Saturday, 16 October 2021

عشق کے معنیٰ اور لفظ عشق کو گھٹیا و بازاری کہنے والوں کو جواب حصہ اوّل

 عشق کے معنیٰ اور لفظ عشق کو گھٹیا و بازاری کہنے والوں کو جواب حصہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارٸینِ کرام : بعض حضرات عشق کے معنی زورِ گندم بتائے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں بتائے ۔ لغت کی کسی کتاب میں لفظ عشق کے یہ معنی کوئی نہ دکھا سکے گا البتہ اس معنی پر ان لوگوں نے مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے اس شعر سے ضرور استدلال فرمایا ہے جو ان حضرات کے حواس باختہ ہونے کی دلیل ہے ۔ مولانا رومی تو اس شعر میں یہ فرما رہے ہیں کہ لوگوں میں جو خواہش نفسانی پائی جاتی ہے وہ عشق نہیں وہ تو محض گندم کھانے کا خمار ہے ان حضرات نے اسی خمارِ گندم کو عشق قرار دے دیا جس کے عشق ہونے کی مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نفی فرما رہے ہیں ۔


ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے

عشق مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کی نظر میں

مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے اس شعر میں خمارِ گندم کی مذمت کی ہے مگر حسب ذیل اشعار میں عشق کی مدح فرمائی ہے ۔

ہر کرا جامہ ز عشق چاک شد


اوز حرص و عیب کلی پاک شد


شاد باش اے عشق خوش سودائے ما


اے طبیب جملہ علتہائے ما


اے دوائے نخوت و ناموس ما


اے تو افلاطون و جالینوس ما


جسم خاک از عشق برافلاک شد


کوہ در رقص آمدو چالاک شد


یعنی جس کے وجود نفسانی کا جامہ عشق سے چاک ہوگیا ۔ وہ حرص اور ہر عیب سے پاک ہوگیا۔ اے ہمارے عشق خوش سوداء اور ہماری تمام بیماریوں کے طبیب تو خوش رہ۔ اے ہماری نخوت و غرور کی دوا۔ اے ہمارے عشق تو ہی ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے جسم خاکی عشق سے افلاک پر پہنچا‘ پہاڑ رقص میں آکر چست و چالاک ہوگیا ۔


ان اشعار میں مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے عشق وخوش سودا کو تمام بیماریوں کا طبیب اور اسی عشق کو اپنی نخوت و ناموس کی دوا اور اسی عشق کو اپنا افلاطون اور جالینوس فرماکر اس کی مدح فرمائی ہے ۔ پہلے شعر کے ساتھ ان اشعار کو ملا کر پڑھیئے ۔ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کا مفہوم آپ پر واضح ہوجائے گا کہ زورِ گندم عشق نہیں کیونکہ وہ انسانی خواہشات کو ابھارتا اور انسان کو بیشمار امراض قلبیہ میں مبتلا کردیتا ہے عشق تو ان کے نزدیک ایک ایسا جوہر لطیف ہے کہ اگر وہ کسی کے وجود نفسانی کا جامہ چاک کردے تو وہ حرص اور ہر عیب سے پاک ہوجائے وہ فرماتے ہیں۔ عشق ہی ہماری تمام بیماریوں کا طبیب اور نخوت و ناموس کی دوا ہے ۔ اسی عشق نے جسد خاکی کو افلاک پر پہنچایا اور اسی عشق سے پہاڑ رقص میں آیا ۔

خلاصہ یہ ہے کہ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک زور گندم عشق نہیں کیونکہ وہ امراض قلبیہ کا سبب ہے اور عشق ان کے نزدیک تمام امراض قلبیہ کا طبیب ہے ۔


ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا


محبت : اس ضمن میں بعض حضرات نے ایک لطیف میلان قلب کا نام محبت رکھا ہے گویا ان کے نزدیک محبت میں نفسانی خواہش‘ زورِ گندم اور حسن و شباب سے تعلق کا شائبہ ممکن ہی نہیں حالانکہ اہل عرب کے کلام اور محاورات میں محبت کا لفظ حسن و شباب کے تعلق ‘ نفسانی خواہش اور زورِ گندم کے معنی میں بھی بکثرت مستعمل ہے ۔ حدیث میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں مثلاً بخاری شریف میں ہے : اِنَّھَا کاَنَتْ لِیْ بِنْتُ عِمِّ اَحْبَبْتُھَا کَاَ شَۃِ مَایُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَآ ئَ فَطَلَبْتُ مِنْھَا فَاَ یَتُ ۔

ترجمہ : غار میں پھنسے ہوئے تین آدمیوں میں سے ایک نے کہا میری چچا کی بیٹی تھی جس سے میں ایسی محبت کرتا تھا جیسی شدید ترین محبت مردوں کو عورتوں سے ہوتی ہے لہٰذا میں نے اس سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہی تو اس نے انکار کردیا ۔ (بخاری جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۱۴،چشتی)


الفاظ حدیث کی روشنی میں ان حضرات کے اپنے من گھڑت عشق کے معنی اور محبت میں کیا فرق رہا ؟ مولانا رومی رحمة اللہ علیہ کے اشعار میں تو عارفین کا عشق مذکور تھا جو رَاحَۃ العاشقین کے الفاظ سے مراد ہے ۔ اب اہل لغت کی طرف آیئے تمام اہل لغت نے لفظ عشق پر کلام کرتے ہوئے اسکے معنی ’’فرط محبت‘‘ کے لکھے ہیں ۔ مختار الصحاح ص۳۷۴ میں ہے ۔ اَلْعِشْقُ فَرْطُ ا لْحُبِّ اسیطرح لسان العرب ج۱۰ص۲۵‘ تاج العروس ج۷ص۱۳ اور قاموس ج۳ص۲۶۵ میں ہے ۔


جس طرح محبت پاکیزہ بھی ہوتی ہے اور خبیث بھی ۔ اسی طرح عشق بھی پاکیزگی اور خبث دونوں میں پایا جاتا ہے ملاحظہ ہو قاموس میں ہے اَلْیِشْقُ ۔۔۔۔ اِفْرَاطُ الْہُبِّ ویَکُوْنُ فِیْ عَفَافٍ وفِیْ دَعَارَۃٍ (ص۲۶۵ج۳) یعنی عشق کا معنی افراط محبت ہے جو پاک دامنی میں ہوتا ہے اور خبث میں بھی معلم ہوا کہ عشق اور محبت میں شدت اور افراط کے سوا کوئی فرق نہیں ۔


لفظ عشق کا ثبوت


لفظ عشق پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ ’’لفظ عشق اتنا گرا ہوا‘ گھٹیا اور سخیف لفظ ہے کہ قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس لفظ کے استعمال سے مکمل احتراز کیا ہے ۔

قرآن و حدیث میں لفظ’’عشق‘‘ سے مکمل احتراز کا دعوی محل نظر ہے ۔ قرآن میں نہ سہی مگر حدیث میں ’’عَشِقَ‘‘ کے الفاظ موجود ہیں ۔ بروایت خطیب بغدادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ ثُمَّ مَاتَ مَاتَ شَھِیْدًا ۔

ترجمہ : جس کو کسی سے عشق ہوا پھر وہ پاک دامن رہتے ہوئے مرگیا تو وہ شہید ہے۔


اس کے علاوہ دوسری حدیث بھی بروایت خطیب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : مَنْ عَشِقَ فَکَتَمَ وَعَفَّ فَمَاتَ فَھُوَ شَھِیْدٌ ۔

ترجمہ : جس کو کسی سے عشق ہوا پھر اس نے چھپایا اور پاک دامن رہتے ہوئے مرگیا تو وہ شہید ہے ۔ (الجامع الصغیر ج۲ ص ۱۷۵ طبع مصر،چشتی)


اگر چہ ان دونوں حدیثوں میں ضعف کا قول کیا گیا ہے لیکن اس حدیث کو امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے مقاصد حسنہ میں اسانید متعددہ سے وارد کیا بعض میں کلام کیا اور بعض کو برقرار رکھا جن اسانید کو برقرار رکھا وہ ضعیف نہیں چنانچہ امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کی اسانید میں سے ایک سند کے متعلق فرمایا وَھُوَ سَنَدٌ صَحِیْحٌ (مقاصدِ حسنہ صفحہ ۴۲۰،چشتی)

امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام خرائطی رحمتہ اللہ علیہ اور ویلمی رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کیا ۔ بعض محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں : مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ فَکَتَمَ فَصَبَرَ فَھُوَ شَھِیْدٌ ۔

ترجمہ : جس کو کسی سے عشق ہوگیا پھر وہ پاک دامن رہا اور اسے چھپایا اور صبر کیا تو وہ شہید ہے ۔


اور امام بیہقی نے اسے طرقِ متعددہ سے روایت کیا ۔ (مقاصدِ حسنہ ص۴۱۹‘۴۲۰ طبع مصر)


اہل علم جانتے ہیں کہ طرقِ متعددہ سے سند ضعیف کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے ۔ مختصر یہ کہ لفظ عشق حدیث میں وارد ہے ۔ قرآن و حدیث میں ا س سے مکمل احتراز کا جو دعوی کیا گیا ہے صحیح نہیں ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے لفظ "عشق" استعمال کرنے کو گھٹیا اور بازاری کہنے والوں کو ہمارا مدلل و دندان شکن جواب


محترم قارئین : جب ہمارے سنی بھائی نبی پاک کیلے عشق اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان پہ کڑی تنقید کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ عشق کا لفظ بازاری لفظ ہے یہ صنف نازک کیلیئے استعمال کیا جاتا ہے کیا تم لوگ اپنی ماں بہن بیٹی کیلیئے یہ لفظ استعمال کر سکتے ہو کہ بہن کا عاشق ماں کا یا بہن کا۔ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کیلیئے کوئی لفظ استعمال کرنا ہے تو لفط پیار یا محبت اسعمال کرو۔اسکا جواب دینے سے پہلے ہم لفظَ پیار،محبت اور عشق میں فرق دیکھتے ہیں ۔


پیار۔ یہ ہمیں کسی سے بھی ہو سکتا ہے عورت کو مرد سے یا مرد کو عورت سے بھائی کو بہن سے یا بہن کو بھائی سے ماں باپ کو اولاد سے یا اولاد کو ماں باپ سے استاد کو شاگرد سے یا شاگرد کو استاد سے نیک لوگوں سے اللہ سے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے۔لیکن جب عام طور پر دو پیار کرنےوالے لڑکا لڑکی جب انگلش میں ایک جملہ استعمال کرتے ہیں آئی لو یو تو اسکا مطلب ہوتا ہے میں تم سے پیار کرتا ہوں یا کرتی ہوں اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میں تم سے عشق کرتا ہوں یا عشق کرتی ہوں لڑکا لڑکی عام طور پر ایک دوسرے کو یہی کہتے ہیں میں تم سے پیار کرتا یا کرتی ہوں۔عشق کا لفظ عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا دو ناسمجھ دل ایک دوسرے کو یہ کہہ کر پیغام دیتے ہیں کہ میں تم سے پیار کرتا یا کرتی ہوں معزرت کیساتھ کونسا لفظ بازاری ہوا۔پیار کا یا عشق کا۔پیار جس سے ہو وہ اسکا یار ہوتا محبت جس سے ہو وہ اسکا محبوب ہوتا ہے اور عشق جس سے ہو وہ اسکا مشتاق ہوتا ہے یعنی ملنے کیلے بے تاب ہوتا ہے۔پیار،محبت اور عشق میں کونسا لفظ بازاری ہے میں تو کہوں گا پیار کا لفظ کیونکہ دو نا سمجھ جوان دل زیادہ تر اپنی گفتگو میں پیار کا لفظ استعمال کرتے ہیں عشق کا نہیں ۔


محبت ۔ محبت کا مطلب ہے حب محبت کا معاملہ بھی یہی کہ محبت ہمیں اپنے تمام عزیزوں سے ہوسکتی ہےاپنے پیاروں سے ہو سکتی ہے اللہ رسول سے ہوسکتی ہے،ماں باپ دوست احباب بہن بھائی غرضیکہ ہر کسی سے ہو سکتی دو ناسمجھ دل اس لفظ کا استعمال بھی کرتے ہیں مجھے تم سے محبت ہے پیار ہے کبھی عشق بھی کہتے ہیں لیکن تب جب پیار اور محبت انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو حبیب کہہ کر پکارا ہے حبیب وہ ہوتا ہے جس سے حب ہو محبت ہو اور جو محبوب ہو اور جب محبت انتہا کو پہنچ جاتی تو یہ عشق بن جاتا ہے اور عشق پیار اور محبت سے پاکیزہ جزبہ ہوتا ہے۔عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتہ جبکہ جس سے پیار یا محبت ہو تو عام مرد و عورت کو کوئی نہ کوئی ہوس بھی ضرور ہوتی ہے چاہے جسموں کے ملاپ کی ہوس ہو یا روحوں کے میلاپ کی۔لیکن عشق کسیی ہوس کے جزبے سے پاک جزبہ ہے ۔


عشق ۔ عشق کی دو اقسام ہیں عشق مجازی اور عشق حقیقی۔عشق ایسا جزبہ ہے کہ جسمیں انسان بے لوث ہوتا ہے کسی کی خااطر جان لے بھی سکتا ہے اور جان دے بھی سکتا ہے جب حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکا گیا تو انہوں نے زندگی کی کوئی پروا نہ کی اور اپنی زندگی داؤ پہ لگا دی اس پروا نہ کرنیکا نام عشق ہے۔جب حضرت اسمایل پر انکے والد حجرت ابراہیم نے چھری پھیرنے کا ارادہ کی ذبح کنیکا ارادہ کیا تو بے چوں چراں ذبح ہونے کیلے اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر چپ چاپ لیٹ گئے اس پروا نہ کرنے کا نام عشق ہے۔یہ عشق حقیقی کی مثالیں ہیں ۔


عشق مجازی میں کوئی اپنے محبوب کی خاطر مجنوں بن جاتا ہے کوےئ فرہاد بن جاتا ہے کوئی رانجھا بن جاتا ہے اس مجازی عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتی کوئی جسمانی ہوس کی طلب نہیں ہوتی اس طلب نہ ہونیکا نام عشق ہے لیکن یہ عشق مجازی ہے۔جبکہ عشق حقیقی میں سب کچھ اللہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خاطر قربان کترنیکا نام عشق حقیقی اللہ کی خاطر جو انبیا نے قربانیاں دیں یہ عشق حقیقی کی زندہ مثالیں ہیں ۔ جب اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے فرمایا اے حبیب اگر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو بنانا مقصود نہ ہوتا تو میں کچھ بھی نہ دو جہاں میں اور تمام جہاں میں یہاں تک کہ اپنے آپکو بھی ظاہر نہ کرتا یہ عشق اللہ کا اپنے حبیب کیلے ہے کہ اللہ اپنے حبیب کی خاطر خود کوبھی ظاہر نہ کرتا اور خود کو ازل سے لیکر چھپائے رکھتا۔کسی کی خاطر اپنے آپکو دنیا سے چھپا دینا ظاہر نہ کرنیکا نام عشق ہے ۔


دوسری طرف نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے جو اللہ سے عشق کیا اسکی مثال دو جہاں میں کہیں نہیں ملتی اپنی پیاری بیٹی جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حجرت فاطمہ زہرا خاتون جنت بتول رض کے اور علی رضی اللہ عنہ اور محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لاڈلے نواسے کو قربان کر دیا چھے مہینے کے حسین ع کے بیٹے علی اصغر کو قربان کر دیا حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جانتے تھے کہ حسین ع کیوں کہاں اور کیسے شہید کیے جائیں گے کیا اگر اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم چاہتے تو اپنے پیارے نواسے حسین ع کی آل اولاد کو بچانے کیلئے دعا نہیں کر سکتے تھے کیا اللہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی دعا کو رد کرنا تھا یہ قربانی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا اللہ سے عشق ہے کہ اپنے نواسے کی پیاری آل اوکاد کی زندگی کا سوال کرنا تو دور کی بات سوچا تک نہیں یہ نہ سوچنا نہ سوال کرنا عشق ہے۔جو نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اللہ سے کیا ۔


اس طرف حضرت حسین نے بھی اللہ کو انکے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا واسطہ نہیں دیا کہ انکو آل اولاد کو اللہ بچا لے اللہ کی بارگاہ میں کوئی سوال نہیں کیا اور اللہ کی راہ میں اپنی آل اولاد سمیت چپ چاپ قربان ہو گئے اس قربانی کا نام عشق ہے جو اللہ اور اسکے پیار حبیب نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے کیا ۔


اس طویل بحث کے بعد ایک بات تو روز عیاں کی طرح واضح ہو گئے ہو گی عشق پاک جزبے کا نام ہے اسمیں کوئی ہوس کوئی غرض نہیں ہوتی بس اللہ اسکے محبوب کی خوشنودی دیکھی جاتی ہے ۔


اہل اسلام جو لفظ عشق نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لیے استعمال کرتے ہیں یہ بالکل شریعت کے مطابق ہے۔پیار میں ہوس ہوسکتے محبت میں بھی کوئی ضرورت ہوسکتی ہے لیکن عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتی صرف الہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خوشنودی ہوتی ہے ۔


جہاں تک یہ سوال ہے کہ عشق لفظ اپنی ماں بہن بیٹی کیلے استعمال کر سکتے ہو تو جب پیار جیسا بازاری لفظ جو دو ناسمجھ جوان لوگ بات بات پہ استعمال کر سکتے ہیں محبت جیسا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یہ نا سمجھ جوان لوگ تو اپنے محبوب کیلے بھی یہی لفظ اور اپنی ماں بہن بیٹی کیلیے بھی تو عشق تو ایک پاک جزبہ ہے ۔

عشق ایسا جزبہ ہے کہ جسکی خاطر جان دی بھی جا سکتی ہے اور لی بھی جا سکتی لیکن پیار اور محبت کے جزبے میں ضروری نہیں کہ جان دی جا سکے یا لی جا سکے ماں بہن بیتی سے بھی عشق ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی ماں اور بہن کی حرمت و عزت کی خاطر کسی کی جان لے بھی سکتا ہے اور دے بیھی ستا ہے ۔

جب کتا اپنے مالک کی خاطر اپنی جان داؤ پہ لگا سکتا ہے تو یہ کتے کا مالک سے کیا ہے یہ کتے کا اپنے مالک سے صرف پیار نہیں عشق ہے کیوں جان کی بازیاں صرف عشق کی جزبے میں لگائیئ جاتی ہیں جب چڑیا اپنے سے ہزار گنا بڑے عقاب سے اپنے بچوں کی خاطر اپنے بچوں کی جان بچانے کی خاطر عقاب پہ حملہ کر سکتی ہے تو یہ پروا نہ کرنا کیا پے صرف پیار ہے نہیں یہ اپنے بچوں کیلیئے مامتا ہے عشق ہے جو اپنی جان کی پروا نہیں کرتی۔یہ پروا نہ کرنا عشق ہے۔جب بے بے زبان جانداروں کو اپنے بچوں سے عشق ہو سکتا ہے تو ہمیں اپنی بہن بیٹی اور ماں سے عشق کیوں نہیں ہوسکتا۔پیار تو لڑکوں کو ہر دوسری لڑکی سے ہوجاتا ہے لیکن جب انہیں کسی صنف نازک سے عشق ہو گا تو ہر طرح کی ہوس نفسانی ہوس ختم ہو جائے گی۔اس ہوس کے خاتمے کا نام عشق ہے ۔


اللہ تعالیٰ ہمیں ان بد مذہبوں سے بچائے جو نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے عشق کو نعوذ بااللہ بازاری لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اللہ انہیں سچ جھوٹ حق و باطل پہچاننے اور ان میں تمیز کرنیکی توفیق دے ۔ اللہ ہم مسلمانان اہل سنت و جماعت کو سچا عاشق رسول بنائے تاکہ ہم دشمنان رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ایسے ہی منہ توڑ جواب دیتے رہیں آمین ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...