Thursday, 31 January 2019

فتنہ اٹھے ہے کس طرح اٹھ کے ذرا دکھا کہ یوں

فتنہ اٹھے ہے کس طرح اٹھ کے ذرا دکھا کہ یوں


محترم قارئین : مجھے حیرت ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پر جن لوگوں کو نماز طہارت کے بھی مسائل نہیں آتے وہ بھی اپنے آپ کو علامہ بلکہ مناظر سمجھ کر چیلنج کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے بڑے بھی علمائے اہلسنت و جماعت حضرات کے نام سن کر کاپتے اور ڈرتے تھے اور ڈرتے ہیں ، ایسا ہی ایک جاہل نے بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی پاگل خانے سے بھاگ کر آیا ہو ، اور اسی لئے اس نے بغیر سوچے پاگل پن کی وجہ سے اہلسنت و جماعت کو چیلنج کر دیا بےشک قرآن مجید ہدایت اور نور ہے ، قرآن مجید کی ہدایت اور نور اسے ہی حاصل ہو سکتا ہے جو محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نگاہ سے قرآن کی آیتوں کے معنی ، مطلب ، مقصد اور مراد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، آج ہر بدمذہب ہر شخص کو قرآن کی طرف بلا رہا ہے کہ آؤ میرا دین قرآن سے ثابت ہے اسی پرفتن زمانہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم نے دی تھی ، اور ایسے دجّالوں کا ذکر سرکار نے فرمایا تھا : یَدعُونَ الی کِتَابِ اللہ ، وہ گمراہ گروہ ہر ایک کو قرآن کی طرف بلائے گا ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب السنہ، باب فی قتال الخوارج، حدیث ٤٧٦،جلد٤،صفحہ ٣٢٠)

فتنہ اٹھے ہے کس طرح اٹھ کے ذرا دکھا کہ یوں
حشر بپا ہو کس طرح چل کے ذرا بتا کہ یوں

محترم قارئین : اگر کوئی شخص حقیقی اور مجازی یعنی ذاتی اور عطائی کا فرق سمجھے بغیر قرآن مجید کے ظاہری الفاظ ہی کے معنیٰ اخذ کر کے آیت کا مطلب اور مفہوم سمجھنے کی کوشش کرے گا تو وہ بڑی گڑبڑ کھڑی کر دے گا ، بلکہ ہدایت پانے کے بجائے گمراہ ہوجائے گا ، جیسا کہ دور حاضر کے وہابی ، دیوبندی ، تبلیغی ، اہلحدیث ، غیر مقلد وغیرہ باطل فرقے کے لوگ گمراہ ہوئے ہیں ۔

قرآن مجید کی آیت کا صحیح معنی ، مطلب، مقصد ، اور مراد سمجھنے کے لیئے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ یہ آیت کون سی قسم سے ہے ، کیوں کہ قرآن مجید کی آیت کی کئی قسم ہیں ، مثلاً : آیات محکمات ، آیات متشابہات ، آیات مبہمات ، آیات مقدمات ، آیات مؤخرات ، آیات عامات ، آیات خاصات ، آیات ناسخات ، آیات منسوخات ، آیات مجملات ، آیات مبینات ، آیات مطلقات ، آیات منطوفات ، آیات معطوفات ، وغیرہ وغیرہ ۔

قرآن مجید کی آیت طے کر لینے کے بعد اب یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ یعنی یہ آیت کیوں نازل ہوئی ؟ کب نازل ہوئی ؟ کس کے بارے میں نازل ہوئی ؟ اور یہ سب معلومات حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید کی تفسیر جاننا ضروری ہے ۔

اللہ تعالیٰ اور بندوں کی مشترکہ نسبتوں کے درمیان فرق نکالنے کے لئے اصولی بحث ذہن نشین فرمالیں تاکہ شرک کا وہم رفع ہو اور آیتوں کے مضامین کے درمیان جو بظاہر اختلاف نظر آرہا ہے وہ دور ہو ، کیونکہ دونوں طرح کے مضامین کی آیتیں برحق ہیں اور دونوں پر ہمارا (اہل سنت و جماعت) ایمان ہے ۔

جس طرح اللہ تعالیٰ ذات پاک کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفتوں میں بھی کوئی شریک نہیں ، اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی صفتیں ہیں وہ تمام صفتیں ذاتی ہیں، ذاتی کا مطلب اصلی، حقیقی، نجی، اپنی ہیں عطائی کا مطلب ہوتا ہے "عطا کیا ہوا" یعنی کسی کا دیا ہوا، ہبہ کیا ہوا، اللہ تعالٰی کی ہر صفت اور کمال ذاتی ہیں، عطائی نہیں ۔

اگر ہم ذاتی اور عطائی کا فرق نہیں کریں گے اور ہر معاملہ کو ذاتی اور حقیقی معنوں پر ہی محمول کریں گے اور توحید نیز شرک کی حقیقت سے ناواقفیت کی بنا پر ہر معاملہ کو صرف حقیقی اور ذاتی صفت کے مطلب ہی میں دیکھیں تو شاید ہی کوئی مومن شرک کے فتوٰی سے بچے گا ، کیونکہ ہم اپنی روزانہ کی گفتگو میں ایسے جملے اور الفاظ عام طور پر بولتے ہیں لیکن ہمارا ان جملوں اور لفظوں کا بولنا اور سننا عطائی اور مجازی معنوں میں ہی ہوتا ہے ، ذاتی اور حقیقی معنوں میں ہرگز نہیں بولتے اگر ہم ان الفاظ اور جملوں کو حقیقی اور ذاتی صفت کے طور پر لیا تو یہ نتیجہ آئے گا اور کہ ہر آدمی کے گلے میں شرک کے فتوے کا تمغہ لٹکانا پڑے گا ، چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

اللہ تعالٰی کی صفات

(1) بیشک اللہ ہی سمیع و بصیر ہے ، (سورہ بنی اسرائیل ١)
ہم نے انسان کو سمیع و بصیر بنایا ہے (سورہ الدہر ٢)

(2) اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے موت کے وقت(زمر ٤١)
تمہیں موت کا فرشتہ وفات دیتا ہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ۔ (سورہ سجدہ ١٠)

(3) بے شک اللہ تعالٰی انسانوں پر نہایت مہربان بے حد رحم والا ہے ۔ (سورہ البقرہ)
(رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ایمان والوں پر بہت مہربان نہایت رحم فرمانے والے ہیں ۔ (سورہ توبہ/١٢٨)

قرآن مجید میں ان آیت میں اللہ تعالیٰ کو سمیع و بصیر فرمایا گیا ہے اور بندوں کو بھی سمیع و بصیر کہا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کو موت دینے والا فرمایا گیا ہے اور فرشتوں کو بھی موت دینے والا فرمایا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کو انسانوں پر نہایت مہربان اور رحم والا فرمایا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو بھی نہایت مہربان اور رحم والا فرمایا گیا ہے ۔ کیا قرآن مجید کی آیت آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا سکتی ہے ؟ کیا قرآن مجید کی آیت دوسری آیت کا رد کر سکتی ہے؟ کیا قرآن مجید میں اختلاف پایا جا سکتا ہے ؟

نہیں ہرگز نہیں

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے : لو کان من عندِ غیرِ اللہ لو جدوا فِیہِ اختلافا کثیرًا ۔ (سورہ النساء)

اللہ کی تمام کی تمام صفات اس کی ذاتی صفات ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں ہیں اور اس کی صفات بے شمار ہیں جن کا ہم احاطہ نہیں کر سکتے۔جبکہ مخلوق کی تمام کی تمام صفات اللہ کی عطا کردہ ہیں لہذا ان کو عطائی صفات کہا جاتا ہے ۔ علم ، ارادہ ، کلام ، سننا، دیکھنا وغیرہ وغیرہ کئی صفات ایسی ہیں جو اللہ کے لیے بهی ثابت ہیں ، اور بندوں کے لیے بهی ثابت ہیں لیکن ان میں کئی اعتبار سے فرق ہے اور ایک بہت بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ : اللہ کی یہ صفات ذاتی صفات ہیں اور بندوں کی یہ صفات عطائی صفات ہیں ۔ اب جو کہتا ہے کہ میں اس فرق کو نہیں مانتا اس سے سوال یہ ہے کہ تم اس فرق کو مٹا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تمہیں جو مذکورہ بالا صفات میں سے کچھ حصہ ملا ہے تو کیا یہ اللہ کی عطا کردہ صفات نہیں ہیں ؟

یقیناً اللہ کی ہی عطا کردہ ہیں لہذا عطائی صفات تو ماننی پڑیں گی ورنہ تم اللہ کی عطا کے منکر ٹهرو گے اور جو اللہ کی عطا کا انکار کرے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔اب کچھ صفات ایسی ہیں جو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو خاص طور پر ملی ہیں مثلاً مردے کو زندہ کرنا، شفا دینا، غیب جاننا، ما فوق الاسباب مدد کرنا، اندهے کو بینا کر دینا وغیرہ وغیرہ۔ان کو معجزات میں شمار کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ عقل میں نہیں آ سکتی ، اسی طرح اولیاء کرام رحمهم اللہ تعالیٰ کو بہت سی کرامات سے نوازا گیا ہے۔یہ سب اللہ کی عطا سے ہے کوئی اللہ کی عطا کے بغیر ایک ذرہ بهی کسی کو نہیں دے سکتا۔اب جو ان صفات کو اللہ کی عطا کردہ صفات نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ ذاتی عطائی کوئی چیز نہیں تو جان لو وہ حقیقت میں اللہ کی عطا ہی کا منکر ہے اور وہ توحید و شرک کا فرق اٹھانا چاہتا ہے اور قرآن کی آیات کا انکار اور احادیث کا انکار کر کے اپنے فاسد نظریات پھیلانا چاہتا ہے ، شرک کی جڑ کاٹنے والا فرق یہی ذاتی عطائی اور حقیقی مجازی کا فرق ہے جو ہر مسلمان کو یاد رکھنا لازمی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات جو صفات عامہ کہلاتی ہیں مخلوق میں پائی جاتی ہیں، جب ان کا ذکر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو گا تو وہ حقیقی معنی میں استعمال ہوں گی اور شان خالقیت و الوہیت کے مطابق ہوں گی اور جب مخلوق کے لئے ہو گا تو ان کا استعمال مجازی اور عطائی معنی میں ہو گا کیونکہ مخلوق میں جو صفات پائی جاتی ہیں وہ اللہ کی صفات سے اصلاً مشابہ نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہیں۔ یہ صفات مخلوق کو اس لیے عطا کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ صفات کو جہاں تک ممکن ہو معلوم کرنے میں مدد مل سکے گویا یہ صفات الٰہیہ کی معرفت کا ذریعہ اور واسطہ بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں وہ اس طرح کی ہیں :

(1) صفاتِ حقیقی بمعنی صفات ذاتی

(2) صفات مجازی بمعنی صفات عطائی

(1) اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ۔ ترجمہ : بیشک وہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ (الإسراء، 17 : 1)
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ۔ ترجمہ : پھر ہم اس کو سننے والا اور دیکھنے والا (انسان) بنا دیتے ہیں ۔ (الدهر، 76 : 2)

إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ ترجمہ : بیشک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے ۔ (البقرة، 2 : 143)
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں ۔ (التوبة، 9 : 128،چشتی)

إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ۔ ترجمہ : بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے ۔ (الحج، 22 : 17)
وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا. ترجمہ : اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول تم پر گواہ ہو ۔ (البقرة، 2 : 143)

کَلَّمَ اﷲُ مُوْسٰی تکْلِيْمًا ۔ ترجمہ : اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی ۔ (النساء، 4 : 164) ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے کلام کیا ۔

أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا ۔ ترجمہ : کیا یہ ان (کافروں) کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ پس عزت تو ساری اللہ کے لئے ہے ۔ (النساء، 4 : 139)
وَِﷲِ الْعِزَّة وَ لِرَسُوْلِه وَ لِلْمُوْمِنِيْنَ ۔ ترجمہ : عزت اللہ کیلئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ہے ۔ (المنافقون، 63 : 8،چشتی)

أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً ۔ ترجمہ : ساری قوتوں کا مالک اللہ ہے ۔ (البقرة، 2 : 165)

سیدنا سلیمان علیہ السلام کے استفسار پر آپ کے درباریوں نے یہ جواب دیا : نَحْنُ أُوْلُوا قُوَّةٍ وَأُولُوا بَأْسٍ شَدِيدٍ ۔ ترجمہ : ہم طاقتور اور سخت جنگجو ہیں ۔ (النمل، 27 : 33)

بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۔ ترجمہ : ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے ۔ (آل عمران، 3 : 26)
أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۔ ترجمہ : خبردار ہر چیز کی تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے ۔ (الاعراف، 7 : 54)

وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۔ ترجمہ : جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہو گئی ۔ (البقرة، 2 : 269)

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے :

أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ۔ ترجمہ : میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں ۔ (آل عمران، 3 : 49)

اب ہے کوئی وہابی ، دیوبندی ، سلفی ، اہلحدیث ، تبلیغی ، غیر مقلد ، جو ان آیت میں بغیر ذاتی اور عطائی کا فرق کئیے ہوئے ان کا صحیح مطلب و مفاہیم بیان فرما دیں
اب تو یہاں وہابی کو ضرور عطائی اور ذاتی میں فرق کرنا ہوگا اور فرق ماننا ہوگا کیونکہ اگر ایسا نہ کریں گا تو وہابی قرآن مجید کا منکر ٹھہرے گا ۔

الحمداللہ ہم اہل سنت و جماعت قرآن مجید کی تمام قسم کی آیتوں کو حق مانتے ہیں اور ان پر ہمارا ایمان ہے ۔ تفصیل سے ذاتی اور عطائی کی بحث نہیں کر سکتا کیونکہ یہ موضوع بہت تویل ہے ۔ بس فقیر چشتی نے اس نیت سے کہ کوئی مسلمان ان وہابیوں کے مکرو فریب میں نہ آئے اس لئے چند باتیں پیش کی ہیں ۔

نفس مسلہ کو سمجھانے کےلیئے ہم نے چند آیات قرآنی نقل کی ہیں اس طرح کی دیگر بہت سی آیات موجود ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائے جو بلا سوچے سمجھے اہل اسلام پر شرک کے فتوے لگاتے ہیں اور امت مسلمہ میں فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...