Monday, 21 January 2019

درسِ قرآن موضوع آیت : وَمَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْؕ ۔ (سورہ احقاف آیت نمبر 9)

درسِ قرآن موضوع آیت : وَمَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْؕ ۔ (سورہ احقاف آیت نمبر 9)

محترم قارئین ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْؕ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ وَ مَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔(سورہ احقاف آیت نمبر 9)
ترجمہ : تم فرماؤ میں کوئی انوکھا رسول نہیں اور میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا میں تو اسی کا تابع ہوں جو مجھے وحی ہوتی ہے اور میں نہیں مگر صاف ڈر سنانے والا ۔

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ : تم فرماؤ : میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں ۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پرنت نئے اعتراضات کرنا کفارِ مکہ کا معمول تھا ، چنانچہ کبھی وہ کہتے کہ کوئی بشرکیسے رسول ہوسکتاہے؟ رسول توکسی فرشتے کوہوناچاہیے ،کبھی کہتے کہ آپ توہماری طرح کھاتے پیتے ہیں ،ہماری طرح بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں ،آپ کیسے رسول ہوسکتے ہیں ؟کبھی کہتے: آپ کے پاس نہ مال ودولت ہے اورنہ ہی کوئی اثر ورسوخ ہے ۔ ان سب باتوں کاجواب اس آیتِ مبارکہ میں دیا گیا کہ اے پیارے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، آپ ان سے فرما دیں :میں کوئی انوکھارسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی رسول آچکے ہیں ، وہ بھی انسان ہی تھے اوروہ بھی کھاتے پیتے تھے اور یہ چیزیں جس طرح ان کی نبوت پر اعتراض کا باعث نہ تھیں اسی طرح میری نبوت پر بھی اعتراض کا باعث نہیں ہیں تو تم ایسے فضول شُبہات کی وجہ سے کیوں نبوت کا انکار کرتے ہو ؟

دوسری تفسیر یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کفارِ مکہ عجیب معجزات دکھانے اور عناد کی وجہ سے غیب کی خبریں دینے کا مطالبہ کیا کرتے تھے ۔ اس پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا کہ آپ کفارِ مکہ سے فرما دیں کہ میں انسانوں کی طرف پہلا رسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول تشریف لاچکے ہیں اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی وحدانیّت اور عبادت کی طرف بلاتے تھے اور میں اس کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف بلانے والا نہیں ہوں بلکہ میں بھی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لانے اور سچے دل کے ساتھ اس کی عبادت کرنے کی طرف بلاتا ہوں اور مجھے اَخلاقی اچھائیوں کو پورا کرنے کے لئے بھیجاگیا ہے اور میں بھی اس چیز پر (ذاتی) قدرت نہیں رکھتا جس پر مجھ سے پہلے رسول (ذاتی) قدرت نہیں رکھتے تھے، تو پھر میں تمہیں تمہارا مطلوبہ ہر معجزہ کس طرح دکھا سکتا ہوں اور تمہاری پوچھی گئی ہر غیب کی خبر کس طرح دے سکتا ہوں کیونکہ مجھ سے پہلے رسول وہی معجزات دکھایا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے تھے اور اپنی قوم کو وہی خبریں دیا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی تھیں اور جب میں نے پچھلے رسولوں سے کوئی انوکھا طریقہ اختیار نہیں کیا تو پھر تم میری نبوت کا انکار کیوں کرتے ہو ؟ ۔ ( تفسیرکبیر ، الاحقاف ، تحت الآیۃ : ۹، ۱۰/۹ ، خازن ، الاحقاف ، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۸/۴۶۷،چشتی)

وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ : اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ؟ آیت کے اس حصے کے بارے میں مفسرین نے جو کلام فرمایا ہے اس میں سے چار چیزیں یہاں درج کی جاتی ہیں :
یہ آیت منسوخ ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں دو صورتیں ہیں ، پہلی صورت یہ کہ اگر اس آیت کے یہ معنی ہوں ’’ قیامت میں جو میرے اور تمہارے ساتھ کیا جائے گا وہ مجھے معلوم نہیں ۔‘‘تو یہ آیت سورہِ فتح کی آیت نمبر 2 اور 5 سے منسوخ ہے ، جیسا کہ حضرت عکرمہ اور حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں : اسے سورہِ فتح کی اس آیت ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ(۱) لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ۔۔۔الایۃ ‘‘ نے منسوخ کر دیا ہے۔(تفسیر طبری، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۱۱/۲۷۶)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : آیت کریمہ ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ‘‘ کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیات ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ اور ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ۔۔۔الایۃ ‘‘ نازل فرمائیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بتا دیا کہ وہ آپ کے ساتھ اور ایمان والوں کے ساتھ (آخرت میں ) کیا معاملہ فرمائے گا ۔ ( در منثور، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۷/۴۳۵)
اس کی تفصیل اس حدیثِ پاک میں ہے حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حُدَیْبِیَہ سے واپسی کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی : لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ۔ (فتح:۲)
ترجمہ : تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارےاگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے ۔
تونبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے زمین پر موجود تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے ۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سامنے اسی آیت کی تلاوت فرمائی توانہوں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کو مبارک ہو ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے تو بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرے گا ، اب (یہ معلوم نہیں کہ) ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا ، تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی : ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَیُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ - وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ ۔ (سورہ فتح:۵)
ترجمہ : تاکہ وہ ایمان والے مَردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے اور تاکہ اللہ ان کی برائیاں ان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے ۔ ( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الفتح، ۵/۱۷۶، الحدیث: ۳۲۷۴)
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عُزّیٰ کی قسم ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارا اور محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کا یکساں حال ہے ، انہیں ہم پر کچھ بھی فضیلت نہیں ، اگر یہ قرآن ان کا اپنا بنایا ہوا نہ ہوتا تو ان کو بھیجنے والا انہیں ضرور خبر دیتا کہ وہ ان کے ساتھ کیا کرے گا ۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ ۔ (سورہ فتح:۲)
ترجمہ : تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضور کو مبارک ہو، آپ کو تو معلوم ہوگیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا ، اب یہ انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۔ (سورہ فتح:۵)
ترجمہ : تاکہ وہ ایمان والے مَردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔
اور یہ آیت نازل ہوئی : وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا‘‘ ۔ (احزاب:۴۷) ترجمہ : اور ایمان والوں کو خوشخبری دیدو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے ۔
تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اور مومنین کے ساتھ کیا کرے گا ۔ (تفسیر خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳)

دوسری صورت یہ ہے کہ آخرت کا حال تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا بھی معلوم ہے ، مومنین کا بھی اورجھٹلانے والوں کا بھی ، اور اس آیت کے معنی یہ ہیں ’’ دنیا میں کیا کیا جائے گا ، یہ معلوم نہیں ‘‘ اگر آیت کے یہ معنی لئے جائیں تو بھی یہ آیت منسوخ ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ بھی بتادیا ہے ، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ‘‘ ۔ ( توبہ:۳۳) ۔ ترجمہ : تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے ۔
اورارشاد فرمایا : وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ‘‘ ۔ (سورہ انفال:۳۳)
ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذابدے جب تک اے حبیب! تم ان میں تشریف فرما ہو ۔ (تفسیر خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳)(تفسیر خزائن العرفان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۲۴)
یہاں اس آیت کے منسوخ ہونے کے بارے میں جو تفصیل بیان کی اسے دوسرے انداز میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ فرمانا ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ‘‘ قرآنِ مجید کا نزول مکمل ہونے سے پہلے کی بات ہے ،ا س لئے یہاں فی الحال جاننے کی نفی ہے ۔ آئندہ اس کا علم حاصل نہ ہونے کی نفی نہیں ہے ۔ چنانچہ علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ آیت اسلام کے ابتدائی دور میں ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، مومنین اور کفارکا انجام بیان کئے جانے سے پہلے نازل ہوئی ، ورنہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت تک دنیا سے تشریف نہ لے گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآنِ مجید میں اِجمالی اور تفصیلی طور پر وہ سب کچھ بتا دیا جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مومنین اور کفار کے ساتھ کیا جائے گا ۔ ( صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۵/۱۹۳۳-۱۹۳۴،چشتی)

(2) یہاں ذاتی طور پر جاننے کی نفی کی گئی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نفی دائمی اور اَبدی ہے ، لیکن اس سے اللہ تعالیٰ کے بتانے سے ہر چیز کے جاننے کی نفی نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ علامہ نظام الدّین حسن بن محمد نیشا پوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : آیت کے اس حصے میں اپنی ذات سے جاننے کی نفی ہے وحی کے ذریعے جاننے کی نفی نہیں ہے ۔ ( غرائب القرآن ورغائب الفرقان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۶/۱۱۸)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو حضور کے ساتھ اور حضور کی امت کے ساتھ پیش آنے والے اُمور پر مُطَّلع فرما دیا خواہ وہ دنیا کے ہوں یا آخرت کے اور اگر دِرایَت بَمعنی اِدراک بِالقیاس یعنی عقل سے جاننے کے معنی میں لیا جائے تو مضمون اور بھی زیادہ صاف ہے اور آیت کا اس کے بعد والا جملہ اس کا مُؤیِّد ہے۔( خزائن العرفان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۲۴،چشتی)

یہاں تفصیلی دِرایَت کی نفی ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مومنین پر فضل و ثواب کی خِلعَتُوں کی نوازش کرتا رہے گا اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں پر ذلت و عذاب کے تازیانے اور کوڑے برساتا رہے گا اور یہ سب کے سب غیر مُتناہی ہیں یعنی ان کی کوئی انتہاء نہیں ، اور غیر مُتناہی کی تفصیلات کا اِحاطہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی کر سکتا ہے ۔
علامہ نیشا پوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں : تفصیلی دِرایَت حاصل نہیں ہے ۔ ( غرائب القرآن ورغائب الفرقان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۶/۱۱۸ ،چشتی)
اورعلامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : ممکن ہے کہ یہاں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ تفصیلی دِرایَت ہو ، یعنی مجھے اِجمالی طور پر تو معلوم ہے لیکن میں تمام تفصیلات کے ساتھ یہ نہیں جانتا کہ دنیا اور آخرت میں میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا کیونکہ مجھے (ذاتی طور پر )غیب کا علم حاصل نہیں ۔
آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں : اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مُبَلِّغ (یعنی بندوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دینے والا ) بنا کر بھیجا گیا ہے اور کسی کو ہدایت دے دینا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذمہ داری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غیبوں کا ذاتی علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے جبکہ انبیا ء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا غیبی خبریں دینا وحی ، اِلہام اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے واسطے سے ہے ۔ ( روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۸/۴۶۷-۴۶۸)

یہاں دِرایَت کی نفی ہے ، علم کی نہیں ۔دِرایَت کا معنی قیاس کے ذریعے جاننا ہے یعنی خبر کی بجائے آدمی اپنی عقل سے جانتا ہواور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اُخروی اَحوال کو اپنے عقلی قیاس سے نہیں جانا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جانا۔ یہ معنی اوپر دوسری تاویل میں خزائن العرفان کے حوالے سے ضمنی طور پربھی موجود ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ان کے ساتھ اور آپ کی امت کے ساتھ پیش آنے والے امُور پر مُطَّلع فرمادیا ہے خواہ وہ دنیا کے اُمور ہوں یا آخرت کے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیب کا ذاتی علم نہیں رکھتے اور جوکچھ جانتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے جانتے ہیں ۔

نوٹ : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’اِنْبَاءُ الْحَی اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُونُ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْئ‘‘ (قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے) میں اسی آیت کو ذکرکر کے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کی نفی پر بطورِ دلیل یہ آیت پیش کرنے والوں کا رد فرمایا اور اس آیت میں مذکور نفی ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ:میں نہیں جانتا‘‘ کے 10جوابات ارشاد فرمائے ہیں ،ان کی معلومات حاصل کرنے کے لئے مذکورہ بالا کتاب کا مطالعہ فرمائیں ۔

نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان مبارک سے یہ فرمان پیش کیا گیا ہے کہ ماادری مایفعل بی ولا بکم ، جس کا ترجمہ انہوں نے یہ کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے ، اس کے ساتھ ہی بعد میں دی جانے والی حدیث کو کو بھی شامل کردیا جائے تو بہتر ہوگا ۔

حدیث نمبر 1 میں ہے کہ ایک صحابیہ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد یہ الفاظ کہے کہ میں گواہی دیتی ہوں اس بات کی کہ ضرور تحقیق ﷲ نے تیرا اکرام کیا ہے ۔ (صحیح بخاری) اس کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا میں خدا کا نبی ہوں مگر درایت کی رو سے میں ایسا بیان جاری نہیں کرتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ، (مشکوٰة بحوالہ بخاری)
آیت وحدیث ملا کر پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل کے حوالے سے کوئی یقینی بات روایت کی رو سے کرنی چاہئے ، درایت (عقل وقیاس) کی رو سے نہیں ، لیکن بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ جیسے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا اور دوسروں کا انجام معاذ اﷲ معلوم نہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب مشرکین نے یہ آیت سنی تو ہمارے دور کے کم فہموں والا مفہوم مراد لے بیٹھے اور خوشی سے پھولے نہ سمائے ، پھر اﷲ تعالیٰ نے سورة فتح نازل فرمائی تو درایت سے پیدا ہونے والے ابہام کو توضیحی بیان سے دور فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سورة فتح کے نزول سے بہت زیادہ خوشی ہوئی ، جس میں سورة الاحقاف کی مذکورہ زیر بحث آیت میں بیان شدہ خبر کے ابہام کو توضیح سے بدل دیا ، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سورة الاحقاف کی مذکورہ آیت کو سورة فتح نے منسوخ کردیا ، جو اخبار میں نسخ کے قائل ہیں وہ یہی کہتے ہیں ، اور دوسرے یہ کہتے ہیں کہ خبر کے ابہام کو بعد میں آنے والی توضیح نے منسوخ کردیا ۔

ایک تو یہ لوگ ہیں جو سورة الاحقاف کے نزول تک بھی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے انجام سے بے خبر بتاتے ہیں اور دوسری طرف ہم محبت کے مارے ہیں جو کہتے ہیں کہ جس قلم نے ماکان و مایکون کا علم لکھا وہ نور محمدی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہی ہے ، اور آپ اُس وقت سے اپنے اور سب کے انجام سے واقف ہیں ، تفصیل یہ ہے کہ ترمذی شریف میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ کی حدیث ابواب القدر کے باب نمبر 17 میں موجود ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو تخلیق فرمایا ، اسے فرمایا لکھ ، اس نے عرض کیا کیا لکھوں ، حکم ہوا کہ اکتب القدر ما کان وماھو کائن الی الابد ۔ (ترمذی حدیث نمبر ٢١٥٥) ، یعنی لکھ تقدیر کو جو کچھ ہوا اور جوکچھ ابد تک ہونے ولا ہے ۔ (مشکوٰة، ص٢١،چشتی)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اوّل الخلق کاتب تقدیر ذی شعور قلم ہے کون سا ؟
اس کا جواب بخاری ، کتاب القدر، حدیث نمبر٦٦٠٩، بخاری کتاب الایمان والنذور، حدیث نمبر ٦٦٩٤، ابودائود، کتاب الایمان، حدیث نمبر٣٢٨٨ میں آچکا ، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ''لا یاتی ابن أدم النذر بشی لم أکن قدرتہ '' کہ ابن آدم کو نذر (منت) سے وہ چیز نہیں ملتی جو میں (نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے اُس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو ۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ تقدیر لکھنے والے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی ہیں اور قلم لا لفظ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے بطور استعارہ آیا ہے ، عجب نہیں کہ ن والقلم ۔ (سورة قلم، آیت ١) میں نور محمدی بشکلِ قلم مراد ہو ، ورنہ قلموں کی کیا مجال کہ وہ ماکان وما یکون جان سکیںلکھنا تو دُور کی بات ہے ، ۔ (سورة لقمان، آیت ٢٧) ، بعض عارفین نے کہا کہ اوّل الخلق نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ، اوّل الخلق کے طور پر حدیثوں میں آنے والے سب نام آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے استعارةً استعمال ہوئے ہیں ۔ (سر الاسرار، ص١٢، ١٤ ۔ مرصاد العباد، ص٣٠۔ تاریخ الخمیس،ج ١، ص١٩)

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

ماکان ومایکون کا علم تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اُس وقت بھی حاصل تھا ، البتہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا علم مبارک تکمیلِ نزولِ قرآن تک ہر لمحہ اﷲ تعالیٰ بڑھاتا رہا ، اور ہر لمحہ کا علم پچھلے لمحہ کی نسبت تفصیل بنتا چلا گیا اور ماضی والا علم اُس کی روشنی میں اجمالی نظر آیا ، تاہم باقی تمام مخلوقات کے تفصیلی علوم کے مجموعے سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا اجمالی علم جو لوح نے قلم سے محفوظ کیا وہ زائد ہے ، امیر مینائی نے کیا خوب کہا :

حضرت کا علم علمِ لدنی تھا اے امیر
دیتے تھے قدسیوں کو سبق بے پڑھے ہوئے

تعلیم جبرائیلِ امیں تھی برائے نام
حضرت وہیں سے آئے تھے لکھے پڑھے ہوئے

اس کلام کی روشنی میں قصیدہ بردہ کا وہ مصرعہ سمجھنا مشکل نہ رہا کہ'' ومن علومک علم اللوح والقلم '' ، لوح وقلم کا علم تو آپ کے علوم میں سے صرف ایک علم ہے، یہ محض عقیدت نہیں حدیثوں کو ملا کر دیکھنے سے ثابت ہے ، یہ قرآن کے عجائب وغرائب ہیں جنہیں قیامت تک ظاہر ہوتے رہنا ہے، حاصل یہ ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ علم درایة پر مبنی نہیں ، قیاس کے گھوڑے دوڑا کر حاصل نہیں کیا گیا ، یہ قطعی یقینی تعلیم الٰہی پر مبنی ہے ۔

حدیث : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ گو میں اللہ کا نبی ہوں مگر مجھے یہ'' معلوم نہیں '' کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے ۔ اس کی وضاحت اوپر پیش کی جا چکی ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ، کے حوالے سے میرا علم ظن و تخمین اور درایت و قیاس پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں میرا علم قطعی اور وحی الٰہی پر مبنی ہے ۔

حدیث : ربیع بنت معوذ کا بیان ہے کہ چند بچیاں کچھ شعر پڑھ رہی تھیں ان میں سے کسی نے کہا وفینا نبی یعلم مافی غدٍ ، (ہم میں ایک ایسا نبی ہے جو آنے والی کل کی بات جانتا ہے) ، تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ایسا مت کہو جو شعر پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھتی رہو ۔ (صحیح بخاری)
بچیوں نے شادی کی تقریب میں شہداء کا مرثیہ پڑھتے پڑھتے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھ کر اچانک موضوع بدلا اور نعتیہ کلام شروع کردیا ، جس میں کہا گیا تھا وفینا نبی یعلم مافی غدٍ ، ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی بات سے باخبر ہے ، یہ مصرعہ کسی صحابی کی کہی گئی نعت کا ہی ہوسکتا ہے جو بچیوں تک کو یاد تھی ، بچیوں نے منقبت صحابہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت شروع کی تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں منقبت صحابہ جاری رکھنے کا حکم دیا اور کسر نفسی اور تواضع سے کام لیا ، اگریہ جملہ شرکیہ ہوتا تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن بچیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور توبہ کی تلقین فرماتے ، آپ نے صرف اتنا فرمایا اسے رہنے دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں ، بلکہ اس مصرعہ سے ملتا جلتا مصرعہ حضرت مالک بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُس کو مصرعہ چھوڑنے کی بجائے انعام سے نوازا ، مصرعہ یہ ہے ومتیٰ تشاء یخبرک عما فی غدٍ اور جب تو چاہے تو وہ تجھے بھی اس بات سے باخبر کردیں کہ کل کیا ہونے والا ہے ۔ (الاصابہ ، ابن حجر عسقلانی، ج٥، ص٥٥١) ۔

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے منقول ہے کہ جو شخص تمہیں کہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ یہ پانچ غیب جانتے تھے تو وہ شخص بڑا جھوٹا ہے ۔ (بخاری شریف) ۔
سے دوسری جگہ یہ الفاظ یوں منقول ہیں کہ جو شخص کہتا ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کل کیا ہوگا سے باخبر ہیں ، اُس نے جھوٹ بولا انہ یعلم ماغدٍ ۔ (بخاری ، کتاب التفسیر سورة النجم، حدیث ٤٨٥٥،چشتی)
تیسری جگہ الفاظ یوں ہیں انہ یعلم الغیب یعنی جو کہتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غیب کا علم رکھتے ہیں تو وہ کذب کا مرتکب ہے ۔ اب روایتیں ملا کر دیکھیں تو پورا مفہوم یہ ہوا کہ جو شخص کہتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کل کی بات کا علم ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سورة لقمان کے آخر والے پانچوں غیب جانتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غیب کا علم حاصل ہے تو وہ کذب کا مرتکب ہوتا ہے ، اُم المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے دو باتیں اور بھی اپنے اس فتوے میں ارشاد فرمائی ہیں ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر سورة النجم،حدیث نمبر٣٢٧٨ ) سے پتہ چلتا ہے کہ اُم المومنین حضرت عبداﷲ ابن عباس اور بنو ہاشم (رضی اللہ عنہم) کی طرف اشارہ فرما رہی ہیں کہ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے رب کو دیکھا ، اُم المومنین اُن کا ردّ کرتے ہوئے فرمارہی ہیں کہ جو تجھے کہے کہ (1) حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے رب کو دیکھا ، (2) یا حضرت محمد نے اسرار مخفی رکھے ، (3) یا حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غیوب کا علم حاصل ہے تو وہ جھوٹ کا مرتکب ہے ، یہ واضح بات ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اِن فضائل کا قائل اُس دَور کا کوئی کافر ومشرک تو نہیں تھا ، وہ جو بھی تھا مسلمانوں میں سے تھا ، اور اُم المومنین اُس دور کے کسی مسلمان کے اِن نظریات کی عبارت اور تعبیر میں خطا کو کذب سے تعبیر کر رہی ہیں ، تو یہ اُم المومنین رضی اللہ عنہا کا اُن سے اجتہادی اختلاف ہے ، اُم المومنین نفی ادراکِ باری سے نفی رویتِ باری کا مفہوم نکال رہی ہیں ، تو اُن کا قیاس ہے ورنہ احادیث نبویہ میں رویت باری کا ثبوت ہر دو جہاں میں ملتا ہے ، اسی طرح تبلیغی احکام نہ چھُپانے کا مطلب یہ نہیں کہ اسرار بھی کسی سے نہ چھپائے ، اور علم غیب کے حوالے سے حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما حضرت خضر علیہ السّلام کی بابت بیان فرماتے ہیں کان رجلاً یعلم علم الغیب ، وہ مرد تھے جو علمِ غیب جانتے تھے ۔ (تفسیر ابن جریر۔ تفسیر ابن کثیر) ، بلکہ بخاری شریف میں تو حدیث مرفوع میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے تین اقوال پر بھی لفظِ کذب استعمال کیا گیا ہے ، ظاہر ہے کہ وہ بھی صورتاً کذب ہے نہ کہ حقیقتاً ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا مفہوم
صحیح بخاری شریف میں روایت ہے:عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها قالت من حدثک أن محمدا صلی الله عليه و سلم رأي ربه فقد کذب وهو يقول (لا تدرکه الابصار)
ترجمہ :مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کواحاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تواس نے جھوٹ کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا تدرکه الابصار۔
آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ (انعام103:) (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا،حدیث نمبر:7380 )
اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں ‘اس لئے احاطہ کے ساتھ دیدارِخداوندی محال ہے ۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیراحاطہ کے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ۔
جامع ترمذی‘مسند احمد‘مستدرک علی الصحیحین‘عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر‘‘سبل الہدی والرشاد میں حدیث پاک ہے :
عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس الله يقول لا تدرکه الابصار و هو يدرک الابصار قال و يحک اذا تجلي بنوره الذي هو نوره و قد راٰي محمد ربه مرتين ۔
ترجمہ:حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضرت سیدنا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیاہے۔ میں نے عرض کیا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک واحاطہ کرتا ہے؟تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:تم پر تعجب ہے! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک سیدنا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدارکیاہے۔ (جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442-سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج3،ص61-مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار،حدیث نمبر:7767)

عقیدہ علم غیب اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ایک بار اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا سر مبارک میری گود میں تھا اور رات روشن تھی، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں جتنی ہوں گی؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’ جی ہاں ! وہ عمر ہیں ، جن کی نیکیاں ان ستاروں جتنی ہیں ۔‘‘حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :’’میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! پھر میرے والد ماجد سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نیکیاں کس درجہ میں ہیں ؟‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی کے برابر ہیں ۔ (مشکوٰۃالمصابیح، کتاب المناقب، الفصل الثالث، الحدیث:۶۰۶۸، ج۳، ص۳۴۹،چشتی)

منکرین کیا کہتے ہیں اب اگر بقول تمہارے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں جس نے یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں وہ جھوٹا ھے تو خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ سوال کیوں کیا ؟

حدیث بخاری کا جواب : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ تینوں باتیں اپنی ظاہری معنٰی پر نہیں ہیں آپ کے یہ قول اپنی رائے سے ہیں ۔ اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتیں بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں رب تعالٰی کو دیکھنے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت پیش فرمائی ۔ اور اب تک جمہور اہل اسلام اس کو مانتے چلے آئے ہیں۔ دیکھو اس کی تحقیق مدارج اور نسیم الریاض وغیرہ میں ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن سوری النجم میں اسی طرح صدیقہ کا فرمانا کہ حضور علیہ السلام نے کوئی چیز نہ چھپائی۔ اس سے مراد احکام شرعیہ تبلیغیہ ہیں۔ ورنہ بہت سے اسرار الہیہ پر لوگوں کع مطلع نہ فرمایا ۔

مشکوٰۃ کتاب العلم دوم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضور علیہ السلام سے دو قسم کے علوم ملے ۔ ایک وہ جن کی تبلیغ کر دی۔ دوسرے وہ کہ تم کو بتاؤ تو تم میرا گلا گھونٹ دو ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسرار الہیہ نا محرم سے چھپائے گئے۔ اسی طرح صدیقہ کا یہ فرمانا کہ کل کی بات حضور علیہ السلام نہیں جانتے تھے۔ اس سے مراد ہے بالذات نہ جاننا اور صدہا احادیث اور قرآنی آیات کی مخالفت لازک آوے گی۔ حضور علیہ السلام نے قیامت کی، دجال کی، امام مہدی کی اور حوض کوثر کی شفاعت بلکہ امام حسین کی شہادت کی، جنگ بدر ہونے سے پیشتر کفار کے قتل کی، اور جگہ قتل کی خبر دی ۔ نیز اگر صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کے ظاہری معنٰے کئے جاویں تو مخالفین کے بھی خلاف ہے کہ وہ بہت سے غیوب کا علم مانتے ہیں اور اس میں بالکل نفی ہے۔ مجھے آج یقین ہے کہ کل پیچشنبہ ہوگا۔ سورج نکلے گا، رات آوے گی۔ یہ بھی تو کل کی بات کا علم ہوا۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے معراج جسمانی کا بھی انکار فرمایا ۔ مگر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ واقعہ معراج انکے نکاح میں آنے سے پیشتر کا ہے۔ جو اب تک ان کے علم میں نہ آیا تھا۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا مفہوم : صحیح بخاری شریف میں روایت ہے:عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها قالت من حدثک أن محمدا صلی الله عليه و سلم رأي ربه فقد کذب وهو يقول ( لا تدرکه الابصار )
ترجمہ :مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کواحاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تواس نے جھوٹ کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا تدرکه الابصار۔
آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ (انعام103:) (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا،حدیث نمبر:7380 )
اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں ‘اس لئے احاطہ کے ساتھ دیدارِخداوندی محال ہے ۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیراحاطہ کے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ۔
جامع ترمذی‘مسند احمد‘مستدرک علی الصحیحین‘عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر‘‘سبل الہدی والرشاد میں حدیث پاک ہے : عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس الله يقول لا تدرکه الابصار و هو يدرک الابصار قال و يحک اذا تجلي بنوره الذي هو نوره و قد راٰي محمد ربه مرتين ۔ ترجمہ:حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیاہے۔ میں نے عرض کیا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک واحاطہ کرتا ہے؟تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:تم پر تعجب ہے! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدارکیاہے ۔ (جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442-سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج3،ص61-مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار،حدیث نمبر:7767) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...