عید میلاد کیوں کہتے ہو کا جواب حصہ اول
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اصل میں معترضین حضرات ’’عید‘‘ کی تعریف سے ہی واقف ہی نہیں ہیں اگر کچھ علم پڑھ لیاہوتا تو ایسی بات نہ کرتے ۔
عید کی تعریف اور جشن میلاد کو عید کہنے کی وجہ
ابوالقاسم امام راغب اصفہانی رحمتہ ﷲ تعالیٰ علیہ (المتوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے ، شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم النحر کےلیے خاص نہیں ہے۔ عید کا دن خوشی کےلیے مقرر کیا گیا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کےلیے ہیں‘‘ اس لیے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو، اس دن کےلیے عید کا لفظ مستعمل ہوگیا ہے جیسا کہ ﷲ عزوجل کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے متعلق ارشاد ہے کہ ’’ہم پر آسمان سے خوان (کھانا) اتار کہ وہ ہمارے (اگلوں پچھلوں کےلیے) عید ہو‘‘ اور عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور ’’العائدۃ‘‘ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو‘‘ ۔
علامہ راغب اصفہانی رحمتہ ﷲ علیہ کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں ۔
1: جس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو
2: جس میں ﷲ عزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو۔
3: جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو۔
الحمدﷲ عزوجل علی احسانہ! بارہ ربیع الاول کے موقع پر یہ تینوں صورتیں ہی جمع ہوتی ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ ایک مسلمان کے لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ولادت پاک کے دن سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے؟ اس خوشی کے سبب بھی بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرار دیا جاتا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کے صدقے ہمیں خدا کی پہچان ملی، ایمان کی لازوال دولت ملی، قرآن جیسا بابرکت تحفہ ملا جن کے صدقے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا اور جن کی ذات اقدس ہمارے لئے سراپا رحمت ہے ان سے بڑھ کر کون سی رحمت اور کون سی نعمت ہے؟ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حواری خوان نعمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کے لئے یوم عید ہوسکتا ہے تو ہم بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روز ولادت کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیں اور عید منائیں ۔
کہتے ہیں کہ ’’کسی معتبر کتاب میں یوم میلاد کو عید نہیں لکھا گیا‘‘ فی الوقت میرے پاس موجود کتاب کے اعتبار کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے اور تمام علمائے دیوبند نے اس کتاب کو اپنی تحریروں کی وقعت ظاہر کرنے کے لئے حوالہ دے کر جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے اور نشرالطیب تو اس کتاب کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے اور معترضین کی مزید تسلی کے لئے عرض ہے کہ اس کتاب کے عربی متن کے اردو ترجمہ پر تعریفی تقاریظ علمائے دیوبند نے لکھی ہیں۔ اس کتاب کا نام ’’مواہب اللدنیہ‘‘ ہے ترجمہ کو ’’سیرۃ محمدیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
امام احمد بن محمد بن ابی بکر الخطیب قسطلانی رحمتہ ﷲ علیہ کی یہ کتاب پانچ سو برس پرانی ہے ۔ اس کی شرح ’’زرقانی‘‘ آٹھ ضخیم جلدوں میں علامہ ابو عبدﷲ محمد زرقانی نے لکھی جو اہل علم میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ 1338 ہجری میں جن علمائے دیوبند نے اس کتاب پر تعریفی تقاریظ لکھیں ان کے نام بھی ملاحظہ فرمالیں۔
٭ جناب محمد احمد مہتمم دارالعلوم دیوبند و مفتی عالیہ عدالت ممالک سرکار آصفیہ نظامیہ ٭ جناب محمد حبیب الرحمن مددگار مہتمم دارالعلوم دیوبند ٭ جناب اعزاز علی مدرس ، مدرسہ دیوبند ٭ جناب سراج احمد رشیدی مدرس، مدرسہ دیوبند ٭ جناب محمد انور معلم ، دارالعلوم دیوبند ۔ اس کتاب کے صفحہ 75 پر امام قسطلانی رحمتہ ﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’ﷲ تعالیٰ اس مرد پر رحم کرے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کے مبارک مہینہ کی راتوں کو ’’عیدین‘‘ اختیار کیا ہے تاکہ اس کا یہ (عید) اختیار کرنا ان لوگوں پر سخت تر بیماری ہو جن کے دلوں میں سخت مرض ہے اور عاجز کرنے والی لادوا بیماری ، آپ کے مولد شریف کے سبب ہے۔
نویں صدی کے محدث حضرت امام قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جو میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رات بہ طور عید مناتا ہے اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی کی بیماری ہے، وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوجاتا ہےاصل عبارت: وقد روعی ابولہب بعد موتہ فی النوم، فقیل لہ: ما حالک؟ قال: فی النار، الا انہ خفف کل لیلۃ اثنتین وامص من بین اصبعی ہاتین مائ، واشار الی راس اصبعیہ، وان ذلک باعتافی لثویبۃ عندما بشرتنی۔ بولادۃ النبی صلی ﷲ علیہ وسلم وبارضا عہالہ قال ابن الجوزی: فاذا کان ابولہب الکافر الذی نزل القرآن بذمہ جوزی فی النار بفرحۃ لیلۃ مولد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، فما حال المسلم من امتہ بسر بمولدہ، ویبذل ماتصل الیہ قدرتہ فی محبتہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ؟ لعمری! انما کان جزاؤہ من ﷲ الکریم ان یدخلہ بفضلہ جنات النعیم ولایزال اہل الاسلام یحتفلون بشہر مولدہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ویعملون الولایم ویتصدقون فی لیلالیہ بانواع الصدقات ویظہرون السرور ویزیدون فی المبرات ویعتنون بقراء ۃ مولدہ الکریم ویظہر علیہم من مکانہ کل فضل عمیم ومماجرب من خواصہ انہ امان فی ذلک العام وبشری عاجل بنیل البغیۃ والمرام، فرحم ﷲ امرا اتخذلیالی شہر مولدہ المبارک اعیاد الیکون اشد غلبۃ علی من فی قلبہ مرض و عناد ۔
امام قسطلانی فرماتے ہیں (م 943ھ) ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا ۔ اب تیرا کیا حال ہے ؟ کہنے لگا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کردی جاتی ہے اور انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لئے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ولادت کی خبر دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔ امام ابن جزری کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اجر میں ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جاتی ہے۔ جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے ۔ تو اُمّت محمدیہ کے اس مسلمان کو ملنے والے اجر وثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسب استطاعت خرچ کرتا ہے ؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک ﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا۔ اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، دعوتیں کرتے ہیں، اس کی راتوں میں صدقات و خیرات اور خوشی کے اظہار کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کریں۔ اس موقع پر وہ ولادت باسعادت کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔ میلاد شریف منانے کے خصوصی تجربات میں محفل میلاد منعقد کرنے والے سال بھر امن و عافیت میں رہتے ہیں اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں جلد کامیابی کی بشارت کا سبب بنتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جو میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شب بطور عید مناتا ہے اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی ہے وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتا ہے ۔ (المواہب اللدنیہ، جلد اول ، صفحہ نمبر 78، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت،چشتی)
جب سورۃ المائدہ کی تیسری آیت (الیوم اکملت لکم دینکم) نازل ہوئی تو یہودی اسے عام طور پر زیر بحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے۔ درج ذیل حدیث میں اسی حوالہ سے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور ایک یہودی کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے اور اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دن بہ طور عید منانے پر اتشہاد کیا گیا ہے ۔
امام بخاری (256-194ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں : عن عمر بن الخطاب رضی ﷲ عنہ ان رجلا من الیہود قال لہ: یاامیر المومنین! آیۃ فی کتابکم تقرؤونہا، لو علینا معشر الیہود نزلت، لاتخذنا ذلک الیوم عیداً، قال: ای آیۃ؟ قال(الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا) قال عمر: قد عرفنا ذلک الیوم، والمکان الذی نزلت فیہ علی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، وہو قائم بعرفۃ یوم جمعۃ ۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان و نقصانہ، جلد1، حدیث 45، ص 25)
’’حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے: ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہ یہود پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنالیتے۔ آپ نے پوچھا کون سی آیت؟ اس نے کہا (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کرلیا حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا: جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی، ہم اس کو پہچانتے ہيں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے‘‘ ۔
اس حدیث میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہودی نے سوال کیا کہ اگر تکمیل دین کی یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ انہیں مغالطہ تھا کہ شاید مسلمان اسے عام دن کے طور پر ہی لیتے ہیں ۔ یہاں جواب بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہئے تھا، مگر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ فرمانے لگے ۔ قد عرفنا ذلک الیوم، والمکان الذی نزلت فیہ ۔ ’’ہم اس دن اور مقام کو خوب پہچانتے ہیں جہاں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی‘‘ ۔ وہ دن جمعہ اور حج کا تھا اور وہ جگہ جہاں آیت کا نزول ہوا، عرفات کا میدان تھا ۔
ظاہراً سوال اور جواب کے مابین کوئی ربط اور مطابقت دکھائی نہیں دیتی لیکن درحقیقت حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا جواب سوال کے عین مطابق ہے۔ آپ رضی ﷲ عنہ نے عرفہ اور یوم الجمعہ کے الفاظ سے ہی اس کا مکمل جواب دے دیا اور اشارۃً بتادیا کہ یوم حج اور یوم جمعہ دونوں ہمارے ہاں عید کے دن ہیں۔ ہم انہیں سالانہ اور ہفتہ وار عید کے طور پر مناتے ہیں۔ پس یہودی کا اس جواب سے خاموش رہنا اور دوبارہ سوال نہ کرنا بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی وضاحت کے بعد لاجواب ہوکر رہ گیا تھا ۔
حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے جواب کو مکمل وضاحت قرار دیتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی (852-773ھ) تبصرہ کرتے ہیں ۔
عندی ان ہذہ الروایۃ اکتفی فیہا بالاشارۃ ۔ (فتح الباری، جلد اول، حدیث 45، ص 105)
’’میرے نزدیک اس روایت میں اشارہ کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے‘‘ ۔
حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے جواب کی تصریح حضرت کعب احبار رضی ﷲ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ سے کہا کہ میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا : کون سی آیت ؟ میں نے کہا ۔ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۔ (سورۃ المائدہ پارہ 5، آیت 3)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کرلیا‘‘ ۔
اس پر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا :
انی لاعرف فی ای یوم انزلت : (الیوم اکملت لکم دینکم) یوم جمعۃ ویوم عرفۃ، وہما لنا عیدان ۔(المعجم الاوسط، جلد اول، حدیث 830، صفحہ 253،چشتی)
’’میں پہچانتا ہوں کہ کس دن الیوم اکملت لکم دینکم نازل ہوئی، جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں‘‘ ۔
مذکورہ بالا روایات ثابت کرتی ہیں کہ یہودی کا نظریہ درست تھا ۔ اسی لیے اس کی توثیق کی گئی ورنہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ اس وقت اس کی تردید کردیتے اور فرماتے کہ شریعت نے ہمارے لیے عید کے دن مقرر کررکھے ہیں، لہذا ہم اس دن کو بہ طور عید نہیں مناسکتے۔ بہ الفاظ دیگر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے یہودی کو باور کرایا کہ اگر یہ دن تمہارے نصیب میں ہوتا تو تم اس دن ایک عید مناتے مگر ہم تو یوم عرفہ اور یوم جمعہ دو عیدیں مناتے ہیں ۔
اس معنی کی تائید کتب حدیث میں مذکور حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت عمار بن ابی عمار رضی ﷲ عنہ نے روایت کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے آیت : الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۔ تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے کہا : لو انزلت ہذہ علینا لاتخذنا یومہا عیداً ۔ ’’اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے‘‘ ۔ حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا : فانہا نزلت فی یوم عیدین: فی یوم الجمعۃ ویوم عرفۃ ۔ (ترمذی شریف، کتاب تفسیر القرآن، باب من سورۃ المائدہ، حدیث 3044، جلد 5، ص 250،چشتی)
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی‘‘ ۔
حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے یہودی کا قول رد نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن ہوا جنہیں مسلمان پہلے ہی عیدوں کے طور پر مناتے ہیں ۔
ان احادیث سے اس امرکی تائید ہوتی ہے کہ نزول نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے ۔ جس طرح تکمیل دین کی آیت کا یوم نزول روز عید ٹھہرا، اِسی طرح وہ دن جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی، اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جا سکتا ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ عید میلاد منانا اصل حلاوت ایمان ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ حُبّ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آ سکتی ۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں، ان کا جشن میلاد منانے کے لئے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیت ایمان کی نشاندہی کرتا ہے ؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عیدالجمعہ اور عید الحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا۔ لہذا اہل ایمان کے لئے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی، وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے۔ جمہور اہل اسلام محافل میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمت ابدی کے حصول پر ہدیہ شکر بجالاتے ہیں۔ اس دن اظہار مسرت وانبساط عین ایمان ہے ۔ جمہور امت مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور رسول محتشم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یوم ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے ۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ عید الفطر اور عیدالاضحی کے سوا کسی دن کےلیے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم یہی سوال حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عیدالفطر اور عیدالاضحی کے سوا کسی دن کےلیے عید کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے : فانہما نزلت فی یوم عیدین: فی یوم الجمعۃ ویوم عرفۃ ۔ ’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی‘‘ ۔
اس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ یوم عرفہ تو عیدالاضحی کا دن ہے ۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہ نے یوم جمعہ کو بھی یوم عید قرار دیا ہے۔ اور اگر ان اجل صحابہ کے قول کے مطابق جمعہ کا دن عید ہوسکتا ہے تو پھر میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دن عید کیوں نہیں ہوسکتا ؟ بلکہ وہ تو عید الاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ ان صاحب لولاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسل انسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل صحیفہ آسمانی اور ہدایت ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment