Saturday, 2 October 2021

تعارف اہلسنت و جماعت اور فرقے حصہ ہفتم

 تعارف اہلسنت و جماعت اور فرقے حصہ ہفتم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : جو مسلمان اعتقادًا ما تریدی یا اشعری اور فقہی طور پر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، مقلد ہے اور کسی صحیح سلسلہٴ طریقت ، قادِری ، چشتی ، نقش بندی ، سہروردی ، شاذلی ، رفاعی ( وغیرە ) سے وابستہ ہیں ، وە اہل سنت و جماعت ( ایک لفظ میں " سنی" ) ہے ، (وە صحیح عقیدے والے سنی جو مقلد نہیں یا سلسلہٴ طریقت سے وابستہ نہیں ، وە بھی سواد اعظم میں شامل ہیں) ابتدا ہی سے ہر عہد میں اہل سنت و جماعت سواد اعظم بڑی تعداد میں رہے ہیں مگر پیمانہ کثرت و قلت نہیں بلکہ اتباع حق ہے ۔


اہل سنت و جماعت کا لقب یا اصطلاح قرون ثلاثہ کے بعد کا من گھڑت نہیں ہے ، بلکہ یہ جملہ فرقِ مبتدعہ سے قبل رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی الله عنہ کے ظاہری عہد مبارک سے صحیح العقیدە اہل حق مسلمانوں کے لیئے استعمال ہوتا آ رہا ہے ۔ حضرت سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی الله عنہما کی روایت موجود ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم پر کثرت سے درود شریف بھیجنا اہل سنت ہونے کی علامت ہے ۔ ( الترغیب : 963، القول البدیع 52، فضائل اعمال688)


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ الأَفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً»، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي» ۔

ترجمہ : عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ۔۔۔۔۔ تحقیق بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جاے گی ، ملت واحدە کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کی ، یا رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلّم ، وە ملت واحدە کون ہوں گے ؟ تو رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ جس طریقے پر میں ہوں اور میرے اصحاب ۔ (جامع ترمذی : 2461)(سنن ابن ماجہ : 3992 ، ابو داود:4597، مشکوۃ : 171،چشتی)


امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ما انا علیہ واصحابی کے مصداق بلا شک اہل سنت و جماعت ہی ہیں اور کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت یوں ہے کہ اہل جنت وە ہیں جو نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے طریقے پر ہیں اعتقادًا ، قولاً ، فعلاً ۔ اس لیے کہ یہ بات بالاجماع معروف ہے کہ علمائے اسلام نے جس بات پر اجماع کر لیا وە حق ہے اور اس کا ما سوا باطل ہے ۔


وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله لا يجمع أمتي أو قال: أمة محمد على ضلالة ويد الله على الجماعة ومن شذ شذ في النار ". . رواه الترمذي وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتبعوا السواد الأعظم فإنه من شذ شذفي النار» . رواه ابن ماجه من حديث أنس ۔

ترجمہ : اور ابن عمر رضی الله عنہما سے روایات ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ بے شک الله تعالی امت محمدی کو گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا اور ا لله کا ہاتھ جماعت پر ہے اور سواد اعظم کی پے روی کرو اور جو شخص ( جماعت سے اعتقادا یا قولا یا فعلا ) الگ ہوا وە آگ میں الگ ہوا ۔ اس کا معنی اور مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے اہل جنت اصحاب سے الگ ہوا وە آگ میں ڈالا جاے گا ۔ (ترمذی:2167،چشتی)(کنز العمال:1029،1030)(مشکوۃ:173،174)


ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : من فارق الجماعة شبرا فمات، إلا مات ميتة جاهلية ( بخاری : 7054) جو جماعت (اہل سنت ) سے بالشت بھر بھی الگ ہوا ، پھر اسی حال میں مرا تو وە جاہلیت کی موت مرا ۔


مخالفينِِ اہل سنت کے پسندیدہ پیشوا علامہ ابن تیمیہ نے " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە "(القران ) کی تفسیر میں لکھا ہے : قال ابن عباس وغیرە تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ ۔ ( مجموع الفتاوٰی ، 278/3 ) اور پھر لکھا کہ امت کے تمام فرقوں میں اہل سنت اس طرح وسط اور درمیانے ہیں جیسے تمام امتوں میں امت مسلمہ ۔ كما فى قوله تعالى وكذلك جعلناكم أمة وسطا(البقرە: 143 ) - (مجموع الفتاوی، 370/3) اور لكهافان الفرقة الناجية اهل السنة والجماعة۔ (141/3)


(تفسیر ابن جریر میں آیت قرآنی " واعتصموا بحبل الله جمیعا " کے تحت حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی الله عنە کی روایت سے لکھا " قال الجماعۃ " اور دوسری سند سے ابن مسعود رضی الله عنہ ہی سے اسی آیت کے تحت لکھا " قال حبل الله الجماعۃ" ابن جریر لکھتے ہیں ( ولا تفرقوا عن دین الله ) علیکم بالطاعۃ والجماعۃ اھل السنۃ والجماعۃ ۔) اور تفسیر ابن کثیر میں ہے ( یوم تبیض وجوە وتسود وجوە ) یعنی یوم القیامۃ حین تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ (390/1)


وَأخرج ابْن أبي حَاتِم وَأَبُو نصر فِي الْإِبَانَة والخطيب فِي تَارِيخه واللالكائي فِي السّنة عَن ابْن عَبَّاس فِي هَذِه الْآيَة قَالَ {تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ تبيض وُجُوه أهل السّنة وَالْجَمَاعَة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع والضلالة وَأخرج الْخَطِيب فِي رُوَاة مَالك والديلمي عَن ابْن عمر عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي قَوْله تَعَالَى {يَوْم تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ: تبيض وُجُوه أهل السّنة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع۔ وَأخرج أَبُو نصر السجْزِي فِي الْإِبَانَة عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَرَأَ {يَوْم تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ: تبيض وُجُوه أهل الْجَمَاعَات وَالسّنة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع والأهواء ۔ (دیلمی مسند الفردوس:8986)(کنز العمال: 2637)(تاریخ بغداد:3908،چشتی)(تفسیر مظھری 116/1،السنۃ :74)

ترجمہ : اور ابن ابی حاتم اور ابو نصر نے ابانہ میں اور خطیب نے اپنی تاریخ میں اور اللال کائی نے السنۃ میں ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت فرمائی اس آیت " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە " (آل عمران:106 ) کے بارے میں ، فرمایا کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاە ، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا اہل سنت و جماعت کے چہرے سفید اور اہل باطل کے چہرے سیاە ہوں گے اور دیلمی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس آیت کی یونہی تفسیر فرمائی اور ابو نصر سجزى نے أبانه ميں ابو سعيد خدری رضی اللہ عنہ سے روايت كى كه رسول كريم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے یہ آیت پڑھی اور فرمايا اهل سنت كےچہرے روشن ہوں گے اور اہل باطل کے چہرے سیاە ہوں گے ۔ ( الدر المنثور :63/2 )


غنیۃ اطالبین میں ہے : فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت ہی ہیں ۔ مومن کے لیئے لازم ہے سنت اور جماعت کی اتباع کرے پس سنت وە ہے جسے رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے جاری فرمایا ہو اور جماعت وە ہے جس پر ائمہ اربعہ خلفائے راشدین مہدیین رضی الله عنہم اجمعین کے دَور خلافت میں اصحاب نبوی نے اتفاق کیا ۔ ( غنیۃ الطالبین صفحہ 192)


حضرات اولیاء اللہ آئمہ ، محدثین علیہم الرّحمہ محی الدین ، معین الدین ، شہاب الدین ، بہاوٴ الدین ، قطب الدین ، فرید الدین ، نظام الدین ، علاوٴ الدین ، نصیر الدین ، حمید الدین ، جلال الدین ، مصلح الدین ، حسام الدین ، صلاح الدین ، نور الدین ، منیر الدین ، شریف الدین ، سدید الدین ، شرف الدین ، تاج الدین ، اوحد الدین ، امین الدین ، کریم الدین ، سیف الدین ، شمس الدین ، سبھی اہل سنت و جماعت ہی میں ہوئے ہیں ، ولایت بلا شبہ الله تعالی کا انعام ہے اور انعام دوستوں پیاروں ہی کو دیا جاتا ہے ۔ اہل سنت و جماعت کے اہل حق ہونے کی یہ واضح دلیل ہے ۔


گزشتہ صدی میں وە لوگ جو صحیح العقیدە اہل سنت و جماعت نہیں تھے مگر انہوں نے خود کو اہل سنت وجماعت کہلانا چاہا تو اہل حق اہل سنت و جماعت کی پہچان واضح کرنے کے لیئے سنی کے ساتھ بریلوی کا لقب پکارا جانے لگا ، چودہویں صدی کے مجدد امام اہل سنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ الله علیہ نے غیروں کی سازشوں کو پنپنے نہیں دیا اور کمال جراٴت و استقامت سے مسلک حق اہل سنت و جماعت کی ترجمانی کا حق ادا کیا اس لیئے ان کی نسبت سے بریلوی کا لقب آج اہل سنت و جماعت کی پہچان اور ہر سچے سنی کی صداقت کا عنوان ہے بریلوی کوئی فرقہ نہیں ہے ۔


سواد اعظم اور اہلسنت و جماعت کیا ہے ؟


حبیب کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کی امت کی فضیلتوں و عظمتوں میں ایک عظمت یہ بھی ہے کہ اس امت پر اللہ تعالی نے خصوصی فضل کیا جس کی بدولت یہ امت گمراہی و ضلالت پر اتفاق نہیں کرے گی۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ تَعَالَی عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم اِنَّ اللہَ لَا یَجْمَعُ اُمَّتِیْ عَلَی ضَلَالَۃٍ وَیَدُ اللہِ مَعَ الجَمَاعَۃِ وَمَنْ شَذَّ شَذَّ اَلَی النَّارِ ۔

ترجمہ : حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ تعالی کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا تو وہ آگ کی طرف جدا ہوا ۔ (ترمذی کتاب الفتن رقم الحدیث ۲۱۶۷،چشتی)(مشکوۃ رقم الحدیث ۱۷۳)


اس حدیث مباکہ میں صراحتا موجود ہے کہ یہ امت اللہ تعالی کے فضل و کرم سے گمراہی و ضلالت پر جمع نہیں ہو گی اور دوسری بات یہ کہ جماعت پر اللہ تعالی کا ہاتھ ہے اور جوجماعت سے الگ ہوا تو وہ جہنم میں جائے گا۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس جماعت کا ذکر ہے اس سے مراد کون سی جماعت ہے اور بعض روایات میں سواد اعظم کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے تو جاننا ضروری ہے کہ سواد اعظم کسے کہتے ہیں ؟ اس جماعت اور سواد اعظم کے بارے میں چند روایات پیش خدمت ہیں تاکہ اس جماعت و سواد اعظم کی اہمیت اجاگر ہو جائے اور اسے سمجھنے کے لیے رغبت پیدا ہو اور اس کی حقیقت آشکار ہو۔چند احادیث طیبہ پیش خدمت ہیں ۔


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ بیشک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کا ساتھ اختیار کرو ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب السواد الاعظم رقم الحدیث ۳۹۵۰)


یہاں سب سے بڑی جماعت کا ذکر ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ آقا کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے دور سے لیکر اب تک ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہی ہے یعنی وہ سب سے بڑی جماعت تھی ۔ فتنے اور فرقے آتے رہے اور جاتے رہے جو مخصوص وقت کےلیے اور مخصوص لوگوں تک محدود رہے تاہم اس جماعت نے ہمیشہ سے ان کا رد کیا اور حق پر قائم رہے ۔ یعنی ہمیں اپنے اصلاف کے عقائد کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرون اولی سے لیکر آج تک جن عقائد پر تمام اصلاف متفق ہیں وہی صحیح عقائد ہیں اور ہر دور میں ان پر قائم لوگ ہی اس بڑی جماعت کے حامل لوگ تھے اور اسی جماعت کو اپنانے کا حکم ہے ۔


حضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اللہ تعالی نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے جماعت کا ساتھ، نصیحت سننا، فرمانبرداری اختیار کرنا، ہجرت کرنا اور اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا، پس جو شخص جماعت سے ایک بالشت برابر بھی الگ ہواتو اس نے اسلام کا قلاوہ (پٹہ) اپنے گلے سے اتار دیا جب تک کہ وہ جماعت کی طرف لوٹ نہیں آتا ۔ (صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث ۱۸۹۵)(مستدرک للحاکم رقم الحدیث ۴۰۴)(معجم الکبیر رقم الحدیث ۳۴۳۱،چشتی)


سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا حضور نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا دو ایک سے بہتر اور تین دو سے بہتر ہیں اور چار  تین سے بہتر ہیں۔ پس تم پر لازم ہے کہ جماعت کے ساتھ رہو یقینا اللہ تعالی  میری امت کو ہدایت کے سوا کسی شے پر اکھٹا نہیں کرے گا ۔ (مسند احمد رقم الحدیث ۲۱۲۹۳)(ابن عساکر رقم الحدیث ۷۶۳۳)


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا بیشک بنی اسرائیل ۷۱ فرقوں میں تقسیم ہو گئی تھی اور میرے امت ۷۲ فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، وہ سب کے سب دوذخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب افتراق الامم رقم الحدیث ۳۹۹۳،چشتی)(مسند امام احمد رقم الحدیث ۱۲۰۲۸)


سواد اعظم اور جماعت اہل سنت مفسرین کرام اور اولیاء عظام  کی تعلیمات کی روشنی میں

مذکورہ بالا احادیث مقدسہ میں سواد اعظم اور جماعت کی اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ چنانچہ اس جماعت اور سواد اعظم کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ذیل میں مفسرین کرام اور اولیاء امت علیہم الرحمہ کی تعلیمات کی روشنی میں جماعت اہل سنت اور سواد اعظم کی وضاحت پیش خدمت ہے ۔


سند المفسرین شیخ المحدثین حضرت امام ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : پس اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس جماعت سے مراد اہلسنت و جماعت ہی ہے ۔ مزید لکھتے ہیں کہ اور فرقہ ناجیہ اہلست ہی ہیں ۔ (مرقاۃ المفاتیخ جلد نمبر۱صفحہ ۲۴۸)


امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : اہلسنت و جماعت ہی فرقہ ناجیہ ہے اور ان بزرگوں کی اتباع کے بغیر نجات متصور نہیں، اگر بال برابر بھی مخالفت ہے تو خطرہ ہی خطرہ ہے اور یہ بات کشف الہام صریح سے یقین کے درجہ تک پہنچ چکی ہے اس میں غلطی کا احتمال نہیں تو کس قدر خوش نصیب ہے وہ شخص جسے ان کی متابعت کی توفیق مل گئی ۔ (مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ دوم جلد نمبر ۱ صفحہ ۱۷۳ مکتوب ۵۹،چشتی)

ایک جگہ مزید فرماتے ہیں کہ : نجات کا راستہ اہلسنت و جماعت کی متابعت ہے ۔ اقوال میں بھی افعال میں بھی اور احوال و فروع میں بھی۔ کیونکہ نجات پانے والا فرقہ صرف یہی ہے۔ باقی تمام فرقے زوال اور ہلاکت کے کنارے کھڑے ہیں ۔ آج کسی کے علم میں یہ  بات آئے یا نہ آئے لیکن کل قیامت ہر ایک جان لے گا مگر اس وقت جاننا بے سود ہو گا ۔ (مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ دوم صفحہ نمبر ۱۹۱ مکتوب ۶۹)

امام ربانی ایک جگہ مزید لکھتے ہیں کہ عقل مندوں پر سب سے اول فرض ہے کہ اپنے عقائد کو علمائے اہلسنت و جماعت کے عقائد کے موافق درست کریں ۔ (مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم صفحہ ۵۷۰مکتوب ۲۶۶)


حضرت امام ابو شکور محمد بن سعید سالمی علیہ الرحمہ ، حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ کے ہم عصر ہیں ۔ آپ لکھتے ہیں کہ : بہر حال اہلسنت و جماعت سے الگ ہونا بدعت و گمراہی ہے اور بدعت و گمراہی والا دوذخیوں میں سے ہوگا ۔ اس پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۰۵)

ترجمہ : اور ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے ۔

اور حضور نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : عنقریب میری امت میں ۷۳ فرقے ہوں گے سوائے ایک کے سب دوذخی ہیں تو وہ ایک اہلسنت و جماعت ہے ۔

سواد اعظم (بڑی جماعت) کے اصول رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب، ان کے پیر و تابعین و تبع تابعین ہیں ۔ جیسے حضرت ابو سعید خدری، حسن بن ابو سعید بصری، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہم اور ان کے شاگردوں میں سے  جنہوں نے ان کی پیروی کی جیسے امام ابو یوسف، امام محمد بن حسین شیبان، امام زفر، امام حسن بن زیاد، داؤد طائی ، وغیرہ  تھے ۔

اور فقہاء دین سے جس نے ان کی پیروی کی اور رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے سے آج تک کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت اور انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ ایک جماعت کے زبان اور ہاتھوں سے دین کو بغیر کسی تنازع اور اختلاف کے لیا، پھر یہ اس بات پر دلیل ہے کہ اہلسنت و جماعت یہی مذکورہ شخصیات ہیں۔ یعنی صحابہ کرام، آئمہ و محدثین اور آئمہ میں سے جنہوں نے ان کی پیروی کی۔ یعنی جو سواد اعظم کے نقش قدم پر چلے ۔ (تمہید امام ابو شکور سالمی صفحہ ۳۸۰ تا ۳۸۱،چشتی)


قرآن کریم کی تعلیمات ، احادیث نبوی صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے حوالہ جات و عبارات آئمہ سے واضح ہوا کہ جماعت سے مراد اہلسنت و جماعت ہی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری جماعت مراد نہیں ہے ۔ اگرچہ کوئی دوسری جماعت لاکھ دعوی کرے کہ اس جماعت سے وہ مراد ہیں لیکن جب اس مدعی جماعت کو  مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی کے میزان پر رکھ کر دیکھیں گے تو ان کے دعوی کا بطلان واضح ہو جائے گا ۔ اس میزان کی کسوٹی پر فقط اہلسنت و جماعت ہی  پوری اترتی ہے ۔ اسی طرح سوادِ اعظم سے مراد بھی اہلسنت و جماعت ہی ہے در حقیقت سوادِ اعظم اہلسنت و جماعت ہی کا مترادف ہے اور اسے کثرت کی وجہ سے سوادِ اعظم کا نام دیا گیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...