حضرت امیر معاویہ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہما کو زہر دلوایا کا جواب
محترم قارئینِ کرام : رافضی و نیم رافضی بُغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں مبتلا ہیں اور اس بات کو مختلف اوقات میں اچھالتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر یہ لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا پر بدکاری کا الزام لگا دیا کہ اس کے یزید لعین سے ناجائز تعلقات تھے استغفر اللہ ۔ ان لوگوں کو اتنا بھی سوچ نہ آئی کہ خانوادہ رسول علیہم السّلام کی بہو پر بیہودہ الزام لگا دیا ۔ یہ الزام انتہائی بے بنیاد اور لغو ہے ۔ حتٰی کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی معلوم نہ ہو سکا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو کس نے قتل کیا ہے ، تو کس طرح دوسروں کو معلوم ہو گیا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کو نعوذ باللہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ہے ؟
قال بن سعد أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم أخبرنا بن عون عن عمير بن إسحاق دخلت أنا وصاحب لي على الحسن بن علي فقال لقد لفظت طائفة من كبدي وإني قد سقيت السم مرارا فلم أسق مثل هذا فأتاه الحسين بن علي فسأله من سقاك فأبى أن يخبره رحمه الله تعالى ۔
ترجمہ : عمیر بن اسحق کہتے تھے کہ میں اور میرے ایک ساتھی امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ میرے جگر کے کچھ ٹکڑے گرچکے ہیں اورمجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا ؛ لیکن اس مرتبہ کہ ایسا قاتل کبھی نہ تھا اس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور پوچھا کس نے پلایا، لیکن انہوں نے بتانے سے انکار کیا ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة جلد ۲ صفحہ ۷۳،چشتی)
عمیر بن اسحاق کہتے ہیں : دخلت أنا ورجل علی الحسن بن علی نعودہ ، فجعل یقول لذلک الرجل: سلنی قبل أن لا تسألنی ، قال: ما أرید أن أسألک شیئا ، یعافیک اللّٰہ ، قال: فقام فدخل الکنیف ، ثمّ خرج إلینا ، ثمّ قال: ما خرجت إلیکم حتی لفظت طائفۃ من کبدی أقلبہا بہذا العود ، ولقد سقیت السمّ مرارا ، ما شیء أشدّ من ہذہ المرّۃ ، قال: فغدونا علیہ من الغد ، فإذا ہو فی السوق ، قـال : وجاء الحسین فجلس عند رأسہ ، فقال: یا أخی ، من صاحبک ؟ قال : ترید قتلہ ؟ قال: نعم ، قال: لئن کان الذی أظنّ ، للّٰہ أشدّ نقمۃ ، وإن کان بریئا فما أحبّ أن یقتل برئی ۔
ترجمہ : میں اور ایک آدمی سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پرعیادت کے لیے داخل ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہمااس آدمی سے کہنے لگے : مجھ سے سوال نہ کرسکنے سے پہلے سوال کرلیں۔ اس آدمی نے عرض کیا: میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ آپ کوعافیت دے۔ آپ رضی اللہ عنہماکھڑے ہوئے اور بیت الخلاء گئے ۔ پھر نکل کر ہمارے پاس آئے ، پھرفرمایا: میں نے تمہارے پاس آنے سے پہلے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا (پاخانے کے ذریعہ)پھینک دیاہے۔ میں اس کو اس لکڑی کے ساتھ الٹ پلٹ کررہاتھا۔ میں نے کئی بار زہر پیا ہے ، لیکن اس دفعہ سے سخت کبھی نہیں تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس اگلے دن آئے تو آپ رضی اللہ عنہماحالتِ نزع میں تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھ گئے اور کہا : اے بھائی!آپ کو زہر دینے والا کون ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہمانے فرمایا : کیا آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : اگر وہ شخص وہی ہے جو میں سمجھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں زیادہ سخت ہے۔ اور اگر وہ بری ہے تو میں ایک بری آدمی کو قتل نہیں کرنا چاہتا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : ۱۵/۹۳،۹۴، کتاب المحتضرین لابن ابی الدنیا : ۱۳۲، المستدرک للحاکم : ۳/۱۷۶، الاستیعاب لابن عبد البر : ۳/۱۱۵، تاریخ ابن عساکر : ۱۳/۲۸۲، وسندہٗ حسنٌ،چشتی)
اسی طرح اہل تشیع کی مشہور کتاب بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے مروج الذہب للمسعودی الشیعی سے مندرجہ زیل روایت نقل کی ہے : عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين عليهم السلام قال: دخل الحسين على عمي الحسن حدثان ما سقي السم فقام لحاجة الانسان ثم رجع فقال: سقيت السم عدة مرات، وما سقيت مثل هذه، لقد لفظت طائفة من كبدي ورأيتني أقلبه بعود في يدي، فقال له الحسين عليه السلام: يا أخي ومن سقاك؟ قال: وما تريد بذلك؟ فإن كان الذي أظنه فالله حسيبه، وإن كان غيره فما أحب أن يؤخذ بي برئ، فلم يلبث بعد ذلك إلا ثلاثا حتى توفي صلوات الله عليه ۔
ترجمہ : علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (زین العابدین) رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ حسین میرے چچا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے زہر پلانے کے وقت گئے تو حسن رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لئے گئے وہاں سے لوٹ کر کہا کہ مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا ، لیکن اس مرتبہ کے ایسا کبھی نہ تھا اس میں میرے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے تم مجھے دیکھتے کہ میں ان کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا ، حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا بھائی صاحب کس نے پلایا ؟ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا، اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے ، اگر زہر دینے والا وہی شخص ہے جس کے متعلق میرا گمان ہے تو خدا اس کے لئے کافی ہے اور اگر دوسرا ہے تو میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے ، اس کے بعد حسن رضی اللہ عنہ زیادہ نہ ٹھہرے اور تین دن کے بعد انتقال کرگئے ۔ (بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٤٤ - الصفحة ١٤٨،چشتی)
جس طرح رافضی و نیم رافضی ہر کسی کے جرم کو بنو امیہ بالخصوص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کھاتے ڈالتے ہیں ان محققین کا بس چلے تو 9/11 کے واقعہ کاذمہ دار بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو قرار دیں انہی بے بنیاد جرائم میں یہ بھی ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے امام حسن پاک رضی اللہ عنہ کو زہر دیا تھا جو کہ باطل ہے
اولا : سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے بوقت وصال امام حسین رضی اللہ عنہ کے اصرار کے باوجود زہر دینے والے کا نام نہیں بتایا : ⬇
علامہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا گیا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ کے پاس بیٹھ کر پوچھنے لگے اے بھائی آپکے ساتھ یہ کام کس نے کیا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم اسکو قتل کرنا چاہتے ہو امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اگر میرے ساتھ کام کرنے والا وہی ہے جو میرے خیال میں ہے تو اللہ اسکو سخت سزا دے گا اگر وہ نہیں ہے تو میں ناپسند کرتا ہوں تو میرے بدلے میں ایک بے گناہ کو قتل کرے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد 8 صفحہ 62)
مزید اسی روایت میں ہے : میرے بھائی اس کو چھوڑ دو حتی کہ میں اور وہ اللہ سے ملاقات کریں آپ نے اسکا نام بتانے سے انکار کردیا ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد جلد 8 صفحہ 62)
صاحب ناسخ التواریخ شیعہ نے لکھا ہے : امام حسن رضی اللہ عنہ سے جب امام حسین رضی اللہ عنہ نے زہر دینے والے کا نام پوچھا تو آپ نے منع کردیا ۔ (ناسخ التواریخ جلد 2 صفحہ 146) ۔ اسی طرح ابن اشہر اشوب شیعہ نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے ۔ (مناقب آل ابی طالب جلد 4 ص 42 بحوالہ تحفہ جعفریہ جلد 5 ص 217)
ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ امام حسن پاک رضی اللہ عنہ کو زہر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیا بالکل بے بنیاد ہے بلکہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے نام بتانے سے صاف انکار کر دیا نہ جانے رافضیوں اور نیم رافضیوں کو کس نے بتا دیا ؟
ثانیا : حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظیفہ مقرر کیا تھا اور نہایت اکرام کرتے تھے اسکے باوجود یہ کہنا کہ آپ نے زہر دیا انتہائی بغض اور صریح الزام تراشی ہے ۔
ثالثاً : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینا عقل بھی تسلیم نہیں کرتی ہے کیونکہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے آپ کو خلافت بھی سونپ دی تھی اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زہر دینا تھا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو دیتے کہ وہ ذی جلال اور حق کے سامنے ڈٹ جانے والے تھے جبکہ حضرت امام حسن پاک رضی اللہ عنہ ان امور سے دور رہنے والے تھے ۔
رافضی و نیم رافضی حضرات نے کچھ حوالہ جات دیے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زہر دیا تھا اس پر مختصر عرض ہے کہ انہوں نے قیل و ذکر کہا گیا ، ذکر کیا گیا کہ مجہول ضیغوں کے ساتھ روایت کو ذکر کیا ہے جو کہ عدمِ اعتماد پر دلالت کرتے ہیں ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف زہر دینے کی نسبت کرنے والی روایتوں کو محدثین نے باطل قرار دیا چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : میرے نزدیک زہر دینے کی نسبت یزید کی طرف صحیح نہیں اور انکے والد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کی صحت تو بالکل درست نہیں ہے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد 8 صفحہ 62)
علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے امام حسن کو زہر دیا یہ من گھڑت اور شیعہ کی گھڑی ہوئی بات ہے اللہ پناہ دے سیدنا امیر معاویہ اس سے بری ہیں ۔ (تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 182)
علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں : وما ينقل من ان معاوية دس إليه السم مع زوجه جعدة بنت الاشعث فهو من أحاديث الشيعة وحاشا لمعاوية من ذلك ۔
ترجمہ : اوریہ روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان (امام حسن رضی اللہ عنہ) کی بیوی سے مل کر زہر دلایا شیعوں کی بنائی ہوئی ہے حاشا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات سے اس کاکوئی تعلق نہیں ۔ (ابن خلدون جلد ۲ صفحہ ١۸۷،چشتی)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں : وأما قوله : إن معاوية سم الحسن ، فهذا مما ذكره بعض الناس ، ولم يثبت ذلك ببينة شرعية ، أو إقرار معتبر ، ولا نقل يجزم به ، وهذا مما لا يمكن العلم به ، فالقول به قول بلا علم ۔ ترجمہ : بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حسن کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے زہر دیا تھا کہ کسی شرعی دلیل اورمعتبر اقرار سے ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی قابل وثوق روایت سے اس کی شہادت ملتی ہے اوریہ واقعہ ان واقعوں میں ہے جس کی تہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اس لیے اس کے متعلق کچھ کہنا بے علم کی بات کہنا ہے ۔ (منہاج السنہ جلد ۴ صفحہ ۴٦۹،چشتی)
علامہ حافظ ابن کثیر اس کے متعلق لکھتے ہیں : وعندي أن هذا ليس بصحيح ، وعدم صحته عن أبيه معاوية بطريق الأولى ۔
ترجمہ : میرے نزدیک تو یہ بات بھی صحیح نہیں کہ یزید نے سیدنا امام حسن کو زہر دے کر شہید کر دیا ہے ۔ اور اس کے والد ماجد سیدنا امیر معاویہ کے متعلق یہ گمان کرنا بطریق اولٰی غلط ہے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ۸ صفحہ ۴۳)
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں : قلت : هذا شيء لا يصح فمن الذي اطلع عليه ۔ ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے ، اور اس پر کون مطلع ہو سکا ہے ۔ (تاریخ اسلام صفحہ ۴۰،چشتی)
حافظ الذہبی علیہ الرحمہ نے سیراعلام النبلاء میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے کہ شام کے علاقہ میں جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچی حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما وہاں اتفاقا موجود تھے ۔ پیشِ آمده حالات بتلائے گئے تو اس موقعہ پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان حالات پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عجیب بات ہے کہ جناب امام حسن رضی اللہ عنہ نے بئر رومہ کے پانی کے ساتھ شہد ملا کر نوش کیا اور موت واقع گی ۔ اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اظہارِ تعزیت کیا اور تسلی کے کلمات ادا کیے اور ان کی خدمت میں ایک معقول نقدی پیش کی اور کہا کہ اس کو اپنے اہل و عیال میں تقسیم کردیے ۔ ابوهلال عن قتاده قال معاويه و اعجبا للحسن اشرب شربة من عسل بماء رومة فقضى نحبه ثم قال لابن عباس لايستوک الله ولايحزنك في الحسن ۔۔ بله ۔
وقال الهيثم بن عدی : دسّ معاوية إلی ابنة سهيل بن عمرة امرأة الحسن مأة ألف دينار علی أن تسقيه شربة بعث بها إليها ففعلت ۔
ترجمہ : ہیثم بن عدی نے کہا ہے کہ معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی سہیل بنت عمرہ کو ایک ہزار دینا کے عوض سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر پلانے پر اکسایا ۔ اس نے زہر اس کے پاس بھیجی تو اس نے ایسا کر دیا ۔‘ (انساب الاشراف لاحمد بن یحیی البلاذری : ۵۹/۳)
یہ روایت ’’موضوع‘‘ (جھوٹ کا پلندا) ہے ۔
اس کا راوی ہیثم بن عدی بالاتفاق ’’کذاب‘‘ اور ’’متروک الحدیث‘‘ ہے ۔ اس لیے شیعہ شنیعہ اس کی روایات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔
قال الإمام ابن سعد : أنا محمّد بن عمر : نا عبدالله بن جعفر عن عبد الله بن حسن قال : كان الحسن بن علی رجلا كثير نكاح النساء ، وكنّ أقلّ ما يحظين عنده ، وكان قلّ امرأة يتزوّجها إلّا أحبّته وضنت به ، فيقال : إنّه كان سقی ، ثم أفلت ، ثم سقی فافلت ، ثمّ كانت الآخرة توفّی فيها ، فلمّا حضرته الوفاة ، قال الطبيب ، وهو يختلف إليه : هذا رجل قد قطع السم أمعاءه ، فقال الحسين : يا أبا محمّد ! خبّرنی من سقاك السمّ ، قال : ولم يا أخی ؟ قال : أقتله ، واللہ قبل أن أدفنك ، أو لا أقدر عليه ، أو يكون بأرض أتكلّف الشخوص إليه ، فقال : يا أخی ! إنّما هذه الدنيا ليال فانية دعه ، حتّی ألتقی أنا وهو عند اللہ ، فأبی أن يسمّيه ، وقد سمعت بعض من يقول : كان معاوية قد تلطّف لبعض خدمه أن يسقيه سمّا ۔
ترجمہ : عبداللہ بن حسن بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ عورتوں سے بہت زیادہ نکاح کرتے تھے۔ عورتیں ان کے پاس بہت کم عرصہ گزار پاتیں۔ تقریباً سب عورتیں، جن سے آپ شادی کرتے ، وہ آپ سے محبت کرتیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو زہر پلایا گیا، لیکن وہ جانبر ہو گئے۔ پھر زہر پلایا گیا، لیکن وہ پھر جانبر ہو گئے۔ جب آخری دفعہ تھی تو وہ اس میں فوت ہو گئے ۔ جب ان کی وفات کا وقت حاضر ہوا تو طبیب نے ان کی طرف آتے ہوئے کہا: یہ ایسا آدمی ہے، جس کی انتڑیاں زہر نے کاٹ دی ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : اے ابومحمد ! مجھے بتائیے کہ آپ کو زہر کس نے پلائی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیوں اے بھائی؟ امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم میں اسے آپ کو دفن کرنے سے پہلے قتل کر دوں گا یا اس پر قادر نہ ہو سکوں گا یا وہ ایسی زمین میں ہو گا ، جہاں میرا داخل ہونا مشکل ہو گا ۔ اس پر حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے میرے بھائی ! یہ دنیا چند فانی راتوں پر مبنی ہے ۔ اس شخص کو چھوڑ، میں اسے اللہ کے ہاں مل لوں گا ۔ یہ کہہ کر انہوں نے اس کا نام بتانے سے انکار کر دیا ۔ میں نے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسین رضی اللہ عنہ کے کسی خادم کو زہر پلانے پر ورغلایا تھا ۔ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۲/۱۳،۲۸۳)
یہ روایت سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے ۔ اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی ’’کذاب‘‘ ہے ۔ اس میں ایک اور علت بھی ہے ۔
ابوبکر بن حفص بیان کرتے ہیں : توفّی الحسن بن علی وسعد بن أبی وقّاص فی أيّام بعد ما مضی من إمارة معاوية عشر سنين ، وكانو يرون أنّه سقاهما سمّا ۔
ترجمہ : سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد کے دس سال گزرنے کے بعد فوت ہوئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو زہر پلایا تھا ۔ (مقال الطالبین لابی الفرج علی بن الحسین الاصبہانی : ص ۲۰)
یہ روایت شیطان لعین نے گھڑی ہے ، جو رافضیوں کے ہاتھ لگ گئی ہے ۔ انہوں نے اس کو اپنے مذہب وعقیدہ پر دلیل بنا لیا ہے ۔
(1) صاحبِ کتاب اموی شیعہ ہے ۔ اس کے بارے میں توثیق ثابت نہیں ۔ اس کے شاگرد محمد بن ابی الفوارس کہتے ہیں : وكان قبل أن يموت اختلط.’’یہ اپنی موت سے پہلے بدحواس ہو گیا تھا ۔ (تاریخ بغداد للخطیب : ۳۹۸/۱۱)
(2) اس کے راوی احمد بن عبیداللہ بن عمار کے بارے میں امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں : و كان يتشيّع.’’یہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا ۔ (تاریخ بغداد : ۲۵۲/۴)
حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : من رؤوس الشيعة.’’یہ شیعہ کے سرداروں میں سے تھا ۔ (میزان الاعتدال للذہبی : ۱۱۸/۱)
اس کے بارے میں ادنیٰ کلمۂ توثیق بھی ثابت نہیں ۔
(3) اس کا مرکزی راوی عیسیٰ بن مہران ہے ۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : رافضيّ، كذّاب.’’یہ رافضی اور بہت بڑا جھوٹا تھا ۔ (میزان الاعتدال للذہبی : ۳۲۴/۳)
امام ابوحاتم الرازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ کذاب آدمی تھا ۔ (الجرح والتعدیل : ۲۹۰/۶)
امام ابنِ عدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : حدّث بأحاديث موضوعة مناكير، محترق في الرفض.’’اس نے بہت سی من گھڑت اور منکر روایات بیان کی ہیں۔ یہ کٹر قسم کا رافضی تھا ۔ (الکامل لابن عدی : ۲۶۰/۵)
نیز فرماتے ہیں :والضعف بيّن علی حديثه ۔ ’’اس کی حدیث پر ضعف واضح ہے ۔ (الکامل لابن عدی : ۲۶۱/۵)
امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : رجل سوء، ومذهب سوء.’’آدمی بھی بُرا تھا اور اس کا مذہب بھی بُراتھا ۔ (الضعفاء والمتروکون للدارقطنی : ۴۱۸)
امام خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : كان عيسیٰ بن مهران من شياطين الرافضة ومردتهم، ووقع إليّ كتاب من تصنيفه في الطعن علی الصحابة وتضليلهم وإكفارهم وتفسيقهم، فوالله لقد قف شعري عند نظري فيه، وعظم تعجّبي ممّا أودع ذلك الكتاب من الأحاديث الموضوعة ۔ ’’عیسیٰ بن مہران شیاطین اور لعین قسم کے رافضیوں میں سے تھا۔ مجھے اس کی تصنیفات میں سے ایک کتاب ملی، جو کہ صحابہ کرام پر طعن، ان کو گمراہ قرار دینے، ان کو فاسق کہنے اور ان کی تکفیر پر مبنی تھی۔ اللہ کی قسم ! اس کتاب کو دیکھتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اس کتاب میں اس نے جو من گھڑت احادیث ذکر کی تھیں، ان سے میں بڑا متعجب ہوا ۔ (تاریخ بغداد للخطیب : ۱۶۷/۱۱)
لسان المیزان ( ۴۰۷/۴) میں اس کے حالات لکھتے ہوئے کسی ناسخ نے غلطی سے ”ولحقه ابن جرير“ (ابنِ جریر اس کو ملے تھے) کی بجائے ”وثّقہ ابن جریر“ (ابنِ جریر نے اسے ثقہ قرار دیا ہے) لکھ دیا ہے۔
اس کذاب کی روایت حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف پیش کرنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے ۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہ لوگ یوم ِ حساب سے غافل ہیں۔ کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی تحریروں اور زبان سے نکلی ہوئی باتوں کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہ ہو گی ؟
عمیر بن اسحاق بیان کرتے ہیں : كنت مع الحسن والحسين في الدار ، فدخل الحسن المخرج ، ثمّ خرج ، فقال : لقد سقيت السمّ ۔ ’’میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر میں تھا۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ دروازے میں داخل ہوئے، پھر باہر آئے اور فرمایا : میں نے زہر پیا ہے ۔ (مقال الطالبین لابی الفرج الاصبہانی الشیعی الاموی : ص ۲۰)
اس من گھڑت روایت کا معنیٰ ومفہوم وہی ہے اور اس میں علتیں بھی بعینہٖ وہی ہیں، جو اس سے پہلے والی روایت میں ہیں ۔
ابنِ جعدۃ کہتے ہیں : كانت جعدة بنت الأشعب بن قيس تحت الحسن بن علی ، فدسّ إليها يزيد أن سمي حسنا ، إنّی مزوّجك ، ففعلت ، فلمّا مات الحسن بعثت إليه الجعدة ، تسأل يزيد الوفاء بما وعدها ، فقال : إنّا والله لم نرضك للحسن ، فنرضاك لأنفسنا ۔ ’’جعدہ بنت الاشعت بن قیس سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی۔ یزید نے اسے بہلایا کہ تُو حسن کو زہر دے دے تو میں تجھ سے نکاح کر لوں گا۔ اس نے ایسا کر دیا۔ جب حسن رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو جعدہ نے یزید سے اپنے وعدے کو وفا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم ! ہم نے تجھے حسن کے لیے پسند نہیں کیا تھا، اپنے لیے کیسے کریں ۔ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۴/۱۳، المنتظم لابن الجوزی : ۲۲۶/۵)
یہ جھوٹا قصہ ہے۔(1) اس کا گھڑنے والا یزید بن عیاض بن جعدۃ اللیثی ہے۔ امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی، امام ابنِ عدی، امام ابوزرعہ الرازی، امام ابوحاتم الرازی، امام ساجی، امام جوزجانی، امام عمرو بن علی الفلاس وغیرہم نے اسے ’’ضعیف، منکرالحدیث ‘‘ اور ’’متروک الحدیث‘‘ کے الفاظ کے ساتھ مجروح کیا ہے۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمۂ توثیق بھی ثابت نہیں ہے۔
(2) اس کے دوسرا راوی محمد بن خلف بن المرزبان الآجری کے بارے میں متقدمین ائمہ محدثین میں سے کسی نے توثیق کا کوئی کلمہ استعمال نہیں کیا، بلکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:هو أخباری، ليّن.’’یہ تاریخ دان تھا اور کمزور راوی تھا ۔ (سوالات السہمی : ۱۰۴)
لہٰذا حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ (سیر اعلام النبلاء : ۲۶۴/۱۴) کا اسے صدوق قرار دینا صحیح نہیں ۔
عن أمّ موسی أنّ جعدة بنت الأشعث ابن قيس سقت الحسن السمّ ، فاشتكی منه شكاة ، قال : فكان يوضع تحته طست وترفع أخری نحوا من أربعين يوما ۔ ’’ام موسیٰ بیان کرتی ہیں کہ جعدۃ بنت الاشعث بن قیس نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر پلایا۔ اس سے آپ بیمار ہو گئے۔ آپ کے نیچے ایک برتن رکھا جاتا اور دوسرا اُٹھایا جاتا۔ تقریباً چالیس دن تک یہ معاملہ رہا ۔ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۴/۱۳)
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔یعقوب نامی راوی کا تعین درکار ہے، نیز ام ِ موسیٰ سے اس کا سماع مطلوب ہے۔
وہ روایات جن میں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا یزید لعین کے بارے میں ہے کہ انہوں نے حضرت سیدنا امام حسن ابن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا تھا ، ان کا جھوٹا ہونا واضح ہو گیا ہے۔ ان سندوں کے علاوہ اگر کسی کے پاس کوئی سند ہے تو وہ ہمیں پیش کرے ۔ ہم اس کا تجزیہ کریں گے ۔ سند دین ہے ۔ بے سند اور ’’ضعیف‘‘ روایات پیش کرنا اور ان پر اپنے عقیدہ وعمل کی بنیاد ڈالنا اہل حق کا وطیرہ نہیں۔ نیز ’’ضعیف‘‘ اور بے سروپا روایات صحابہ کرام کے خلاف پیش کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ بدگمانی کے زمرہ میں آئے گا۔بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ جھوٹی روایات رافضی شیعوں کے عقیدہ کے منافی بھی ہیں، کیونکہ شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے:إنّ الأئمّة يعلمون متي يموتون، وإنّهم لا يموتون إلّا باختيارهم.’’ائمہ جانتے ہوتے ہیں کہ کب مریں گے اور وہ اپنے اختیار ہی سے مرتے ہیں ۔ (اصول الکافی الکلینی : ۲۵۸/۱، الفصول المہمۃ للجرالعاملی : ص ۱۵۵)
شیملا باقر مجلسی صاحب لکھتا ہے : لم يكن إمام إلّا مات مقتولا أو مسموما ۔ ’’کوئی امام نہیں، مگر وہ قتل یا زہر کے ذریعے مرا ہے ۔ (بحار الانوار للمجلسی : ۳۶۴/۴۳)
جب ان کا عقیدہ ہے کہ ائمہ عالم الغیب ہوتے ہیں تو حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو علم کیوں نہ ہو سکا کہ اس کھانے میں زہر ہے؟ یہ کہنا کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا ہے ، بہت بڑا جھوٹ اور اتہام ہے ، کیونکہ اس سلسلہ میں تمام روایات من گھڑت اور خود ساختہ ہیں ۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقعہ پر بحث ہذا کے آخر میں بھی رافضیوں اور نیم رافضیوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی اہلیہ کی طرف سے جو زہر لائی گئی وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے تمام معاملہ کیا گیا اور انہوں نے ان کی زوجہ سے رابطہ کر کے یہ کام کروایا تھا ۔
جوابا : یہ بہتان اور جھوٹ ہے جیسا کہ ہم تفصیل سے عرض کر چکے ہیں کہ یہ سب سے پہلے شیعہ مورخ مسعودی نے لکھا پھر اس کو دیکھا دیکھی سب نے نقل کر دیا جبکہ اہلسنّت کی کسی کتاب میں نہیں صحیح سند نہیں لکھا مزید مفصل جواب مولانا محمد علی نقشبندی رحمة اللہ علیہ کی کتاب دفاع حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ وہاں کبار علماء کرام مثلا حافظ ابن کثیر دمشقی ۔ خلدون مغربی کی تحقیق درج ہے کہ : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف اس فعل کا انتساب بالکل غلط ہے اور جن روایات کی بنا پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام لگایا گیا ہے وہ شیعوں کی روایات ہیں اور شیعہ کی طرف سے اس نوع کے الزامات کوئی از بعید نہیں ۔
درایت کے اعتبار سے بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف اس فعل کا انتساب کرنا غلط ہے اس لیے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا جنازه سعید بن العاص الاموی (جو اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس طرف سے حاکم مدینہ تھے) نے پڑھایا ۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں بطور وفد کے ہمراہ سال تشریف لے جاتے تھے ۔ اس وقت ان کے لیے بہت کچھ انعام و اکرام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کیا جاتا تھا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اسے بخوشی قبول کرتے تھے ۔ مطلب یہ ہے کہ قبیلہ کے اکابر اور اقارب کو جن لوگوں نے زہر دلا کر قتل کر ڈالا ہو ، ان لوگوں سے اپنے جنازے پڑھوانا ان کے ہمراہ غزوات میں شرکت کرنا ۔ ان سے عطایا اور وظائف حاصل کرنا وغیرہ وغیرہ یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے ؟ ۔ یہ چیزیں تو ان حضرات رضی اللہ عنہم کی عزتِ نفس اور فطری غیرت کے بر خلاف ہیں ان تمام چیزوں کو پیش نظر رکھنے سے واضح طور پر معلوم ہو تا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے واقعہ انتقال میں کوئی دخل نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس معاملہ میں ملوث تھے ۔
حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی بیماری کے ایام نہایت صبر و عمل سے گزارے اور ربیع الاول ۴۹ھ میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اس وقت کے امیر مدینہ حضرت سعید بن العاص الاموی رضی اللہ عنہ تھے ان کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ آپ جنازہ پڑھائیں اور ساتھ ہی قاعده شرعی بیان فرمایا کہ : لولا انها سنة ماقدمت لین ۔ دین اسلام میں سنت یہی ہے کہ امیر وقت نماز جنازہ پڑھانے کا زیادہ حقدار ہے ۔ اگر یہ سنت نبوی نہ ہوتی تو میں آپ کو صلوة جنازہ کےلیے مقدم نہ کرتا ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے بھائی کی وفات کے بعد بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ امیر کی اطاعت سے نہیں نکلے ۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر کا واقعہ ہی جھوٹا ہے اگر صحیح مان لیا جائے تو وہی لوگوں تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا سراسر بہتان تراشی ہے ۔ (البدایہ والنہایۃ جلد 8 صفحہ 43 تحت سنۃ 40ھ،چشتی)(کتاب المعرفۃ التاریخ البسوی جلد 1 صفحہ 216)(منہاج السنہ جلد 2 صفحہ 121 طبع لاہور)(حلیہ الاولیاء جلد 2 صفحہ 38)
کچھ لوگوں سے یہاں پر سخت غلطی واقع ہو ئی ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی “جعدہ بنت الاشعث” کو دشمنوں نے بہلا پھسلا کر اپنی سازش کا حصہ بنا لیا اور وہ دشمنوں کے جھانسے میں آکر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دھوکے میں زہر پلادی ۔ یہ بات بالکل جھوٹ اور افترائے محض ہے ۔ کیو نکہ تمام مور خین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے زہر پلانے والے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کسی کا نام نہ بتایا اور صرف اتنا کہا کہ : میں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔تو جب انہوں نےنام نہیں بتایا یہاں تک کہ کسی کے بارے میں اپنی شک کا اظہار بھی نہ فر مایا ۔ جس کی وجہ سے اس وقت کسی سے قصاص نہ لیا جا سکا تو پھر دوسروں کو کیسے اس کا علم ہوا ؟ اس لیے ایک ایسے مقدس امام جن سے اپنا رشتہ جوڑنے پر اس زمانے کی عورتیں ہر دکھ گوارا کرنے کو تیار رہتی تھی ، پھر جنہیں نوجوانا ن جنت کی سردار کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ ان کے بارے میں ایسا خیال ر کھنا اپنی تباہی اور بر بادی کو دعوت دینا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اپنے ان نیک بندوں کے صدقے دارین کی سر خروئی نصیب فر مائے ۔
خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سوانح کربلا میں فرماتے ہیں : مؤرخین نے زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث ابن قیس کی طرف کی ہے اور اس کو حضرت امام کی زوجہ بتایا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ زہر خورانی باغوائے یزید ہوئی ہے اور یزید نے اس سے نکاح کا وعدہ کیا تھا۔ اس طمع میں آکر اس نے حضرت امام کو زہر دیا ۔ (تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ ۱۵۲) ۔ لیکن اس روایت کی کوئی سندِ صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر کسی سندِ صحیح کے کسی مسلمان پر قتل کا الزام اور ایسے عظیم الشان قتل کا الزام کس طرح جائز ہوسکتا ہے ۔
قطع نظر اس بات کے کہ روایت کےلیے کوئی سند نہیں ہے اور مؤرخین نے بغیر کسی معتبرذریعہ یا معتمدحوالہ کے لکھ دیاہے ۔ یہ خبر واقعات کے لحاظ سے بھی ناقابل اطمینان معلوم ہوتی ہے ۔ واقعات کی تحقیق خود واقعات کے زمانہ میں جیسی ہوسکتی ہے مشکل ہے کہ بعد کو ویسی تحقیق ہو خاص کر جب کہ واقعہ اتنا اہم ہو مگر حیرت ہے کہ اَہل بیتِ اَطہار کے اس امامِ جلیل کا قتل اس قاتل کی خبر غیر کو تو کیا ہوتی خود حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ نہیں ہے یہی تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے برادر ِمعظم سے زہردہندہ کا نام دریافت فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر دینے والے کا علم نہ تھا ۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کانام لیتے ۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا تو اب حضرت جعدہ رضی اللہ عنہا کو قاتل ہونے کےلیے معین کرنے والا کون ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویاامامین کے صاحبزادوں میں سے کسی صاحب کواپنی آخر حیات تک جعدہ کی زہر خورانی کاکوئی ثبوت نہ پہنچانہ ان میں سے کسی نے اس پر شرعی مواخذہ کیا ۔ ایک اور پہلو اس واقعہ کا خاص طور پر قابل لحاظ ہے وہ یہ کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو غیر کے ساتھ سازباز کرنے کی شنیع تہمت کے ساتھ متہم کیا جاتا ہے یہ ایک بدترین تبرا ہے ۔ ان تمام جوابات سے واضح ہوگیا کہ امام حسن پاک کو زہر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیا جھوٹ ہے جس پر اہلسنت اور مخالفین کی کتب گواہ ہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر لگایا جانے والا یہ الزام کوئی بنیاد نہیں رکھتا ، یہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کا اپنا ایجادکردہ الزام ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment