہم کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ۔
ماہ ربیع الاول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال مبارک ہوا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے برادر اکبر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی جدائی کا دلخراش سانحہ پیش آیا ۔
ماہ ربیع الثانی میں ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی ۔
ماہ جمادی الاول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نواسے حضرت عبد اللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما کی وفات ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منہ بولے بیٹے حضرت زیدبن حارث رضی اللہ عنہ اورحضرت امامحسین رضی اللہ عنہ کے چچا حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔
ماہ جمادی الثانی میں اہل اسلام کے خلیفہ بلا فصل خلیفہ راشد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ۔
ماہ رجب المرجب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نواسی اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی حقیقی بہن زینب بنت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہما اور برادر نسبتی کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ۔
ماہ شعبان المعظم میں ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ، دختر رسول حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی ۔
ماہ رمضان المبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو ازواج مطہرات سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حسنین کریمین کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کی وفات اور خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔
ماہ شوال المکرم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دانت مبارک ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ ، آپ کے برادر نسبتی حضرت عبداللہ بن جحش ، آپ کے ہم زلف حضرت مصعب بن عمیر سمیت 70 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔
ماہ ذو القعدہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ مبارکہ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کی وفات اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔
ماہ ذوالحجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو بیٹیوں کی نسبت سے داماد اہل اسلام کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔
مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر باقی مہینوں میں صحابہ کرام ، اہل بیت عظام ، امہات المومنین ، خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قریبی رشتہ داروں اور خاندان والوں میں سے کسی کا ایسا سوگ نہیں منایا جاتا کہ اس مہینے میں نکاح وغیرہ نہ کیا جائے تو پھر کیا وجہ ہے صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت والے مبارک مہینے میں ایک مسنون عمل کو معیوب سمجھا جائے ؟؟
محترم قارئینِ کرام : فقیر دستہ بستہ عرض کرتا ہے عشرہ محرّم الحرام کا تمام مسلمانانِ اہلسنّت احترام کرتے ہیں کوئی بھی مسلمان اوّل عشرہ محرّم میں نکاح و شادی بیاہ نہیں کرتا یہ صرف احترامِ شہداء کربلا رضی اللہ عنہم میں کیا جاتا ہے مگر شرعی طور پر جب بھی آپ کسی عالم سے یہ پوچھیں گے کہ ماہِ محرّم میں شادی بیاہ یا نکاح کر سکتے ہیں یا نہیں تو ہر صاحب علم عالم دین از روئے شرع یہی جواب دے گا کہ جائز ہے کوئی ممانعت شرعا نہیں ہے ۔ مگر حیرت کی بات ہے کچھ لوگ جس فعل کو اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے ناجائز و حرام نہیں کیا اُس پر فتوے بازی اور گالم گلوچ کر رہے ہیں ۔ خدا را شریعتِ مطہرہ کے ساتھ کھلوار مت کیجئے ہاں اگر کسی صاحب کے پاس نیا دین آگیا ہے یا نئی شریعت آگئی ہے تو اس کی روشنی میں حوالہ کے ساتھ ثابت کرے کہ ماہِ محرّم الحرام میں نکاح ، شادی بیاہ حرام ہے یاد رکھیئے کسی بھی کام کو حرام ثابت کرنے کےلیئے نصِ قطعی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
آخری گزارش عشرہ محرّم الحرام کا احترام اور شہداء کربلا رضی اللہ عنہم کا غم و احترام ہر مسلمان کے دل میں ہے مگر جب بات شرعی مسلے کی ہو تو اس وقت شرعی دلائل کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے نہ کی گالم گلوچ اور ضد بازی کو بسا اوقات ضد کی وجہ سے انسان اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے توہین شریعت کر کے اس لیئے پھر عرض ہے خدا را شرعی مسائل پر بغیر علم و دلیل کے اپنی رائے نہ دیا کریں اور بحث سے گریز کریں اللہ تعالیٰ ہم سب کو احترامِ شریعت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment