حضرت غازی ممتاز حسین قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ تعارف
محترم قارئین : شہیدِ ناموسِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غازی ممتاز حسین قادری رحمۃ اللہ علیہ واقعی ممتاز ہوگئے آپ کی شہادت پر فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے بہت تفصیل سے لکھا آج آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے جن کتب کی مدد سے مضمون تیار کیا گیا ہے اُن کے حوالہ جات ساتھ دے دیئے ہیں آیئے غازی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ پڑھیں :
کروں تیرے نام پر جاں فدا ، نہ بس ایک جاں ، دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا ، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
نام ونسب اسمِ گرامی : ملک ممتازحسین قادری ۔
لقب : غازیِ اسلام ، غازیِ ملت ، محافظِ ناموسِ رسالت ، پروانۂ شمعِ رسالت ، شہیدِ ناموسِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔
والد کا نام : ملک بشیراعوان صاحب ملک صاحب نہایت ہی ایماندار شخص ہیں ۔ محنت مزدوری کرتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں : میں نے ہمیشہ اپنی اولادکورزقِ حلال کھلایا ہے ، کبھی اپنی اولاد کوحرام کا لقمہ نہیں کھلایا ۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے
غازی ملک ممتاز حسین قادری بن ملک بشیراعوان بن ملک خان محمد بن ملک دادن خان ۔ ملک دادن خان علیہ الرحمہ غازی صاحب کے پڑداداتھے ۔ یہ خدا رسیدہ اورخدا ترس بزرگ تھے ۔ مسافروں کو کھانا کھلانا فرض جانتے تھے ۔ آج بھی لوگ ان کی پرہیزگاری وسخاوت کوبیان کرتےہیں ، اورقدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ان کا مزارشریف اسلام آباد میں "کھڈامارکیٹ" کےساتھ سی ڈے اے کی عمارت کےعقب میں ہےٖ ۔ (پروانۂ شمعِ رسالت،صفحہ نمبر 25،چشتی)
غازی صاحب کا آبائی گاؤں "باغ بھٹاں" ہے باغ بھٹاں موجودہ "آبپارہ" کےقریب واقع تھا ۔ اسلام آباد کی تعمیر کی غرض سے حکومت نے سب دیہاتوں کو منہدم کرکے ان کے مکینوں کویہاں سے بے دخل کریا تھا ۔ آپ نسبا ً "قطب شاہی اعوان" برادری سےہیں ۔ آپ کاسلسلہ نسب حضرت محمد بن حنفیہ بن مولاعلی رضی اللہ عنہما تک منتہی ہوتا ہے ۔ اس قوم میں میں بڑے بڑے اولیاء ، اورنامور سپہ سالار پیدا ہوئے ہیں (محافظ ناموسِ رسالت صفحہ نمبر36)
تاریخِ ولادت
آپ کی ولادت باسعادت بروزمنگل،8/ربیع الاول1405ھ، مطابق یکم جنوری /1985ء، مطابق ماہ ربیع الثانی 1405ھ، کوصادق آبادکے علاقے "مسلم ٹاؤن" راولپنڈی، پاکستان میں پیداہوئے ۔ (محافظ ناموسِ رسالت صفحہ نمبر36،چشتی)
ولادت سے قبل بشارت
غازی صاحب کے والدِ محترم فرماتے ہیں ممتاز کی ولادت سے دو سال قبل میں نے ایک عجیب واقعہ دیکھا ۔ میرا معمول تھاکہ میں رات کے پچھلے پہراٹھ کر تہجد کی نماز ادا کرتا تھا اوراس مقصد کےلئے ہمارے گھر کا ایک کونہ مختص تھا جہاں مصلیٰ بچھا ہوتا تھا ۔ جس نے گھروالوں میں سے نماز ادا کرنی ہوتی وہ اسی جگہ نماز ادا کرتا ۔ ایک رات میں بیدار ہوا اور نمازکےلئے مذکورہ گوشے میں پہنچا تو دیکھا کہ ایک نورانی شخصیت اس مصلے پرنماز ادا کر رہی ہے ، میں انہیں دیکھنے لگا ، انہوں نے نماز مکمل کی اور خاموشی سے جانے لگے ، پھراچانک واپس مڑے اورمجھے فرمایا :"اس گھر کے جنوبی کونے میں ایک اللہ کا ولی پیدا ہوگا ، جو پوری دنیا میں اسلام کی عزت کا پرچم بلند کرے گا اور تمھارا نام روشن کرے گا" یہ کہتے ہوئے وہ تشریف لے گئے ۔ دوسال بعد میرے بیٹے ممتازحسین کی ولادت اسی جگہ ہوئی ، جہاں بزرگ نے نشاندہی فرمائی تھی ۔ اس کے بعد میں اس بات کوبھول گیا تا آنکہ 4 جنوری 2011ء کو سلمان تاثیرقتل ہوا ، اورسارے معاملات سامنے آئے ۔ پھر مجھے وہ بزرگ والا واقعہ یاد آیا کہ جس شخص کے متعلق اس بندۂ خدانے خبر دی تھی وہ تو ممتازحسین نکلا ۔ (محافظ ناموسِ رسالت صفحہ نمبر36،چشتی) ، ایک اور بات کہ غازی صاحب کی ولادت سے ہمارے گھر کے معاشی حالات بھی بہتر ہوگئے ۔
تحصیلِ علم
غازی صاحب نے میٹرک تک تعلیم اپنے گھر کے قریب پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول "عائشہ لاثانی پبلک اسکول" مسلم ٹاؤن میں حاصل کی ۔ بچپن سے ہی میں غازی صاحب خامو ش طبع اپنے کا م سے کا م رکھنے والے بغیرکسی کی مدد کے سکول کےلئے تیار ہوجانا اپنا ہوم ورک بغیر کسی کی مدد کے کرلینا وغیرہ ۔ اسکول کی تقریبات میں نعتیں شوق سے پڑھتے تھے ۔ نعتیہ مقابلے میں بھی حصہ لیتے تھے ۔ اسی طرح محلے میں جہاں کہیں نعت خوانی ، یامیلادشریف کا پروگرام ہوتا اس میں ضرورشرکت کرتے ۔ میٹرک کے بعد"سویڈش کالج"میں الیکٹرونکس ڈپلومہ کیا ۔ پھر اسی دوران 2002ء میں محکمہ پولیس میں بھرتی ہوگئے ۔ آپ جسمانی اور ذہنی طور پر انتہائی مضبوط اور نشانہ بازی میں اپنے بیج کے تمام لڑکوں سے مسابقت رکھتے تھے ۔
بیعت
میٹرک کے بعد امیرِ دعوتِ اسلامی ابوبلال حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطارقادری دامت برکاتہم العالیہ کے دستِ حق پرست پر بذریعہ خط بیعت ہوگئے ، اوردعوتِ اسلامی کے اجتماعات میں شریک ہونے لگے ۔
ممتازسیرت
غازیِ اسلام،غازیِ ملت ، محافظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، پروانۂ شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، پیکرِغیرت و حمیت ، شہیدِناموسِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، جناب ملک ممتاز حسین قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ ۔ آپ فنافی الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت آپ کا سرمایۂ حیات تھا ۔ ہروقت ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کرنا ، اور سننا ان کا محبوب مشغلہ تھا ۔غازی صاحب کا مسلک عشق ومحبت ہے ۔ ایک مرتبہ غازی صاحب فرمانے لگے : کہ اگر اللہ جل شانہ مجھ سے پوچھے ممتاز قادری مانگ کیا مانگتا ہے ؟ تومیں عرض کروں گا اے باری تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےساری امتیوں کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کاعشق عطاءفرما ۔ (محافظِ ناموسِ رسالت صفحہ نمبر 41،چشتی)
غازی صاحب بچپن سے ہی سعادت مند تھے ۔ والدین ، اساتذہ ، بزرگوں ، سبھی مسلمانوں کے ساتھ ادب سے پیش آتے تھے ۔ کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا ۔ ہمیشہ نماز باجماعت ادا کرتے تھے ۔ بزرگ فرماتے ہیں : جو نمازی نہیں بن سکتا وہ غازی کیسے بن سکتا ہے ؟ اکثرلوگوں کومحبت بھرے انداز میں نیکی کی دعوت اور برائی سے منع کرتے رہتے تھے ۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کا نعتیہ کلام اکثر یاد تھا ۔ علماءِ کرام کے بیانات شوق سے سنتے تھے ۔ اسی سے محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں اضافہ ہوا ۔غازی صاحب انتہائی با اخلاق اورنیک سیرت کے مالک تھے ۔ محلے کی بوڑھی خواتین بازار سے سودا سلف منگوانے کےلئے اکثرغازی صاحب کو پیسے دے دیتیں اورغازی صاحب بلاچوں چرا سودا سلف خرید کر آتے ۔ جب کوئی بوڑھا شخص یا محلے کی عمر رسیدہ خواتین بازارسے سامان لے کر آرہی ہوتیں تو آپ سامان اٹھا کر گھر پہنچا دیتے ۔ بعض مرتبہ بوڑھی خواتین سے گھر کا کوڑا کرکٹ لے کر پھینک آتے ۔ آپ کی طبیعت میں عاجزی وانکساری ، خلوص و ایمانداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ دینِ اسلام سےسچی محبت و اطاعت کا ندازہ آپ کی سنت کے مطابق شادی سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ان مواقع پر تو بڑے بڑے حاجی صاحبان کے پاؤں بھی ڈگمگا جاتے ہیں ، جواز یہ ہیش کرتے ہیں : جی بچے نہیں مان رہے ، بچوں کا شوق ہے ، حالانکہ خلافِ شرع اور فضول و بیہودہ رسومات کےلئے پیسہ حاجی صاحب کے ہاتھ سے جا رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔ غازی صاحب کے بھائی کہتے ہیں : ہم نے سوچا تھا کہ سب سے چھوٹے بھائی کی شادی ہے ، اورخوب ارمان نکالیں گے ۔ جیسے ہی غازیِ ملت کو معلوم ہوا فرمایا میری شادی انتہائی سادگی سے ہوگی ، میرے سسرال کو جہیزسے بالکل منع کر دیں ، اورمیری شادی پر دیگر پروگراموں کی بجائے نعت خوانی ہوگی ۔
گونر سلمان تاثیر سے کیا دشمنی تھی ؟
غازیِ ملت کی گورنرپنجاب سے کوئی ذاتی رنجش یا دشمنی نہیں تھی ۔ وہ شراب کا رسیا تھا ، ایک سکھ عورت سے اس کا ناجائز بیٹا یہ کہہ رہا تھا کہ اس کا باپ سچا مسلمان نہیں ، لیکن یہ سب کچھ اس کا ذاتی فعل قرار دے کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا ، لیکن کیا ایک سچا مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں اس کی گستاخی کو کیسے برداشت کر سکتا تھا ؟ 14/جون 2009ء کو ضلع ننکانہ میں ایک عیسائی عورت آسیہ مسیح نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کی ، عدالت میں اس نے اعترفِ جرم کیا ۔ عدالت نے اسے 8/نومبر2010ء کو سزائے موت اور ایک لاکھ جرمانہ کا حکم سنایا ۔ (یہ عدالت نہ کسی مولوی کی تھی اورنہ ہی جج صاحب کوئی عالم یامفتی تھے ۔ بلکہ یہ تمام سب کچھ ریاست کے قوانین کے ماتحت ہوا۔) 20 نومبرکو گورنرپنجاب نے ملعونہ سے ملاقات کر کے کانفرنس کی ، اوراسے رہائی کایقین دلایا۔ (یہ توہینِ مذب کےساتھ توہینِ عدالت بھی تھا ، لیکن تمام ادارے سب خاموش تماشائی تھے اور اب موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسے بری کر دیا ہے سچا کون جھوٹا کون فصیلہ خود کیجیئے) اس سزا کو "ظالمانہ سزا" اورتحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےقانون (جو کہ قرآن و سنت سے ماخوذہے) کو "کالاقانون" کہا علماء کے فتووں کو "جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں" کے الفاظ بکے پورے ملک میں تمام شعبۂ ہائے زندگی کے افراد نے گورنرکے اس طرز پر احتجاج کیا یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش کر دیا گیا ، کہ اس قانون کو ختم کر دیا جائے ، یا اس میں ترمیم کی جائے ۔ ادھرغازی صاحب نے وکلاء سےمعلوم کیا کہ گورنرکے خلاف ایف آئی آر کیوں نہیں درج ہورہی ۔ وہ کہنے لگے کہ ان کو "استثنا" حاصل ہے ۔ غازی صاحب کے بھائی فرماتے ہیں : اس دوران میں نے دیکھا کہ ہرکسی سے مسکرا کر ملنے والا ، اور بااخلاق شخصیت کے حامل میرے بھائی نے اپنی جسمانی اور ظاہری حالت بہت خراب کرلی تھی ، لباس پر توجہ نہیں ، کھانے پینے کا ہو ش نہیں ، رات بھرجاگتے رہتے ، ایک ماہ کے بیٹے کی کو ئی خبر نہیں ، بیمار بیوی پر کو ئی توجہ نہیں ، ہر وقت بے چینی کا شکار اور مضطرب نظر آتے ہیں ۔ جیسے کچھ کھو گیا ہو ، جیسے کو ئی لٹ گیا ہو ، میں بتا نہیں سکتا کہ غازی ممتاز صاحب کی حالت دیکھ کر گھر والے کس قدر پر یشان ہو گئےتھے ۔ کیو نکہ نہ کچھ بتاتے تھے ، اورنہ کچھ نظر آتا تھا کہ ماجرا کیا ہے ؟ میں نے کہا بھائی جان ! آپ کے بیٹے کی طبیعت ناساز ہے ، کسی ڈاکٹر کو دیکھاؤ ۔ کہنے لگے : آپ اسے کل ڈاکٹر کے پاس لے جانا مجھ میں ہمت نہیں کہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاسکوں ۔ عدالتی رپورٹ کے مطابق آپ کابیان :"مجھے سلمان تاثیر سے ملاقات کا موقع ملا : میں نے کہا : محترم ! آپ نے بحیثیت گورنر قانون تحفظِ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو "کالاقانون" کہا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کو زیب نہیں دیتا ۔ اس پر اچانک وہ چلایا اور کہنے لگا : "نہ وہ صرف کالا قانون ہے بلکہ (نعوذ باللہ) وہ میری نجاست ہے"۔ میں نے ٹریگر دبا دیا اور وہ میرے سامنے ڈھیر ہوگیا ۔ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے میں نے یہ تحفظِ ناموسِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے کیا ہے ۔ (پروانہِ شمع رسالت صفحہ نمبر 10،چشتی)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس اقدام سے اٹھنے والے سب فتنے تھم گئے ، گستاخان پر زمین تنگ ہوگئی ، اورجواس قانون کوختم کرنےکی قراردادیں پیش کر رہے تھے ، ان کی زبانیں گنگ ہوگئیں پھروہ بھی اس قانون کے تحفظ کی باتیں کرنے لگے ۔ پورے ملک میں مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ، سارے مسلمانوں کا قرض و فرض ایک غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے چکادیا ۔
گورنرکاجنازہ تازیانۂ عبرت
پاک وطن کے پلید ذہنیت رکھنے والے اور اغیار کے نظام کے متوالے سیاستدانوں کےلئے ان کے "بڑے" کا جنازہ نشانِ عبرت ہے ۔ پورے ملک میں جنازہ پڑھانے کو کوئی تیارنہ تھا ، بالآخر پیپلزپارٹی کے ایک باریش کارکن کے ساتھ علامہ کا لاحقہ لگا کر چالیس سیکنڈ میں جنازہ پڑھایا گیا ۔ آج چند موم بتی والی آنٹیاں ، اور لنڈے کے کوٹ پہننے والے بینگنوں کےعلاوہ کوئی گورنر سلمان تاثیر ملعون نام لیوا نہیں ہے ، اورغازیِ ملت رحمۃ اللہ علیہ لاکھوں مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہیں ۔ اس بات کی گواہی جنازہ دے چکا ہے ۔
جیل میں کرم نوازیاں
جب غازی صاحب رحمۃ اللہ کو جیل لیجایا گیا تو قیدیوں نے شانداراستقبال کیا ۔ ہر طرف سے یہ صدا آتی تھی "ہمارا سردار آگیا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا کا جان نثار آگیا " غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا : مجھے بارہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت ہوئی جب مجھ پر تشدد کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوتے تھے ، تومیں اس وقت خانۂ کعبہ اور گنبدِ خضرا کے قریب اپنے آپ کو موجود پاتا تھا ۔ غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بشارتوں کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔
غیرشرعی عدالتی فیصلہ
یکم اکتوبر 2011ء کودہشت گردی کی عدالت کے جج پرویزعلی شاہ نے پرویزی فیصلے میں آپ کو دو مرتبہ سزائے موت اور دولاکھ جرمانے کی سزا سنائی ۔ پھر دہشت گردی کی دفعات ختم کردی گئیں ۔7/اکتوبر 2015ء کو جج آصف کھوسہ نے کسی کے دباؤ پر تمام دفعات بحال کردیں ۔
علامہ اقبال اورقائدِ اعظم علیہما الرّحمہ کی روح سے غداری
انگریز کے دورِ حکومت میں بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ غازی علم الدین شہید کی وکالت کر رہے تھے ، اورمفکرِپاکستان شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ جنازے کو کندھا دینے والوں میں سےتھے ، اور ان کو لحد میں اتارا ۔ اسی طرح غازی عبدالقیوم شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت پران کی شان میں نظم تحریرفرمائی ۔ لیکن بعد میں ان کے بنائے ہوئے ملک میں عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا ۔ اس وقت ایک رپورٹ کےمطابق تقریباً1400گستاخانِ رسول جیلوں میں ہیں ۔ کسی کواس قانون کے تحت سزا نہیں دی گئی ہے ، ملعونہ آسیہ مسیح ابھی زندہ ہے اور اسے بری کر دیا گیا ہے ۔ ایک امریکی جس نے دن دہاڑے چار افراد کو قتل کر دیا اس کو با عزت رہا کر دیا گیا ۔ ہروقت قانون قانون کی گردانیں پڑھنے والوں کی زبانیں یہاں پرکیوں خاموش ہو جاتی ہیں ؟۔ ممتاز قادری رحمۃ اللہ علیہ ایک جذبے اور فکر کا نام ہے ، فکر اور جذبہ کبھی طاقت سے ختم ہوا ہے اور نہ ہوگا ۔ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا : عوامی ردعمل کے خوف سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کرنے کا منصوبہ مکمل خفیہ رکھا گیا ۔ عوام اورغازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کو دھوکہ دیا گیا ، پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ نیند کی حالت میں آپ کو بیدار کر کے بتایا گیا کہ صبح آپ کو پھانسی دی جائے گی ، ادھر سے گھر والوں کو جھوٹ بول کر بلایا گیا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے گھر والوں سے ملاقات میں انہیں اطمینان کے ساتھ جھوم جھوم کر نعتیں سنائیں ، اور بتایا کہ بیداری کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ، غوث اعظم ، اور داتا علی ہجویری علیہما الرّحنمہ کی زیارتیں ہوئی ہیں ، اور ان حضرات نے میری قربانی کی قبولیت کی بشارت دی ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کرنے کےلئے چار بجے کا وقت مقرر کیا گیا ۔ اہلِ خانہ سے ملاقات کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے آبِ زم زم اورعجوہ کھجور سے روزہ رکھا ، نمازِ تہجد ادا کی اور وقتِ مقررہ سے پہلے ہی پھانسی گھاٹ کی طرف جانے لگے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے کہا گیا : ابھی کچھ وقت باقی ہے ۔ فرمانے لگے :" سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جلوہ افروز ہیں اور انتظار فرما رہے ہیں" (پروانہِ شمع رسالت صفحہ نمبر 14)
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دورکعت نفل ادا کیئے نعرۂ تکبیر اور نعرۂ رسالت لگاتے ہوئے ، فدائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں حاضر ہوگیا ۔ تاریخِ شہادت: بروزپیر20 جمادی الاولی1437ھ، مطابق29/فروری2016ء ۔
تاریخی جنازہ
حضرت غازیِ ملت ممتاز قادری شہید علیہ الرحمہ کاجنازہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا ۔ جس میں حکومتی رکاوٹوں ، میڈیا کی بےغیرتی کے با وجود ایک محتاط اندازے کے مطابق 60 لاکھ افراد شریک ہوئے ۔ غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو پھانسے دینے والے آج ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور گستاخوں کے حامی ذلیل خوار ہوتے رہیں گے ان شاء اللہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment