مزارات اور گنبد پر خارجیوں کا رد
مشائخ کرام اور اولیائے عظام کے مزارات کے اردگرد یا اس کے قریب کوئی عمارت بنانا جائز ہے۔ اس کا ثبوت قرآن کریم اور صحابہ کرام و عامۃ المسلمین کے عمل اور علماء کے اقوال سے ہے۔ قرآن کریم نے اصحاب کہف کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہا۔ قال الذین غلبو علی امرھم لتخذن علیھم مسجدًا وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے کہ ہم تو ان اصحاب کہف پر مسجد بنائیں گے۔ (پارہ 15 سورہ کہف آیت 21) روح البیان مین اس آیت میں بنیاناً کی تفسیر میں فرمایا۔ دیوارے کہ از چشم مردم پوشیدہ سومذ یعنی لایعلم احد تربتھم وتکون محفوظتۃ من تطرق الناس کما حفظت تربت رسول اللہ بالحظیرۃ۔ (تفسیر روح البیان ج 5 ص 274 و 275 داراحیاء التراث العربی،چشتی) ۔ یعنی انہوں نے کہا کہ اصحاب کہف پر ایسی دیوار بناؤ جو ان کی قبر کو گھیرے اور ان کے مزارات لوگوں کے جانے سے محفوظ ہوجائیں۔ جیسے کہ حضور ﷺ کی قبر شریف چاردیواری سے گھیر دی گئی ہے۔ مگر یہ بات نامنظور ہوئی تب مسجد بنائی گئی۔ مسجداً کی تفسیر روح البیان میں ہے یصلی فیہ المسلمون و یتبرکون بمکانھم لوگ اس میں نماز پڑھیں اور ان سے برکت لیں۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کی باتوں کا ذکر فرمایا ایک تو اصحاب کہف کے گرد قبہ و مقبرہ بنانے کا مشورہ کرنا اور دوسرے ان کے قریب مسجد بنانا اور کسی باب کا انکار نہ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دونوں فعل جب بھی جائز تھے اور اب بھی جائیز ہیں جیسا کہ کتب اصول سے ثابت ہے کہ شرائع قبلنا یلزمنا ۔ حضور ﷺ کو حضرت صدیقہ کے حجرے میں دفن کیا گیا ۔ اگر یہ ناجائز تھا تو پہلے صحابہ کرام اس کو گرا دیتے پھر دفن کرتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کے گرد کچی اینٹوں کی گول دیوار کھچا دی۔ پھر ولید ابن عبدالملک کے زمانہ میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں اس عمارت کو نہایت مضبوط بنایا اور اس میں پتھر لگوائے۔ چنانچہ خلاصۃ الوفا باخبار دارالمصطفیٰ مصنفہ سید سمہودی دسویں فصل ۔ فیما یتعلق بلحجرہ المنیفتہ 196 میں ہے۔
عن عمر ابن دینار و عبیداللہ ابن ابی زید قالا لم یکن علی عھد النبی ﷺ حائط فکان اول من بنی علیہ جدارا عمر ابن الخطاب۔ قال عبیداللہ ابن ابی زید کان جدار قصیرا ثم بناہ عبداللہ ابن الزبیر الخ وقال الحسن بصری کنت ادخل بیوت رسول اللہ ﷺ وانا غلام مراھق اذا نال السقف بیدی وکان لکل بیت حجرۃ وکانت حجرہ من العکستہ من سعیر مربوطتہ فی حشب عرعرۃ۔
ترجمہ وہی جو اوپر بیان ہوچکا۔
خلاصۃ الوفا باخبار دار المصطفیٰ دسویں فصل فیما یتعلق بالحجرہ المنیفۃ ص 196
بخاری جلد اول کتاب الجنائز اور مشکوۃ باب البکا علی المیت میں ہے کہ حضرت حسن ابن حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا
حدیث: ضربت امراتہ القبۃ علی قبرہ سنۃ۔
تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک قبہ ڈالے رکھا
صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الجرید علی القبر ج 1 ص 442 ابن کثیر بیروت و فی نسخہ ج 1 ص 177 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ،چشتی ۔
یہ بھی صحابہ کرام کے دور میں ہوا ان سب کی موجودگی میں ہوا ۔ کسی نے انکار نہ کیا۔ نیز ان کی بیوی ایک سال تک وہاں رہیں۔ پھر گھر واپس آئیں۔ جیسا کہ اسی حدیث میں ہے ۔ اس سے بزرگوں کی قبروں پر مجاوروں کا بیٹھنا بھی ثابت ہوتا ہے۔
روح البیان جلد 3 پارہ از زیر آیت (پارہ 10 سورہ 9 آیت 18) انما یعمر مسجد اللہ من امن باللہ میں ہے ۔
فبناء قباب علی قبور العلماء والاولیاء والصلحاء امر جائز اذان کان القصد بذلک التعظیم فی این العآمۃ حتی لا یحتقروا صاحب ھذا القبر۔
یعنی؛ علماء اور اولیاء صالحین کی قبروں پر عمارت بنانا جائز کام ہے جبکہ اس سے مقصود ہو لوگوں کی نگاہوں میں عظمت پیدا کرنا تاکہ لوگ اس قبر والے کو حقیر نہ جانیں ۔ (تفسیر روح البیان ج 3 ص 510 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی،چشتی)
یعنی پارہ 15 سورہ کہف آیت نمبر 21 کی تصدیق میں صحیح حدیث بھی پیش کردی اور سلف کا قول اور عمل بھی اور صحابہ کے دور یعنی خیر القرون سے ثبوت بھی۔
خوارج اکثر عوام کو ایک حدیث کے ذریعے مغالطے میں مبتلا کرتے ہیں کہ دیکھو نبی کریم علیہ السلام نے فلاں صحابی کو قبروں کو ہموار کرنے کا حکم دیا تھا۔ یعنی توڑنے کا۔ تو اس میں دہ اہم باتیں ہیں وہ یہ کہ وہ کفار اور مشرکین کی ان قبور کا حکم تھا جو اس زمانے میں مدینہ کی اولین اسلامی ریاست کے حدود میں تھیں اور دوسرا یہ کہ یہ جو تصاویر میں جیسے بت بنائے گئے ہیں اس طرح کی قبور کے بارے میں حکم ہے نا کہ مسلمانوں کے قبرستان کی یا اولیائے کرام کی قبور پر گنبدوں کا ذکر ۔
تاریخ مدینۃ الدمشق ابن عساکر، ، تاریخ ابن خلدون اور تمام تر کتب اسلامی میں باقاعدہ احادیث کے مطابق اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہی مزارات جو شعارِ اسلام ہیں بنائے گئے۔
No comments:
Post a Comment