Friday 15 October 2021

جشنِ دیوبند و جشن سعودیہ منانا جاٸز اور جشنِ میلاد ناجاٸز آخر کیوں ؟

0 comments

جشنِ دیوبند و جشن سعودیہ منانا جاٸز اور جشنِ میلاد ناجاٸز آخر کیوں ؟

محترم قارٸینِ کرام : ایک ہندو عورت کو بلا کر صد سالہ جشن دیوبند 1980 میں 100 سالہ جشن دیوبند ہوا جس میں دیو بند کے سب بڑے مفتی موجود تھے . جن میں مفتی محمود ان کو دیو بند والے اپنا روحانی باپ مانتے ہیں ، علاوہ مولوی محمد اجمل خاں ، مولوی عبدالقادر آزاد ، مولوی عبدالرحمن جامعہ اشرفیہ . مولوی اسعد مدنی ، انہوں نے ایسے مہمان خصوصی کا انتخاب کیا جو ہمارے اسلام کا دشمن ہے اور ہمارے پیارے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن اندرا گاندھی اور نائب وزیر اعظم بھارت جگ جیون رام کو بلایا ، ان کفار کو بلا کر تقریریں کروائی ، کیونکہ دیوبند والوں کا اصل کنکشن انہی لوگوں سے ہے یا انگریزوں سے ۔

دیوبند کے اصول بدعت کے مطابق جشن دیوبند بدعت ہے مگر منایا گیا آخر کیوں ؟

دنیا جانتی ہے کہ علماے دیوبند نے اپنے دار العلوم دیوبند کا صد سالہ جشن منایا ،اور اس میں ہندو عورت اِندرا گاندھی کو اسٹیج پر بیٹھایا:’’روزنامہ جنگ کراچی بدھ ۸؍جمادی الاول ۱۴۰۰ھ ؁ مطابق ۲۶؍ مارچ ۱۹۸۰ء ؁ کے مطابق مدرسہ دار العلوم دیوبند میں ایک ہندو عورت اِندرا گاندھی ساڑھی پہن کر صدارت کیلئے آئی ۔ اورایک ہندوں جگ جیون رام نے دیوبندی اجلاس سے خطاب کیا۔ ’’روز نامہ ایکسپرس ہفتہ ۱۷؍ ربیع الثانی۱۴۲۰ھ/ ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء ؁ کے مطابق ایک ہندو عورت سونیا گاندھی نے اجلاس کنونشن میں خطاب کیا ۔ نئی دہلی 21۔ مارچ (ریڈیو رپورٹ،اے آئی آر)دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات شروع ہو گئیں بھارت کی وزیر اعظم مسز اِندرا گاندھی نے تقریبات کا افتتاح کیا ۔ (روزنامہ مشرق ۔ نوائے وقت لاہور 22، 23۔ مارچ 1980ء)

اس پر ہمارے سوال ؟

کوئی ایک آیت و حدیث ایسے جشن کے جواز پر پیش کرو جس میں ایک غیر مسلم بے پردہ عورت شامل ہو،لیکن اس کے باوجود ایسے جشن کو جائز قرار دیا گیا ہو ؟

ہم پوچھتے ہیں کہ کیا [معاذاللہ عزوجل] نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟

کیا [معاذاللہ عزوجل] صحابہ[ کرام علہیم الرضوان اجمعین] نے ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟

کیا [معاذاللہ عزوجل] تابعین[ علہیم الرضوان اجمعین] نے ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟

کیا [معاذاللہ عزوجل] تابع تابعین[ علہیم الرضوان اجمعین] نے ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟

اچھا چلو اسے عورت کو بھی نکال باہر کرو

صرف اتناہی بتا دوکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم نے مدرسہ صفاء قائم فرمایا تھاتو بعد میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اس کا کسی قسم کا جشن منایا تھا ؟

چلو کسی تبع تابعین ہی کا حوالہ پیش کر دو کہ انہوں نے صدسالہ جشن منایا ؟

کوئی ایک حوالہ بتا دو۔ لیکن ان شاء اللہ اپنے اس جشن کو اپنے اصول بدعت کی موجودگی میں ہرگز ہرگز ثابت نہیں کر سکتے ۔

بعض علمائے دیوبند نے جشن دیوبند کو بدعت کہا

علمائے دیوبند کے علامہ عبد الحق خان بشیر چیئر مین حق چار یار اکیڈمی گجرات کی کتاب میں اپنے ہی دیوبندی مولوی بندیالوی کو کہتے ہیں کہ : ’’بندیالوی صاحب کی طبع نازک پر اگر گراں نہ گزرے تو ہم ان سے پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ آپ نے دار العلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے اپنی جماعت کے نائب امیر حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب ؒ کا تذکرہ تو کیا لیکن اپنی جماعت کے امیر سید عنا یت اللہ شاہ صاحب بخاری کا تذکرہ نہیں کیا جنہوں نے اپنی متعدد تقاریر میں ان تقریبات کی مخالفت کرتے ہوئے بر ملا اس بات کا اظہار کیا کہ ہم جشن میلاد کی مخالفت کرتے ہیں اور قاری طیب جشن دیوبند کی بدعت اختیار کر رہا ہے ۔ (علماء دیوبند کا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور مولانا عطا اللہ بندیالوی صفحہ 70،چشتی)

معلوم ہوا کہ خود بعض دیوبندی علمائے نے بھی جشن دیوبند کی مخالفت کی اور اس کو بدعت قرار دیا، لیکن سوال تو یہ ہے کہ دیوبند جو کے علماے دیوبند کا مرکز ہے وہاں اس بدعت کو کس دلیل سے جائز قرار دے کر داخل کیا گیا تھا ؟

یہاں دیوبندی حکیم الامت تھانوی صاحب کا حوالہ دوبارہ یاد کریں کہ ’’جو لوگ متبع سنت ہیں اور اپنی ہی جماعت [دیوبندی] کے ہیں اُن کے یہاں بھی بس یہی دو چار چیزیں تو بدعت ہیں جیسے مولد کا قیام ۔ عرس ۔ تیجا ۔دسواں ۔اس کے علاوہ جو اور چیزیں بدعت کی ہیں اُنہیں وہ بھی بدعت نہیں سمجھتے ۔ چاہیے وہ بدعت ہونے میں اُن سے بھی اشد ہوں۔(الافاضات الیومیہ جلد ۱۰ ملفوظ نمبر ۱۱۹ )

معلوم ہوا کہ جہاں ، جس چیز کو چاہیں یہ علماء جائز قرار دیں اور جہاں چاہیں بدعت و گمراہی کہہ کر انکار کر دیں ، ذات مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا معاملہ آتا ہے تو ان کو خوابوں میں بھی بدعت نظر آتی ہے لیکن خود جو مرضی ہے کرتے ہیں ۔ لاحول ولاقو ۃ الاباللہ ۔
شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے شہرہ آفاق کلام و اشعار میں : زد یوبند حسین احمد ایں چہ بو العجی است فرما کر دیوبند و صدر دیوبند کی مشرک دوستی و کانگرس نوازی اور متحدہ قومیت سے ہمنوئی کو بہت عرصہ پہلے جس بوالعجی سے تعبیر فرمایا تھا، بمصداق تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ سے تعبیر فرمایا تھا ، اس بو العجی کی صدائے بازگشت اس وقت بھی سنی گئی ، جب صد سالہ جشن دیوبند میں مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم بھارت کو شمع محفل دیکھ کر خود دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم و لیڈر مولوی احتشام الحق تھانوی (کراچی) کو بھی یہ کہنا پڑا کہ : بہ دیوبند مسز گاندھی ایں چہ بوالعجی است

اس اجمال کی یہ ہے : کہ شان رسالت و جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت کے مرکز اور کانگرس کی حمایت و مسلم لیگ و پاکستان کی مخالفت کے گڑھ دارالعلوم دیوبند کا 21، 22، 23۔ مارچ 1980ء کو صد سالہ جشن منایا گیا اور اس موقع پر اندداگاندھی کی کانگریسی حکومت نے جشن دیوبند کا کامیاب بنانے کے لئے ریڈیو۔ ٹی وی۔ اخبارات۔ ریلوے وغیرہ تمام متعلقہ ذرائع سے ہر ممکن تعاون کیا۔ بھارتی محکمہ ڈاک و تارنے اس موقع پر 30 پیسے کا ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا: جس پر مدرسہ دیوبند کی تصویر شائع کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اندرادیوبندی نے"بنفس نفیس" جشن دیوبند کی تقریبات کا افتتاح کیا۔ اپنے دیدار و آواز و نسوانی اداؤں سے دیوبندی ماحول کو مسحور کیا: اور دیوبند کے اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں اپنے خطاب سے جشن دیوبند کو مستفیض فرمایا: بانیءدیوبند کے نواسے اور مدرسہ دیوبند کے بزرگ ،مہتمم قاری محمد طیب صاحب نے اندرادیوی کو 'عزت مآب وزیراعظم ہندوستان' کہہ کر خیر مقدم کیا اور اسے بڑی بڑی ہستیوں میں شمار کیا: اور اندرادیوی نے اپنے خطاب میں بالخصوص کہا کہ' ہماری آزادی اور قومی تحریکات سے دارالعلوم دیوبند کی وابستگی اٹوٹ رہی ہے': علاوہ ازیں جشن دیوبند کے اسٹیج سے پنڈت نہروکی رہنمائی و متحدہ قومیت کے سلسلہ میں بھی دیوبند کے کردار کو اہتمام سے بیان کیا گیا : بھارت کے پہلے صدر راجند پرشاد کے حوالہ سے دیوبند کو 'آزادی (ہند) کا ایک مضبوط ستون قرار دیا گیا۔ (ماہنامہ 'رضائے مصطفٰے' گوجرانوالہ جمادی الاخریٰ 1400ھ مطابق اپریل 1980 ء،چشتی)

یادگار اخباری دستاویز : نئی دہلی 21۔ مارچ (ریڈیو رپورٹ) اے آئی آر) دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات شروع ہو گئیں بھارت کی وزیر اعظم مسزاندراگاندھی نے تقریبات کا افتتاح کیا۔(روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت لاہور 22، 23۔ مارچ 1980ء)

تقریر : مسز اندراگاندھی نے کہا دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان روداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اس نے دیگر اداروں کے ساتھ مل جل کر آزادی کی جدوجہد کوآگے بڑھایا۔ انھوں نے دارالعلوم کا موازنہ اپنی پارٹی کانگریس سے کیا (روزنامہ جنگ راولپنڈی 23 مارچ ۔

تصویر : روزنامہ جنگ کراچی 3 اپریل کی ایک تصویر میں مولویوں کے جھرمٹ میں ایک ننگے منہ ننگے سر برہنہ بازو۔ عورت کو تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔ 'مسز اندراگاندھی دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر تقریر کر ہی ہیں ۔

روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور۔9۔اپریل کی تصویر میں ایک مولوی کو اندراگاندھی کے ساتھ دکھایا گیا ہے اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔'مولانا راحت گل مسزاندراگاندھی سے ملاقات کرنے کے بعد واپس آ رہے ہیں۔'

دیگر شرکاء : جشن دیوبند میں مسزاندراگاندھی کے علاوہ مسٹر راج نرائن، جگ جیون رام، مسٹر بھوگنا نے بھی شرکت کی۔(جنگ کراچی 11۔اپریل)

سنجے گاندھی کی دعوت : اندراگاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی نے کھانے کا وسیع انتظام کر رکھا تھا۔ سنجے گاندھی نے تقریبا پچاس ہزار افراد کو تین دن کھانا دیا۔ جو پلاسٹک کے لفافوں میں بند ہوتا تھا۔ بھارتی حکومت کے علاوہ وہاں کے غیر مسلم باشندوں ہندواؤں اور سکھوں نے بھی دارالعلوم کے ساتھ تعاون کیا۔ (روزنامہ امروز لاہور 9۔اپریل)

ہندوؤں کا شوق میزبانی : کئی مندوبین (دیوبندی علماء) کو ہندو اصرار کرکے اپنے گھر لے گئے جہاں وہ چار دن ٹھہرے۔ (روزنامہ امروز لاہور27۔ مارچ 1980ء)

حکومتی دلچسپی : اندراگاندھی اور سنجے گاندھی وغیرہ کی ذاتی دلچسپی کے علاوہ اندرا حکومت نے بھی جشن دیوبند کے سلسلہ میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اور اس جشن کے خاص انتظام و اہتمام کے لئے ملک و حکومت کی پوری مشیزی حرکت میں آ گئی اور بڑے بڑے سرکار حکام نے بہت پہلے سے اس کو ہر اعتبار سے کامیاب بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنےآرام و سکون کو قربان کر دیا۔ اور شب و روز اسی میں لگے رہے ریلوے، ڈاک، پریس، ٹی وی، ریڈیو اور پولیس کے حفاظتی عملہ نے منتظمین جشن کے ساتھ جس فراخدلی سے اشتراک و تعاون کیا ہے۔اس صدی میں کسی مذہبی جشن کے لئے ا سکی مثال دور دور تک نظر نہیں آتی۔(ماہنامہ فیض رسول براؤن بھارت۔مارچ 1980ء،چشتی)

ڈیڑھ کروڑ : جشن دیوبند کے مندوبین نے واپسی پر بتایا کہ جشن دیوبند کی تقریبات پر بھارتی حکومت نے ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کئے اور ساٹھ لاکھ روپے دارالعلوم نے اس مقصد کےلیے اکٹھے کیے ۔ (روزنامہ امروز لاہور 27مارچ 1980ء)

30 لاکھ : مرکزی حکومت نے قصبہ دیوبند ک نوک پلک درست کرنے کے لئے، 30 لاکھ روپیہ کی گرانٹ الگ مہیا کی۔ روٹری کلب نے ہسپتال کی صورت میں اپنی خدمات پیش کیں۔ جس میں دن رات ڈاکٹروں کا انتظام تھا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی 3۔اپریل 1980ء)

کسٹم : ہنگامی طور پر جلسہ کے گرد متعدد نئی سڑکوں کی تعمیر کی گئی اور بجلی کی ہائی پاور لائن مہیا کی گئی بھارتی کسٹم اور امیگریشن حکام کا رویہ بہت اچھا تھا۔ انھوں نے مندوبین کو کسی قسم کی تکلیف نہیں آنے دی۔ (روزنامہ امروز لاہور 9 اپریل 1980ء)

اخراجات جشن : تقریبا جشن کے انتظامات وغیرہ پر 75 لاکھ سے زائد رقم خرچ کی گئی،: پنڈال پر چار لاکھ سے بھی زیادہ کی رقم خرچ ہوئی۔ کیمپوں پر ساڑھے چار لاکھ سے بھی زیادہ کی رقم خرچ ہوئی۔: بجلی کے انتظام پر 3 لاکھ سے بھی زیادہ روپیہ خرچ ہوا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی 3۔اپریل مروز لاہور 9 ۔اپریل 1980ء،چشتی)

اندرا سے استمداد : مفتی محمود نے اسٹیج پر مسز اندراگاندھی سے ملاقات کی اور ان سے دہلی جانے اور ویزے جاری کرنے کے لئے کہا۔ اس پر اندراگاندھی نے ہدایت جاری کی کہ اسے ویزے جاری کردئیے جائیں۔ چنانچہ بھارتی حکومت نے دیوبند میں ویزا آفس کھول دیا۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور 26مارچ1980ء)

دیوبند کے تبرکات : زائرین دیوبند و جشن دیوبند میں شرکت کے علاوہ واپسی پر وہاں سے بےشمار تحفے تحائف بھی ہمراہ لائے ہیں ان میں کھیلوں کا سامان ہاکیاں طور کرکٹ گیندوں کے علاوہ سیب، گنے، ناریل، کیلا، انناس، کپڑے، جوتے، چوڑیاں، چھتریاں اور دوسرا سینکڑوں قسم کا سامان شامل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چند ایک زائرین اپنے ہمراہ لکڑی کی بڑی بڑی پارٹیشنین بھی لاہور لائے ہیں۔ (روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت 26 مارچ 1980ء)

تاثرات : احتشام الحق تھانوی دیوبندی : کراچی 22 ۔مارچ مولانا احتشام الحق تھانوی نے کہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا صدسالہ اجلاس جو مذہبی پیشوا اور علماءو مشائخ کا خالص مذہنی اور عالمی اجتماع ہے اس کا افتتاح ایک (غیر مسلم اور غیر محرم خاتون) کے ہاتھ سے کراکرنہ صرف مسلمانوں کی مذہبی رویاات کے خلاف ہے بلکہ ان برگزیدہ مذہنی شخصیتوں کے تقدس کے منافی بھی ہے جو اپنے اپنے حلقے اور علاقوں سے اسلام کی اتھارٹی اور ترجمان ہونے کی حقیقت سے اجتماع میں شریک ہوئے ہیں۔ ایشیاکی دینی درسگاہ کے اس خالص مذہبی صد سالہ اجلاس کو ملکی سیاست کے لئے استعمال کرنا ارباب دارالعلوم کی جانب سے مقدس مذہبی شخصیتوں کا بدترین استحصال اور اسلاف کے نام پر بدترین قسم کی استخوان فروشی ہے ہم ارباب دارالعلوم کے اس غیر شرعی اقدام پر اپنے دلی رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اس شرمناک حرکت کی ذمہ داری دارالعلوم دیوبند کے مہتمم پر ہے۔ جنہوں نے دارالعلوم کی صد سالہ روشن تاریخ کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔ (روزنامہ امن کراچی 24۔ مارچ 1980ء،چشتی)

وقار انبالوی : مولانا احتشام الحق صاحب کا یہ کہنا : (بہ دیوبند مسز اندرا ایں چہ بوالعجبی است) ۔ کی وضاحت ہی کیا ہو سکتی ہے ۔ یہ تو اب تاریخ دیوبند کا ایک ایسا موڑ بن گیا ہے کہ ماؤرخ ا سے کسی طرح نظر انداز کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے دامن سے یہ داغ شاید ہی مٹ سکے۔ وقتی مصلحتوں نے علمی غیرت اور حمیت فقر کو گہنا دیا تھا۔ اس فقیر کو یا د ہے کہ متحدہ و قومیت کی تارنگ میں ایک مرتبہ بعض علماءسوامی سردہانند کو جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھانے کا ارتکاب بھی کر چکے ہیں لیکن دو برس بعد اسی سردہانند نے مسلمانوں کو شدھی کرنے یا بھارت سے نکالنے کا نعرہ بھی لگایا تھا ۔ (سرراہے نوائے وقت 29۔ مارچ 1980ء)

ہم مہمان خصوصی کسی بزرگ کو بلائیں تو بڑی تکلیف ان کو ہوتی ہے کہتے ہیں پیر صاحب  کو بلانا ضروری تھا ، دوستوں فیصلہ کرنا جس کو جس سے محبت ہوتی ہے اس کو بلاتا ہے ہمیں بزرگوں سے محبت ہے ان کو بلاتے ہیں ان کو کفار سے محبت ہے یہ ان کو بلاتے ہیں(جس کا ثبوت ساتھ اسکن میں دیا جا رہا ہے) جشنِ صد سالہ دیوبند منانا بغیر دلیل شرعی کے جائز ہے اور یہی لفظ اگر میلاد کے ساتھ لگا کر جشن میلاد کہا جائے تو بدعت بدعت کے فتوے کیوں جناب ؟

ہم نے  صد سالہ جشن دیوبند و جشن جمیعت علمائے اسلام  اور ایام صحابہ رضی اللہ عنہم منانے اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ناجائز و بدعت کہنے والوں سے کچھ سوال کیے تھے تقریباً جتنے جواب آئے اسی طرح کے تھے ، ہم دین سمجھ کر نہیں مناتے ، ہم ثواب سمجھ کر نہیں مناتے،تو سوال یہ ہے کہ کیا دین نا سمجھ کر اور ثواب کی نیت  نہ کر کے بدعتیں کرنا جائز ہے  ؟ معلوم ہوا ان کے سب کام دین سے باہر  ، گناہ ہیں اور جائز بھی ؟

مسلمانانِ اہل سنت و جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جشن ولادت بارہ (12) ربیع الاول کو منائیں تو شرک و بدعت کے فتوے لگنا شروع ہو جاتے ہیں آخر کیوں ؟

وہابی دیوبندی یہ بتائیں کہ : ⬇

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیرت کانفرنس کتنی بار منائی تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جشن بخاری کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دفاع پاکستان کانفرنس کتنی بار منائی تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جشن نزول قرآن کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جلوس مدح صحابہ کتنی بار نکالا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوم صحابہ کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےجشن دیوبند کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہلحدیث کانفرنس کتنے بار منائی تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یوم احسان الٰہی ظہیر کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوم نانوتوی کتنی بار منایا تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاد کانفرنس کتنی بار منائی تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوم شھداء کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کتنی مسجدوں کے مینار بنائے تھے ؟

یہ سعودی ڈے کہاں سے آیا ہے ؟

کیا یہ ضلالت اور بربادی کی طرف لے جانے والی بدعت نہیں ؟

عید میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شرک وبدعت قرار دینے والوں کےلیے سعودی ڈے کا اہتمام کس طرح ایمان اور اسلام بن جاتا ہے ؟

ان کے یہ بڑے بڑے مدارس کہاں سے آئے ہیں ؟

کیا ان مدارس کا نصاب اور قیام کل کا کل بدعت نہیں ؟

مکہ شریف اور مدینہء منورہ کی مساجد پر لگائے گئے یہ لاکھوں کروڑوں روپیوں کے مینار اورگنبد کہاں سے آئے ہیں ؟

کیا یہ کھلی ہوئی بدعت نہیں ؟

سعودی کرنسی پر یہ گمراہ وہابی نجدی حکمرانوں کی تصاویر کہاں سے آئی ہیں ؟

کیا یہ جہنم میں لے جانے والی نجدی بدعت وہابیوں کی پیداوار نہیں ؟

یہ سعودی عرب کانام کہاں سے آیا ہے ؟

کیا یہ مقدس ترین ملک ۔ نجدیوں وہابیوں کے باپ داداوں کی ملکیت تھی جو اسے ظالم وجابر سعود نامی بدنام زمانہ غاصب حکمراں کے نام منسوب کردیا گیا ؟

یہ وہابیوں کے اخبارات اور رسائل کہاں سے آئے ہیں ؟ ۔ کیا یہ بدعت نہیں ؟

یہ پرنٹ کیا ہوا کاغذ پر قرآن کہاں سے آیا ہے ؟

کیا اس طرح قرآن کو چھاپنے کی ہدایت اللہ و رسول (عزوجل و صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نےدی ہے ؟

یہ پریس سے چھپی حدیث کی کتابیں کہاں سے آئی ہیں ؟

کیا یہ حدیث کی کتابوں کا جدید انداز میں چھاپنا اور منظرعام پر لانا بدعت نہیں ؟

یہ سیرت کے جلسے اور اہلحدیث کانفرنسوں کی بدعات کا سلسلہ کہاں سے آیا ہے ؟

یہ اہل حدیث اور سلفی نام کا بدعتی فرقہ کہاں سے آیا ہے ؟

یہ شوشل میڈیا کے ذریعے وہابی فر قہ کے گمراہ کن عقائد و نظریات کی تبلیغ و اشاعت کی اجازت کہاں سے آئی ہے ؟

یہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو سعودی حکومت کے ذریعے دیے جانے والے سعودی ایوارڈ کی بد عت کہاں سے آئی ہے ؟

صد سالہ جشنِ دیوبند اور صد سالہ جشنِ جمیعت علمائے اسلام دیوبند کس دلیل سے جائز ہیں ؟

کیا یہ جشن منانا بدعت و گمراہی نہیں ہے ؟

تمام سوالات کے جوابات قرآن و حدیث اور عمل صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں ثابت کریں اگر یہ ثابت نہیں کر سکتے تو سب سے پہلے تم وہابی دیوبندی خود بدعتی ہو ۔ یہ دہرا میعار نہیں چلے گا ۔

مسلمانانِ اہلسنت و جماعت بارہ (12) ربیع الاول یومِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منائیں تو مشرک و بدعتی اور تم وہابی دیوبندی سعودیہ کا دن مناؤ اور کیک کاٹو تو پکے مسلمان آخر کیوں ؟

دین اور دنیا کو الگ کرنا اسلام دشمنوں کی سازش ہے ۔ مسلمان کی دنیا ہی اس کا دین ھے : آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ھے کہ ہم نے دین اور دنیا کو الگ الگ کردیا جسکی وجہ سے سب معاملہ خراب ہوگیا کیونکہ مسلمان کی دین میں دنیا ہے اور دنیا میں دین ہے ۔ آج ہم سے کوئی ہماری مصروفیت پوچھے تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کون سی دینی تو نماز روزہ بتاتے ہیں دنیاوی دکان ملازمت یا کاروبار بتاتے ہیں : ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا تھا کہ آپ عبادت کتنی دیر کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا چوبیس گھنٹے تو سائل پریشان ہوگیا اور سوال کیا کہ کیا کھاتے پیتے سوتے کماتے آتے جاتے نہیں ہو ؟ تو فرمایا کہ ہمارا کھانا پینا سونا بیت الخلاء جانا بھی اگر ہم اس طریقے پر کریں جس طرح ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں تو وہ بھی عبادت بن جاتا ہے ۔

دنیا میں چار قسم کے لوگ اور ان کا انجام : ⬇

(1) ایک وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ علم بھی رکھتا ھے یعنی دین اور دنیا کو ساتھ چلا رہا ہے اس کےلیے دنیا بھی اچھی اور آخرت میں بھی آرام سکون راحت ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تین چیزیں خوش بختی خوش نصیبی کی علامات ہیں (اللہ جسے چاہے دے) نمبر ایک کھلا گھر ، جسکا صحن کھلا ہو ، نمبر دو اچھی سواری یعنی سرکش نہ ہو ، نمبر تین فرمانبردار نیک بیوی ۔ (مشکوۃ المصابیح۔چشتی)

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس مقدمہ آیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لے کر آئے کہ :  مال والے ہم سے آخرت میں بھی آگے بڑھ گئے نماز روزہ باقی عبادات تو ہم بھی ان کے ساتھ ادا کرتے ہیں مگر ہم صدقہ خیرات نہیں کرسکتے وہ کرتے ہیں ہم غلام آزاد نہیں کر سکتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وضیفہ بتاتا ہوں کہ تم ان سے بھی بڑھ جاؤ گے فرض نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ تینتیس مرتبہ الحمد للہ چونتیس مرتبہ اللہُ اکبر جب مال دار صحابہ رضی اللہ عنہم کو علم ہوا تو وہ بھی پڑھنے لگے تو پہلے والے پھر حاضر ہوئے کہ جی وہ تو سب کرنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ۔ ترجمہ : اللہ کا فضل ھے جسے چاھے جتنا دے ، صحابہ کرام دین دنیا کو اکٹھا کرتے تھے ۔ (الترغیب والترہیب ، کنز العمال،چشتی)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے روایت بخاری شریف میں ہے : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دوسرے صاحب سے معاملہ کر رکھا تھا کہ ایک دن میں کماؤں گا اس دن آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنا مال کو اکٹھا کرکے اس پر اللہ کے احکامات کو لاگو نہ کرنا اصل مسئلہ ھے وبال جان ھے اسی لئے اللہ تعالی نے انبیاء کو بادشاہ بنا کر بھی بھیجا تاکہ لوگ یہ دیکھ لیں اور حجت تام ہوجائے مال داری میں اللہ کے احکامات پورے کرو تو کامیاب ہو جاؤ گے ورنہ ناکام ۔ ہجرت کر کے مدینے پہنچے انصاری صحابی نے کہا کہ گھر مال ودولت سب آدھا آدھا لے لیں دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں ایک سے آپ شادی کرلیں ۔ فرمایا کہ آپ کی اس پیشکش پر اللہ آپ کو اجر دے مجھے بس بازار کا راستہ بتا دیں پھر کچھ عرصہ گزرا کہ مالداروں میں سر فہرست انکا نام آتا تھا ۔

(2) دوسرا وہ کہ جو کہے کہ میرے پاس مال نہیں ھے اگر ہوتا تو میں بھی اللہ کے راہ خرچ کرتا اس کیلئے آخرت میں آسانیاں اور اسکا ملے اجر ۔ عبد اللہ ابن مبارک فوت ہوگئے ایک شخص کوخواب آیا پوچھا کیا بنا فرمایا کہ الحمد للہ اللہ کی رحمت رہی مجھ پر لیکن گلی کی نکر پر جو لوہار رہتا تھا اس کو جو ملا وہ مجھے بھی نہیں ملا یہ سن کر صاحب خواب کو تجسس ہوا کہ پتہ کیا جائے اگلے روز جا کر پتہ کِیا کہ کیا کرتا تھا ۔ بیوی نے سن کر حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا کہ صبح سے شام تک لوہا کوٹتا تھا لیکن دو کام کرتا تھا ۔ جب اذان ہوتی تو لوہے کو پھینک دیتا نماز پڑھنے چل دیتا ، اور جب رات کو تھک کر لیٹتا تو سامنے گھر میں بالا خانے میں عبداللہ ابن مبارک کو نماز پڑھتا دیکھتا تو کہتا کہ کاش میرے پاس بھی وقت ہوتا تھکاوٹ نہ ہوتی تو میں بھی ان کی طرح نماز پڑھتا ۔

(3) تیسرا جس کو اللہ نے دنیا دی لیکن اس کے پاس دین کا علم نہیں ھے اس کے لئے یہ وبال جان ھے ۔ اس کی ساری توانائیاں دنیا پر خرچ ہورہی ہوں اور وہ پیسے کو ناحق خرچ کررہا ھے غلط کاموں میں گناہوں میں نافرمانی کے کاموں پر ناچ گانوں پر تو یہ پیسہ بھی اس کیلئے وبال جان بن جائے گا ۔

(4) چار وہ جس کے پاس نہ پیسا ھے نہ علم ھے مگر اس کی چاہت یہ ھے کہ اگر میرے پاس پیسے ہوتے تو میں تیسرے شخص کی طرح اسے ضائع کرتا اللہ کے حق ادا نہ کرتا زکوٰۃ نہ دیتا غرباء کو نہ دیتا تو یہ خواہش ہی اس کےلیے وبال جان بن جائے گی ہمیں ہر صورت میں اپنے ارادے نیک اور نیکی کیلئے تیار ہونا چاہئے کیونکہ مسلمان کی دین دنیا ایک ہی ہے دونوں میں مقصود اللہ کی رضا ہے ہر حال میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی نمونہ ہے ۔

دین اور دنیا کی تقسیم نے مسلمانوں کو دنیاوی لحاظ سے تو بہت پیچھے چھوڑ ہی دیا ، اس کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی مسلم امہ کے کردار اور اعمال کا بیڑا غرق کر دیا. اسلام نے مذہب اور دنیا کو الگ نہیں کیا. اسلام نے تو ہمیں بتایا تھا کہ اگر دنیا میں امامت کرنی ہے ، اور آخرت میں کامیاب ہونا ہے تو دینی اور دنیاوی دونوں علوم و فنون کو ساتھ ساتھ لیکر چلنا ہوگا. دینی علوم سے راہنمائی حاصل کرو اور دنیاوی اسباب کو پوری طرح استعمال کرو، دنیا تمہارے زیر نگیں ہوگی. اسلام کا نقطہ نظر اس معاملے میں دنیا کے تمام مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں سے مختلف ہے. یہاں معاشرت، تمدن ، عدالت ، سیاست ، معیشت ، تعلیم غرض دنیوی زندگی کے سارے شعبوں کے ساتھ ساتھ روحانیت کا نور بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں روحانی ترقی کےلیے جنگلوں ، پہاڑوں اور عزلت کے گوشوں کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ یہاں روحانی قدروں کو معاشرے میں رہ کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں تو رشتہ ازدواج سے منسلک ہو کر بھی روحانی بلندیاں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ ہمارے اذہان میں عام تاثر یہی ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں نوافل پڑھتا ہے ، قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے یا پھر ذکر و اذکار میں مشغول رہتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ نیک کام کر رہا ہے، اپنی آخرت سنوارنے کی فکر میں لگا ہوا ہے ، اور ایسا آدمی نیک اور دیندار شمار ہوتا ہے ، اور اگر کوئی شخص اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کےلیے کوئی ایسا پیشہ اختیار کرتا ہے جس میں شرعا کوئی قباحت نہ بھی ہو ، تب بھی اس کے بارے میں یہ تصور ہوتا ہے کہ یہ تو دنیا کما رہا ہے. دین اور دنیا کی یہ تقسیم اصولی طور پر درست نہیں ہے ، اس لیے کہ بندہ مؤمن کا ہر وہ عمل جو شریعت کے مخالف نہ ہو وہ دین ہی ہے ۔ دین و دنیا کی سیکولر تقسیم کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمان اسلام کو نکاح و طلاق ، وضو و غسل عبادات واخلاق تک محدود سمجھنے لگے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل نظریہ حیات ہے جو عبادات و تسبیحات ، معاشرت و معیشت، سیاست و عدالت ، تعلیم و ثقافت ، اخلاق و اقدار ، اجتماعیت و انفرادیت غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی دیتا ہے ۔ اسلامی نظریہ کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ دین و دنیا کی تقسیم کو ختم کر کے ان میں وحدت پیدا کرتا ہے، یہاں نہ ترک دنیا اور رہبانیت کی اجازت ہے ، نہ دنیا پرستی اور پرستش زر کی ۔ اسلام دین و دنیا کی تقسیم کو غیر الٰہی نظریہ قرار دیتا ہے ۔ تجارت ہی کو لے لیں جو عام سوچ کے مطابق بظاہر دنیاوی کام ہے لیکن جب شرعی اصولوں پر ہو تو حدیث پاک میں بشارت آئی ہے کہ سچا اور امانت دار تاجر آخرت میں انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا. جب اتنی بڑی بشارت ہے تو نیکی ہے، جب نیکی ہے تو عبادت ہے، جب عبادت ہے تو معرفت، پھر محبت کا ذریعہ بھی ، امانت اور صداقت کی بنا پر اس کو دنیاوی مفادات اور ظاہری فوائد کو قربان کرنا پڑے گا اور قربانی اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے اور یہ صرف تجارت پر موقوف نہیں ہے بلکہ اسلام کی جو نعمت ہمیں نصیب ہوئی ہے ، یہ تو جینے کا ایسا مبارک اور دو آتشہ نظام ہے کہ اس نہج پر زندگی کو ڈالو تو پانچوں انگلیاں گھی میں ، دنیا کے کام بھی ہوتے رہیں گے اور نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ بھی ہوتا رہے گا ۔ اپنی ضروریات پوری کرتے جاؤ ، قرب الہی کے زینے چڑھتے جاؤ ، حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ بیوی کے منہ میں لقمہ رکھنا صدقہ ، بیوی کا بوس و کنار صدقہ ، الغرض اسلام کا معاشی نظام عبادت ، عدالتی نظام عبادت ، تعلیمی نظام عبادت ، اور سیاسی نظام بھی عبادت، دین ہی دین ، دنیا تو صرف وہ ہے جو شرعی نہج پر نہ ہو ۔ البتہ فرق مراتب کا لحاظ ضروری ہے ، آج اگر تجارت کو عبادت اور قرب کا ذریعہ بنایا جاتا تو حرام خوری ، سود خوری اور دھوکہ دہی کی وہ کیفیت نہ ہوتی جو اب ہے ، نوکری ، سیاست اور عدالت کو عبادت کا عنوان ملتا تو شاید کرپشن رستا ہوا ناسور نہ بن پاتا ، ہم نے فرق کیا تو دین اور دنیا کی تفریق نے یہ گل کھلائے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا عشق ، محبت اور ادب عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔