Saturday, 2 October 2021

تعارف اہلسنت و جماعت اور فرقے حصہ ششم

 تعارف اہلسنت و جماعت اور فرقے حصہ ششم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : آجکل یہ بات بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے خاص طور سے جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں اپنے اس جملہ سے ظاہر وہ یہ کر نا چاہتے ہیں کہ آجکل جتنے فرقے ہیں وہ فرقہ تو ہیں مگر مسلمان نہیں ہیں ، اسلام کو فرقہ پرستی سے کیا لینا ؟ اس لیے میرا تعلق کسی فرقہ سے نہیں بلکہ میں صرف مسلمان ہوں ۔ اگر آپ اس بات یا قول کو حدیث کی روشنی میں دیکھیں تو پائیں گے کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی بات کے مخالف ہے ۔ حدیث آپ نے سن ہی رکھی ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول ﷲ قال ما انا علیہ واصحابی ۔ (رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داود)

عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ۔

ترجمہ : بے شک بنی اسرائیل کے بہتر 72 فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجا ئیں گے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان نےعرض کی وہ ناجی فرقہ کون ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ، ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو ۔


دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ)


اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں ’‘ بنی اسرائیل کے سارے 72 فرقے گمراہ ہو گئے تھے مگر مسلمانوں میں 72 فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر ۔


مسلم شریف اور ابوداؤد کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عیسائیوں نے بہتر (72) بنالئے اور میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی (72) فرقے ناری ہوں گے اور صرف ایک فرقہ ناجی ہوگا اور وہ جماعت جو میری سنت پر اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل کرے گی۔ حضور غوث پاک علیہ الرحمۃ اور حضرت مجدد شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کی شرح میں ناجی فرقے سے مراد اہلسنت و جماعت لیا ہے ۔ (مکتوبات شریف)


لفظ الجماعۃ سے مراد اُمت کا اَکثریتی طبقہ ہے ۔ اِس کی وضاحت حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود الجماعۃ سے سوادِ اَعظم مراد لیتے ہوئے فرمایا : والذي نفس محمد بيده! لتفترقن أمتي علي ثلاث وسبعين فرقة، واحدة في الجنة وثنتان وسبعون في النار. قيل : يارسول ﷲ ! من هم ؟ قال : الجماعة ۔

ترجمہ : اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! میری اُمت ضرور تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا اور بہتر (72) جہنم میں داخل ہوں گے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : يا رسول ﷲ ! من هم ؟ یارسول اللہ ! وہ جنتی گروہ کون ہے؟ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الجماعة ۔ وہ (اُمت میں سب سے بڑی) جماعت ہے ۔ (ابن ماجه، کتاب الفتن، باب افتراق الأمم، 2 : 1322، رقم : 3992) (لالکائي، إعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 101، رقم : 149،چشتی)


نوٹ جو کہتے ہیں ہمارا کوئی فرقہ نہیں در اصل وہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں میرا کوئی فرقہ نہیں کا نعرہ ملحدین اور منکرین حدیث کا ہے امت فرقوں میں بٹے گی یہ حدیث پاک میں موجود ہے حق پر ایک جماعت ہوگی اور وہ اہلسنت و جماعت ہے ۔


اس حدیث میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے جنت میں جانے والا قرار دیا ہے وہ بھی ایک “فرقہ” ہی ہے اور تہتر فرقے اس کو ملا کر تہتر ہونگے وہ تہتر سے الگ نہیں ہو گا ۔ ان میں سے صرف ایک “فرقہ “کو جنتی قرار دینے کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ ” فرقہ” مسلمان ہوگا تبھی تو وہ جنت میں جائے گا ۔ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ وہ فرقہ چلا تو جائے جنت میں مگر مسلمان نہ ہو ۔ لا محالہ اس “فرقہ” کو مسلمان ماننا ہوگا اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میرا کوئی فرقہ نہیں ہے میں صرف مسلمان ہوں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اپنا شمار تہتر فرقوں میں سے کسی میں نہیں کرتااور جب وہ تہتر میں ہی نہیں ہے تو وہ کیااس “فرقہ” میں ہو سکتا ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے جنت کی بشارت دی ہے ؟


بالکل بھی نہیں بلکے وہ الگ ایک فرقہ کا رکن ھے جن کا یہ نظریہ ھے ہمارا کوئی فرقہ نھیں تو چند سال یہ سبق پڑھتے رھتے پھر آگے بڑھتے ھیں تو کہتے ھیں ھمارا کوئی مذھب نھیں بس ھم انسان ھیں ۔


امام طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ھیں : فعليكم معاشر المؤمنين بإتباع الفرقة الناجية المسماة بأهل السنة والجماعة فان نصره أي نصرة الله وحفظه وتوفيقه في موافقأتهم وخذلانه وسخطه و مقته في مخالفتهم وهذه الطائفة الناجية قد اجتمعت اليوم في المذاهب الأربعة هم ألحنفيون والمالكيون والشافيون والحنبليون ومن كان خارجا من هذه المذاهب الأربعة فهو من أهل البدعة والنار ۔ (طحطاوی شرح الدر المختار، کتاب الذبائح، ٤/١٥٤،چشتی)

ترجمه : واجب ہے تم پر اے گروہ مومنین پیروی کرنا اس نجات یافتہ فرقہ کی جس کا نام اہل سنّت و جماعت ہے ، کیونکہ الله تعالیٰ کی مدد اور حفاظت اور توفیق ان کی موافقت میں ہے . اور ذلت دینا اس (جماعت) کو اور خفا ہونا اور بگاڑنا ان کی مخالفت میں سے ہے . اور یہ نجات یافتہ گروہ آج کے دن مجتمع ہوگیا ہے چار (4) مذاہب (راستوں) میں کہ وہ حنفی اور مالکی اور شافعی اور حنبلی ہیں. جو کوئی نکلا ان چاروں مذہبوں (راستوں) سے تو وو بدعتی اور جہنمیوں میں سے ہے ۔


علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے “كتاب الأشباه و النظائر” میں ناقلا عن المصفى فرماتے ھیں : وإذا سئلنا عن معتقدنا و معتقد خصومنا في القائد يجب علينا عن تقول الحق ما نحن عليه الباطل ما عليه خصومنا-هكذا نقل عن المشائخ أنتهى ۔ (كتاب الأشباه و النظائر، اعتقاد الإنسان في مذهبه، الفصل الثالث، صفحہ ٢٠٧،فیض چشتی)

ترجمہ : اور جس وقت ہم سے پوچھا جاے ہمارے اعتقاد اور ہمارے مخالف کے اعتقاد کے بارے تو ہمیں واجب ہے ہم پر یہ کہنا کہ جس پر ہم ہیں وہ حق ہے اور جس پر ہمارے مخالف ہے وہ ناحق ہے، ایسا ہی اگلوں سے منقول ہے ۔جو لوگ یہ کہتے ھوئے پائے جاتے ھیں کہ میرا کوئی فرقہ نہیں میں مسلمان ھوںاگر وہ شخص ضروریات دین کا اقرار کرتاھے اور اہل قبلہ ھے اور کم ازکم دین پرعمل کرتاھے وہ بلاشبہ جنتی ھے کیونکہ حدیث شریف اپنی جگہ مگر کسی بھی فرقے کی تکفیر نہیں کی گئی چناچہ علامہ شامی امام غزالی امام اعظم صاحیبین علیہم الرّحمہ نے گمراہ تو لکھا ھے اور اسی پر اعلٰحضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ھے ۔ یعنی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی بعض نے لکھا کہ ان کی یعنی گمراہ فرقوں کی مغفرت کی امید رکھی جائے گی ۔ رہ گئے وہ لوگ جو یہ کہتے ھیں میرا کوئی فرقہ نہیں تو بعض ان میں وہ لوگ بھی ھیں جو صرف برائے نام مسلمان ھیں بعض وہ ھیں جو صلح کلیت کے قائل ھیں ، بعض وہ ھیں جو تمام فرقوں کا ردکرتے نظر آتے ھیں جس میں اہلسنّت و جماعت بھی شامل ھے ۔ تو انکے چونکہ الگ الگ مؤقف ھیں اور ایسی اعتبار سے انکا رد بھی کیا جائے گا ۔ مگر یہ جملہ بہرحال غلط العام ھے کہ میرا کوئ فرقہ نہیں ھے کیونکہ اس کا مطلب یہ ھے سب سے الگ ایک نیافرقہ جس کی کوئی بنیاد نہیں ھے ، اور ایسے لوگ اکثر وبیشتر صرف تنقید کرنا چاھتے ھیں جو کہ بلکل گمراہی ھے ۔ یہ جو حدیث ھے کہ سوائے ایک کے باقی جہنم میں ھیں اسکا مطلب ھے ابتداًوہ داخل جہنم ھوں گے مگر جب اللّٰہ کی مرضی ھوگی وہ بھی بخشے جائیں گے جبکہ وہ حد کفر کو کراس نا کرگئے ھوں ۔


اہلِ سنّت و جماعت تین لفظوں سے مرکب هے


(1) اهل …..کا مطلب هے اشخاص ، مقلدین ، اتباع ، پیرو .


(2) سنّت….. معنی راسته مجازا روش .

طرز زندگی اورطرز عمل کےمعنی میں بهی آتا هے .


(3) جماعت. لغوی معنی تو گروه کے هیں ۔


لیکن یہاں جماعت سے مراد جماعت صحابه رضی اللہ عنہم ہے ۔ اس لفظی یعنی اهل سنت و جماعت کا اطلاق ان اشخاص پر هوتا هے جن کے عقائد و نظریات اور اعمال و مسائل کا محور پیغمبر اسلام کی سنت صحیحه اور صحابه کرام کا اثر مبارک ہے ۔


سنت کا مقابل لفظ بدعت ہے : بدعت کے معنی نئی بات کے ہیں که اصطلاح شریعت میں بدعت کهتے ہیں مذهب کے عقائد یا اعمال میں کوئی ایسی بات داخل هو جس کی تلقین صاحب مذهب نے نه فرمائی هو اور نه ان کے کسی حکم یا فعل سے اس کا منشا ظاهر هوتا هو . اس سے صاف معلوم هوگیا که : اهلسنت و جماعت کے عقائد کے علاوه سب تمام عقائد و نظریات بدعت ، ضلالت و گمراهی هیں . قرآن و سنت کی روشنی سے واضح ہوتا ہے کہ اہل سنت و جماعت اسی راستہ پہ گامزن ہیں : اللہ تعالی نے منع فرمایا فرقہ مت بناؤ مگر وہابی دیوبندی اہل حدیث غیرمقلد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں : ان لوگوں کے عقائد صحابہ رضی اللہ عنہم کے عقائد کے خلاف ہیں تو ہم انہیں دعوت سخن پیش کرتے ہیں آجاؤ اپنی اصل لائن پہ جس پہ اہل سنت سواد اعظم ہیں فرقوں میں تم بٹے ہو نہ کہ اہل سنت ۔


اہل سنت و جماعت ان تمام افراد کو کہا جاتا ہے جو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کے طریقے پر کار بند ہیں ۔ وجہ تسمیہ نام سے ظاہر ہے ، سنت پر چلنے والے اور جماعت کہنے کی وجہ یہ کہ وە لوگ حق پر جمع ہوۓ اور تفرقات میں نہیں پڑے ۔ مصلحینِ امت نے ہر دَور میں ملت اسلامیہ کو افتراق سے بچانے کی کوشش کی ہے ، اسی کوشش کو مسلک حق اہل سنت و جماعت کہا گیا ، عملی طور پر اصحاب نبوی ، اہل بیت نبوت ، تابعین ، تبع تابعین ، محدثين ،ائمہ مجتہدین ، اولیاۓ کاملین سب اسی پر کار بند رہے ۔ جو مسلمان اعتقادًا ما تریدی یا اشعری اور فقہی طور پر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، مقلد ہے اور کسی صحیح سلسلہٴ طریقت ،قادِری ، چشتی ، نقش بندی ، سہروردی ، شاذلی ، رفاعی ( وغیرە ) سے وابستہ ہے ، وە اہل سنت وجماعت ( ایک لفظ میں " سنی" ) ہے ، (وە صحیح عقیدے والے سنی جو مقلد نہیں یا سلسلہٴ طریقت سے وابستہ نہیں ، وە بھی سواد اعظم میں شامل ہیں ۔ ابتدا ہی سے ہر عہد میں اہل سنت و جماعت سواد اعظم بڑی تعداد میں رہے ہیں مگر پیمانہ کثرت و قلت نہیں بلکہ اتباع حق ہے ۔


اہل سنت و جماعت کا لقب یا اصطلاح قرون ثلاثہ کے بعد کا من گھڑت نہیں ہے ، بلکہ یہ جملہ فرقِ مبتدعہ سے قبل رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہ کے ظاھری عہد مبارک سے صحیح العقیدە اہل حق مسلمانوں کے لیے استعمال ھوتا آ رہا ہے ۔چناں چہ حضرت سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی الله عنہما کی روایت موجود ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر کثرت سے درود شریف بھیجنا اہل سنت ہونے کی علامت ہے ۔ ( الترغیب : 963، القول البدیع 52، فضائل اعمال688،چشتی)


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ الأَفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً»، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي»: عبد الله بن عمرو سے مروی ہے، کہتے ھیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : تحقیق بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جاے گی، ملت واحدە کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کی ، یا رسول الله صلی الله علیک وسلم، وە ملت واحدە کون ھوں گے؟ تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طریقے پر میں ھوں اور میرے اصحاب ۔ ( ترمذی : 2461 ، ابن ماجہ: 3992 ، ابو داود:4597، مشکوۃ : 171)


امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ھیں : ما انا علیہ واصحابی کے مصداق بلا شک اہل سنت و جماعت ھی ھیں اور کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت یوں ہے کہ اہل جنت وە ھیں جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر ھیں اعتقادًا ، قولاً، فعلاً ۔ اس لیے کہ یہ بات بالاجماع معروف ہے کہ علماے اسلام نےجس بات پر اجماع کر لیا وە حق ہے اور اس کا ما سوا باطل ہے ۔


وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله لا يجمع أمتي أو قال: أمة محمد على ضلالة ويد الله على الجماعة ومن شذ شذ في النار ". . رواه الترمذي وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتبعوا السواد الأعظم فإنه من شذ شذفي النار» . رواه ابن ماجه من حديث أنس اور ابن عمر رضی الله عنہما سے روایات ھیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک الله تعالی امت محمدی کو گم راہی پر جمع نہیں فرماے گا اور ا لله کا ھاتھ جماعت پر ہے اور سواد اعظم کی پے روی کرو اور جو شخص ( جماعت سے اعتقادا یا قولا یا فعلا ) الگ ھوا وە آگ میں الگ ھوا۔ اس کا معنی اور مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے اہل جنت اصحاب سے الگ ھوا وە آگ میں ڈالا جاے گا۔(ترمذی:2167،کنز العمال:1029،1030،)(مشکوۃ:173،174)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


ابن عباس رضی ا لله عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : من فارق الجماعة شبرا فمات، إلا مات ميتة جاهلية ( بخاری : 7054) جو جماعت (اھل سنت ) سے بالشت بھر بھی الگ ھوا ، پھر اسی حال میں مرا تو وە جاھلیت کی موت مرا۔


مخالفينِِ اهل سنت کے علامہ ابن تیمیہ نے " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە "(القران ) کی تفسیر میں لکھا ہے : قال ابن عباس وغیرە تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ ۔ ( مجموع الفتاوٰی ، 278/3 ) اور پھر لکھا کہ امت کے تمام فرقوں میں اہل سنت اس طرح وسط اور درمیانے ھیں جیسے تمام امتوں میں امت مسلمہ ۔كما فى قوله تعالى وكذلك جعلناكم أمة وسطا(البقرە: 143 ) - ( مجموع الفتاوی، 370/3) اور لكهافان الفرقة الناجية اهل السنة والجماعة۔ (141/3)( تفسیر ابن جریر میں آیت قرآنی " واعتصموا بحبل الله جمیعا " کے تحت حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی الله عنە کی روایت سے لکھا " قال الجماعۃ " اور دوسری سند سے ابن مسعود رضی الله عنہ ھی سے اسی آیت کے تحت لکھا " قال حبل الله الجماعۃ" ابن جریر لکھتے ھیں ( ولا تفرقوا عن دین الله ) علیکم بالطاعۃ والجماعۃ اھل السنۃ والجماعۃ ۔) اور تفسیر ابن کثیر میں ھے( یوم تبیض وجوە وتسود وجوە ) یعنی یوم القیامۃ حین تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ (390/1)

وَأخرج ابْن أبي حَاتِم وَأَبُو نصر فِي الْإِبَانَة والخطيب فِي تَارِيخه واللالكائي فِي السّنة عَن ابْن عَبَّاس فِي هَذِه الْآيَة قَالَ {تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ تبيض وُجُوه أهل السّنة وَالْجَمَاعَة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع والضلالة وَأخرج الْخَطِيب فِي رُوَاة مَالك والديلمي عَن ابْن عمر عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي قَوْله تَعَالَى {يَوْم تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ: تبيض وُجُوه أهل السّنة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع۔ وَأخرج أَبُو نصر السجْزِي فِي الْإِبَانَة عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَرَأَ {يَوْم تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ: تبيض وُجُوه أهل الْجَمَاعَات وَالسّنة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع والأهواء ،(دیلمی مسند الفردوس:8986، کنز العمال: 2637، تاریخ بغداد:3908، تفسیرمظھری116/1،السنۃ :74)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


اور ابن ابی حاتم اور ابو نصر نے ابانہ میں اور خطیب نے اپنی تاریخ میں اور اللال کائی نے السنۃ میں ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت فرمائی اس آیت " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە " (آل عمران:106 ) کے بارے میں ، فرمایا کچھ چہرے سفید ھوں گے اور کچھ چہرے سیاە ، ابن عباس نے فرمایا اھل سنت و جماعت کے چہرے سفید اور اھل باطل کے چہرے سیاە ھوں گے اور دیلمی نے ابن عمر سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس آیت کی یونہی تفسیر فرمائی اور ابو نصر سجزى نے أبانه ميں ابو سعيد خدري سے روايت كى كه رسول كريم صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اور فرمايا اهل سنت كےچہرے روشن ھوں گے اور اھل باطل کے چہرے سیاە ھوں گے ۔( الدر المنثور :63/2 )


محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی سیدنا غوث اعظم رضی الله عنہ فرماتے ھیں کہ فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت ھی ھیں ۔ مومن کے لیے لازم ہے سنت اور جماعت کی اتباع کرے پس سنت وە ہے جسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جاری فرمایا ھو اور جماعت وە ہے جس پر ائمہ اربعہ خلفاے راشدین مہدیین رضی الله عنہم اجمعین کے دَور خلافت میں اصحاب نبوی نے اتفاق کیا ۔( غنیۃ الطالبین 192)


محی الدین ، معین الدین ، شہاب الدین ، بہاوٴ الدین ، قطب الدین ، فرید الدین ، نظام الدین ، علاوٴ الدین ، نصیر الدین ، حمید الدین ، جلال الدین ، مصلح الدین ، حسام الدین ، صلاح الدین ، نور الدین ، منیر الدین ، شریف الدین ، سدید الدین ، شرف الدین ، تاج الدین ، اوحد الدین ، امین الدین ، کریم الدین ، سیف الدین ، شمس الدین ، و دیگر اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ سبھی اہل سنت وجماعت ھوئے ، ولایت بلا شبہ الله تعالی کا انعام ہے اور انعام دوستوں پیاروں ھی کو دیا جاتاھے۔ اہل سنت و جماعت کے اہل حق ھونے کی یہ واضح دلیل ہے ۔ (مزید حصہ ہفتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...