Thursday 10 January 2019

روح کا بدن کے ساتھ تعلق رہتا ہے اور میت کہتی ہے مجھے جلدی لے چلو

0 comments

روح کا بدن کے ساتھ تعلق رہتا ہے اور میت کہتی ہے مجھے جلدی لے چلو

غیرمقلد اہلحدیث میں آج کل بعض لوگ مرنے کے بعد روح کے بدن کے ساتھ تعلق کے منکر بھی ہیں جبکہ فرقہ اہل حدیث کے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب ایک سوال : موت کے بعد غسل ، جنازے اور دفن ہونے تک انسانی روح پر کیا بیتتی ہے ؟

کے جواب میں لکھتے ہیں : اس دوران میں بھی من وجہ روح کا تعلق بلا اعادہ بدن سے قائم رہتا ہے جس کا احساس اسے مختلف امور میں کرادیا جاتا ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث لکھی ہے کہ : چارپائی پر میت کی لاش کہتی ہے مجھے جلدی لے چلو ۔ (فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 244)

یعنی جس وقت میت کو ابھی دفنایا نہیں گیا ہوتا اور ابھی اس میں روح نہیں لوٹی ہوتی تب بھی روح کا تعلق بدن سے قائم رہتا ہے ۔

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى اور غلط تفاسیر کا مدلّل رد

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ (سورہ نمل آیت نمبر 80)
ترجمہ : بیشک تمہارے سُنائے نہیں سنتے مُردے اور نہ تمہارے سنائے بہرے پکار سُنیں جب پھریں پیٹھ دے کر ۔

مختصر تفسیر : اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى: بیشک تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے ۔ علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ الله تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : یعنی جن لوگوں کے دل مردہ ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے اور وہ لوگ کفار ہیں ۔ (تفسیر خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳/۴۱۹)

اورابو البرکات عبد الله بن احمد نسفی رَحْمَۃُ الله تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں کفار کو زندہ ہونے اور حواس درست ہونے کے باوجود مُردوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ (تفسیر مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۸۵۶)

امام قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر بیضاوی میں انما لاتسمع الموتی النمل آیه 80 کی تفسیر یوں کرتے ھیں : وإنما شبهوا بالموتى لعدم انتفاعهم باستماع ما يتلى عليهم كما شبهوا بالصم في قوله: وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إِذا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فإن إسماعهم في هذه الحالة أبعد. وقرأ ابن كثير وَلا يَسْمَعُ الصُّمُّ ۔
ترجمہ : ان زندہ کافروں کو مردوں سے اس لیئے تشبیہ دی گئی ھے کہ وہ اس چیز کو جو ان پر پڑھی جاتی سن کر نفع حاصل نہیں کرتے ھیں جیسا کہ انکو : وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إِذا وَلَّوْا مُدبرین کے ارشاد میں بہروں سے تشبیہ دی گی ھےکیوں کہ اس حالت میں انکا سننا بعید تر ھے ۔

آیت ’’اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى‘‘ سے مُردوں کے نہ سننے پر اِستدلال کرنے والوں کا رد : بعض حضرات اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرتے ہیں ، ان کا استدلال غلط ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کفار کو مُردہ فرمایا گیا اور اُن سے بھی مُطلَقاً ہر کلام سننے کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ وعظ و نصیحت اور کلامِ ہدایت قبول کرنے کیلئے سننے کی نفی ہے اور مراد یہ ہے کہ کافر مردہ دل ہیں کہ نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُ الله تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’مردوں سے مراد کفار ہیں اور (یہاں ) مطلق سننے کی نفی نہیں بلکہ معنی یہ ہے کہ ان کا سننا نفع بخش نہیں ہوتا ۔ (مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الجہاد، باب حکم الاسرائ، الفصل الاول، ۷/۵۱۹، تحت الحدیث: ۳۹۶۷،چشتی)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ الله تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں سننے کی نفی نہیں بلکہ سنانے کی نفی ہے اور اگر سننے کی نفی مان لی جائے تو یہاں یقینا’’سننا‘‘ قبول کرنے کے لئے سننے اور نفع بخش سننے کے معنی میں ہے۔ باپ اپنے عاقل بیٹے کو ہزار بارکہتاہے : وہ میری نہیں سنتا۔ کسی عاقل کے نزدیک اس کے یہ معنی نہیں کہ حقیقۃً کان تک آواز نہیں جاتی۔ بلکہ صاف یہی کہ سنتا توہے، مانتا نہیں ، اور سننے سے اسے نفع نہیں ہوتا، آیۂ کریمہ میں اسی معنی کے ارادہ پر ’’ہدایت‘‘ شاہدکہ کفار سے نفع اٹھانے ہی کی نفی ہے نہ کہ اصل سننے کی نفی۔ خود اسی آیۂ کریمہ ’’اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى‘‘ کے تتمہ میں ارشاد فرماتا ہے : ’’اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘ تم نہیں سناتے مگر انھیں جو ہماری آیتوں پریقین رکھتے ہیں تو وہ فرمانبردار ہیں ۔ اور پُر ظاہر کہ وعظ و نصیحت سے نفع حاصل کرنے کا وقت یہی دنیا کی زندگی ہے ۔ مرنے کے بعد نہ کچھ ماننے سے فائدہ نہ سننے سے حاصل، قیامت کے دن سبھی کافر ایمان لے آئیں گے، پھر اس سے کیا کام، توحاصل یہ ہوا کہ جس طرح مردوں کو وعظ سے کوئی فائدہ نہیں ، یہی حال کافروں کا ہے کہ لاکھ سمجھائیے نہیں مانتے ۔ (فتاویٰ رضویہ، ۹/۷۰۱،چشتی)

مُردوں کے سننے کا ثبوت

کثیر اَحادیث سے مُردوں کا سننا ثابت ہے، یہاں ہم بخاری شریف اور مسلم شریف سے دو اَحادیث ذکر کرتے ہیں جن میں مردوں کے سننے کا ذکر ہے ۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ دفن کرکے پلٹتے ہیں توبیشک وہ یقینا تمہارے جوتوں کی آواز سنتا ہے ۔ (بخاری ، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، ۱/۴۵۰، الحدیث: ۱۳۳۸)

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’رسولُ الله صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہمیں کفارِ بدر کی قتل گاہیں دکھاتے تھے کہ یہا ں فلاں کافر قتل ہوگا اوریہاں فلاں ، جہاں جہاں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے بتایا تھا وہیں وہیں ان کی لاشیں گریں ۔ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم سے ان کی لاشیں ایک کنویں میں بھردی گئیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ وہاں تشریف لے گئے اور ان کفار کو ان کا اور ان کے باپ کا نام لے کر پکارا اور فرمایا: جو سچا وعدہ خداا ور رسول نے تمہیں دیاتھا وہ تم نے بھی پالیا ؟ کیونکہ جو حق وعدہاللہ تعالیٰ نے مجھے دیا تھا ، میں نے تو اسے پالیا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ الله! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، آپ ان جسموں سے کیونکر کلام کرتے ہیں جن میں روحیں نہیں ۔ ارشادفرمایا: جو میں کہہ رہاہوں اسے تم ان سے کچھ زیادہ نہیں سنتے لیکن انہیں یہ طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں ۔ (مسلم،کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلھا، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ او النار علیہ۔۔۔الخ،ص۱۵۳۶، الحدیث : ۷۶،۲۸۷۳)

عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال:کان النبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ یقول:اذا وضعت الجنازۃ فاحتملھا الرجال علی اعناقھم ،فان کانت صالحۃ ، قالت :قدمونی ،وان کانت غیر صالحۃ ،قالت لاھلھا :یا ویلھا ،این یذھبون بہ ،یسمع صوتھا کل شیی ء الاالانسان ولو سمع الانسان لصعق۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فر ماتے تھے کہ:جب جنازہ رکھا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنی گردنوں پر اٹھاتے ہیں ،اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے:مجھے آگے بڑھائو ،اور اگر بُرا ہوتا ہے تو اپنے گھر والوں سے کہتا ہے: ہائے خرابی! کہاں لئے جاتے ہو؟انسان کے سوا ہر چیز اس کی آواز کو سنتی ہے اور اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہوجائے ۔ ( بخاری،کتاب الجنائز،باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی، حدیث :۱۳۱۶،چشتی)

عن انس رضی اللہ عنہ عن النبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ قال:العبد اذا وضع فی قبرہ وتولی وذھب اصحابہ ،حتی انہ لیسمع قرع نعالھم ،اتاہ ملکان فاقعداہ ، فیقولان لہ:ماکنت تقول فی ھذاالرجل محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ؟ فیقول :اشھد انہ عبد اللہ ورسولہ ،فیقال : انظر الی مقعد ک من النار ،ابدلک اللہ بہ مقعدا من الجنۃ ،قال النبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ:فیراھما جمیعا ،واما الکافر او المنافق،فیقول:لاادری،کنت اقول ما یقول الناس ،فیقالان لادریت ولا تلیت ثم یضرب بمطرقۃ من حدید ضربۃ بین اذنیہ فیصیح صیحۃ یسمعھا من یلیہ الاالثقلین۔
تر جمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جب مردے کو قبر میں رکھ دیا جاتاہے،اور اس کے ساتھی واپس جانے لگتے ہیں تو بے شک وہ ان کی جوتیوں کی آواز کا سنتا ہے،اس کے پاس دو فر شتے آتے ہیں اور اس کو بیٹھاتے ہیں ،دونوں اس سے کہتے ہیں :تو اس شخص(محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ)کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتا تھا؟تو وہ کہتا ہے :میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔تو اسے کہا جاتا ہے جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھو۔اللہ تعالی نے اسے تیرے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فر مایا:تو اسے جنت وجہنم کے دونوں ٹھکانے دیکھایا جاتا ہے۔اور رہا کافر اور منافق تو وہ کہتا ہے:میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہا کرتے تھے،دونوں فر شتے کہتے ہیں کہ:نہ تو نے سمجھا اور نہ ہی نیک لوگوں کی پیروی کی،پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے سے اس کے کانوں کے درمیان مارتے ہیں ،تو وہ ایسے بھیانک انداز سے چیختا ہے کہ آس پاس کی ساری مخلوقات اس کی چیخ کو سنتی ہے سوائے انسان اور جنات کے ۔ (بخاری،کتاب الجنائز،باب المیت یسمع خفق النعال،حدیث : ۱۳۳۸)

عن ابی طلحۃ ان نبی اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ امر یوم بدر(فساق الحدیث الی ان قال)حتی قام علی شفۃ الرکی ،فجعل ینادیھم باسمائھم اسماء آباء ھم :یا فلان بن فلان ،ویا فلان بن فلان ،ایسر کم انکم اطعنتم اللہ ورسولہ ؟فانا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا ،فھل وجدتم ما وعد ربکم حقا ،قال:فقال عمر :یا رسول اللہ !ما تکلم من اجساد لا ارواح لھا ،فقال رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ :والذی نفس محمد بیدہ،ما انتم باسمع لما اقول منھم۔
ترجمہ : حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :اللہ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بدر کے میدان میں قتل کئے گئے کافروں کے لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے اور ان کو ان کے باپوں کے نام کے ساتھ پکارا۔ائے فلاں بن فلاں!اور ائے فلاں بن فلاں!ہم نے تو اس کو پا لیا جس کا وعدہ ہم سے ہمارے رب نے کیا (یعنی فتح و نصرت)تو کیا تم لو گوں نے بھی اس کو پا لیا جس کا وعدہ تم سے تمہارے رب نے کیا تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ! کیا آپ بے جان جسموں سے بات کر تے ہیں؟ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فر مایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ء قدرت میں محمد(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ)کی جان ہے۔میری باتوں کو تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔(بخاری، کتاب المغازی،باب قتل ابی جھل۔حدیث:۳۹۷۶)

عن ابن شماشۃ المھری قال: حضرنا عمرو بن العاص وھو فی سیاقۃ الموت (فساق الحدیث الی ان قال)اذا دفنتمونی فشنوا علی التراب شنا ثم اقیموا حول قبری قدر ما تنحر جزور ویقسم لحمھا حتی استانس بکم وانظر ماذا ارجع بہ رسل ربی۔
تر جمہ : حضرت ابن شماشہ مہری سے روایت ہے کہ:حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وقت نزاع اپنے صاحبزادے سے کہا:جب مجھے دفن کرچکو،تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا پھر میری قبر کے پاس اتنی دیر ٹہرے رہنا جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتاہے،تاکہ میں تم سے انس حاصل کروں اور جان لو کہ میں اپنے رب کے فر شتوں کو کیا جواب دیتا ہوں ۔(مسلم،کتاب الایمان ،باب کون الاسلام مایھدم ماقبلہ وکذا الھجرۃ والحج،حدیث: ۱۲۱،چشتی)

ان عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ قال:ما ابالی فی القبور قضیت حاجتیی او فی السوق والناس ینظرون۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ ص:۳۳۹،حدیث:۱۱۹۰۳)
تر جمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے کہا:میں برابر جانتاہوں کہ میں قبرستان میں قضائے حاجت کے لئے بیٹھوں یا بازار میں کہ لوگ دیکھتے رہے۔(یعنی مردے بھی دیکھتے ہیں جیسے زندہ دیکھتا ہے)(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ ص:۳۳۹،حدیث:۱۱۹۰۳)

عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال:أذی المومن فی موتہ کاذاہ فی حیاتہ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ص:۳۶۷،حدیث: ۱۲۱۱۵،چشتی)
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے ارشاد فر مایا:مون کو مرنے کے بعد تکلیف دینا ایسے ہی جیسے اس کی زندگی میں تکلیف دینا۔

عن ابی ایوب : ان النبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سمع صوتا حین غربت الشمس فقال:ھذہ اصوات الیھودتعذب فی قبورھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، جلد:۳؍ص :۳۷۵، حدیث: ۱۲۱۶۰)
ترجمہ : حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے سورج کے ڈوبنے کے وقت ایک آواز سنی تو فر مایا:یہ یہودیوں کی آواز ہے جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جارہاہے۔

عن عبد اللہ بن عمروبن العاص عن النبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ قال:ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المومن وانما مثل المومن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی سجن فاخرج منہ فجعل ینقلب فی الارض ویتفسح فیھا۔و لفظ ابی بکر ھکذا:الدنیا سجن المومن و جنۃ الکافر فاذا مات المومن یخلی سر بہ یسرح حیث یشائ۔
تر جمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: حضور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا:بے شک دنیا کافر کی جنت ہے اور مسلمانوں کا قید خانہ،اور ایمان والوں کی جب جان نکلتی ہے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اور اب اسے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتا اور با فر اغت چلتا پھرتا ہے۔اور ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:دنیا مسلمانوں کا قید خانہ ہے اور کافروں کی جنت ،جب مسلمان مرتا ہے تو اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے ۔ (کتاب الزھد لابن المبارک،ص:۲۱۱، حدیث:۵۹۷،دارالکتب العلمیہ بیروت،مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الزھد،جلد:۱۳،ص :۳۵۵،حدیث:۳۵۸۶۷،چشتی)

عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ ان النبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ قال: ان المیت یعرف من غسلہ ویحملہ ومن یکفنہ ومن ید لیہ فی حفرتہ۔(مسند احمد بن حنبل،مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ،جلد:۳؍ ص: ۳،حدیث:۱۱۰۱۰)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فر مایا:بے شک مردہ اسے پہچانتا ہے جو اس کو غسل دے اور جو اٹھائے اور جو کفن پہنائے اور جو قبر میں اتارے۔

عن ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت:کنت ادخل بیتی الذی فیہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ وانی واضع ثوبی واقول انما ھو زوجی و ابی ،فلما دفن عمر ،فواللہ ما دخلتہ الا و انا مشدودۃ علی ثیابی حیاء من عمر ۔ (مشکوۃ المصابیح،باب زیارۃ القبور،ص:۱۵۴،چشتی)
تر جمہ : ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :وہ فر ماتی ہیں :میں اس مکان جنت آستاں میں جہاں حضور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا مزار پُر انوار ہے یوں ہی بے لحاظ ستر و حجاب چلی جاتی ،اور جی میں کہتی وہاں کون ہے،یہی میرے شوہر یا میرے والد پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ دفن ہوئے تو قسم بخدا ،میں عمر سے حیاء کرتے ہوئے کبھی بغیر سراپا بدن چھپائے نہ گئی۔(امام حاکم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔)

مُردوں کے سننے سے متعلق مسئلے کی مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی نویں جلد میں موجود رسالہ ’’حَیَاتُ الْمَوَاتْ فِیْ بَیَانِ سِمَاعِ الْاَمْوَاتْ‘‘ (مردوں کی سماعت کے بیان میں مفید رسالہ) کا مطالعہ فرمائیں ۔

وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ: اور نہ تم بہروں کو پکار سنا سکتے ہو ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کفار کو جس چیز کی دعوت دی جا رہی ہے اس سے انتہا درجے کے اِعراض اورروگردانی کی وجہ سے وہ مُردے اور بہرے کی طرح ہوگئے ہیں تو جس طرح مردے اور سننے سمجھنے سے قاصر بہرے کو حق کی دعوت دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا اسی طرح ان کافروں کو حق کی دعوت دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا ۔ (تفسیر خازن النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳/۴۱۹) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔