Sunday, 24 October 2021

قرآن و حدیث اور منافقین کی پہچان

 قرآن و حدیث اور منافقین کی پہچان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : قرآن کریم کی معروف اصطلا حات میں سے ایک اصطلاح منافق بھی ہے۔ اسلامی سو سائٹی میں جو عناصر بظاہر مسلمان نظر آتے ہیں لیکن باطن میں وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں ، ایسے افراد کو منافق کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے یعنی یہ’’ دوست نما دشمن‘‘ کا کردار کرتے ہیں ۔

سورۃ العنکبوت کے شروع ہی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ترجمہ : اور اللہ کو تو ضرور دیکھنا ہے کہ ایمان لانے والے کون ہیں اور منافق کون ۔ (سورہ العنکبوت: ۱۱)

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک حدیث میں منافق کی پہچان کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے : چار باتیں جس میں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں منافق کی ایک نشا نی رہے گی ۔ یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جب امانتدار بنا یا جائے تو خیانت کرے ، جب بولے تو جھوٹ بولے ، جب معاہدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ، جب جھگڑا کرے تو گالی دے ۔ (صحیح البخاری باب علامۃ المنافق)


بد قسمتی سے ہمارے نام نہاد مسلم معاشرہ میں یہ رزائل بہت تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ اس منا فقانہ طرز عمل کو چالاکی اور ہوشیاری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اپنا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے ۔


امانت میں خیانت


اس حدیث مبارک میں منافق کی پہلی خصلت امانت میں خیانت بتا ئی گئی ہے ۔ امانت کی پاسداری دراصل مومن کی پہچان ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مومن کے اندر ہر عادت ہو سکتی ہے جھوٹ اور خیانت کے سوا ۔ (رواہ احمد عن ابی امامہ ورواہ البزار)


امانت میں خیانت کی درج ذیل شکلیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ، اس فہرست میں مزید اضافہ ممکن ہے : ⬇


۱۔ امانت میں خیانت یعنی کم مال واپس کرنا، اچھے مال سے خراب مال بدل لینا۔

۲ ۔ اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی بھی امانت میں خیانت ہے۔

۳۔ ناپ تول میں کمی کرنا بھی امانت میں خیانت ہے۔

۴۔ راز بھی امانت ہے، اس کی حفاظت نہ کرنا خیانت ہے۔

۵۔ وقت کا ضیاع، کام چوری اور غیر متعلق امور سے دلچسپی بھی خیانت ہے۔

۶۔ رشوت لے کر کام کرنا اور ناحق فائدہ پہنچانا بھی خیانت ہے۔

کذب بیانی

منافق کی دوسری خصلت کذب بیانی کہی گئی ہے، اس کی درج ذیل مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں:

۱۔ اللہ کے معاملے میں جھوٹ بولنا یعنی حلال کو حرام اور حرام کو حلال بتا نا۔

۔ اللہ کے رسول کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا،

۳۔ جھوٹی خبریں، اور جھوٹے واقعات بیان کرنا، سنسنی خیز صحافت بھی اسی زمرے میں شامل ہے۔

۴۔ جھوٹی قسمیں، جھوٹے وعدے، جھوٹے مقدمات قائم کرنا۔ جھوٹی گواہی دینے والے کے تعلق سے ارشاد خدا وندی ہے:’’ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو حقیر قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصّہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا‘‘۔( آل عمران: ۷۷)

اس معاملے کی سختی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نا فرمانی کرنا، سنو! جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔ آپ بار بار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ راوی نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپ خاموش ہو جاتے۔‘‘ (بخاری، مسلم، ترمذی)

جھوٹی قسم کھاکر تجارت کو فروغ دینا، غلط طریقے سے سامان بیچنا ،اور خریدار کو فریب دینا بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے، اس ضمن میں نبیؐ کا ارشاد ہے:’’ تین ایسے آدمی ہیں جن کی طرف روز قیامت اللہ تعالی نہ دیکھے گا، نہ ان کا تزکیہ کرے گا، اس روز ان کو درد ناک عذاب ہوگا(۱) تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا (متکبر)، (۲) احسان جتانے والا، (۳) جھوٹی قسم کھاکر اپنی تجارت کو فروغ دینے والا۔

۵۔ ایک اور انتہائی درجہ بد اخلاقی کی جیتی جاگتی تصویر جس میں نوجوان طبقہ خاص طور سے ملوث ہے، بھولی بھالی پاک دامن عورتوں پر بد چلنی کا الزام لگانا، حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے: ’’بے شک جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہوگی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔ (النور: ۳۳)

اسلامی معاشرہ کی اصل روح تو یہ ہے کہ دوسروں کے واقعی عیبوں پر بھی پردہ ڈالا جائے اور کسی بھی مومن یا مومنہ کی سرِ بازار پگڑی نہ اچھالی جائے۔ ورنہ نفرت، بغض وکینہ وغیرہ سے معاشرہ کا پاک رہ جانا بڑا ہی مشکل ہو گا ۔ اگر اتفاقاً کسی کی کوئی غلط حرکت سامنے آبھی جائے تو خلوت میں حکمت کے ساتھ اسے سمجھانا ہی افضل ہے ۔


بد عہدی یا معا ہدہ شکنی


منافق کی تیسری خصلت بد عہدی یا معا ہدہ شکنی ہے ۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور عہد کو پورا کر و کیونکہ عہد کی پرسش ہونی ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل)

’’ اس عہد میں ہر قسم کا عہد شامل ہے خواہ وہ کسی معا ہدے کی صورت میں وجود میں آئے، لیکن عادتاً اور عرفاََاُن کو عہد ہی سمجھا اور مانا جاتا ہو، جس نوعیت کا بھی عہد ہو، اگر وہ خلاف شریعت نہیں ہے تو اس کو پورا کرنا ضروری ہے‘‘۔ عہد کی دو قسمیں ہیں:

الف) اللہ اور بندے کے درمیان یعنی ہر شخص کا اللہ سے یہ عہد کہ وہ سچا پکا مومن ہوگا اور جملہ معاملات میں شریعت الہی کی اتباع کرے گا۔ یہی بات سورۃ المائدۃ کی پہلی آیت میں بھی کہی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘۔( سورۃ المائدۃ، آیت:۱)

’’ یعنی ان حدود اور قیود کی پابندی کرو جو اس سورہ میں تم پر عائد کی جارہی ہیں اور جو بالعموم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں ‘‘

عہد کی دوسری قسم وہ ہے جو بندوں کے درمیان ہے، اس کی مثال ہے کام چوری کرنا، دھوکہ دینا، وعدہ پورا نہ کرنا، وغیرہ

بد زبانی و بد کلامی

منا فق کی چوتھی خصلت بد زبانی اور بد کلامی ہے، یعنی وہ مخاصمت کے وقت آپے سے باہر ہو جاتا ہے، نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگ جہنم میں اپنی بد زبانی کے سبب جائیں گے‘‘(ترمذی) جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہاں اہل ایمان کوئی لا یعنی اور لغو یات نہیں سنیں گے، جیسا سورۃ الواقعۃ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی‘‘۔ (سورۃ الواقعۃ: ۲۵۔۲۶)

سطور بالاکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیر شعوری طور سے ہی سہی منافقت کے مہلک مرض میں مبتلا تو نہیں ہو رہے ہیں ؟


عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کےلیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں


محترم قارئینِ کرام : بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم مسٹر عمران خان نیازی آئے دن کوئی نہ کوئی اول فول بکتے رہتا ہے حال ہی میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف لفظ ذلیل کی نسبت کر کے اس شخص نے پھر اپنی ذلت و رسوائی کو دعوت دی ہے اور غلامانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر  مظالم کی انتہا کردی ہے اس شخص نٕ ۔ یاد رہے جس نے بھی ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کیا ذلتیں اُس کا مقدر بنیں یہی الفاظ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے نواز شریف صاحب کےلیے لکھے تھے آج اُس کا حال دیکھ لیں اب فقیر کہتا ہے عمران خان نیازی کا انجام اُس سے بھی بُرا ہوگا ان شاء اللہ ۔


محترم قارئینِ کرام اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّؕ-وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠ ۔ (سورہ منافقون آیت نمبر 8)

ترجمہ : کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اُسے جو نہایت ذلت والا ہے اور عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں ۔


یَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں ۔ یعنی منافق کہتے ہیں : اگر ہم اس غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا ۔ منافقوں نے اپنے آپ کو عزت والا کہا اور مسلمانوں کو ذلت والا ، اللّٰہ تعالیٰ ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ، اگر وہ یہ بات جانتے تو ایسا کبھی نہ کہتے ۔منقول ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے چند ہی روز بعد عبد اللّٰہ بن اُبی منافق اپنے نفاق کی حالت پر مر گیا ۔ (تفسیر خازن المنافقون : ۸، ۴/۲۷۴)


عبد اللّٰہ بن اُبی منافق کے بیٹے کا عشق رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)


عبد اللّٰہ بن اُبی کے بیٹے کا نام بھی عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ تھا اور یہ بڑے پکے مسلمان اور سچے عاشقِ رسول تھے ، جنگ سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور باپ سے کہنے لگے اس وقت تک مدینہ میں داخل ہونے نہیں دوں گا جب تک تو اس کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے اور محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ۔ اس کو بڑا تعجب ہوا کیونکہ یہ ہمیشہ سے باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنے والے تھے مگر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں باپ کی کوئی عزت و محبت دل میں نہ رہی ۔ آخر اس نے مجبور ہوکر اقرار کیا کہ واللّٰہ میں ذلیل ہوں اور محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ، اس کے بعد مدینہ میں داخل ہوسکا۔( سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،غزوۃ بنی المصطلق ،۲/۳۹۳،چشتی)(مدارج النبوۃ، قسم سوم، باب پنجم، ۲/۱۵۷)


اس آیت سے معلوم ہوا


(1) ہر مومن عزت والا ہے کسی مسلم قوم کو ذلیل جاننا یا اسے کمین کہنا حرام ہے۔


(2) مومن کی عزت ایمان اور نیک اعمال سے ہے ، روپیہ پیسہ سے نہیں ۔


(3) مومن کی عزت دائمی ہے فانی نہیں اسی لئے مومن کی لاش اور قبر کی بھی عزت کی جاتی ہے ۔


(4) جو مومن کو ذلیل سمجھے وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ذلیل ہے ، غریب مسکین مومن عزت والا ہے جبکہ مالدار کافر بد تر ہے ۔


اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ (سورہ حضرات آیت نمبر 13)

ترجمہ : اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔


اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ : بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔


آیت کے اس حصے میں وہ چیز بیان فرمائی جارہی ہے جو انسان کے لئے شرافت و فضیلت کا سبب ہے اور جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں جاننے والا اور تمہارے باطن سے خبردار ہے ۔


شانِ نزول : نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ، وہاں ملاحظہ فرمایا کہ ایک حبشی غلام یہ کہہ رہا تھا : جو مجھے خریدے اس سے میری یہ شرط ہے کہ مجھے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِقتداء میں پانچوں نمازیں ادا کرنے سے منع نہ کرے ۔ اس غلام کو ایک شخص نے خرید لیا ، پھر وہ غلام بیمار ہوگیا تو نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی عیادت کے لئے تشریف لائے ، پھر اس کی وفات ہوگئی اور رنبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی تدفین میں تشریف لائے ، اس کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا تو اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۱۵۶، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۴۲۸،چشتی)


عزت اور فضیلت کا مدار پرہیزگاری ہے


اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و فضیلت کا مدار نسب نہیں بلکہ پرہیزگاری ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نسب پر فخر کرنے سے بچے اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اسے عزت و فضیلت نصیب ہو ۔


حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : فتحِ مکہ کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلِیَّت کا غرور اور ایک دوسرے پر خاندانی فخر دور کر دیا ہے اور اب صرف دو قسم کے لوگ ہیں (1) نیک اور متقی شخص جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معزز ہے ۔ (2) گناہگار اور بد بخت آدمی ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ذلیل و خوار ہے ۔ تمام لوگ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘ ۔

ترجمہ : اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو ، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجرات، ۵/۱۷۹، الحدیث: ۳۲۸۱)


حضرت عداء بن خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں حجۃ الوداع کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کے منبر ِاقدس کے نیچے بیٹھا ہوا تھا ، آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی ، پھر فرمایا ’’ بے شک اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى ۔

ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ‘‘ ۔

ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔

تو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے ،کسی کا لے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل ہے بلکہ فضیلت صرف تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے (تو جو مُتَّقی اور پرہیز گار ہے وہ افضل ہے) ۔ (معجم الکبیر، عداء بن خالد بن ہوذہ العامری، ۱۸/۱۲، الحدیث: ۱۶،چشتی)


حضر ت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جب قیامت کا دن ہوگا تو بندوں کواللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اس حال میں کہ وہ غیرمختون ہوں گے اوران کی رنگت سیاہ ہوگی ، تواللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : ’’اے میرے بندو ! میں نے تمہیں حکم دیا اور تم نے میرے حکم کو ضائع کردیا اورتم نے اپنے نسبوں کو بلند کیا اور انہی کے سبب ایک دوسرے پر فخر کرتے رہے ، آج کے دن میں تمہارے نسبوں کو حقیر و ذلیل قراردے رہاہوں ، میں ہی غالب حکمران ہوں ، کہاں ہیں مُتَّقی لوگ ؟ کہاں ہیں متقی لوگ ؟ بیشک اللہ تعالیٰ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔ (تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ علیّ، حرف الالف من آباء العلیین، ۶۱۷۲-علیّ بن ابراہیم العمری القزوینی، ۱۱/۳۳۷)


مسلمانوں کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو :


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ ، وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے ، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت ﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم: 3932،چشتی)(طبراني، مسند الشاميين، 2: 396، رقم: 1568)(منذري، الترغيب والترهيب، 3: 201، رقم: 3679)


حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یصف اھل النار فیمُرُبِھِم ُ الرجل من اھل الجنۃ فیقول الرجل منھم یا فلان! اما تعرفنی اناالذی سقیتک شربَۃً و قال بعضھم اناالّذی وھبتُ لک وضوءً فیشفعہ لہ فید خلہ الجنۃ ۔ (ابن ماجہ:3685،مشکوٰۃ،494)

ترجمہ : گنہگار دوزخیوں کو دوزخ میں بھیجنے کیلئے علیحدہ کر دیا جائے گا وہ صفِ بستہ کھڑے ہوں گے کہ ایک جنتی بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کے قریب سے گزرے گاتو دوزخی اپنے اس نیک صالح انسان کو پہچان لیں گے کوئی کہے گا آپ مجھے نہیں پہچانتے فلاں موقع پر میں نے آپ کو پانی پلایا تھا کوئی کہے گا میں نے آپ کو وضو کیلئے پانی لا کر دیا تھا اتنے سے تعارف اور معمولی سی خدمت پر ہی وہ نیک انسان ان کی شفاعت کرے گا جو قبول کی جائے گی اور وہ انہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائے گا ۔


دینی نشر و اشاعت کے مشن کو آگے بڑھانے میں ہمارا ساتھ دیجیئے


دین کا درد رکھنے والے مسلمان بھائیوں ، بیٹوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں کے اس دور میں فتنوں کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے اور دینی تعلیم عام کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔ دین کی نشر و اشاعت کےلیے دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی اشد ضرورت ہے : آئیے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور مستحق بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحب حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی ولد ملک غلام سرور اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...