وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو دیابنہ اور وہابیہ کے اعتراض کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : دیابنہ اور وہابیہ ہر نیا کام خود کرتے ہیں مگر انہیں بغض و عداوت صرف میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے اسی لیے نت جاہلانہ اعتراضات کرکے اپنے بغض کا اظہار کرتے رہتے ہیں انہیں میں سے ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو حقیقت یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ وصال نہیں ہے ۔ اگر بالفرض اس بات کو تسلیم کربھی لیا جائے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال شریف ہوا تھا تو وفات کا غم وفات سے تین دن کے بعد منانا قطعا جائز نہیں ۔ اسلام میں سوگ صرف تین دن ہے اگر تین دن سے زیادہ سوگ کا کہیں حکم ہے تو کوئی دیوبندی وہابی ثبوت دے اب حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں ۔
حضرت اُمِّ حبیبہ اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں : ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم کسی وفات یافتہ پر تین روز کے بعد غم نہ منائیں مگر شوہر پرچار ماہ دس دن تک بیوی غم منائے گی ۔ (صحیح بخاری مترجم جلد اوّل صفحہ663)۔(مسلم جلد اول صفحہ نمبر 486،چشتی)۔(صحیح بخاری کتاب الجنایزحدیث نمبر 1280 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ثابت ہوا کہ تین دن کے بعد وفات کا سوگ منانا ناجائز ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کا غم منانے کا حکم ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر جمعہ (یوم ولادت حضرت آدم علیہ السلام) منانے کے بجائے یوم سوگ منانے کا حکم دیتے چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو ۔
حضرت اوس بن اوس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے اس میں حضرت آدم علیہ السلا کو پیدا کیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا ۔ (ابو داؤد شریف، ابن ماجہ، نسائی شریف،چشتی)
قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کرام علیہم السّلام ، شہداء اور صالحین علیہم الرّحمہ اپنی قبور میں جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں تو پھر سوگ اور غم کیسا ؟ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو :
حضرت عبدﷲ ابن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : حیاتی خیرلکم و مماتی خیر لکم ۔
ترجمہ : میری ظاہری حیات اور وصال دونوں تمہارے لئے باعث خیر ہے ۔ (کتاب الشفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ)
الزام لگانے والو ذرا سوچو اور یاد کرو بخاری شریف کی پہلی حدیث ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ لہٰذا ہم جشن ولادت کی خوشی کی نیت سے میلاد مناتے ہیں نہ کہ وصال کی خوشی پر جشن مناتے ہیں ۔
دیابنہ اور وہابیہ ، سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہہ کر ان کے ایمان افروز جذبات کو مجروح کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں کہ ۱۲ ربیع الا ول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات شریف کا دن ہے۔ اس لیے اس روز خوشی منانے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو غم افسوس اور سوگ کا دن ہے ۔چنانچہ قاضی محمد سلیمان اپنی کتاب رحمۃ اللعالمین میں رقمطرازہیں کہ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ یوم دو شنبہ وقت چاشت تھا کہ جسم ا طہر سے روح انور نے پرواز کیا۔اس وقت عمر مبارک ۶۳ سال قمری پر ۴ دن تھی۔ ’’ اِنّٰا للّٰہ وَاِ ناَّ اِلَےْہِ رَاجِعُوْن۔‘‘ (رحمۃ اللعالمین جلد اول صفحہ ۳۲۳)
۱۲ ربیع الاول بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہے۔اس روز خوشیاں منانے والے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات پر خوشیاں مناتے ہیں۔ان کا ضمیرو ایمان مردہ ہے۔ان کو نہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا پاس ہے نہ ان سے حیا۔یہ لوگ روز قیامت خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کیا منہ دکھائیں گے۔
کیا ۱۲ ربیع الاول بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہے ؟ نہیں نہیں ہرگز نہیں ۔اس موضوع پر مورخین ومحققین اسلام کا نکتہ نظر اختصاراً پیش خدمت ہے ۔
پیر کا دن : اگرچہ یہ بات طے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت با سعادت اور وفات شریف پیر کے دن ہوئی ۔ لیکن وفات شریف کےلیے ۱۲ ربیع الاول کی تاریخ کو خاص کرنا کسی معتبر دلیل سے ثابت نہیں۔یہ بات نہ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثابت ہے نہ ہی تابعین سے۔ لہذا بعد میں کسی کا ۱۲ ربیع لاول کو تاریخ وفات قرار دینا ہرگز درست نہیں۔
روایت شریف سے استدلال : معترضین ۱۲ ربیع الاول کو وفات شریف ثابت کرنے کے لئے ایک روایت جو کہ حضرت عائشہ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منسوب ہے سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر اس موقع پر اس روایت کے راوی کی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرتے ۔ حالا نکہ اہل علم حضرات پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس روایت کی سند محمد بن عمرو اقدی ایک ایسا راوی ہے ۔ جس کے بارے میں اسحاق بن راہویہ ،امام علی بن مدین،امام ابو حاتم الرازی اور نسائی نے متفقہ طور کہا ہے کہ واقدی اپنی طرف سے درپیش گھڑ لیا کرتا تھا۔امام یحیےٰ بن معین کے نزدیک واقدی ثقہ یعنی قابل اعتبار نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا واقدی کذاب ہے۔حدیثوں میں تبدیلی کر دیتا تھا۔بخاری شریف اور ابو حاتم رازی نے کہا کہ واقدی کی حدیثیں تحریف سے محفوظ نہیں۔امام زہبی نے فرمایا کہ واقدی کے سخت ضعیف ہونے پر آئمہ جرح وتبدیل کا اجماع ہے ۔ (میزان الاعتدال جلد ۲ ،ص،۳۶-۴۲۵ مطبوعہ ہند قدیم،چشتی)
معلوم ہوا کہ اس روایت کے سخت ضعیف ہونے پر محدثین ومحقیقین اسلام کا اجماع ہے ۔لہذا اس روایت سے استدلال کرنا باطل ہے۔ بفضلہ تعالیٰ! اگر ہم ۱۲ ربیع الاول کو تاریخ ولادت ثابت کرنے کیلئے دلائل اکٹھا کرنا شروع کریں تو اس موضوع پر پوری کتاب تیار ہو سکتی ہے لیکن اختصار کے پیش نظر زیر قلم مضمون میں فقط یہ ثابت کریں گے کہ ۱۲ ربیع الاول حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یوم وصال نہیں ہے۔
۱۲ ربیع الا ول کا تاریخ وفات نہ ہونے پر ناقابلِ تردید دلیل : ⬇
مورّخِ اسلام امام ابو القاسم عبد الرحمن السّہیلی ارشاد فرماتے ہیں:’’وکیف ما دار الحال علی ھذا الحساب فلم یکن الثانی عشر من ربیع الاول یوم الاثنین بوجہ ۔‘‘ (الروض الا نف جلد ۲ ،ص ۳۷۲) ، یعنی اس حساب پر کسی طرح بھی حال دائر ہو مگر ۱۲ ربیع الاول کو یوم وفات سوموار کسی صورت میں نہیں آسکتا۔یہی مضمون امام شمس الدین الذھبی،ابن کثیر ،امام نور الدین علی بن احمد السمہوری بن برہان الدین الحلبی وغیرہ سے بھی منقول ہے۔ (تاریخ اسلام للذہبی جزارلسیرۃ النبویہ ص ۴۰۰-۳۹۹، وفاء الوفاء جلد ۱ص ۳۱۸، البدایہ والنہایہ جلد ۵ ص ۲۵۶ سیرۃ حلبیہ جلد ۳ ص ۴۷۳،چشتی )
محقیقین ومورخین اسلام کی مذکورہ دلیل کو پرکھنے کےلیے تاریخ اسلام کی کسی پختہ تاریخ و یوم کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ اس مقصد کیلئے یوم عرفہ ۱۰ ھ کو ۹ ذی الحج کی تاریخ اور جمعۃ المبارک کا دن ہونے پر مختصر دلائل پیش کرتے ہیں ۔تا کہ اس تاریخ سے تقویم کی رو سے نتیجہ سامنے آ سکے۔ یوم عرفہ کو تاریخ سے تقویم کی رو سے نتیجہ سامنے آ سکے۔ یوم عرفہ کو تاریخ ۹ ذی الحجہ ۱۰ ھ اور دن جمعۃ المبارک کا تھا۔۹ ذی الحجہ ۱۰ھ کو حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا اسی روزیہ آیت نازل ہوئی۔’’الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الا سلام دیناً ۔‘ل (المائدہ ،آیت نمبر۳) ’’ یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا ۔ یہ آیت حجۃ الوداع میں عرفہ کے روز جو جمعہ کو تھا ،بعد عصر نازل ہوئی۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا اے امیر المومنین ! آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے ۔اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم روز نزول کو عید مناتے۔فرمایا کون سی آیت؟ اس نے یہی آیت ’’الیوم اکملت لکم——پڑھی۔ آپؓ نے ارشاد فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی۔اور اس کے مقام نزول کو بھی پہچانتا ہوں۔وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا ۔ (خزائن العرفان)
ترمذی شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا ۔آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن ۲ عیدیں تھیں۔جمعہ، عرفہ۔ (خزائن العرفان)
یہ آیت جیسا کہ شیخین نے حضر ت عمرؓ سے روایت کیا ،عصر کے وقت جمعہ کے روز ذوالحجہ کی نویں تاریخ ،حجۃ الوداع میں جو کہ ۱۰ھ میں تھا۔
نازل ہوئی ہے۔ (حاشیہ القرآن الحکیم مع ترجمعہ شاہ رفیع الدین دہلوی ومولانا اشر ف علی تھانوی ف۱۰ ص ۱۱۹ مطبوعہ تاج آرٹ پر یس کراچی)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مکہ معظمہ میں حجۃ الوداع کے مبارک موقع پر عرفہ کے دن، جمعہ کے روز عضباء ناقہ پر سوار تھے ۔ (ترجمعہ مولانا محمود الحسن مع حاشیہ و فوائد القرآن صفحہ نمبر ۱۷۲،چشتی)
یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی جبکہ میدان عرفات میں حضرت خیر الانام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اونٹنی کے گرد چالیس ہزار سے زائد اتقیاء ابرار رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مجمع تھا ۔ ( ترجمعہ مولانا محمود الحسن مع حاشیہ و فوائد القرآن ص ۱۷۳)
نویں ذی الحجہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم طلوع آفتاب کے بعد وادی نمرہ میں آکر اترے۔دن ڈھلنے کے بعد یہاں سے روانہ ہو کر عرفات میں تشریف لائے ۔ (رحمۃ اللعالمین جلد اول ص نمبر ۲۹۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو اسی جگہ اس آیت کا نزول ہوا۔ الیوم اکملت لکم دینکم ۔ (رحمۃ اللعالمین جلد اول ص ۳۰۵ بحوالہ صحیح بخاری عن عمر بن الخطاب)
اس مختصر سی وضاحت سے واضح ہوا کہ یوم عرفہ کو تاریخ ۹ ذی الحجہ ۱۰ھ اور دن جمعۃ المبارک کا تھا۔ اس تاریخ سے حساب شروع کر کے چاند کے طلوع وغروب ہونے کی نسبت سے ذی الحجہ ،محرم اور صفر کے ایام کی تعداد انتیس ۲۹ اور تیس۳۰ متصور کر کے ہر اسلامی مہینہ تقومی نظام کے آئینے میں دیکھتے ہیں کہ آیا ۱۲ ربیع الاول شریف کا دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یوم وصال ہے یا نہیں ؟
۹ ذی الحجہ تا ۱۳ ربیع الاول تک تقومی نظام کی رو سے ربیع الاول شریف کو ۱،۲،۶،۷،۸،۹،۱۳ میں سے کوئی ایک تاریخ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ وفات قرار پاتی ہے جبکہ منکرین میلاد کے دعوی کے برعکس ۱۲ ربیع الاول کو سوموار کا دن نہیں آتا ہے۔چنانچہ کتب تواریخ وسیر میں بھی وفات شریف کی تاریخ سے متعلق مختلف روایات موجود ہیں۔اجلۂ تابعین ابن شہاب زہری ،سلیمان بن طرخان اور سعد بن ابراہیم زہری سے اسناد کے سا تھ یکم۱،دو ۲ ربیع الاول کو وفات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منقول ہے۔
علامہ شبلی نعمانی نے بھی یکم ربیع الاول کو یوم وفات قرار دیا ہے۔(سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔جلد ۲)محمد بن عبدالوہاب کے بیٹے شیخ عبد اللہ نے آٹھ ربیع الاول کو یوم وفات قرار دیا ہے۔ (مختصر سیرۃ الر سول ﷺ)
دعوتِ فکر وعمل : ⬇
وہ جن کو دعوی ہے کہ ۱۲ ربیع الاول ہی سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یوم وصال ہے ۔ معتبر حقائق و دلائل کی روشنی میں ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ کو سوموار کا دن ثابت کریں ۔مذکورہ دلائل کا رد بلیغ کریں۔لیکن سوموار شریف کا دن نہ کر سکیں یا پیش کردہ دلائل کا معقول جواب نہ دے سکیں تو ہم عرض کریں گے کہ (۱) ۱۲ ربیع الاول کو غم اور سوگ کی بجائے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد کی خوشیاں منایا کریں۔ (۲) محبوبان و مقبولان خدا کی تنقیص کی بجائے توقیر و عظمت کے پہلوجات بیان فرمائے جائیں اور ہر ممکن ادب واحترام کا خیال رکھاجائے۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment