بے شک علماء انبیائے کرام علیہم السّلام کے وارث ہیں
محترم قارئینِ کرام : بے شک علماء انبیائے کرام علیہم السّلام کے وارث ہیں ، یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ، سننِ ترمذی ، سننِ ابن ماجہ ، صحیح ابنِ حبان و دیگر کتبِ حدیث میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث کا ایک جملہ "و إن العلماء ورثة الأنبياء" ہے، "سنن الترمذي" کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ البَغْدَادِيُّ قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: قَدِمَ رَجُلٌ مِنَ المَدِينَةِ عَلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَهُوَ بِدِمَشْقَ فَقَالَ: مَا أَقْدَمَكَ يَا أَخِي؟ فَقَالَ: حَدِيثٌ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : أَمَا جِئْتَ لِحَاجَةٍ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: مَا جِئْتُ إِلَّا فِي طَلَبِ هَذَا الحَدِيثِ ؟ قَالَ : فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الجَنَّةِ، وَإِنَّ المَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَاءً لِطَالِبِ العِلْمِ، وَإِنَّ العَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ حَتَّى الحِيتَانُ فِي المَاءِ، وَفَضْلُ العَالِمِ عَلَى العَابِدِ، كَفَضْلِ القَمَرِ عَلَى سَائِرِ الكَوَاكِبِ، إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا العِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ»: وَلَانَعْرِفُ هَذَا الحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، وَلَيْسَ هُوَ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ، هَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الحَدِيثُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جَمِيلٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ خِدَاشٍ، وَرَأْيُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ هَذَا أَصَحُّ ۔ (بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الفِقْهِ عَلَى العِبَادَةِ، 5/ 48،49، رقم الحديث: 2682)
حدثنا محمود بن خداش البغدادي ، حدثنا محمد بن يزيد الواسطي، حدثنا عاصم بن رجاء بن حيوة، عن قيس بن كثير، قال: قدم رجل من المدينة على ابي الدرداء وهو بدمشق , فقال: ما اقدمك يا اخي؟ فقال: حديث بلغني انك تحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اما جئت لحاجة؟، قال: لا، قال: اما قدمت لتجارة؟ قال: لا، قال: ما جئت إلا في طلب هذا الحديث؟ قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " من سلك طريقا يبتغي فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة، وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضاء لطالب العلم، وإن العالم ليستغفر له من في السموات ومن في الارض حتى الحيتان في الماء، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر الكواكب، إن العلماء ورثة الانبياء، إن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما إنما ورثوا العلم فمن اخذ به اخذ بحظ وافر " , قال ابو عيسى: ولا نعرف هذا الحديث إلا من حديث عاصم بن رجاء بن حيوة، وليس هو عندي بمتصل هكذا , حدثنا محمود بن خداش هذا الحديث، وإنما يروى هذا الحديث عن عاصم بن رجاء بن حيوة، عن الوليد بن جميل، عن كثير بن قيس، عن ابي الدرداء، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهذا اصح من حديث محمود بن خداش , وراي محمد بن إسماعيل هذا اصح ۔
ترجمہ : قیس بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے ابو الدرداء رضی الله عنہ کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء رضی الله عنہ نے اس سے کہا : میرے بھائی ! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے ، اس نے کہا : مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابو الدرداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا : نہیں ۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں، ابو الدرداء نے کہا : (اچھا تو سنو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ”جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں ۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا ۔ (سنن ترمذي كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْفِقْهِ عَلَى الْعِبَادَةِ حدیث نمبر 2682)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہم عاصم بن رجاء بن حیوہ کی روایت کے سوا کسی اور طریقہ سے اس حدیث کو نہیں جانتے، اور اس حدیث کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔ اسی طرح انہیں اسناد سے محمود بن خداش نے بھی ہم سے بیان کی ہے ، یہ حدیث عاصم بن رجاء بن حیوہ نے بسند «داود بن جميل عن كثير بن قيس عن أبي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم روایت کی ہے ۔ اور یہ حدیث محمود بن خداش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ، اور محمد بن اسماعیل بخاری کی رائے ہے کہ یہ زیادہ صحیح ہے ۔ (سنن ابی داود/ العلم 1 3641،چشتی)(سنن ابن ماجہ/المقدمة 17 (223)(تحفة الأشراف: 10958)(وسنن الدارمی/المقدمة 32 (354) صحیح ، سند میں کثیر بن قیس ، یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں ، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ، تفصیل کے لیے دیکھیے زہد وکیع رقم 519)
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ علماء و محدثین بہت بڑی فضیلت کے حامل ہیں ، حصولِ علم کے لیے دور دراز کا سفر درکار ہے ، یہ سفر خالص علم دین کی نیت سے ہو کوئی دنیوی غرض اس کے ساتھ شامل نہ ہو ، علم دین حاصل کرنے والے کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے ، کائنات کی ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں، علماء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں ۔
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ سَلَکَ طَرِيْقًا يَبْتَغِي فِيْهِ عِلْمًا سَلَکَ ﷲُ لَهُ طَرِيْقًا إِلَی الْجَنَّةِ. وَإِنَّ الْمَـلَاءِکَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَاءً لِطَالِبِ الْعِلْمِ. وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّی الْحِيْتَانُ فِي الْمَاءِ. وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقََمَرِ عَلَی سَاءِرِ الْکَوَاکِبِ. إِنَّ الْعُلْمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ . إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوْا دِيْنَارًا، وَلَا دِرْهَمًا. إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ. فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ۔ رَوَاهُ أَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه وَأَبُوْحَنِيْفَةَ ۔
ترجمہ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو آدمی طلبِ علم میں کسی راستہ پر چلتا ہے تو اﷲ تعاليٰ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے ۔ بیشک فرشتے طالبِ علم کی رضا کے لئے اس کے پؤں تلے اپنے پر بچھاتے ہیں ۔ عالم کیلئے زمین و آسمان کی ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں ۔ عابد پر عالم کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ۔ بے شک علماء، انبیاء کرام علیہم السّلام کے وارث ہیں ۔ انبیاء کرام fنے وارثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے اپنی میراثِ علم چھوڑی ۔ پس جس نے اس (میراثِ علم) کو حاصل کیا اس نے (پیغمبرانہ میراث کا) بہت بڑا حصہ پالیا ۔ اس حدیث کو امام ابوداود ، ـ ترمذی ، ابن ماجہ اور ابوحنیفہ نے روایت کیا ہے ۔ اور یہ الفاظ ترمذی کے ہیں ۔ (أبو داود في السنن، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، 3/ 317، الرقم/ 3641، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في فضل الفقه علی العبادة، 5/ 48، الرقم/ 2682، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1/ 81، الرقم/ 223، وأبوحنيفة في المسند، 1/ 57، والدارمي في السنن، 1/ 110، الرقم/ 342، والطبراني في مسند الشاميين، 2/ 224، الرقم/ 1231، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 262، الرقم/ 1696-1697، والديلمي في مسند الفردوس 3/ 74)،(جامع ترمذی مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 151 دارالاشاعت کراچی)
وَرَوَی الْبُخَارِيُ فِي تَرْجَمَةِ الْبَابِ فِي کِتَابِ الْعِلْمِ: إِنَّ الْعُلَمَاء َ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ. وَرَّثُوا الْعِلْمَ. مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ، وَمَنْ سَلَکَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا، سَهَلَ اﷲُ لَهُ طَرِيقًا إِلَي الْجَنَّةِ ۔
ترجمہ : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں ترجمۃ الباب کے تحت بیان کیا ہے : بے شک علماء، انبیاء کرام علیہم السّلام کے وارث ہیں ۔ انہوں نے میراثِ علم چھوڑی ہے ۔ پس جس نے اس (میراثِ علم) کو حاصل کیا، اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا ۔ جو آدمی علم کی تلاش میں کسی راہ پر چلتا ہے، اللہ تعاليٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح ، کتاب العلم باب العلم، قبل القبول، 1/ 37،چشتی)،(صحیح بخاری مترجم اردو جلد اوّل صفحہ نمبر 108)
بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ:لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَبَدَأَ بِالْعِلْمِ، وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ- وَرَّثُوا الْعِلْمَ- مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ. وَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ وَقَالَ: وَمَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ، وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ. وَقَالَ: هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ. وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ». وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ- ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لأَنْفَذْتُهَا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ حُكَمَاءَ فُقَهَاءَ وَيُقَالُ الرَّبَّانِيُّ الَّذِي يُرَبِّي النَّاسَ بِصِغَارِ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهِ ۔
ترجمہ : اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : «فاعلم أنه لا إله إلا الله» (آپ جان لیجیئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے) تو (گویا) اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتداء فرمائی اور (حدیث میں ہے) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے ۔ پھر جس نے علم حاصل کیا اس نے (دولت کی) بہت بڑی مقدار حاصل کر لی۔ اور جو شخص کسی راستے پر حصول علم کے لیے چلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔ اور(دوسری جگہ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔ اور فرمایا، اور ان لوگوں (کافروں) نے کہا اگر ہم سنتے یا عقل رکھتے تو جہنمی نہ ہوتے ۔ اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے ۔ اور علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو، اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا، اور مجھے گمان ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ایک کلمہ سنا ہے، گردن کٹنے سے پہلے بیان کر سکوں گا تو یقیناً میں اسے بیان کر ہی دوں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ (میری بات) غائب کو پہنچا دے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ آیت «كونوا ربانيين» سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔ اور«رباني» اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی (علمی) تربیت کرے ۔ (صحیح بخاری جلد اول : كتاب العلم (علم کا بیان) : حدیث 68)
حضرت سیدنا ابودرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : اِنَّ اَلْعُلَمَآءَ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِیعنی بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔ (سنن ابن ماجۃ، کتاب السنۃ، باب فضل العلماء۔۔۔الخ، الحدیث : ۲۲۳، ج۱، ص۱۴۶)
اور سنن ابی داود میں اس طرح ہے : حدثنا مسدد بن مسرهد حدثنا عبد الله بن داود سمعت عاصم بن رجاء بن حيوة يحدث عن داود بن جميل عن كثير بن قيس قال: " كنت جالسا مع ابي الدرداء في مسجد دمشق فجاءه رجل فقال: يا ابا الدرداء إني جئتك من مدينة الرسول صلى الله عليه وسلم لحديث بلغني انك تحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ما جئت لحاجة قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا من طرق الجنة وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضا لطالب العلم وإن العالم ليستغفر له من في السموات ومن في الارض والحيتان في جوف الماء وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب وإن العلماء ورثة الانبياء وإن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ورثوا العلم فمن اخذه اخذ بحظ وافر ۔
ترجمہ : کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہنے لگا: اے ابو الدرداء! میں آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے اس حدیث کے لیے آیا ہوں جس کے متعلق مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں میں آپ کے پاس کسی اور غرض سے نہیں آیا ہوں، اس پر ابوالدرداء نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی تمام ستاروں پر، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا ۔ (سنن ابی داود ، حدیث نمبر: 3641)،(سنن الترمذی/العلم ۱۹ (۲۶۸۲،چشتی)(سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۷ (۲۲۳)،(تحفة الأشراف: ۱۰۹۵۸)،(مسند احمد (۵/۱۹۶)،(سنن الدارمی/المقدمة ۳۲ (۳۵۴)
عُلَماء انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے وارث ہیں ، بیشک انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام دِرہَم و دِینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں ، لہٰذا جس نےعلم حاصل کیا اس نے اپنا حصہ لے لیا اور عالمِ دین کی موت ایک ایسی آفت ہے جس کا ازالہ نہیں ہوسکتا اور ایک ایسا خلا ہے جسے پُر نہیں کیا جاسکتا (گویا کہ) وہ ایک ستارہ تھا جو ماند پڑ گیا ، ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت کے مقابلے میں نہایت معمولی ہے ۔ (شعب الایمان،باب فی طلب العلم،۲/۲۶۳،حدیث:۱۶۹۹،چشتی)
وقد أورد البخاري بعضه في "صحيحه" في كتاب العلم ضمن عنوان باب العلم قبل القول والعمل، فقال: "وإن العلماء هم ورثة الأنبياء، وَرَّثوا العلم، من أخذه أخذ بحظ وافر، ومن سلك طريقاً يطلب به علماً سهل الله له به طريقاً إلى الجنة". قال الحافظ في "الفتح" 1/160. وهو طرف من حديث أخرجه أبو داود، والترمذي، وابن حبان، والحاكم مصححاً من حديث أبي الدرداء، وحسنه حمزة الكناني، وضعفه غيرهم بالاضطراب في سنده، لكن له شواهد يتقوى بها، ولم يفصح المصنف بكونه حديثاً فلهذا لا يعد في تعاليقه، لكن إيراده له في الترجمة يُشعر بأن له أصلاً ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کی کتاب العلم میں باب العلم قبل القول کے ضمن میں لکھا ہے : علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں ،جنہوں نے علم کا ورثہ حاصل کیا ۔
اور اس کے تحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں لکھتے ہیں : العلماء هم ورثة الأنبياء ‘‘ ایک حدیث کا ٹکڑا ہے ، جسے ترمذی ، ابو داود ، اور ابن حبان نے ابو درداء سے روایت کیا ، اور اس حدیث کو حمزہ الکتانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا ہے ، جبکہ دیگر کئی علماء نے اسے ضعیف کہا ہے ، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں اس کے کئی شواہد ہیں ، جن کی بناء پر اسے تقویت مل رہی ہے ، اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گو واضح لفظوں میں یہاں اسے حدیث نہیں کہا ،اس لئے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بخاری کی معلقات میں سے ہے ، تاہم ترجمۃ الباب میں لانے سے اتنا تو ضرور پتا چلتا ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ۔
عُلَمائے کرام کی شان
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محوِ گفتگو تھے کہ آپ پر وحی آئی کہ اس صحابی کی زندگی کی ایک ساعت (یعنی گھنٹہ بھر زندگی) باقی رہ گئی ہے ۔ یہ وقت عصر کا تھا ۔ رحمت ِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم نے جب یہ بات اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتائی تو انہوں نے مضطرب ہوکر التجاء کی : یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم ! مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائے جو اس وقت میرے لئے سب سے بہتر ہو ۔” تو آپ نے فرمایا : ”علمِ دین سیکھنے میں مشغول ہوجاؤ ۔” چنانچہ وہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم سیکھنے میں مشغول ہوگئے اور مغرب سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا ۔ راوی فرماتے ہیں کہ اگر علم سے افضل کوئی شے ہوتی تو رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم اسی کا حکم ارشاد فرماتے ۔ (تفسیر کبیر ، ج١،ص٤١٠،چشتی)
عالم زمین میں اللہ عز وجل کی دلیل و حجت ہے تو جس نے عالم میں عیب نکالا وہ ہلاک ہوگیا ۔ (جامع صغیر، ص ۳۴۹، حدیث: ۵۶۵۸)
بیشک زمین پر عُلَماءکی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے کائنات کی تاریکیوں میں رَہْنُمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں ۔ (مسند امام احمد ، مسند انس بن مالک، ۴/۳۱۴،حدیث:۱۲۶۰۰)
علم کے ساتھ تھوڑا عمل بھی نفع دیتا ہے لیکن جہالت کے ساتھ بہت عمل بھی نفع نہیں دیتا ۔ (جامع بیان العلم، ص ۶۵، حدیث:۱۹۷)
"اَلْعِلْمُ حَیَاةُالْاِسْلَامِ وَعِمَادُ الْا یْمَانِ" علم اسلام کی زندگی اور دین کا ستون ہے ۔ (جمع الجوامع، ۵/۲۰۰،حدیث:۱۴۵۱۸)
"مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ تَـکَفَّلَ اللهُ بِرِزْقِهٖ" جو شخص علم کی طلب میں رہتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے رِزْق کا ضامن ہے ۔ (تاریخ بغداد، محمد بن القاسم بن ھشام، ۳)
"مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهٖ طَرِیْقًا اِلَی الْجَنَّةِ" جو ایسے راستے پر چلے جس میں علم کو تلاش کرے، اس کے سبب اللہ عَزَّ وَجَل اس کیلئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الذکر و الدعاء۔۔۔۔الخ ، باب فضل الاجتماع…الخ،ص ۱۴۴۸، حدیث: ۲۶۹۹)
علم سے محرومی کا نقصان
شیخ الْاِسلام ، امام بُرہانُ الْاِسلام ، ابراہیم زَرنُوجی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : علم کو اس وجہ سے شرافت و عظمت حاصل ہے کہ علم ، تقویٰ تک پہنچنے کا وسیلہ ہے جس کے سبب بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حضور بزرگی اور ابدی سعادت کا مستحق ہوجاتا ہے ۔ (تعلیم المتعلم طریق التعلم ، صفحہ ۶)
حضرت سیّدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ اس بلند مقام پر کیسے پہنچے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : میں نے (اپنے علم سے) دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں بخل نہیں کیا اور دوسروں سے اِسْتفَادَہ کرنے (سیکھنے) میں شرم نہیں کی ۔ (در مختار،المقدمة،۱/۱۲۷،چشتی)
اولیائے کرام (علیہم الرّحمہ ) کا ارشاد ہے : صُوْفیِ بے علم مَسْخَرۂ شَیطان اَسْت ، یعنی بے علم صوفی شیطان کا مسخرہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،۲۴/۱۳۲)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بے علم مجاہدہ والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتا ہے ،منہ میں لگام ،ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے پھرتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،۲۱/۵۲۸)
نیز ارشاد فرماتے ہیں : عُلمائے شَریْعَت کی حاجت ہر مسلمان کو ہر آن ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،۲۱/۵۳۵)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جاہل ِبوجہ جہل اپنی عبادت میں سو گُناہ کرلیتا ہے اور مصیبت یہ کہ انہیں گُناہ بھی نہیں جانتا اور عالم ِ دین اپنے گُناہ میں وہ حصہ خوف و ندامت کا رکھتا ہے کہ (اللہ عَزَّ وَجَلَّ) اسے جلد نجات بخشتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،۲۳/۶۸۷)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : اس (عالم)کی خطا گیری (بھول نکالنا) اوراس پر اعتراض حرام ہے اور اس کے سبب رَہْنُمائے دین سے کنارہ کش ہونا اور استفادۂ مسائل(مسائل میں رہنُمائی لینا)چھوڑ دینا اس کے حق میں زہر ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،۲۳/۷۱۱)
عُلمائے کرام وارثِ انبیاء علیہم السلام ہیں کیونکہ یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی مِیراث یعنی علمِ دین کو حاصل کرتے اور اس کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے آج کل شاید کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امت محبوب صَلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو علمائے کرام سے دور کیا جارہا ہے ، ان کے مقام و مرتبے کو مُسلمانوں کے دل و دماغ سے نکالا جارہا ہے ، ان کی شان میں لَب کشائی کی جارہی ہے ، ان پر اعتراض اور طعن و تنقید کرنے پر ابھارا جارہا ہے بلکہ اب تو معاذ اللہ عز وجل علماء کی توہین و تحقیر تک نوبت آپہنچی ہے جو کہ ایمان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے ۔ یوں بھی جو علمائے کرام کا گستاخ ہوگا وہ ان کی صحبت و فیض سے محروم ہوجائے گا اور جب یہ دونوں چیزیں نصیب نہ ہونگی تو شرعی رہنمائی حاصل ہونا بھی ناممکن ، لہٰذا بے عملیاں کرتے کرتے ایسوں کا کُفر تک جا پڑنا بھی عین ممکن ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment