Monday 21 January 2019

درسِ قرآن موضوع آیت : قُلۡ لَّاۤ اَمْلِکُ لِنَفْسِیۡ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا سورہ اعراف

0 comments

درسِ قرآن موضوع آیت : قُلۡ لَّاۤ اَمْلِکُ لِنَفْسِیۡ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا سورہ اعراف

قُلۡ لَّاۤ اَمْلِکُ لِنَفْسِیۡ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللہُ ؕ وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِۚۛ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوۡنَ ۔ ﴿سورہ اعراف آیت نمبر 188)
ترجمہ : تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کا خود مختار نہیں مگر جواللہ چاہے اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی میں تو یہی ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں ۔

قُلۡ لَّاۤ اَمْلِکُ لِنَفْسِیۡ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللہُ : تم فرماؤ، میں اپنی جان کے نفع اور نقصان کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے ۔ آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کمال درجے کی عاجزی ، عظمت ِ الٰہی اور عقیدہ ِ توحید کے اظہار کا حکم فرمایا گیا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس جو قدرت و اختیار اور علم ہے خواہ اپنی ذات کے متعلق یا دوسروں کے بارے میں ، یونہی دنیاوی چیزوں کے بارے میں یا قیامت ، آخرت اور جنت کے بارے میں وہ تمام کا تمام اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے ہے لہٰذا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا اَوّلِین و آخرین سے افضل ہونا ، دنیا و آخرت کے اُمور میں تَصَرُّف فرمانا ، صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو شفا عطا فرمانا بلکہ جنت عطا فرمانا ، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کرنا وغیرہا جتنی چیزیں ہیں سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے چاہنے سے ہیں ۔

اختیارات مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد گرامی ہے : انما انا قاسم والله يعطی.
ترجمہ : اللہ تعالیٰ مجھے دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں ۔
(بخاری شريف، ج : 1، ص : 16)

علماء کرام فرماتے ہیں یہ حدیث پاک مطلق تقسیم کرنے کے حوالے سے ہے ۔ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ جب تک میں حیات ظاہری کے ساتھ زندہ ہوں تو تقسیم کرنے والا ہوں بلکہ حیات برزخی یعنی روحانی طور پر تقسیم بھی میں کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ والله يعطی اللہ تعالیٰ دیتا ہے کیا کیا دیتا ہے بیان نہیں کیا، چونکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جو چیز بھی کسی کو دیتا ہے تو بدست مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کرتا ہے ۔

جب یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تقسیم کرنے والے ہیں تو تقسیم کرنے والے کو مجازا عطا کرنے والا کہا جاتا ہے آپ اپنے معاشرے میں مشاہدہ کریں جب بھی کوئی چیز تقسیم کی جاتی ہے تو لوگ اس سے مانگتے ہیں کہ زیادہ دو یا مجھے بھی دو وغیرہ اگرچہ چیز کسی اور کے حکم پر دی جاتی ہے۔

چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام اکابرین امت کے نزدیک اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں جیسا کہ حدیث مبارک میں بیان کیا گیا ہے : ان الله حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبياء فنبی الله حی .
ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے اجسام کو زمین پر حرام کر دیا ہے پس اللہ کے نبی زندہ ہیں ۔ (سنن ابی داؤد، ج : 1، ص : 275)

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ قُبِضَ وَفِيهِ النَّفْخَةُ وَفِيهِ الصَّعْقَةُ فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ يَقُولُونَ بَلِيتَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارے افضل ایام میں سے جمعے کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اسی میں «نفخة» دوسری دفعہ صور پھونکنا) ہے اور اسی میں «صعقة» ہے (پہلی دفعہ صور پھونکنا، جس سے تمام بنی آدم ہلاک ہو جائیں گے) سو اس دن میں مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔“صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیوں کر پیش کیا جائے گا حلانکہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے۔ (یعنی آپ کا جسم) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کر دیے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ ،باب فضل یوم الجمعۃو لیلۃ الجمعۃ،رقم الحدیث ۸۸۳،چشتی)(تفرح ابواب الجمعة،باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة ، باب: جمعے کے دن اور اس کی رات کی فضیلت حدیث نمبر : 1047)

حدیث سے ماخوذ مسائل : جمعہ کے دن پڑھا ہوا درود میرے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے ۔ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ۔

دوسری حدیث پاک میں ہے : حياتی خير لکم و مماتی خير لکم .
ترجمہ : میری حیات بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے ۔ (سنن نسائی، ج : 1، ص : 189)

اسی طرح فرمایا تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں اگر نیک اعمال ہوں تو میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر برے ہوں تو میں تمہارے لیئے مغفرت طلب کرتا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دائرہ ماذونیت میں مختار کل ہیں ۔ دائرہ ماذونیت سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذن اور اختیار دیا گیا ہے۔

بعض کلمات کا اطلاق بعض مقامات میں مختلف معنی دیتا ہے۔ مثلاً لفظ کل جب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہو گا تو حقیقی معنی میں ہو گا مگر جب یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مقرب بندہ کے لیے استعمال ہوگا تو اضافی معنی میں ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مختار کل کا لفظ اسی معنی میں مراد لیا جاتا ہے۔ جب یہی لفظ کل مخلوق کے لیے ہو تو اس کے اطلاقات درجہ بدرجہ بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً ایک چیز کسی دوسری چیز کے مقابلے میں کل ہے تو وہی چیز کسی دوسرے کے مقابلے میں جزو بھی ہوسکتی ہے ۔

انسانی علم جتنا بھی لامحدود اور وسیع ہوجائے وہ ماکان اور وما یکون کی حدود کے اندر ہی رہتا ہے، اس سے آگے اس کی حدیں ختم ہو جاتی ہے۔ یہی کل انسانی علم جب حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں رکھا جائے گا تو مخلوق کا سارا علم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلے میں جزو ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم تمام مخلوق کے مقابلے میں کل ہو گا۔ مگر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کل علم معبود الٰہی کے مقابلے میں لایا جائے گا تو یہ جزو ہوگا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سارے اختیارات آپ علیہ السلام کے دائرہ ماذونیت میں ہیں، جس میں آپ مختار کل ہیں ۔

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : وقد اقامه الله مقام نفسه فی امره ونهيه واخباره و بيانه.
ترجمہ : اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امر، نہی اور خبر دینے اور بیان کرنے میں اپنا نائب مقرر کیا ہے ۔ (ابن تيميه، الصارم المسلول علی شاتم الرسول : 41)

وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ : اور اگر میں غیب جان لیا کرتا ۔ اس آیتِ مبارکہ میں علمِ غیب کی نفی کی علماء ِکرام نے مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں ، ان میں سے چار توجیہات درج ذیل ہیں جنہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علوم کے بیان پر مشتمل اپنی لاجواب کتاب’’اِنْبَائُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُوْنَ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْئ‘‘ ( اللہ تعالیٰ کا کلام قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے) میں بیان فرمایا ہے ۔

(1) اس آیت میں علمِ عطائی کی نفی نہیں بلکہ علمِ ذاتی کی نفی ہے ۔ امام قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غُیوب پر مُطّلع فرمایا اور آئندہ ہونے والے واقعات سے با خبر کیا۔ اس باب میں احادیث کا وہ بحرِ ذَخّار ہے کہ کوئی اس کی گہرائی جان ہی نہیں سکتا اور نہ ا س کا پانی ختم ہوتا ہے ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو یقین اور وُثوق سے معلوم ہے اور ہم تک ا س کی خبریں مُتواتِر طریقے سے کثرت سے پہنچی ہیں اور غیب پر اطلاع ہونے پر اِن احادیث کے معانی و مطالب آپس میں متحد ہیں ۔ (شفاء شریف، فصل ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ص۳۳۵-۳۳۶، الجزء الاول،چشتی)
علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’یہ وضاحت ا ن قرآنی آیات کے منافی نہیں جن میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور اس آیتِ کریمہ’’ وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ‘‘ میں کسی واسطے کے بغیر (یعنی علمِ ذاتی) کی نفی کی گئی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا غیب پر مطلع ہونا ثابت ہے اور ا س کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ‘‘ ۔ (سورۂ جن۲۶،۲۷)
ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (نسیم الریاض، القسم الاول فی تعظیم العلی الاعظم۔۔۔ الخ، فصل فیما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ۴/۱۴۹)

(2) اس آیت سے بعض لوگ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کی نفی کرتےہیں ۔ یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ قرآن پڑھ کر لوگوں کا گمراہ ہونا ۔ قرآن سے ثابت ہے ۔ سورہ بقرہ،آیت نمبر26 يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦) اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے (ف۴۷) اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں-(ف ۴۸) (٢٦)

کسی نے بخاری شریف کے بارے میں کہا ہے :

بغیر عشق کے جو پڑھتے ہیں بخاری
آتا ہے بخار ان کو آتی نہیں‌ بخاری

اعظم چشتی علیہ الرحمہ نے کہا تھا :

محبوبان اتے نقطی چینی کرنا کم نہیں ‏عاشقاں دا
جتھے دل لگ جاوے اعظم اوتھےعیب نظر نہیں‌آؤندا

علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ وضاحت ا ن قرآنی آیات کے منافی نہیں جن میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور اس آیتِ کریمہ’’ وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ‘‘ میں کسی واسطے کے بغیر (یعنی علمِ ذاتی) کی نفی کی گئی ہے البتہ اللہتعالیٰ کے بتانے سے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکا غیب پر مطلع ہونا ثابت ہے اور ا س کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ۔ عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہ اَحَدًا ۔ ﴿ۙ۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ‘‘ (سورۂ جن۲۶،۲۷) ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا ۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (نسیم الریاض، القسم الاول فی تعظیم العلی الاعظم۔۔۔ الخ، فصل فیما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ۴/۱۴۹)

یہ کلام ادب و تواضع کے طور پر ہے

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اس بات کا احتمال ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے یہ کلام تواضع اور ادب کے طور پر فرمایا ہو اور مطلب یہ ہے کہ میں غیب نہیں جانتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جس کی مجھے اطلاع دی اور جو میرے لئے مقرر فرمایا میں صرف اسی کو جانتا ہوں ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷ )

اس آیت میں فی الحال غیب جاننے کی نفی ہے مستقبل میں نہ جاننے پر دلیل نہیں ہے ۔ علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے غیب پر مطلع ہونے سے پہلے یہ کلام فرمایا، پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو علمِ غیب کی اطلاع دی تو حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ا س کی خبر دی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ‘‘ (سورۂ جن۲۶،۲۷) ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷،چشتی)

یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا، پھر ا س کے بعد اللہ تعالیٰ نے غیبی اَشیاء کو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَپر ظاہر کیا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کی خبر دی تاکہ یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا معجزہ اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی نبوت صحیح ہونے پر دلیل بن جائے ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷)
لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ: تومیں بہت سی بھلائی جمع کرلیتا ۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت ،امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بھلائی جمع کرنا اور برائی نہ پہنچنا اسی کے اختیار میں ہوسکتا ہے جو ذاتی قدرت رکھے اور ذاتی قدرت وہی رکھے گا جس کا علم بھی ذاتی ہوکیونکہ جس کی ایک صفت ذاتی ہے اس کے تمام صفات ذاتی ،تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ذاتی ہوتا تو قدرت بھی ذاتی ہوتی اور میں بھلائی جمع کرلیتا اور برائی نہ پہنچنے دیتا ۔ بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے تنگی و تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافروں کا مومن کرلینا ہو اور برائی سے بدبخت لوگوں کا باوجود دعوت کے محروم رہ جانا تو حاصلِ کلام یہ ہوگا کہ اگر میں نفع و ضَرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین وکافرین ! تمہیں سب کو مومن کر ڈالتا اور تمہاری کفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی ۔ (تفسیر خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ص۳۳۰)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔